
ہندوستان زمانہ قدیم سے دیوداسیوں‘ غلاموں اور شودروں کی صورت و حیثیت میں انسانیت کی ذلت و پستی کا مرکز چلا آرہا تھا۔ بت پرستی اور دیوی دیوتائوں کی اعتقاداً و مذہباً بالادستی میں مشرکینِ عرب سے بھی ممتاز تھا۔ دوسری طرف عرب تاجروں کی وجہ سے یمن‘ بحرین اور عرب کے دیگر ساحلی علاقوں میں ہند نژاد لوگ بغرضِ ملازمت و تجارت‘ بود و باش اختیار کر چکے تھے۔ رسولِ عربیﷺ نے جب عرب و دیگر علاقوں کے حکمرانوں کو دعوت وتبلیغ کے سلسلہ میں مکتوبات ارسال فرمائے تو قنوج کے راجہ سربا تک کے پاس حضرت حذیفہؓ، حضرت اسامہؓ اور حضرت صہیبؓ کو اور سندھ میں بھی صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے ایک وفد کو روانہ فرمایا۔ گو محققین نے ان روایات کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے زمانہ خلافت کے دورِ اول میں بحرین اور عمان کے گورنر حضرت عثمانؓ بن ابی العاص ثقفی نے اپنے بھائی حکم بن ابی العاص کی کمان میں گجرات اور تھانہ کے ساحلی علاقوں میں فوج کشی کروائی اور دوسرے بھائی کی سرکردگی میں ٹھٹھ سندھ میں فوج بھیجی۔ ان سب علاقوں سے افواجِ اسلامیہ فتح و کامرانی کے بعد واپس ہوئیں۔ ہندوستان کی طرف فوج کشی کے سلسلہ میں حضرت ابو ہریرہؓ صحابی رسولؐ کی ایک حدیث مسند احمد و سنن نسائی میں درج ہے جس کے مطابق صحابہ کرامؓ سے حضور اکرمﷺ نے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا تھا۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اگر میں اس میں شریک ہو سکا تو اپنی جان و مال قربان کر دوں گا۔ خلیفہ دوم کی فوج کشی کے بعد خلیفہ سوئم و چہارم کے زمانہ اور بعد ازاں حضرت معاویہؓ کے زمانہ خلافت میں وقتاً فوقتاً ہندوستان پر حملے ہوتے رہے لیکن ان کے ذریعہ سرزمینِ ہند پر کوئی مستقل اقتدار قائم نہیں کیا گیا تاآنکہ خلافت بنی امیہ کے دور میں عراق کے گورنر حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو ایک فوج کے ساتھ سندھ پر حملہ کے لیے روانہ کیا جس کے بعد سے ہندوستان کے دروازے مسلمانوں کے واسطے ہمیشہ کے لیے کھل گئے۔
اس طویل تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حضورِ اکرمﷺ اور صحابہ کرامؓ کی نظر میں ہندوستان جنت نشان کی اہمیت کا اندازہ قارئین کو ہو سکے۔ اسی طرح یہاں مسلمانوں کی حکومت کے قیام و استحکام اور اس کے عروج و زوال نیز مسلمانانِ ہندوستان کی سیاسی بلندی و پستی اور آزادی و محکومی کا براہِ راست اور بالواسطہ اثر عرب دنیا پر کیا مرتب ہوتا رہا ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہاں کے حالات و واقعات اور جنگِ آزادی کی تاریخ کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ قرونِ وسطی کی تاریخ ہند میں سولہویں صدی اپنے اندر دو واقعات پنہاں کیے ہوئے ہے جو اس وقت تو قطعی غیراہم اور معمولی تھے لیکن آئندہ زمانہ میں ان کی وجہ سے تاریخ کے دھارے بدل گئے۔ ایک واقعہ تو مغل شہنشاہ ابوالمظفر نورالدین جہانگیر کا انگریز تاجروں کو آزاد تجارت کا پروانہ مرحمت کیا جانا اور دوسرا واقعہ اسی زمانہ میں جنوبی ہندوستان میں شیواجی کا پیدا ہونا تھا۔ ان دونوں واقعات کے وہ دوررس نتائج رونما ہوئے جنہوں نے ہندوستانی سیاست و حکومت کو تہہ و بالا کر دیا۔ ان انگریز تاجروں نے یہاں کی مرکزی حکومت کی زوال پذیری کو دیکھ کر حکمرانی کی جدوجہد کے تانے بانے بننے شروع کر دیے۔ ان کی تجارتی کوٹھیاں قلعوں اور تاجر اسلحہ بند سپاہیوں میں تبدیل ہونے لگے۔ مرکز سے آزاد ہو کر متعدد صوبوں کے حکمراں آپس کی جنگوں میں انگریزوں سے مدد مانگنے لگے۔ رفتہ رفتہ انگریزوں کی فوجی طاقت ہندوستانی نوابوں اور راجائوں یہاں تک کہ مرکز کی مغل حکومت کے لیے ایک خطرہ بنتی چلی گئی۔ نادر شاہ درانی اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے مغل حکومت کی جڑیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی بڑھتی ہوئی طاقت کو لگام دینے کی اس میں سکت باقی نہ رہ گئی تھی۔
مسلح جدوجہد
انگریزوں کی ریشہ دوانی اور دست درازی کو روکنے کے لیے اولاً بنگال کے نواب سراج الدولہ اور بعد ازاں شیر میسور سلطان ٹیپو نے کوشش کی لیکن میر جعفر‘ میر صادق‘ میر قاسم‘ میر غلام علی اور دیوان پورنیا جیسے غداروں کی سازشوں اور انگریزوں کی عیاریوں‘ جاسوسی اور ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کی وجہ سے نواب سراج الدولہ اور سلطان ٹیپو اپنا سر دے کر بھی انگریزوں کو ہندوستان سے باہر نہ نکال سکے۔ انگریزوں کو ملک بدر کرنے کی اس مسلح جدوجہد سے قبل ہی علماء حقانی نے مسلمانانِ ہندوستان کو غیرملکی غلبہ و تسلط سے آزاد کرانے کے لیے علمی و فکری اصلاحی کوششوں کا آغاز کر دیا تھا۔ اس سلسلہ میں حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی سرفہرست دکھائی دیتے ہیں۔ مرہٹہ طاقت کی زور آوری‘ جاٹوں کی سینہ زوری‘ سکھوں کی پیش قدمی اور مغل حکومت کی کسمپرسی کے نتیجہ میں مسلمانوں کی زبوں حالی نے شاہ صاحب کو ان سے نجات حاصل کرنے پر مجبور کر دیا اور آپ نے ایک فکری و عملی تحریک کا آغاز کیا جس کو ’’تحریک شاہ ولی اللٰہی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس تحریک کے ذریعہ اسلام کو دنیا کے موجودہ اقتصادی اور سیاسی و سماجی حالات میں ایک عالم گیر طاقت بنانا اور اسلام کے اجتماعی‘ اقتصادی اور سماجی نظام کو ملک میں عام کیا جانا تھا۔ اس نظام کو بروئے کار لانے کے لیے شاہ صاحب نے انیس بنیادی اصول وضع فرمائے‘ جن میں ایک طرف اصلاحِ قوم اور دوسری طرف جہاد نمایاں اہمیت رکھتے تھے۔ ان کی تبلیغ کے لیے آپ نے تربیتی مراکز قائم کیے جہاں متبعین کو علمی‘ ذہنی اور عملی ٹریننگ دی جاتی تھی۔ لیکن قوم نے اس سب کے بدلہ میں اس ہستی کو قاتلانہ حملہ اور سب وشتم کا تحفہ پیش کیا۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے۔ اس مرد مومن کی عمر نے وفا نہ کی اور ۱۷۶۲ء میں انہوں نے انتقال فرمایا۔ شاہ صاحب کے بعد ان کے تربیت یافتہ ساتھی و شاگرد مولانا محمد امین کشمیریؒ، مولانا محمد عاشق پھلتیؒ،شاہ ابو سعید رائے بریلویؒ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ، مولانا مخدوم لکھنوی اور مولانا نور اﷲ میرٹھیؒ جیسی اہم شخصیات نے آپ کے مشن کو آگے بڑھایا۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ ہی کی طرح ان کے فرزند جانشین شاہ عبدالعزیزؒ پر بھی قاتلانہ حملے کیے گئے۔ حکومت کی طرف سے ان کا گھر بار ضبط کیا گیا‘ حوالات میں بند کر کے بدن پر چھپکلی کا ابٹن ملا گیا اور زہر خورانی کرائی گئی‘ اس سب کے نتیجہ میں آپ کی بینائی بھی جاتی رہی‘ خون میں حدت بڑھ گئی‘ برص کا مرض پیدا ہو گیا اور متعدد امراض نے گھیر لیا۔ ان سب مصائب و آلام کے باوجود آپ شاہ ولی اﷲؒ کی تحریک کو آگے بڑھاتے رہے۔ انگریزوں کے بڑھتے ہوئے سیاسی اقتدار اور جبر و استبداد کے آگے ہندوستانیوں کی شہری آزادی ختم ہو چکی تھی۔ عدالتوں میں انگریزوں ہی کے قوانین کے تحت انفصال مقدمات ہوتے تھے۔ اسلام کے چند احکام نماز جمعہ و عیدین اور قربانی کی اجازت تو تھی لیکن مساجد بے دھڑک منہدم کر دی جاتی تھیں۔ مسلمان زندگی کے ہر کام میں ان کے محتاج ہو گئے تھے۔ ان سیاسی و مذہبی امور کے تحت شاہ عبدالعزیز نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر انگریزی اقتدار کے خلاف نہایت موثر قدم اٹھایا۔ یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ شریعت مطہرہ کے تحت جب قوم کی آزادی پر حرف آنے لگا تو جہاد واجب ہونے کا جواز پیدا ہو گیا اور سیاست دین کے تابع ہو کر روبعمل ہو سکی ورنہ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔
دارالحرب کا فتویٰ
دارالحرب کے اس فتوے کا مطلب یہ تھا کہ تمام ہندوستانی اس بیرونی حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیں۔ فتوے کا مسلمانوں کے علاوہ غیرمسلموں پر یہ اثر ہوا کہ مرہٹوں نے جو عرصہ سے مسلمانوں سے لڑتے چلے آرہے تھے‘ یہ آپسی جنگ بند کر دی اور مسلمانوں نے بھی مرہٹی فوج میں شامل ہو کر انگریزوں سے جنگ شروع کر دی۔ شمالی ہندوستان میں تو شاہ ولی اللہی تحریک کا اثر و نفوذ جاری و ساری ہو ہی چکا تھا‘ دوسری طرف بنگال میں نواب سراج الدولہ کی شہادت کے بعد انگریزوں نے وہاں اپنا سیاسی تسلط قائم کر لیا۔ انہوں نے وہاں لوٹ کھسوٹ اور ظلم و ستم کا جو بازار گرم کر رکھا تھا‘ اس سے مسلمانانِ بنگال عاجز آگئے تھے۔ کیونکہ کل تک جو وہاں کے حاکم تھے‘ وہ انگریزوں کے خونیں پنجہ میں دب کر عزتِ نفس کو بچانے اور اپنی معاشی و اقتصادی حالت کو برقرار رکھنے میں خود کو مجبور و بے کس پانے لگے تھے۔ ۱۷۶۴ء میں بکسر کی جنگ کے بعد تو انگریز‘ بہار‘ اڑیسہ اور بنگال کے حاکمِ اعلیٰ کی حیثیت اختیار کر چکے تھے اور ان کے جبر و استبداد کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ جنگِ آزادی کی تاریخ کا یہ ایک نہایت روشن پہلو ہے کہ اس وقت انگریزوں کے خلاف سب سے اول جن لوگوں نے طبلِ جنگ بجایا وہ کوئی نواب‘ جاگیردار یا صاحبِ اقتدار لوگ نہیں بلکہ بنگال کے بھوکے‘ بے سہارا اور جاہل فقیر تھے جنہوں نے جنگِ آزادی کی جو شمع روشن کی وہ مسلسل ۳۷ سال تک منور رہی۔ سلسلہ مداریہ سے نسبت رکھنے والے یہ فقیر اپنے مرشد بابا مجنوں شاہ کی قیادت میں گائوں گائوں اور قریہ قریہ جاکر کسانوں‘ مزدوروں اور دستکاروں کو ملک کی آزادی کے لیے انگریزوں کے خلاف ابھارتے رہے اور جب ان کے پاس مسلح جدوجہد کے لیے وافر طاقت مہیا ہو گئی تو انہوں نے عَلمِ بغاوت بلند کر دیا۔ بابا مجنوں شاہ‘ ان کے خلفا موسیٰ شاہ‘ چراغ علی شاہ اور نورالمحمد نے اپنے ساتھ سائی باپنتھ کے سنیاسیوں کو بھی ملا لیا جن کے قائد بھوانی پاٹھک‘ دیوی چودھرانی اور کرپا ناتھ تھے۔ ان لوگوں نے اپنے فرسودہ روایتی اسلحہ کے ساتھ انگریزوں کے بہترین تربیت یافتہ اور جدید اسلحہ سے مسلح فوج سے نبردآزما ہو کر اپنے حوصلوں اور بلند ہمتی سے انگریزوں کے دانت کھٹے کر دیے۔ یہاں تک کہ ۱۷۶۶ء میں انگریز جنرل میکنزی کو شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ اسی طرح کمانڈر کیتھ کی فوج کو بھی شکست دے کر اس کا سر قلم کر دیا۔ ہندوستان میں انگریزوں نے اپنی حکومت کاقیام اپنی فوجی برتری سے نہیں کیا بلکہ ہندوستانیوں میں پھوٹ ڈال کر اور ان میں غداروں کو پیدا کر کے ان کے ذریعہ سازشوں کا جال پھیلایا اور اپنے پیر جمائے۔ یہی حربہ انہوں نے ان فقیروں کے خلاف بھی استعمال کیا اور مجنوں شاہ کو مخبروں کی مدد سے گرفتار کرنے کی متعدد بار کوشش کی لیکن قدرت نے ہر بار اس مجاہد کی مدد و نصرت فرمائی یہاں تک کہ ۱۷۷۱ء میں لیفٹیننٹ ٹیلر کی فوج سے معرکہ آرائی کر کے اپنی برتری کا لوہا منوا لیا۔ ۱۴ نومبر ۱۷۷۶ء کو انگریز کمانڈر لیفٹیننٹ رابرٹسن کی فوج کو کراری شکست دی‘ یہاں تک کہ خود رابرٹسن بری طرح زخمی ہوا۔ اس پوری مسلح جدوجہد میں جب انگریزوں کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی تو انہوں نے مجنوں شاہ کے طرفداروں میں پھوٹ ڈالنے کی تدابیر پر پوری توجہ دی اور اس میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ مجنوں شاہ کے حامیوں میں مسلکی اور مذہبی پھوٹ پڑ گئی جس کے باعث ان کی جدوجہد کمزور پڑنے لگی۔ یہاں تک کہ ۲۹ دسمبر ۱۷۸۶ء میں ضلع باگورہ کے ایک گائوں مونگرا میں اچانک ان کو لیفٹیننٹ برینان کی فوج سے مقابلہ کرنا پڑا جس میں وہ بری طرح زخمی ہو گئے تاہم انگریز انہیں گرفتار نہ کر سکے لیکن وہ ان زخموں سے جانبر نہ ہو سکے۔ ان کے بعد ان کے خلیفہ موسیٰ شاہ کو قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ان کے ساتھ چراغ علی شاہ و مریدین بھی شامل رہے اور انہوں نے میمن سنگھ ورنگ پور میں جنگ جاری رکھی جبکہ دوسرے مریدین ظہوری شاہ وغیرہ نے آسام میں انگریزوں سے معرکہ گرم رکھا۔ لیکن انگریزوں کی پیدا شدہ اندرونی سازشوں سے تحریک اب بہت کمزور ہو چکی تھی۔ تاہم مطیع اﷲ‘ سبحان علی اور عمودی شاہ نے ناگزیر حالات میں بھی اپنی جنگ جاری رکھی تاآنکہ ۱۷۸۷ء میں مطیع اﷲ اور عمودی شاہ کو ایک معرکہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن دوسرے مجاہدین نے اس جنگِ آزادی کو کسی نہ کسی طرح ۱۸۰۰ء تک جاری رکھا اور ان کی شہادت کے بعد ہی یہ تحریک ختم ہوئی۔
سید احمد شہید کی جدوجہد
بنگال کے ان فقیروں کی مسلح جدوجہد کے بعد انیسویں صدی کے آغاز میں ضلع رائے بریلی کے صوفی بزرگ اور مجاہد حضرت سید احمد شہیدؒ بھی اپنے رفقا حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ، مولوی عبدالحئیؒ، مولوی محمد اسحاقؒ اور مولوی محمد یعقوبؒ وغیرہ کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد کا آغاز کر چکے تھے۔ ان کی یہ تحریک اتنی منظم اور عوام الناس میں اتنی مقبول ہوتی چلی جارہی تھی کہ انگریز اس سے بوکھلا گئے اور چور دروازں سے اس پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو انہوں نے کارکنان کو مسلمانوں میں بدنام کرنا شروع کر دیا اور ان کو وہابی مشہور کر کے اَن پڑھ مسلمانوں کو مخالفت پر آمادہ کیا۔ دوسری تدبیر یہ کی کہ ان کو پنجاب کی سکھ حکومت سے پنجہ آزمائی میں الجھا دیا۔ چونکہ سید احمد شہیدؒ کی اصلاحی کوششوں سے شمالی سرحدی علاقوں کے جاگیرداروں اور سرداروں کے سیاسی مفادات متصادم ہو رہے تھے‘ اس لیے وہ بجائے اس کے کہ سید احمد شہیدؒ کے ساتھ ہوتے‘ انہوں نے اس تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی اور ان کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر دیں۔ ان کی رسد‘ اسلحہ اور مالی مدد بند کر دی گئی‘ جس کی وجہ سے ان کے لشکر کو فاقہ کشی کی نوبت آگئی اور اس ابتری کی حالت میں انہیں دربان لاہور کی افواج سے لڑنا پڑا۔ ۱۸۳۱ء کو حضرت سید احمد شہیدؒ اپنے رفقا کے ساتھ بالاکوٹ کے معرکہ میں شہید ہو گئے۔ سید احمد شہیدؒ کی کوشش دو دھاری تلوار کے مانند ہندوستان میں جاری تھی۔ ایک جانب تو وہ خود اپنے مجاہدوں کے ساتھ شمالی سرحدی ہندوستان میں جہاد کر رہے تھے اور دوسری جانب اپنے رفقا کو بنگال میں اصلاحی کوششوں میں مشغول رکھے ہوئے تھے۔ ان مجاہدین میں سید محمد علی رام پوری‘ مولوی ولایت علی عظیم آبادی‘ مولوی امام الدین‘ مولوی کرامت علی‘ مولانا فرحت حسین‘ مولانا احمد اﷲ اور مولانا یحیٰی علی رحمہم اﷲ کے نام سرفہرست ہیں‘ جنہوں نے اپنی اصلاحی اور تبلیغی سرگرمیاں ایسے منظم طریقہ سے جاری رکھیں اور ان میں وہ انہماک و قابلیت کا مظاہرہ کیا کہ جس کو محسوس کر کے جماعتِ مجاہدین کا سب سے بڑا دشمن سرولیم ہنٹر بھی ان کی مخلصانہ کوششوں کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گیا۔
فرائضی تحریک
سید احمد شہید بریلویؒ کی مسلح تحریک پنجاب اور سرحدی صوبہ میں ابھی جاری ہی تھی کہ بنگال میں ایک اور تحریک کا آغاز ہو گیا جس کو فرائضی تحریک کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے بانی حاجی شریعت اﷲ تھے جن کی پیدائش ضلع فرید پور بنگال میں ہوئی تھی۔ تحریک کا فرائضی نام اس لیے پڑا کہ بنگال کے مسلمانوں میں احکامِ شریعت کی پابندی بالکل نہ رہی تھی اور مشرکانہ رسم و رواج عام تھے۔ ہندو زمینداروں اور جاگیرداروں نے مسلمان کاشتکاروں و دستکاروں کو اپنے ظلم و جور کا شکار بنا رکھا تھا۔ ان پر طرح طرح کے ناجائز ٹیکس عائد کر رکھے تھے جن سے ان غریبوں کی معاشی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی تھی۔ مسلمانوں کی اس معاشی بدحالی اور شریعتِ مطہرہ سے بیگانگی کو دور کرنے کے لیے حاجی شریعت اﷲ نے اصلاحی تحریک شروع کی جس کے دو خاص مقاصد تھے۔ اولاً مسلمانوں میں صحیح دینی شعور اور تعلیم کا احساس پیدا کرنا اور ثانیاً زمینداروں اور جاگیرداروں کے ظلم و زیادتیوں کا تدارک کرنا‘ ان مقاصد کے حصول میں حاجی شریعت اﷲ کے بیٹے حاجی محمد حسن نے جو عرف عام میں دو دھومیاں کے نام سے مشہور تھے‘ بہت منظم طریقہ سے حصہ لیا اور مسلمانوں کو تربیت دے کر مسلح جدوجہد کا آغاز کیا‘ جس سے نہ صرف ہندو زمینداروں اور جاگیرداروں پر زک پڑی بلکہ بنگال کے انگریز اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے کار پردازوں کے جلب منفعت پر بھی کاری ضرب لگی اور سیاسی بغاوت کا بھی خطرہ محسوس ہونے لگا۔
