
فرانس اور بیلجیم نے اسلامی حجاب پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ تو کرلیا تاہم اب انہیں اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ فرانسیسی حکومت اور پارلیمنٹ نے حجاب پر پابندی کے معاملے کو بہت حد تک انا کا مسئلہ بنالیا جس کے باعث موقف ترک کرنا اس کے لیے شدید مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔
فرانس کی سینیٹ ماہ رواں کے دوران حجاب پر مکمل پابندی کے حق میں ووٹ دینے والی ہے۔ قومی اسمبلی اس بل کو پہلے ہی منظور کرچکی ہے۔ سینیٹ سے منظوری کے بعد اس بل کو قانون کی شکل میں نافذ کرنا ہوگا۔ فرانس کی سیاحت کی صنعت کے لیے یہ موت کا پیغام ہوسکتا ہے۔ جب سے فرانس میں پردے پر پابندی کا معاملہ چلا ہے تب سے اسلامی دنیا نے فرانس کی طرف شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کردیا ہے۔ مشرق وسطیٰ شمالی افریقا سے بہت سے مسلم سیاح اور تاجر اب فرانس آنے سے گریز اختیار کرنے لگے ہیں۔ ۲۰۱۰ء کے ابتدائی ۶ماہ کے دوران مشرق وسطیٰ سے فرانس آنے والے سیاحوں کی تعداد میں ۳۰فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ عمان کے دلال سیف کا کہنا ہے کہ جس ملک میں ہم پر پابندی عائد کی جائے وہاں جانے سے کیا فائدہ؟ دبئی کی ایک اسکول ایڈمنسٹریٹر مریم سعید کا کہنا ہے کہ بچے بھی ہم سے یہ کہنے لگے ہیں کہ جس ملک میں ہمیں پسند ہی نہیں کیا جاتا وہاں جانے سے کیا حاصل؟
فرانس کی حکومت کو اسلامی دنیا میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ فرانس کے سفارت کار پردے پر پابندی کے حوالے سے اپنی حکومت کا موقف واضح کرنے کی کوشش کرر ہے ہیں تاہم ان کی بات پر توجہ دینے والے کم ہیں۔ روایتی اتحادی مسلم ممالک بھی فرانس کی طرف شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ فرانس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بیشتر حکومتیں پردے کے معاملے پر منقسم ہیں اور خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ جن ممالک نے فرانس کے موقف کی مخالفت نہیں کی وہ بھی بہرحال اس کی حمایت تو نہیں کر پارہے۔ یورپ میں بھی فرانس کو متفق ممالک کم ہی ملے ہیں۔ دنیا بھر میں فرانس کے اقدام پر ملا جلا ردعمل دکھائی دیا ہے۔ فرانس کی وزارت خارجہ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اسے پردے پر پابندی کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔
فرانس میں اعتدال پسند اسلامی رہنما بھی حکومت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ پردے پر مکمل پابندی نافذ کرنے سے باز رہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پردے کے معاملے میں کوئی بیچ کی راہ نکالی جائے تاکہ معاشرتی سطح پر زیادہ مسائل پیدا نہ ہوں۔ انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ پردے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرتے وقت ملک میں آباد مسلمانوں اور مسلم دنیا کے جذبات کو مدنظر رکھا جائے۔ یہ مشورہ اس لیے دیا جارہا ہے کہ پردے کے معاملے میں حکومت کا غیر لچکدار رویہ معاشرے کو مزید تقسیم کرسکتا ہے۔ فرانس میں کم و بیش پچاس لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ اگر مسلم خواتین کو حجاب پہننے سے روکا گیا تو ان میں مزاحمت کا جذبہ پیدا ہوگا جو معاشرے کی مجموعی کیفیت کو متاثر کرسکتا ہے۔
سعودی عالم شیخ عبدالغنی نے جولائی میں فرانس کی ایک مسلم خاتون کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اگر کسی ملک میں مسلم خواتین کو پردہ کرنے کی صورت میں ہراساں کیے جانے یا امتیازی سلوک کا نشانہ بنائے جانے کا خوف لاحق ہو تو وہ ملک کے قوانین کے مطابق پردے کی پابندی نہ کریں۔ اس بیان پر مختلف حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ سعودی عرب میں انسٹی ٹیوٹ آف جیوڈیشل اینڈ اسلامک اسٹڈیز کے محإد النجیمی نے کہا کہ جس ملک میں اسلام کی تعلیمات پر عمل کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی جاتی ہو وہاں جانے کی سرے سے کوئی ضرورت نہیں۔ اگر ناگزیر ضرورت نہ ہو تو وہاں جانے سے گریز کیا جائے۔
پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک میں فرانس کے اقدامات پر شدید ردعمل دکھائی دیا ہے۔ فرانس کے وزیر ڈینیل جوآنو نے بیانات اور مضامین کے ذریعے معاملات کی وضاحت کی ہے تاہم اب تک فرانسیسی سفارت کاروں کو اسلامی دنیا میں مشکلات کا سامنا ہے۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں متعدد اسلامی ممالک سے فرانس کے اچھے تعلقات ہیں۔ سعودی عرب دفاعی ساز و سامان اور دوسری بہت سی اہم اشیا کے لیے فرانس کے ساتھ کئی معاہدے کرچکا ہے جن پر عمل بھی ہو رہا ہے۔ اگر فرانس میں حجاب یا پردے پر مکمل پابندی عائد کی گئی تو سعودی حکومت پر اندرونی اور بیرونی دباؤ میں اضافہ ہوگا۔
سعودی عرب کے متمول خاندان فرانس میں سیاحت اور پرتعیش اشیا کی خریداری پر خطیر رقوم خرچ کرتے ہیں۔ اگر فرانس کی حکومت اور پارلیمنٹ اپنی روش پر قائم رہی اور حجاب پر پابندی کو اپنی انا کا مسئلہ بنایا تو مسلم دنیا کے متمول خاندان فرانس کا رخ کرنا چھوڑ دیں گے۔ اس صورت میں سیاحت اور تجارت دونوں شعبے بری طرح متاثر ہوں گے۔ اب فرانس کے لیے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ حجاب پر پابندی سے اجتناب برتنے کی راہ پر گامزن ہوگا تو سیکولر ازم اور لبرل ڈیموکریسی کے حوالے سے اس کی ساکھ متاثر ہوگی اور عالمی برادری میں خاصی سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
(بشکریہ: ’’ایسوسی ایٹیڈ پریس‘‘۔ ۵ ستمبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply