
گزشتہ برس ریاض کے رٹز کارلٹن ہوٹل کو کچھ مدت کے لیے حراستی مرکز میں تبدیل ہونا پڑا، جب ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر بہت سی حکومتی اور کاروباری شخصیات کو بدعنوانی کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔ محمد بن سلمان سعودی معاشرے اور معیشت کے ساتھ ساتھ سعودی حکمراں خاندان کو بھی نئی شکل دینے کے متمنی ہیں۔ انہوں نے ملک کو ایک نئے سانچے میں ڈھالنے کا جو پروگرام پیش کیا ہے اس پر کئی حلقوں نے اعتراضاات داغے ہیں۔ محمد بن سلمان تنقید کی پروا کیے بغیر وہ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں جو ان کے ذہن میں ابھر چکا ہے۔
۳۲ سالہ محمد بن سلمان، جنہیں عرفِ عام میں ’’ایم بی ایس‘‘ کہا جاتا ہے، سعودی عرب کی حالیہ تاریخ کی طاقتور ترین شخصیت ہیں۔ وہ سعودی عرب کا سیاسی، ریاستی، معیشتی اور سماجی ڈھانچا مکمل طور پر بدل دینا چاہتے ہیں۔ بہت سے علاقائی اور عالمی معاملات میں سعودی عرب محتاط رہا ہے۔ اس کی پالیسیوں سے گریز جھلکتا رہا ہے مگر محمد بن سلمان چاہتے ہیں کہ یہ سب ختم ہو اور جو کچھ بھی کرنا ہے وہ کھل کر کیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں اپنا رہے ہیں جن سے توضیح جھلکتی ہے نہ کہ گریز۔ یہ الگ بات کہ ان کی بیشتر پالیسیوں سے معاملات بظاہر الجھنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ محمد بن سلمان چاہتے ہیں کہ جہاں کہیں کھل کر کچھ کرنے کی ضرورت ہے وہاں کھل کر بہت کچھ کیا جائے تاکہ کسی کے ذہن میں کوئی ابہام نہ رہے۔ یمن کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ شام کے معاملے میں بھی وہ زیادہ الجھن کا شکار دکھائی نہیں دیتے۔ مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر برنارڈ ہیکل کہتے ہیں کہ محمد بن سلمان نے اپنے ملک کو زیادہ غیر مستحکم یا غیر متوازن کیے بغیر خطے کے عدم استحکام میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔
سعودی عرب کا ریاستی ڈھانچا حکمران خاندان، طبقۂ علما اور کاروباری اشرافیہ پر مشتمل ہے۔ تیل کی دولت نے معاملات کو درست رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کے نرخ ڈانوا ڈول ہونے اور پیداوار میں کمی بیشی سے پیدا ہونے والی خرابیوں کے باوجود آج بھی سعودی معیشت کا بہت حد تک تیل سے حاصل ہونے والی دولت ہی پر انحصار ہے۔
سعودی عرب میں آج بھی علماء کا طبقہ فیصلہ کن حیثیت نہیں رکھتا۔ کاروباری اشرافیہ بھی ملک کے معاملات پر زیادہ متصرف نہیں۔ دوسری طرف بیورو کریٹس بھی غیر معمولی پوزیشن میں نہیں۔ معاملات اب تک سعودی خاندان کی گرفت میں ہیں۔ رائے عامہ کے غیر جانب دار اور شفاف جائزے اب تک ممکن نہیں ہوسکے۔ دعوٰی یہ کیا جارہا ہے کہ سعودیوں کی اکثریت وہ سب کچھ پسند کرتی ہے جو محمد بن سلمان چاہتے ہیں۔ معاشرے میں آج بھی ایسے بہت سے طبقات ہیں جو چاہتے ہیں کہ بے جا پابندیاں ختم ہوں یا معقول حد تک نرم کردی جائیں۔ معاملات کی نوعیت بتاتی ہے کہ معاشرے کے بیشتر طاقتور طبقے اب تک اس بات کے حق میں ہیں کہ بادشاہت برقرار رہے اور معاملات کو زیادہ نہ چھیڑا جائے۔ ریاستی ڈھانچے میں غیر معمولی تبدیلی سے بہت کچھ بگڑے گا اور داؤ پر لگ جائے گا۔ بادشاہت میں بہت سوں کو اپنے مفادات محفوظ دکھائی دے رہے ہیں۔
ولی عہد محمد بن سلمان کا بنیادی وژن یہ ہے کہ سعودی معیشت کا تیل کی دولت پر مدار کم کیا جائے۔ وہ ملک میں ایسا بہت کچھ بنانا چاہتے ہیں جو دولت پیدا کرنے کا ذریعہ ثابت ہو، ریاستی آمدنی میں اضافہ کرے۔ وہ چاہتے ہیں کہ معیشتی ڈھانچے کو اس طور تبدیل کیا جائے کہ آمدن کے مستقل ذرائع پیدا ہوں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے ہر طرح کے تجارتی لین دین پر پانچ فیصد ویلیو ایڈیڈ ٹیکس نافذ کیا ہے۔ سعودی عرب میں تیل کی دولت سے پیدا ہونے والی آسانی کو عام شہریوں تک پہنچایا جاتا رہا ہے۔ اب یہ سلسلہ بھی ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ عوام کو سبھی کچھ بغیر کچھ ادا کیے بغیر نہ ملے۔ عوام سے وصولی شروع کی جارہی ہے۔ یہ اگرچہ ناپسندیدہ فعل ہے مگر عوام بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ انہیں بہت مدت سے بہت کچھ دیا جاتا رہا ہے، اب ان سے کچھ لینے کا وقت آیا ہے۔
سعودی عرب میں نجی شعبہ معیشت میں کلیدی کردار ادا نہیں کر رہا۔ بیشتر ملازمین سرکاری ہیں۔ اب حکومت چاہتی ہے کہ نجی شعبہ سرمایہ کاری کا دائرہ وسیع کرے تاکہ روزگار کے زیادہ اور بہتر مواقع پیدا ہوں اور روزگار فراہم کرنے کے حوالے سے ریاست کے کاندھوں کا بوجھ کم ہو۔
سوال یہ ہے کہ گزشتہ برس جو کچھ کیا گیا ویسے ڈرامائی اقدامات کی ضرورت کیا ہے؟ سعودی عرب کے بہت سے حکام کہتے ہیں کہ بدعنوانی کے خلاف عوام کو متحرک کرنے سے بہت سے معاملات درست کرنے میں مدد ملے گی۔ جن لوگوں کے پاس بہت زیادہ دولت ہے ان سے دولت لے کر قومی خزانے میں ڈالنا ریاست کے مفاد میں ہے۔ یہ محمد بن سلمان کی سوچ ہے جس پر ریاستی مشینری پوری لگن سے عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جن خاندانوں نے عشروں کی محنت سے کوئی کاروباری سلطنت تیار کی ہے وہ اس بات کو ہضم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاست کو ایک خاص حد تک جانا چاہیے۔ اگر نجی شعبے میں موجود سبھی کچھ لے لیا جائے گا تو معیشت کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔ ان کا استدلال بھی غلط نہیں مگر محمد بن سلمان اپنے ’’وژن‘‘ کے مطابق کام کرنے پر کمر بستہ، بلکہ بضد ہیں اور کسی کی کچھ سننے کو تیار نہیں۔
جو کچھ محمد بن سلمان کر رہے ہیں وہ معاشرے میں اضطراب بھی پیدا کر رہا ہے۔ بہت سوں کے خیال میں ریاستی دباؤ کے تحت سیاسی، معاشی اور سماجی ڈھانچے کو تبدیل کرنا اچھی بات نہیں۔ اس کے برے نتائج برآمد ہوں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ محمد بن سلمان کس مزاج کے انسان ہیں۔ اگر وہ چینی صدر شی جن پنگ کی طرح بدعنوانی کے خلاف اقدامات کو معیشت اور معاشرت کی اصلاح کے لیے استعمال کرتے ہیں تب تو ٹھیک ہے۔ اور اگر محمد بن سلمان نے تمام معاملات کو ذاتی مفاد کی تسکین اور تحفظ کے لیے بروئے کار لانے کی کوشش کی تو بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ روسی لیڈر ولادی میر پوٹن کی طرز پر کام کرنے سے محمد بن سلمان صرف اور صرف خرابیوں کے پیدا ہونے کا سبب بنیں گے۔
محمد بن سلمان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مالیات کا ہے۔ ریاست کی آمدنی کے ذرائع گھٹتے اور سکڑتے جارہے ہیں۔ ایسے میں وہ انگلینڈ کے بادشاہ ہنری ہشتم کی راہ پر بھی گامزن ہوسکتے ہیں جس نے بیرونی جنگوں کے بڑھتے ہوئے مالیاتی دباؤ اور اندرون ملک حکومت یعنی بادشاہت کی کمزور ہوتی گرفت کے پیش نظر ملک بھر کے مذہبی اداروں پر متصرف ہوکر ان سے بہتر انداز سے مستفیض ہونے کے بجائے انہیں فروخت کردیا تھا۔ محمد بن سلمان پر کچھ ایسا ہی دباؤ مرتب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ سعودی عرب میں حج سیزن ریاست کے لیے آمدن کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اور سال بھر عمرے کا سیزن چلتا ہے جو ریاست کو معقول حد تک آمدن دیتا ہے۔
سعودی عرب میں زر مبادلہ کے ذخائر ۵۰۰؍ارب ڈالر تک ہیں۔ محمد بن سلمان کو اپنے تمام خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے اس سے کہیں زیادہ درکار ہے۔ وہ ’’نیوم‘‘ کے نام سے ایک الگ شہر بسانا چاہتے ہیں مگر اب تک سعودی عرب کی کاروباری اشرافیہ نے اس شہر کو بسانے میں خاطر خواہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کاروباری طبقے کو ڈرا ددھمکاکر ایک آدھ مرتبہ ہی ان سے کچھ کشید کیا جاسکتا ہے۔ ایک بار دھوکا کھانے کے بعد وہ محتاط ہوجائیں گے اور پھر ان سے کچھ زیادہ حاصل کرنا ممکن نہ رہے گا۔ یہ نکتہ محمد بن سلمان کے ذہن میں ضرور ہوگا۔ ’’نیوم‘‘ کے لیے انہوں نے دھونس دھمکی کے ذریعے کم و بیش ۲۰۰؍ارب ڈالر حاصل کیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کتنی بار کیا جاسکتا ہے۔ سعودی عرب کی کاروباری اشرافیہ محتاط ہوگئی ہے۔ اگر دھونس دھمکی کا سلسلہ جاری رہا تو معیشتی ڈھانچا شدید عدم استحکام سے دوچار ہوگا۔ محمد بن سلمان نے بدعنوانی کی نئی تعبیر پیش کی ہے جس سے بیشتر سعودی مطمئن نہیں۔
سماجی سطح پر محمد بن سلمان نے تبدیلیوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ خواتین کو تنہا ڈرائیونگ کرنے کی آزادی مل چلی ہے اور اس آزادی سے مستفید ہونے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سعودی معاشرہ اس تبدیلی کے لیے بہت پہلے سے تیار تھا۔ سعودی قیادت البتہ تیار نہ تھی۔ محمد بن سلمان نے ایک بڑا، انقلابی نوعیت کا قدم اٹھایا اور اب ورک فورس میں خواتین کی شمولیت کی راہ بھی ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس وقت سعودی عرب کو ورک فورس مضبوط کرنے کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ کام کرنے والوں میں بہت بڑی تعداد غیر ملکیوں کی ہے۔ سعودی ریاست اب غیر ملکیوں پر انحصار کم کرنا چاہتی ہے۔
ملک میں اور بہت سی تبدیلیاں لانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ میوزیکل کنسرٹس، مووی تھیٹرز، فٹ بال میچز کے دوران اسٹیڈیم میں خواتین کو موجود رہنے کی اجازت اور ایسے ہی بہت سے دوسرے اقدامات سعودی معاشرے کو ’’اوپن‘‘ کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ محمد بن سلمان چاہتے ہیں کہ جو کچھ اب تک نہیں ہوا وہ ہو، یعنی بے جا پابندیاں ہٹالی جائیں اور لوگوں کو کھل کر جینے کا موقع فراہم کیا جائے۔ جو سعودی بیرون ملک زیادہ رہتے ہیں وہ خود اور ان کے اہل خانہ بہت حد تک آزاد زندگی بسر کرتے ہیں۔ ایسے میں انہیں اپنے ملک میں بہت سی پابندیاں غیر ضروری محسوس ہوتی ہیں۔ خواتین کو تنہا سفر کی اجازت تک نہ دینا بھی لوگوں کو بہت برا لگتا تھا۔ اب جبکہ خواتین کو تنہا گاڑی چلانے کی اجازت مل گئی ہے، یہ بات بہت سوں کے لیے انتہائی سکون کا ذریعہ ثابت ہوگی۔
۱۹۶۰ء کے عشرے میں جب مخلوط تعلیم کی اجازت دی گئی تھی تب معاشرے میں تھوڑا بہت ردعمل ظاہر ہوا تھا مگر خیر وہ بھی اس قدر نہ تھا کہ حکومت پریشان ہو جاتی۔ اب بھی ایسا ہی ہے۔ معاشرے میں ایک طبقہ ایسا ہے جو خواتین کو زیادہ بااختیار اور آزاد بنانے کے حق میں نہیں مگر اس طبقے کے ارکان کی تعداد اتنی نہیں کہ محمد بن سلمان یا ریاستی ڈھانچا پریشان ہو۔
۱۹۶۰ء یا ۱۹۷۰ء کے عشروں کے برعکس سعودی عرب میں مذہبی طبقہ آزاد حیثیت کا حامل نہیں۔ یہ لوگ ریاست کے ملازم ہیں اور اوپر سے یعنی سعودی حکمراں خاندان سے احکام لیتے ہیں۔ ایسے میں محمد بن سلمان کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ مذہبی طبقہ بھی تبدیلیوں کی ضرورت محسوس کرتا رہا ہے اور اس کی طرف سے خواتین کی آزادی اور دیگر اقدامات پر کچھ خاص ردعمل متوقع نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت ملنے پر خود علمائے کرام کی بیویاں اور بیٹیاں بھی گاڑیاں چلاتی نظر آئیں گی۔
محمد بن سلمان کا ایک بنیادی تصور یا خواب یہ ہے کہ ملک پر سے انتہا پسند ہونے کی چھاپ ختم کی جائے اور اسلام کا قابل قبول ورژن اپنانے کی طرف قدم بڑھایا جائے۔ افغانستان میں سوویت لشکر کشی کے بعد مجاہدین اور روسی افواج میں لڑائی کے حوالے سے اور اس کے بعد کی صورت حال میں بھی سعودی عرب یمن اور شام کے حوالے سے بدنام رہا ہے۔ محمد بن سلمان چاہتے ہیں کہ سعودی عرب پر سے جہادی قوتوں کی پشت پناہی کی چھاپ ختم کی جائے۔ القاعدہ کے حوالے سے سعودی عرب کو بہت کچھ سہنا پڑا ہے۔ نائن الیون کے تعلق سے بھی سعودی حکومت پر الزامات عائد کیے گئے۔ جہادی عناصر کی فنڈنگ کا الزام بھی سعودی عرب پر تواتر سے عائد کیا جاتا رہا ہے۔ محمد بن سلمان سعودی ریاستی ڈھانچے پر عائد کیے جانے والے یہ تمام الزامات ختم کرنا چاہتے ہیں۔
محمد بن سلمان ایسی اتھارٹی چاہتے ہیں جسے کسی بھی طرف سے چیلنج کیے جانے کا خطرہ نہ ہو۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے احکام کو چیلنج کرنے کی ہمت کسی میں نہ ہو۔ سعودی عرب پر ملک کے بانی سعود کی اولاد کی حکومت رہی ہے۔ اب تک حکومتی ڈھانچا یہ رہا ہے کہ بادشاہ کو تمام بڑے شہزادوں پر مشتمل مجلس شوریٰ سے مشورہ بھی لینا پڑتا تھا اور اس کی سفارشات کو ماننا بھی پڑتا تھا۔ محمد بن سلمان نے یہ سب ختم کرکے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔ سلمان بن عبدالعزیز بادشاہ ہیں مگر ان کے ہاتھ میں بظاہر کچھ بھی نہیں۔ تمام اہم فیصلے ان کا بیٹا کر رہا ہے اور وہ اس معاملے میں کسی کی کوئی بات سننے کے لیے بظاہر تیار نہیں۔
سعودی حکمراں خاندان میں شہزادوں کے بوڑھے ہونے پر مجھ سمیت بہت سوں کا خیال تھا کہ اب ان کی اولاد ایسی ہی مجلس شوریٰ بنائے گی اور ریاستی کام یونہی چلتا رہے گا۔ ہم غلطی پر تھے۔ محمد بن سلمان نے ایسی تبدیلیاں کی ہیں جن سے تمام معاملات سمٹ کر ان کے ہاتھ میں آگئے ہیں۔ انہوں نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر حکومتی ڈھانچے کو حیرت انگیز اور خطرناک حد تک تبدیل کردیا ہے۔ اس کے کتنے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے، ابھی پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
۲۰۱۵ء میں بادشاہ بننے پر سلمان بن عبدالعزیز نے پہلے شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز کو ولی عہد بنایا۔ پھر انہوں نے محمد بن نائف کو ولی عہد بنایا۔ محمد بن نائف نے انٹیلی جنس چیف کی حیثیت سے سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات بہتر اور قابلِ اعتبار بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ وہ ریاستی امور کو بہتر انداز سے دیکھ اور سمجھ سکتے تھے۔ اگر وہ بادشاہ بنتے تو ریاست کے لیے پنپنے کی گنجائش باقی رہتی۔ مگر پھر سلمان بن عبدالعزیز نے محمد بن نائف کو ہٹاکر بیٹے کو ولی عہد بنادیا جو تمام متعلقین کے لیے انتہائی حیرت انگیز تھا۔ محمد بن سلمان نے اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے کاروباری طبقے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کے انتہائی با اثر افراد کو بھی حراست میں لیا اور رٹز کارلٹن ہوٹل (ریاض) میں ایک طرف تو ان سے بڑے پیمانے پر دولت وصول کی اور دوسری طرف ان سے یہ عہد بھی لیا کہ وہ ریاستی اقدامات کے خلاف نہیں جائیں گے۔
سعودی حکمراں خاندان میں شدید نوعیت کے اختلافات پہلے بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔ ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے عشرے میں سعودی حکمراں خاندان کے لوگ کئی بار ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوئے مگر معاملات کو کسی نہ کسی طور درست کرلیا گیا۔ اب محمد بن سلمان نے تمام سینئر کزنز کو ایک طرف کردیا ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ غیر موثر کرنے کا عمل جاری ہے۔ وہ ہر معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے کر چلانے کے ارادے سے میدان میں اترے ہیں اور اس معاملے میں کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ انہیں خود بھی اندازہ ہوگا کہ اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے مگر بظاہر امریکا اور یورپ کی بھرپور معاونت سے وہ کوئی بھی قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔
شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے انتقال پر محمد بن سلمان کو اپنے خاندان میں شدید مخالفت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ سعودی حکمراں خاندان اندرونی معاملات کو دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ اگر محمد بن سلمان کو بھی ایسی ہی کسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تو ابتدائی مرحلے میں دنیا کو کچھ بھی معلوم نہ ہوسکے گا۔ انہیں بہت کچھ اپنے طور پر درست کرنا پڑے گا۔ اس وقت ان کے والد بادشاہ ہیں اس لیے اختیارات کا بے محابا استعمال ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں مگر والد کے انتقال پر صورت حال خطرناک شکل اختیار کرسکتی ہے۔
اس وقت محمد بن سلمان کی حیثیت انوکھے لاڈلے کی ہے۔ وہ جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں کیونکہ ان کے والد بادشاہ ہیں۔ والد نے غیر معمولی اختیارات سے نواز کر محمد بن سلمان کو کچھ بھی کر گزرنے کی پوزیشن دے دی ہے۔ مگر یہ بات نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ محمد بن سلمان کی عمر زیادہ نہیں۔ ان کا تجربہ بھی بہت کم ہے۔ وہ بہت سے اقدامات کر ضرور رہے ہیں مگر ان کے ممکنہ اثرات و نتائج سے خود بھی اچھی طرح آگاہ نہیں۔ کسی نوجوان کو اتنے زیادہ اختیارات دینے کے جو خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں وہ درشن دے بھی چکے ہیں۔
محمد بن سلمان نے خارجہ پالیسی کے میدان میں چند ایک ایسی حرکتیں کی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اہم فیصلے کرتے وقت نتائج کی زیادہ پروا نہیں کرتے اور بظاہر لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انہوں ۲۰۱۷ء میں لبنان کے وزیر سعد الحریری کو سعودی دارالحکومت ریاض کے دورے میں، بظاہر، روک کر مستعفی ہونے کا اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ بعد میں یہ فیصلہ غلط ثابت ہوا اور سعد الحریری نے لبنان واپس جاکر اپنا استعفٰی واپس لینے کا اعلان کیا۔
اس کے بعد قطر کا بائیکاٹ کرنے کی باری آئی۔ الزام یہ لگایا گیا کہ قطر جہادی گروپوں کی مدد کرتا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے سعودی عرب کا ساتھ دیا مگر قطر نے ہمت نہ ہاری اور اپنی جگہ ڈٹا رہا۔ ایران اور ترکی نے بھی قطر کا ساتھ دیا اور پریشانی کے عالم میں اسے ہر طرح سے مدد دینے کی یقین دہانی کرائی۔ محمد بن سلمان کا یہ ایڈونچر بھی ناکام رہا اور سعودی عرب کو خارجہ پالیسی کے محاذ پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
بہت سوں کے نزدیک یمن میں سعودی عرب کی جانب سے کیا جانے والا ایڈونچر بھی محمد بن سلمان کی مہم جوئی ہی کا نتیجہ ہے اور اب تک اس کا نتیجہ سعودی عرب کے حق میں برآمد نہیں ہوسکا ہے۔ اپنے حلیف صدر عبد ربو منصور ہادی کو بحال کرانے کے لیے سعودی عرب نے طاقت کا بے محابا استعمال کیا ہے مگر اب تک خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یمن میں حوثی باغیوں کو ایران کی طرف سے غیر معمولی حمایت ہی نہیں، مدد بھی ملتی رہی ہے اور کوئی بھی سعودی حکومت یہ بات ہضم نہیں کرسکتی کہ یمن میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا حکومت کرے۔ جزیرہ نما عرب میں ایران کی حلیف ملیشیا کو حکمراں کی حیثیت سے قبول کرنا خطے کے تمام ممالک کے لیے یکسر ناقابل قبول ہے۔ ایسے میں سعودی عرب کی طرف سے یمنی باغیوں کے خلاف ملکی فوج کی حمایت اور مدد درست دکھائی دیتی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ طاقت زیادہ استعمال کرنے سے ملک میں خرابیاں پھیلی ہیں اور معاملات درست ہونے کے بجائے مزید بگڑے ہیں۔ بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ محمد بن سلمان غیر معمولی اختیارات استعمال کرکے بہت کچھ کرسکتے ہیں اور اپنی غلطیوں سے سیکھ بھی سکتے ہیں مگر بعض اقدامات ایسے بھی ہوسکتے ہیں جن سے سیکھنے کی گنجائش ہی نہ رہے۔
حکمراں خاندان کو کنٹرول کرکے محمد بن سلمان نے بیشتر اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں مگر انہیں عوام کو جواب دینا ہے۔ ملک کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ مگر سوال چند افراد کا نہیں، پوری قوم کا ہے۔ محمد بن سلمان کو ایسے اقدامات کرنا ہیں جو کسی ایک طبقے کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو پسند آئیں۔ محمد بن سلمان نے پانچ فیصد ویلیو ایڈیڈ ٹیکس لگانے کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں وہ اضافہ بھی کیا ہے جو روک لیا گیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے سرکاری ملازمین کے لیے زندگی کا معیار بلند کرنے کی غرض سے ماہانہ ۲۵۰ ڈالر کے مساوی بونس کا اعلان بھی کیا ہے۔