فرائضی تحریک کو آگے چل کر حضرت سید احمد شہیدؒ کے خلیفہ صوفی نور محمد‘ مولوی عنایت علی اور مولوی امام الدین شاگرد شاہ عبدالعزیزؒ کے شریک ہو جانے سے مزید تقویت حاصل ہوئی اور جو تحریک اول بنگال کے مسلمانوں کی مذہبی اصلاح سے شروع ہوئی تھی وہ ترقی کرتے کرتے راجشاہی‘ جیسور اور چٹاگانگ میں بہت شدت سے ظاہر ہوئی۔ بنگال کے ان مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کی اپنی پنچایتیں اور عدالتیں قائم ہو گئی تھیں‘ جہاں ہر طرح کے مقدمات کا فیصلہ کیا جاتا تھا‘ جس کی وجہ سے انگریزوں کی قائم کردہ عدالتوں میں ویرانی چھا گئی تھی اور انگریزوں کی عملداری ہوتے ہوئے وہاں ایک متوازی نظامِ عدل اور وہ بھی مسلمانوں کے ذریعہ کام کرنے لگا تھا۔ مسلمانوں کے اس طرزِ عمل سے انگریز ایک شدید خطرہ کا احساس کرنے لگے۔ ہندو زمیندار اور جاگیردار جو انگریزوں کے آلہ کار بنے ہوئے تھے‘ انہوں نے ہر طرح کے جھوٹے مقدمات مسلمانوں کے خلاف انگریزی عدالتوں میں دائر کر کے ان کو معاشی و سیاسی طور پر پریشان اور کمزور کرنا چاہا لیکن مسلمان اس ابتلا و آزمائش سے قطعی ہراساں نہ ہوئے اور ہندو زمینداروں و انگریزوں کے ظلم و ستم کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے اپنی تحریک کو آگے بڑھاتے رہے۔ یہ تحریک انگریزوں کی منظم حکومت کو شکست تو نہ دے سکی لیکن مسلمانانِ بنگال میں اس کے ذریعہ اسلام سے وہ رغبت پیدا ہو گئی جس سے آئندہ زمانے میں احیاے اسلام میں بہت مدد ملی۔
مرہٹوں کی شکست
اس مقالہ کے آغاز میں لکھا گیا ہے کہ سولہویں صدی عیسوی میں ہندوستانی تاریخ اپنے اندر دو واقعات کو پنہاں کیے ہوئے ہے۔ ایک مرہٹہ سردار شیواجی کی پیدائش اور دوسرا ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام۔ ان دونوں واقعات کے آئندہ دور رس نتائج برآمد ہوئے۔ مرہٹوں نے جنوبی ہندوستان میں ایسی منظم اور مضبوط حکومت قائم کی ‘ جس نے مغل شہنشاہیت کے دانت کھٹے کر دیے اور ایسٹ انڈیا کمپنی یا انگریز تاجروں نے بقالی کے بجائے ہندوستان کی حکومت ہی پر قبضہ کر لیا۔ لیکن تاریخ کے دھارے کو موڑنے والے ان دونوں واقعات کو ہندوستانی مسلمانوں نے محض تماشائی بن کر رونما ہوتے نہیں دیکھا بلکہ یہاں کے عوام الناس اور علماے کرام برابر ان کے تدارک کے سلسلہ میں علمی‘ فکری اور عملی جدوجہد کرتے رہے۔ مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو ختم کرنے کے لیے علماے ہند اور خصوصاً شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی نے احمد شاہ ابدالی کو آمادہ کیا کہ وہ مغلیہ حکومت کو بچانے کے لیے طاقت کا استعمال کریں۔ اس کے نتیجہ میں ۱۷۶۱ء میں پانی پت کی مشہور جنگ ہوئی جس میں مرہٹہ طاقت کو شکستِ فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح انگریزوں کی ہوس حکمرانی پر قدغن لگانے کے لیے مسلمانانِ ہند کو مسلح جدوجہد کے لیے آمادہ و تیار کیا جاتا رہا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے وقوع پذیر ہونے میں بھی انہی علماے دین کی فکری قیادت پیش پیش نظر آتی ہے۔ علما کا فتویٰ جہاد جاری کرنا‘ چپاتیوں کی تقسیم کے ذریعہ مسلح جدوجہد کے لیے عوامی طاقت کو منظم کرنا اور ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد کے دور میں ریشمی رومال کی تحریک یہ تمام تدبیریں وہ ہیں‘ جن کے پسِ پشت اسلام کا وہی نظریۂ حیات اور فلسفۂ قرآنی متحرک دکھائی دیتا ہے جو خدائی قانون کی صورت میں ہماری رہنمائی کر رہا ہے۔ ’’اور ہم میں کوئی اﷲ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے‘‘ اور ’’حاکمیت صرف اور صرف اﷲ کے واسطے ہے‘‘۔ اور یہ کہ خدا کی معصیت اور گناہ کے کام میں کسی مخلوق کی فرمانبرداری جائز نہیں۔ علماے ہند کے پیشِ نظر قرآن و حدیث کی یہی ہدایات تھیں جن کے تحت انہوں نے انگریزی تسلط کے خلاف نہ صرف فتوے جاری کیے بلکہ جنگِ آزادی میں اپنی جان و مال اور بیوی بچوں کو بھی قربان کر دیا۔ اس کے نتیجہ میں جن لوگوں کو پھانسیاں دی گئیں‘ کالے پانی میں محبوس کیا گیا اور جائدادیں ضبط کی گئیں‘ ان کی فہرست میں علماے دین کے نام پیش پیش ہیں۔ دارو سن کی زینت بڑھانے والے یہی وارثینِ رسولؐ ہیں۔
۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے شعلے پورے شمالی ہندوستان میں بھڑکے ہیں اور ہر شہر میں وطن کی آزادی کے متوالوں نے اپنی جان و مال کی قربانیاں پیش کی ہیں۔ انہی میں شہر شاہجہانپور بھی ایک نمایاں مقام رکھتا ہے‘ جہاں مولوی سرفراز علی گورکھپوری اپنے وعظ و تقاریر سے برٹش فوجیوں کو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے پر آمادہ کر رہے تھے۔ باشندگانِ شاہجہانپور کے شہر میں اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔ یہی موقع تھا جب مولانا احمد اﷲ شاہ شہید جو گوالیار کے صوفی فقیر مہراب شاہ کے مرید تھے اور اپنے پیر کی خواہش اور حکم کے تحت انگریزوں سے لڑتے ہوئے دادِ شجاعت دے رہے تھے‘ شہر میں وارد ہوئے۔ ان کے ساتھ اس جنگ کے تمام اعلیٰ قائدین مولوی سرفراز علی‘ جنرل بخت خان‘ نانا رائو پیشوا‘ مولوی لیاقت علی الہ آبادی‘ مولانا فیض احمد بدایونی اور ڈاکٹر وزیر خاں وغیرہ شامل تھے۔ قصبہ محمدی میں مولانا احمد اﷲ شاہ نے اپنی حکومت کا اعلان کیا اور خطبہ و سکہ جاری کیا۔ سکہ پر فارسی کا یہ شعر کندہ کیا گیا جس میں اپنے پیر و مرشد کا نام اپنے نام سے قبل کندہ کرایا:
سکہ زد برہفت خادمِ محراب شاہ
حامئی دین محمد‘ احمد اﷲ بادشاہ
مولانا احمد اﷲ شاہ رحمۃ اﷲ علیہ کو قصبہ پوایاں میں وہاں کے راجہ کے سپاہیوں نے گولی کا نشانہ بنایا اور راجہ کے بھائی نے شاہ صاحب کا سر کاٹ کر کلکٹر شاہ جہاں پور کے سامنے پیش کیا۔ انگریزوں نے آپ کے سر کو کوتوالی کے دروازہ پر لٹکا دیا اور جسم کو خاکستر کر دیا۔ شہید کا سرِ مبارک دریاے کھنوت کے جانب مشرق مدفون ہے۔
بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کندایں عاشقانِ پاک طینت را
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘۔ دہلی۔ شمارہ۔ ۲۲ اکتوبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply