پانچ اگست کی صبح مقبوضہ کشمیر میں ۷۲ سال سے غاصب بھارت کا جبر سہتے کشمیری سو کر اٹھے تو دنیا بدل چکی تھی۔ موبائل فون دم توڑ چکے تھے۔ ٹیلی فون کی زمینی لائنیں کاٹ دی گئی تھیں۔ انٹرنیٹ کے رابطے منقطع ہوچکے تھے۔ اچانک اسپتال پہنچنے والے نہ اپنی علالت کی اطلاع دے سکتے تھے نہ کسی نومولود کی آمد کی خوشی میں کسی کو شریک کرسکتے تھے۔
سڑکوں پر بھارتی فوج کے بوٹوں کی دھمک فضا میں مزید خوف و ہراس پھیلارہی تھی۔
جنوبی ایشیا میں ایک اور سیاہ دن اندھیرے اْگل رہا تھا۔
۱۹۴۷ء میں بھی ۱۵؍اگست ایسی ہی ظلمتیں لے کر وارد ہوا تھا۔ ۷۲سال سے کشمیر کے مظلوم اور مجبور مسلمان شہری مسلسل جدو جہد میں محو ہیں۔ جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔
۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو مہاراجہ ہری سنگھ نے تقسیم ہند کے تمام اصولوں اور قواعد کی مخالفت کرتے ہوئے بھارت سے الحاق کا اعلان کردیا۔ جسے کشمیر کی مسلمان اکثریت نے کبھی بھی قبول نہیں کیا۔ ۱۹۵۳ء میں بھی اگست کی ایک رات اس طرح سب کچھ بدل گیا تھا۔ شیخ عبداللہ اور ان کے بہت سے ساتھی نظر بند کردیئے گئے تھے۔ حالانکہ شیخ عبداللہ تو دو قومی نظریے کی مخالفت کرتے تھے۔ مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے الحاق کی بھی حمایت کررہے تھے۔
تاریخ عالم کے اوراق گواہ ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی جدو جہد آزادی اس وقت تک سب سے طویل جنگ حریت ہے۔ نسل در نسل یہ تگ و دو جاری ہے۔ سرکٹ رہے ہیں۔ جانیں نثار ہورہی ہیں۔ بھارت کے تسلط کو ان سات دہائیوں میں کسی نسل نے بھی قبول نہیں کیا۔
۱۹۸۹ء سے کشمیر میں آزادی کی جدوجہد نے دوبارہ شدت اختیار کی۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی سے بھارت نے ۷لاکھ فوج کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے کشمیر کی وادی میں متعین کی، جس میں اضافہ ہوتا رہا۔ بار بار کرفیو نافذ ہوتا ہے۔ کبھی گورنر راج۔ کبھی صدر راج۔ لیکن یہ شعلہ بجھنے نہیں پاتا۔ یہ جذبہ سرد نہیں ہوتا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اکھنڈ بھارت کی پرچارک ہے۔ وہ بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست پر اپنے غاصبانہ قبضے کو آئینی تحفظ دینے کا دعویٰ کرتی رہی ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے حالیہ الیکشن سے قبل ہی یہ ارادہ ظاہر کیا تھا۔ امریکی میڈیا کا یہ خیال ہے کہ مودی نے اس سال اپنے یوم آزادی یعنی ۱۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو یہ اعلان کرنا تھا۔ لیکن پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے جب وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کے معاملے میں ثالثی کی پیشکش کی اور یہ کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نے بھی ان سے کشمیر کے مسئلے پر کچھ کرنے کے لیے درخواست کی تھی۔ اس اعلان سے وزیر اعظم مودی کو جو سیاسی دھچکا لگا اس کا جواب دینے کے لیے دس روز پہلے یہ کارروائی کردی گئی۔بھارت کے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کے تمام اعلانات کو روندتے اور اپنے سابق وزرائے اعظم کے وعدوں کو سپرد خاک کرتے ہوئے، جمہوریت کی بساط حقارت سے الٹتے ہوئے اپنے ہی آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔ بھارت کی غاصب حکومت کو کشمیری عوام کی طرف سے انتہائی سخت مزاحمت کا اندازہ تھا۔ اس لیے کئی دن پہلے سے مزید کئی ہزار مسلح فوجی کشمیر پہنچادیے گئے۔ جدو جہد آزادی کی قیادت کرتی سبھی ممتاز شخصیتیں پابند سلاسل کردی گئیں۔راتوں رات ۴۰۰۰ سے زیادہ سرگرم مسلمان سیاسی کارکنوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے کشمیر سے باہر جیلوں میں منتقل کردیا گیا۔ کیونکہ کشمیر کی جیلیں پہلے ہی آزادی کے متوالوں سے بھری ہوئی تھیں۔ اکیسویں صدی رابطوں کی صدی ہے۔ جدید ترین آلات اور وسائل دنیا کو آپس میں مربوط کیے ہوئے ہیں۔ بھارت کے انتہا پسند وزیراعظم اور ان کے شدت پرست ساتھیوں نے انٹرنیٹ، موبائل فون، زمینی فون ساری سہولتیں چھین لی ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے مذموم عزائم کو حقیقت میں ڈھال رہی ہے۔ جمہوریت کے دعوے خاک میں مل رہے ہیں۔ سیکولرزم کے نظریے کو جھیل ڈل میں غرقاب کردیا گیا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کا یہ تاثر ہے کہ نریندرمودی ٹولے نے اس وقت کو اپنی اس جسارت کے لیے موزوں اس لیے سمجھا کہ پاکستان اپنے داخلی تنازعات میں الجھا ہوا ہے۔ اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔ حکومت مضبوط اپوزیشن کے سامنے بے بس ہے۔ پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کے پراپیگنڈے نے دنیا کو پہلے ہی بہکایا ہوا ہے۔ چند دن شور مچے گا۔ پھر پاکستان بھی بھول جائے گا اور عالمی رائے عامہ بھی۔ کشمیری عوام تو ہمیشہ سے احتجاج کرتے ہی رہتے ہیں، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی رہتی ہے، مسلمان عورتوں کی بے حرمتی بھی ہوتی رہتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں صرف رپورٹیں جاری کرتی ہیں۔ بھارتی استعمار نے پہلے بھی ان رپورٹوں کی پروا نہیں کی، اب کون سی نئی بات ہوگی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے یہیں تاریخی غلطی کا ارتکاب کیا۔ تاریخ کا منطقی تقاضا تو یہ تھا کہ ۷۲برس سے مسلسل جدوجہد آزادی میں مصروف کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جاتا۔ وہ بھارت یا پاکستان جس سے بھی الحاق کرنا چاہتے اس کے حق میں اپنی رائے دیتے۔ تاریخ کے پہیے کو کبھی پیچھے نہیں دھکیلا جاسکتا۔ ماضی میں ہٹلر، مسولینی اور دیگر طالع آزماؤں نے جہاں جہاں بھی ایسی کوششیں کیں وہ وقتی طور پر کامیاب دکھائی دیں۔ لیکن بعد میں ان مہم جوؤں کا جو حشر ہوا وہ آسمان کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ کس طرح تاج اچھلے، تخت گرائے گئے۔ کئی دہائیوں سے ۷لاکھ فوجی کشمیریوں کی مزاحمت پر قابو نہیں پاسکے۔ اب جب ۳۷۰ آرٹیکل کی منسوخی کے بعد کشمیریوں کے لیے ’اب یا کبھی نہیں‘ کا مرحلہ آگیا ہے تو اضافی فوجی دستے بھی اس بہتے لاوے کو نہیں روک سکے۔ ۱۲؍روز سے مسلسل کرفیو رسل و رسائل کاانقطاع، رہنماؤں کی گرفتاریاں، آزادی کے لیے روشن مشعلوں کو نہیں بجھا سکیں۔ حریت پرستوں کی آوازیں پوری دنیا تک پہنچ رہی ہیں بلکہ تحریک آزادی کشمیر کے بعض سرگرم رہنما تونریندر مودی کا شکریہ ادا کررہے ہیں کہ ان کے اس غلط فیصلے نے مسئلہ کشمیر کو عالمی ایوانوں میں زندہ کردیا ہے۔
پانچ دہائیوں بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیر کی صورت حال پر غور و خوض کے لیے اجلاس طلب کیا۔ بھارت کا یہ دعویٰ اقوام متحدہ نے مسترد کردیا کہ کشمیر میں شورش اس کا اندرونی معاملہ ہے۔
پاکستان کی حکومت نے معاملے کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے بہت تیزی سے اقدامات کیے۔ کابینہ کی میٹنگیں، پھر دفاعی سلامتی کمیٹی کا اجلاس اور انتہائی جرأت مندانہ فیصلے، بھارتی ہائی کمشنر کو بے دخل کردیا گیا۔ دو طرفہ تجارت ختم کردی گئی۔ اپنے سفیر کو دہلی جانے سے روک دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، سلامتی کونسل کی صدر کو وزیر خارجہ نے خط لکھے۔ سلامتی کونسل کے رکن ممالک کے سفیروں کو اپنے مؤقف سے آگاہ کیا۔ چین کی قیادت سے رابطے کیے گئے۔ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا۔ جس میں اپوزیشن لیڈر سمیت تمام پارلیمانی لیڈروں کو کھل کر اظہار کا موقع دیا گیا۔ بعض اپوزیشن رہنماؤں کی طرف سے اس دوران داخلی مسائل پر چیخ پکار کو قوم کے کسی حلقے میں بھی پسند نہیں کیا گیا۔
پاکستان کی فوجی قیادت نے فوری طور پر جی ایچ کیو میں ۶؍اگست کو کور کمانڈر کانفرنس کا انعقادکیا۔ صورت حال پر تفصیلی غور و خوض کے بعد اعلان کیا گیا۔ فوج کشمیریوں کی جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑی ہے اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔ واضح طور پر یہ کہا کہ پاکستان نے پہلے بھی آرٹیکل ۳۷۰؍ اور ۳۵ اے کے ذریعے کشمیر پر بھارتی قبضے کی کوشش کو قانونی قرار دینے کی کبھی حمایت نہیں کی۔ یہ کوششیں اب بھارت نے خود منسوخ کردی ہیں۔ فوج نے حکومت پاکستان کے تمام فیصلوں کی مکمل حمایت کی۔
امریکا کے مؤقر جریدے ٹائم میگزین نے بجا طورپر اپنی رپورٹ پر سرخی جمائی
India Takes Kashmir
But Loses Kashmiris
بھارت کشمیر کو حاصل کرتا ہے
مگر کشمیریوں سے محروم ہوجاتا ہے۔
اس ٹائم میگزین نے حالیہ بھارتی انتخابات سے پہلے نریندر مودی کو منقسمِ اعلیٰ (Divider in Chief) کے لقب سے یاد کیا تھا۔ ۵؍اگست کو نریندر مودی نے اپنے اس لقب کو سچا ثابت بھی کردیا۔
مودی اور ان کا ٹولہ بھارت میں واحد مسلم اکثریتی ریاست سے اس لیے خائف ہے کہ یہاں آرٹیکل ۳۷۰ کے ہوتے ہوئے وہ مسلم اکثریت کو ہندو اکثریت میں نہیں بدل سکتا تھا۔ یہاں قیادت ہمیشہ مسلم قائدین کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ آرٹیکل ۳۷۰ کے ہوتے ہوئے بھارت کے دوسرے حصّوں سے ہندو یہاں آکر آباد نہیں ہوسکتے تھے۔ زمینیں جائیدادیں نہیں خرید سکتے تھے۔ اب اس آرٹیکل کی منسوخی کے بعد یہ پابندی ختم ہوگئی ہے۔ اب ہندوستان میں کہیں سے بھی انتہا پسند ہندو۔ آر ایس ایس کے شدت پسند کشمیر میں آسکتے ہیں۔جائیدادیں ہتھیا سکتے ہیں۔ اپنے کاروبار کرسکتے ہیں۔ بچے پیدا کرکے ہندو آبادی بڑھا سکتے ہیں۔
تاریخ مودی کے ان ہتھکنڈوں پر قہقہے لگارہی ہے۔ یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے، کشمیر کا مسلم تشخص صدیوں پرانا ہے۔ پروفیسر غلام محمد شاد کی ایک مستند تصنیف ’میر سید علی ہمدانی اور کشمیر‘ میرے سامنے ہے۔ اس کے ناشر اشرف بک سینٹر ریڈ کراس روڈ سری نگر ہیں۔ سال طباعت ۲۰۰۷ء۔
وہ لکھتے ہیں:
’’وادیٔ کشمیر اس لحاظ سے بہت ہی خوش قسمت ہے کہ مسلم حکومت کے ساتھ ساتھ یہاں کی ثقافت اور تہذیب و تمدن کی بنیاد بھی ساداتِ کرام کے مبارک ہاتھوں سے رکھی گئی۔ در اصل علما و صوفیائے کرام ہی کشمیر میں مسلم سلطنت اور حکومت کے اصلی معمار تھے۔ ان کی درویشی میں شہنشاہی اور ان کی قلندری میں شان سکندری تھی۔ ان کی خانقاہیں در اصل درس گاہیں تھیں۔ ان کی تبلیغی، روحانی اور علمی مساعی حکومت کے لیے دل کا کام انجام دیتی تھیں۔ عالم و فاضل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مختلف ہنروں اور پیشوں میں مہارت رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے انہی کے ذریعہ علوم کے ساتھ ساتھ فنون بھی پھیل گئے، مدارس، مساجد، خانقاہیں اور دیگر عمارات تعمیر ہوئیں۔ قصبوں، شہروں اور دیہات کو نئی زندگی اور رونق مل گئی اور اس مقدس قافلے کا جوفرد جہاں پر قیام پذیر ہوگیا وہاں علمی، روحانی اور تہذیب مرکز کی بنیاد پڑ گئی۔ عرب، ایران، ترکی اور وسط ایشیا کے اسلامی علوم و فنون اور روحانیت کے خزانے کشمیر میں علما و مشائخ و صوفیائے کرام کی بدولت ہی خاص و عام کے لیے کھل گئے۔ جس سے وادی کا کونا کونا منور اور روشن ہوگیا۔
چودہویں صدی عیسوی کے وسط میں کشمیریوں کے لیے اسلام بالکل انجانے اور اجنبی مذہب نہیں تھا۔ ۱۳۳۹ء سے تین سو سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے وادی کشمیر میں اسلام اور مسلمانوں کی تہذیبی، تمدنی، مذہبی اور ثقافتی زندگی کی موجودگی کا سراغ ملتا ہے۔ سطان صدر الدین رینچن شاہ کے مختصر عہد حکومت میں، اعیانِ سلطنت کے ساتھ، فوج کے اکثر اعلیٰ افسر اورراجپوت لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کی تقلید میں تقریباً دس ہزار عام لوگ بھی حضرت سید بْلبْل شاہ کی تبلیغی مساعی سے دائرۂ اسلام میں آگئے۔ صدر الدین نے حضرت بلبل شاہ کے لیے ایک خانقاہ، اس سے ملحق ایک لنگر خانہ اور ایک مسجد تعمیر کی۔ ان دونوں بزرگوں کی وفات کے بعد کشمیر میں اسلام کی پیشرفت اگرچہ کچھ وقت کے لیے رْک جاتی ہے لیکن شاہ میر کے سلطان شمس الدین کے لقب سے تخت نشین ہوتے ہی یہ پھر شروع ہوجاتی ہے‘‘۔
اسلام اہل کشمیر کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے۔ جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا رہا۔ کشمیریوں کی اسلام سے وابستگی عشق کا درجہ اختیار کرتی رہی۔
اس کتاب کے صفحہ ۸پر یہ سطور اس دَور کی پیشرفت کا مزید صراحت سے ذکر کرتی ہیں۔
’’شاہ میر حکومت کے مستحکم ہوتے ہی دربارِ نبویؐ کے ایک روحانی اشارے کے تحت حضرت میر سید علی ہمدانی نے اپنے دو سفیر میر سید حسین سمنانی اور میر سید تاج الدین کو ۷۷۲ ہجری ( لگ بھگ ۱۳۷۱ء) میں حالات کے مشاہدے کے لیے کشمیر بھیجا۔ اپنی اسی سفارت کے عرصے میں حضرت میر سید حسین سمنانی نے شیخ نور الدین کے والد ماجد سلر سنز ( اسلامی نام شیخ سالار دین) کی روحانی تربیت فرمائی۔یہ اسی روحانی تربیت کا نتیجہ تھا کہ بعد میں شیخ نور الدین ریشی، حضرت میر محمد ہمدانی کے حلقۂ ارادت میں آکر ان کے دستِ حق پرست پر بیعت کرکے، ان سے فیض و تربیت پاکر، ترک رہبانیت کرکے اسلام کے زبردست داعی، خطیب، نقیب، متحرک، معلم اور پْر جوش مبلغ بن گئے۔ میر سید حسین سمنانی اور میر سید تاج الدین نے حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی کو کشمیر کے مفصل حالات سے آگاہ کیا۔ اس کے بعد ہی حضرت امیر کبیر پہلی بار بہ عہد سلطان شہاب الدین ۷۷۴ھ (۱۳۷۳ء) میں کشمیر تشریف فرما ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی کشمیر کے صدیوں سے سست رفتار جہلم میں مدو جزر کے ساتھ ایک نہ رْکنے والا طوفان پیدا ہوا جو پرانے فرسودہ عقائد، بوسیدہ روایات اورغیر عوامی زبان کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا‘‘۔
کشمیر میں مسلم ثقافت کا آغاز اور پھیلاؤ کیسے ہوا؟ اس کے لیے یہ سطور بہت معاونت کرسکتی ہیں۔
’’اسلام ایک متحرک تبلیغی مذہب ہے، یہ دنیا کے جس خطّے میں پہنچا، وہاں اس نے مقامی زبان، فلسفہ، خیالات، علوم و فنون اور شعر و ادب کو اپنے سانچے میں ڈھالا اور پھر ان سے حسب منشاء اور خاطر خواہ کام لیے۔ اسی کے نتیجے میں عربی، فارسی، ترکی اور اُردو کو مسلم ثقافت کی خاص زبانیں اور ان میں تحریر شدہ ادبی سرمائے کو اسلام اور مسلمانوں کا مخصوص ادب کہا جانے لگا۔ ان زبانوں کے مقابلے میں کشمیری زبان تو محدود علاقے کی زبان ہے، لیکن حال اس کا بھی یہی ہوا۔ سادات کرام نہ صرف کشمیر کے مستقل باشندے بن گئے بلکہ انہوں نے خود مقامی زبان سیکھی، اس کی سرپرستی کی اور اس زبان میں کتابیں بھی تصنیف کیں۔ غیر مسلموں کی کتابوں کے فارسی زبان میں ترجمے کیے۔ اس طرح انہوں نے اپنی زبان اور ادب کو کشمیر میں رواج دیا۔ کشمیر کے سلاطین خود بھی علم و ادب سے شغف رکھتے تھے۔ اکثر ساداتِ کرام عالم و فاضل تھے اور مختلف علوم و فنون اور ہنروں میں ماہر تھے۔ یہ علوم و فنون، کسب و ہْنر اور زبانیں انہوں نے کشمیر میں رائج کیں‘‘۔
۱۳۳۹سے شروع ہونے والی اسلام سے یہ شیفتگی اور علاقہ دلوں اور ذہنوں کو تسخیر کرتا رہتا ہے پھر یہاں انگریز اپنی علمداری بڑھانے میں مسلم حکمرانوں کو راستے کی دیوار سمجھتے ہوئے یہاں سکھ اور ہندو حکمرانوں کو مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے وقت یہاں مہا راجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی۔ غیر جانبدار مؤرخین کا کہنا ہے کہ کشمیر کا پاکستان سے الحاق جغرافیائی اقتصادی اور تاریخی تناظر میں زیادہ فطری ہوتا کیونکہ ان دنوں جموں کشمیر کے جغرافیائی، مواصلاتی اور معاشی روابط زیادہ تر مغربی پنجاب کے ساتھ تھے۔ مغربی پنجاب اور شمالی مغربی سرحدی صوبہ پاکستان کا حصّہ بننے والے تھے۔ جموں کشمیر کا واحد ریلوے رابطہ نارتھ ویسٹرن ریلوے کے ذریعے سیالکوٹ سے تھا جہاں سے کشمیر کا سرمائی صدر مقام جموں صرف ۲۵میل کے فاصلے پر تھا۔ گرما ئی صدر مقام سری نگر کو جانے والی تین شاہراہوں میں سے دو کشمیر میں اس علاقے سے داخل ہوتی تھیں جسے پاکستان میں شامل ہونا تھا۔ سب سے پہلی شاہراہ جہلم ویلی روڈ تھا۔ جو ہر موسم میں کھلی رہتی تھی۔ ۱۹۶میل میں سے ۱۳۲میل دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ چلتی تھی۔
اقتصادی طور پر بھی کشمیر زیادہ تر ان علاقوں سے منسلک تھا جنہیں پاکستان میں شامل ہونا تھا۔ لکڑی کے علاوہ ۹۸فیصد اشیا کی برآمد وادیٔ کشمیر سے جہلم ویلی روڈ کے ذریعے ہی راولپنڈی تک کی جاتی تھی۔ ان دنوں راولپنڈی، کشمیر سے اشیا لانے اور کشمیر میں اشیا لے جانے کے لیے مرکز یا ویئر ہاؤس کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہیں سے اشیا دوسرے ملکوں میں لے جانے کے لیے کشمیر کے لیے کراچی قریب ترین بندرگاہ پڑتی تھی۔ کلکتہ اور بمبئی وادیٔ کشمیر کے لیے بہت دور تھے اور اخراجات بھی بہت ہوجاتے تھے۔ کشمیر اگر سیاحوں کے لیے پُرکشش مقام تھا تو ۱۹۴۰ء میں اعدادو شمار کے مطابق یورپ اور ہندوستان کے ہزاروں مسافر وادیٔ کشمیر میں انہی علاقوں سے داخل ہوتے تھے جو پاکستان کا حصّہ بننے والے تھے۔
ان حقائق کی روشنی میں اس وقت عام خیال یہی تھا کہ کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہوگا۔ مسلم اکثریت کی ریاست کے ہندو حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے لیے بھی یہ ایک پریشان کن مسئلہ تھا۔ کشمیر میں مسلم اکثریت تھی۔ اس وقت کی تقسیم کے برطانوی قواعد کے مطابق کشمیر کو پاکستان سے ہی الحاق کرنا چاہئے تھا۔ لیکن ہندو مہاراجہ کو مسلم مملکت سے الحاق کے بعد اپنی حکمرانی کے ختم ہونے کا خطرہ تھا۔ پھر شیخ عبداللہ اور ان کے حامی بھی پاکستان سے الحاق نہیں چاہتے تھے۔فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب ۱۷؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان بھارت سرحدوں کا اعلان ہوا تھا۔ ریڈ کلف ایوارڈ نے اچانک گورداسپور کو انڈیا میں شامل کرکے بھارت سے کشمیر جانے کا راستہ دے دیا۔ اس طرح کشمیر کا پاکستان کے علاقوں پر کلّی انحصار ختم کردیا گیا۔۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو بالآخر وہ سیاہ دن آگیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کا اعلان کردیا۔
یہ معلومات میں کرسٹوفر سنیڈن کی کتاب The untold story of the people of Azad Kashmir سے اخذ کر رہا ہوں۔
کشمیر کے عوام کے کرب و اندوہ کا نقطۂ آغاز ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۷ء ہے۔ ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک بہادر، با شعور کشمیریوں نے بھارت کا تسلط قبول نہیں کیا ہے۔ اگر تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو بیسویں اور اکیسویں صدی میں دنیا کے کسی بھی خطّے میں یہ طویل ترین جنگ آزادی ہے۔ پاکستان کی مختلف حکومتوں نے کشمیر کے عوام کی اس جدو جہد میں سفارتی، سیاسی مدد کی ہے۔ لیکن یہ کشمیریوں کی خالص اپنی جدو جہد ہے۔یہ جدو جہد اپنا ایک منطقی جواز رکھتی ہے کہ جغرافیائی، اقتصادی، عمرانی اور دینی کسی حوالے سے بھی کشمیر بھارت کا حصّہ بن ہی نہیں سکتا تھا۔ تاریخ بھی یہ کہہ رہی ہے، جغرافیہ بھی، اور اقتصادیات کے اصول بھی۔ بھارت کی نہرو حکومت سے لے کر مودی سرکار تک سب نے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں، فوج کی نفری میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے، مگرکشمیر میں آزادی کی لڑائی کو کبھی بھی ختم نہیں کیا جاسکا۔
بھارت نے تمام بین الاقوامی اصولوں اور تقسیم ہند کے وقت برطانیہ کے طے کردہ فارمولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلم اکثریت کے علاقے جموں کشمیر میں اپنی فوجیں اتاردیں۔ پاکستان نے اس وقت بھی پُرامن مملکت ہونے کا ثبوت دیا۔ اقوام متحدہ سے احتجاج کیا۔ دنیا کی توجہ اس طرف دلوائی۔ ان دنوں میں کشمیر کے عوام اور قبائلی مسلمانوں کی مزاحمت کی بدولت اکتوبر دسمبر ۱۹۴۷ء کے درمیان کشمیر کا ایک تہائی علاقہ آزاد کروالیا گیا جہاں آج آزاد جموں و کشمیر حکومت کی عملداری ہے۔ حکومت پاکستان کی امن دوست کوششوں کو بھارت نے اس کی کمزوری سمجھا۔ اور دوسری طرف پوری دنیا میں یہ پراپیگنڈہ کیا کہ پاکستان نے اپنی فوج اور قبائلی بھیج کر بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا بہت حوالہ دیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت بھارت دباؤ میں آگیا تھا۔ اور وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے ہی اقوام متحدہ سے رجوع کیا۔ پاکستان کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ کشمیر کے عوام کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ رائے دیں کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔
بھارت کو بھی بالآخر اس رائے سے اتفاق کرنا پڑا۔ اقوام متحدہ کی قرار داد ۲۱؍اپریل ۱۹۴۸ء کو دنیا کے سامنے آئی کہ علاقے سے ساری غیر ملکی افواج نکال لی جائیں اور سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کی طرف سے نامزد ایڈمنسٹریٹر کی زیر نگرانی استصواب رائے کا انعقاد ہو۔
اس کے بعد جوکچھ ہوا، وہ بھارت کی طرف سے بے وفائی، عہد شکنی، بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی، بے شرمی، ڈھٹائی کی لامتناہی داستان ہے۔ آل انڈیا کانگریس ہو یا جن سنگھ یا بھارتیہ جنتا پارٹی سب نے ہی کشمیری عوام کی آزادیاں سلب کیں۔ انہیں ہمیشہ اپنے جبر و استبداد کا نشانہ بنایا۔ کشمیر کو خصوصی حیثیت دے کر اسے جمہوریت کے ثمرات، کشمیریوں کو اپنے حقوق سے محروم رکھا۔ کشمیر بیسویں اور اکیسویں صدی میں کرب و بلا کے مسلسل مناظر پیش کررہا ہے۔ جیلیں بھری جاتی ہیں۔ کشمیری نوجوان تختہ دار کو چومتے ہیں۔ شہیدوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں بیوائیں۔ لاکھوں معذور ہیں۔ Half Widows یعنی نیم بیوائیں ہیں۔ جن کے خاوندوں کے بارے میں کچھ پتا نہیں۔ زندہ ہیں یا شہید ہوگئے۔ لیکن یہ سہاگنیں اپنا سہاگ کھو بیٹھی ہیں۔ کتنے بچے ہیں جو یتیمی میں ہی جوان ہورہے ہیں اپنے مستقبل کے بارے میں انہیں کوئی یقین نہیں ہے۔ بھارت مختلف ادوار میں بین الاقوامی دباؤ میں آکر پاکستان سے مذاکرات کرتا رہا ہے۔ لیکن کشمیر کو ہمیشہ اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا رہا۔تاریخ کے اوراق گواہی دیتے ہیں کہ لیاقت نہرو، مذاکرات، معاہدے، پھر ایوب نہرو مذاکرات، بھٹو سورن سنگھ مذاکرات۔ لیکن ان مذاکرات کے پردے میں بھارت پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہا ہے۔
۱۹۶۵ء میں ہندوستان کشمیر میں جدو جہد آزادی کا رُخ موڑنے کے لیے پاکستان کی بین الاقوامی سرحد پر جارحیت کرتا ہے۔ اس کے بعد مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے بیج بوتا ہے اور ۱۹۷۱ء میں بعض عالمی قوتوں کے فوجی سفارتی تعاون سے مشرقی پاکستان پر فوجی تاراج کرتے ہوئے بنگلادیش قائم کردیتا ہے۔ اندرا گاندھی دعویٰ کرتی ہیں کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا۔ لیکن بنگلہ دیش کے قیام سے بر صغیر میں ایک اور مسلم مملکت کا اضافہ ہوا۔ بھارت بنگلہ دیش کے قیام کو ابتدا میں اپنی فتح خیال کرتا تھا۔ لیکن بعد میں بنگلہ دیش کے ساتھ بھی اس کے سرحدی تنازعات دریائی پانی پر اختلافات ابھر آئے۔ بنگلہ دیش کو اپنی کالونی سمجھنے کا خبط دور ہوگیا۔ کسی بھی ہمسایہ ملک کے ساتھ بھارت کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔
شملہ معاہدہ میں بھی بھارت نے کشمیر کو متنازع تسلیم کیا۔ مگر خود ساختہ طور پر فرض کرلیا کہ دونوں ممالک اپنے مسائل دو طرفہ تعلقات کی بنیاد پر حل کریں گے۔ اس معاہدے کا بھارت نے ہمیشہ غلط استعمال کیا۔ جب بھی کسی عالمی طاقت نے مسئلہ کشمیرپر ثالثی یا تعاون کی بات کی تو بھارت شملہ معاہدے کا حوالہ دیتا رہا۔
شملہ معاہدے کے بعد بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے دَور چلتے رہے۔ مگر کشمیر میں بھارت اپنے تسلط اور جبر میں اضافہ کرتا رہا۔
۱۹۷۱ء کے بعد ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی قوت میں کمی آئی ہے۔ انہوں نے اپنے مسائل کے سلسلے میں پاکستان کی طرف دیکھنا کم کردیا۔ اس کمزوری سے بھی بھارت نے فائدہ اٹھایا۔ وہاںمسلمانوں کو سیاسی ہی نہیں سماجی اور معاشی طور پر بھی مسلسل محرومیوں کا شکار کیا گیا۔ بڑی بڑی نامور شخصیتیں اس عتاب کا نشانہ بنتی رہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دَور میں آگرہ مذاکرات بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث بے نتیجہ رہے۔ لیکن بعد میں وزیر اعظم من موہن سنگھ سے کامیاب مذاکرات ہوئے۔ سر کریک پر کچھ طے ہوا لیکن وادیٔ کشمیر پر بات چیت نتیجہ خیز نہیں رہی تھی۔
وزیراعظم من موہن سنگھ نے ۲۰۰۹ء میں ایک امریکی وفد سے اس سلسلے میں انکشاف کیا کہ ہم اور صدر مشرف کشمیر کے دیرینہ متنازع علاقے پر ایک معاہدے پر دستخط کرنے والے تھے کہ مشرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف اقدام کے بعد وکلا تحریک میں الجھ گئے۔ اور معاملات پر ان کا کنٹرول نہیں رہا۔ مجھے ۲۰۰۷ء میں معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے پاکستان جانا تھا۔
میں نے صدر مشرف سے پوچھا تھا کہ من موہن سنگھ یہ کہتے ہیں کہ وہ پاکستان اس لیے نہیں جاسکے کہ صدر مشرف کمزور پڑ گئے تھے۔ مشرف صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ نہیں وہ غلط کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے وعدہ خلافی کی۔ انہیں پاکستان آکر اپنے وعدے کے مطابق معاہدے پر دستخط کرنا چاہئیں تھے۔ وہ اپنے مخالفین سے ڈر گئے۔
میں نے کہا کہ وہ معاہدہ کیا اب بھی بھارت پاکستان کی حکومتیں کرسکتی ہیں۔ مشرف صاحب نے کہا کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد اب ایسے کسی معاہدے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
نریندر مودی کے بارے میں ان کا اندازہ بالکل درست ثابت ہوا۔ اب ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے جارحانہ اقدامات کے بعد تو پاکستان بھارت کے درمیان کسی امن مذاکرات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ عمران حکومت نے بالکل صحیح سمت میں قدم اٹھائے ہیں۔ بھارت سے سفارتی تعلقات کی سطح کم کی۔ تجارت بند کی۔ جس کا مقصد عالمی رائے عامہ کو یہ بتانا ہے کہ بھارت اس خطّے میں جنگ کے حالات پیدا کررہا ہے۔ پاکستان ایسی سخت کارروائیوں پر مجبور ہے۔
بھارت اب تک پاکستان پر انتہا پسندوں کی سرپرستی کا الزام عائد کرکے دنیا کوپاکستان کی حمایت سے انکار کرنے پر مجبور کرتا رہا ہے۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ۱۹۷۹ء کی بعض پالیسیوں کی وجہ سے ہمیں اب تک مشکلات کا سامنا ہے۔ بقول وزیر اعظم عمران خان ہم دوسروں کی جنگیں لڑتے رہے۔ اپنے آپ کو کمزور کرتے رہے۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے بھی میونخ میں ہونے والی عالمی کانفرنس میں کہا کہ ہم ۴۰ برس پہلے کی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہے ہیں۔
آرمی پبلک سکول پشاور کے عظیم سانحے کے بعد پاکستان نے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا جس پر اس وقت کی حکومت اور اپوزیشن متفق ہوئیں۔ اس کے زیادہ حصّے پر پاک فوج نے عملدرآمد کروایا۔ نیشنل ایکشن پلان اختیار کرنے سے ملک سے انتہا پسندوں کی منظّم کارروائیوں میں بہت کمی ہوئی۔ اور پاکستانی قوم نے من حیث القوم انتہا پسندی کے رْجحانات کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ اس میں ابھی بہت سی منازل باقی ہیں۔ لیکن اس پلان کے ذریعے ہم ایک طرف دنیا کو یہ پیغام دینے میں سر خرو ہوئے کہ پاکستان کی سٹیٹ،قوم اور حکومت انتہاپسندی اور دہشت گردی کی سرپرستی نہیں کررہی ہے بلکہ اس کی شکار ہے۔ اس کے اعلیٰ فوجی افسر، فوجی سپاہی اور سویلین اس کا شکار ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ کارروائیاں پاکستان کی قوم اور فوج نے انجام دی ہیں۔ اس نیشنل ایکشن پلان کی بدولت ہم بھارت کے پروپیگنڈے کو بھی بلا جواز ثابت کرسکے ہیں۔
عالمی رائے عامہ بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی کی وارداتیں دیکھتی ہے۔ کشمیر میں بالخصوص جبر و استبداد اور ظلم و تشدد کے بھیانک مناظر کا بھی مشاہدہ کرتی ہے۔ لیکن اس کے تجارتی اور مالی مقاصد آڑے آجاتے ہیں۔ ایک طرف سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے پھر ایک ارب سے زیادہ صارفین کی مارکیٹ امریکا اور یورپ کی اقوام کے لیے بڑی کشش رکھتی ہے۔ لیکن کشمیری عوام کی مسلسل قربانیوں نے عالمی رائے عامہ کو بھارت کے پروپیگنڈے کا پوری طرح قائل نہیں ہونے دیا۔ اس میں یقینا پاکستان کی وزارت خارجہ اور ہمارے سفارت خانوں کی کوششوں کا اتنا دخل نہیں ہے جتنا کشمیر کے نوجوانوں کی سرفروشی اور جانبازی کا کمال ہے۔
عالم اسلام میں انتشار ہے۔ امریکا اور اس کے مغربی دوستوں نے مسلم ممالک کو تقسیم در تقسیم کر رکھا ہے۔ عراق، مصر، لیبیا، الجزائر جو مسلمانوں کی انقلابی جدو جہد میں پیش پیش ہوتے تھے، وہاں داخلی طورپر اتنے مسائل پیدا کردیئے گئے ہیں کہ وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ہر بھارتی حکومت کی کوشش رہی ہے کہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو کم کیا جائے۔ جموں میں ہندوؤں کی آبادی بڑھائی گئی۔
جہاں جہاں مسلم نوجوان تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں ان علاقوں میں بھارتی حکومتیں ترقیاتی منصوبے شروع نہیں کرتی رہی ہیں یہاں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع منسوخ کرتی رہی ہیں۔
اب نریندر مودی، ان کے وزیر داخلہ امیت شا۔ اور ایک انتہا پسند لابی پورے ملک میں ’ہندو توا‘ کے تحت بھارتی ہندوؤں کو مالی طور پر سماجی اعتبار سے مستحکم کررہے ہیں۔ ’ہندو توا‘ کے پھیلاؤ میں سب سے بڑی رکاوٹ کشمیر کے عوام ہیں اس لیے انہوں نے آرٹیکل ۳۷۰؍ اور ۳۵ اے ختم کرکے کشمیریوں کے رہے سہے حقوق بھی سلب کرلیے ہیں۔
صرف ۲۰۱۹ء میں ۱۶۰ کشمیری شہید کیے گئے۔ ہزاروں پابند سلاسل، اکثر علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولتیں نہیں دی جاتیں۔ موبائل فون منقطع کر دیے جاتے ہیں۔ ۵؍اگست کو تو پورے کشمیر میں یہ جبر کیا گیا۔ دو ہفتے بعد عالمی رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کہا گیا کہ مواصلاتی پابندیاں ہٹائی جارہی ہیں۔ اسکول کھل رہے ہیں۔ مگر یہ صرف جموں کے علاقے میں ہورہا ہے۔ جہاں مزاحمت اس شدت کی نہیں ہوتی۔
عالمی ادارے، امریکی اوربرطانوی تھنک ٹینک کشمیریوں کی رائے جاننے کے لیے سروے کرتے رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر کشمیریوں نے آزاد اور خودمختار کشمیر کے حق میں رائے دی ہے۔ بھارت سے الحاق کے حق میں بہت کم آراء آئی ہیں۔ عالمی اداروں کو بھی یہ یقین ہے کہ اگر استصواب رائے کا موقع دیں تو کشمیری بھارت سے کبھی بھی الحاق نہیں کرنا چاہیں گے۔ ۱۹۷۴ء میں مجھے شیخ عبداللہ نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ بھارت کی پالیسیوں کی وجہ سے کشمیری سخت نالاں ہیں۔ اس لیے بھارت جھجکتا ہے استصواب رائے کروانے سے۔
بھارت کے ایک سنجیدہ لیڈر جے پرکاش نارائن نے یکم مئی ۱۹۵۶ء میں ایک خط کے ذریعے بھارت کو خبردار کیا تھا:
’’۹۵ فیصد کشمیری مسلم بھارتی شہری نہیں رہنا چاہتے۔ انہیں طاقت اور جبر سے اس بات پر رضا مند کرنا مناسب نہیں ہے۔وقتی طورپر یہ پالیسی ممکن ہے موزوں محسوس ہو لیکن اس کے دیر پا سیاسی نتائج برآمد ہوں گے‘‘۔
جے پرکاش نارائن کی یہ رائے درست تھی بھارت ۷۲ سال سے کشمیریوں کے غم و غصّے کا سامنا کررہا ہے۔ ۸لاکھ سے زیادہ فوج استعمال کرکے اربوں روپے خرچ کرکے کشمیری مسلمانوں کو آپس میں لڑواکر کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
اب نریندر مودی نے کشمیر پالیسی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے، کشمیری جدو جہد مزید تیز ہوگئی ہے۔ پاکستان کے عوام بھی بیدار ہوگئے ہیں۔ مسلم ممالک میں بھی بعض شخصیتیں اور ادارے آواز بلند کررہے ہیں۔
پاکستان نے کچھ قدم تو اٹھائے ہیں۔ لیکن ضرورت یہ ہے کہ آئندہ دس پندرہ برس کا پورا روڈ میپ بنایا جائے۔ آزاد جموں کشمیر کو آزادی کی جدو جہد کا بیس کیمپ بنایا جائے جیسے پہاڑی چوٹیوں کوتسخیر کرنے والے۔ نیچے بیس کیمپ بناکر چوٹیاں سر کرتے ہیں۔ اس طرح آزاد جموں کشمیر کو اپنے کشمیری بھائیوں کو بھارتی استبداد سے نکالنے کے لیے مہم چلانی ہوگی۔
دنیا بھر میں کشمیری پہلے سے ہی اس جنگ آزادی میں حصّہ لے رہے ہیں۔ ان کی جدو جہد اور کوششوں کو ایک سمت دی جائے۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں کشمیری جدو جہد آزادی پر تحقیق کروائی جائے یہ مقالات انگریزی اور دوسری عالمی زبانوں میں ترجمہ کرکے دنیا بھر میں تقسیم کیے جائیں۔
عالمی طاقتوں میں چین نے بھارت کو سخت جوابات دیے ہیں۔ بھارت کے حالیہ اقدامات کو چین کی سلامتی کے خلاف اقدامات قرار دیا ہے۔ سیکیورٹی کونسل کی نشست بھی چین کے اس مؤقف کے باعث ہی منعقد ہوسکی ہے۔ بھارت چین کے بیلٹ اینڈ روڈ کے کامیاب پروگرام سے بھی خوفزدہ ہے۔ اس کی پیشرفت روکنے کے لیے وہ خطّے میں بے چینی پیدا کرنے کی سازشیں کررہا ہے۔ افغانستان میں کچھ عناصر بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج نے ہمیشہ کشمیری عوام کی جدو جہد آزادی کی حمایت کی ہے۔ ۱۹۴۸، ۱۹۶۵، ۱۹۷۱ء اور ۱۹۹۹ء کی کارگل کی جنگ میں کشمیر کے عوام کی حمایت کرتے ہوئے جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر بھی اپنے شہریوں کی سلامتی کی حفاظت کرتے ہوئے پاک فوج کے افسر اور سپاہی گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل اپنے خون سے سرحدوں کو سیراب کررہے ہیں۔ پاکستانی فوج کی قیادت کشمیر کے مستقبل کے بارے میں واضح موقف رکھتی ہے۔ بھارت کی حکومت اور فوج کو بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ اگر کشمیر کے فلیش پوائنٹ پر جنگ چھڑی تو پاک فوج آخری حد تک جاسکتی ہے۔
دفاعی اعتبار سے اطمینان اور اعتماد کو ذہن میں رکھتے ہوئے۔ پاکستانی سیاسی قیادت کو سفارت کاری اور معیشت کے محاذ پر بھرپور توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ ہمیں ماننا چاہئے کہ ہم ان محاذوں پر غفلت کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ اس سے بھارت فائدہ اٹھاتا رہا ہے۔ اور اب بھی ہماری سیاسی محاذ آرائی کو دیکھتے ہوئے بھارت نے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰؍اور ۳۵ اے کو ختم کرنے کی جرأت کی ہے۔ ہمیں اپنے اتحاد اور حساس حکمت عملی سے بھارت کے اس احساس کو عملاً شکست فاش دینا ہوگی۔ اس کا راستہ بیجنگ، واشنگٹن، لندن، پیرس اور ماسکو میں بہترین سفارت کاری سے بھی گزرے گااور ہمارے آئینی اداروں سے بھی۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’الہلال‘‘)
Leave a Reply