سعودی معاشرے میں سادگی عام کرنے کے اعلانات بہت ہوتے رہے ہیں مگر ان اعلانات پر عمل ممکن نہیں ہوسکا۔ جب عالمی منڈی میں تیل کے نرخ ۳۰ ڈالر فی بیرل تھے تب سعودی حکومت عوام پر زور دے سکتی تھی کہ سادگی اپنائیں۔ اب عالمی منڈی میں تیل کے نرخ ۶۰ ڈالر فی بیرل سے زائد ہیں۔ ایسے میں سادگی کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ بڑھتی ہوئی قومی آمدن کے پیش نظر عوام سادہ زندگی بسر کرنے کو تیار نہیں۔ محمد بن سلمان اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے تمام اقدامات کی پشت پر عوام کا ہونا لازم ہے۔ اگر وہ کوئی بڑی اور حقیقی معاشرتی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو عوام کو ہر صورت مطمئن کرنا ہوگا۔ اب یہ سننے میں آیا ہے کہ رٹز کارلٹن ہوٹل میں زیر حراست رکھے جانے والوں سے جو کچھ حاصل ہوا تھا اس کا بڑا حصہ سرکاری ملازمین کا معیار زندگی بلند کرنے پر بھی صرف کیا جائے گا۔
محمد بن سلمان نے گزشتہ برس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک وسیع البنیاد اقتصادی معاہدہ کیا، جس کے تحت سعودی عرب امریکا سے اسلحہ بھی خریدے اور معیشتی ڈھانچے کو بہتر بنانے سے متعلق معاونت بھی یقینی بنائے گا۔ خلیج میں پیدا ہونے والے سفارتی اور معاشی بحران کو ختم کرنے کے حوالے سے امریکا کی کوششیں زیادہ بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔
ایران کے معاملے میں محمد بن سلمان نے اب تک لچک نہیں دکھائی۔ وہ بظاہر تصادم کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ہاں، عراق کے وزیر اعظم حیدر العابدی کو قبول کرنے کا عندیہ دے کر انہوں نے عراقی حکومت سے تعلقات بہتر بنانے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ سعودی عرب کو اس وقت عراق سمیت پورے خلیجی خطے میں دوستوں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ترکی سے سعودی عرب کے تعلقات اب تک معقولیت کی حدود میں رہے ہیں۔ عراق میں ایرانی اثرات کا حجم گھٹانے کی کوشش محمد بن سلمان کو وقتی طور پر خطے میں بہتر پوزیشن عطا کرسکتی ہے۔
یمن میں معاملات درست کرنے کے حوالے سے صدر ٹرمپ اپنے تعلقات بروئے کار لاسکتے ہیں۔ وہ محمد بن سلمان سے براہِ راست کہہ سکتے ہیں کہ یمن میں کوئی بڑا انسانی المیہ رونما ہونے سے روکنے کے لیے اپنی طاقت موثر اور انسانیت نواز طریقے سے استعمال کریں۔ امریکا کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ محمد بن سلمان بدعنوانی کے خلاف نام نہاد مہم کی تھیلی سے کون سی بلی برآمدکرتے ہیں۔ محمد بن سلمان کو ملک کی فلاح عزیز ہے تو وہ کرپشن مخالف مہم کے بطن سے غیر معمولی اصلاحات برآمد کریں گے۔ اگر انہوں نے چینی صدر والی سوچ اپنائی تو ملک استحکام اور ترقی کی طرف گامزن ہوگا۔ پیوٹن کی سوچ اپنانے سے یہ ساری محنت اکارت جائے گی۔ اگر انہوں نے ہنری ہشتم کے نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے کر کسی سے مشورہ کیے بغیر سب کچھ کرنے کی کوشش کی تو ملک داؤ پر لگے گا۔ ہنری ہشتم نے چرچ آف انگلینڈ کے آئینی سربراہ اور سرپرست کی حیثیت سے تمام مذہبی اداروں کو محض مٹھی میں نہیں لیا تھا بلکہ انہیں آمدنی کا مستقل ذریعہ بنانے پر فروخت کردینے کو ترجیح دی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاستی آمدن کے مستقل ذرائع یقینی بنانے کے حوالے سے محمد بن سلمان کیا کرتے ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Fresh Prince”. (“Foreign Affairs”.May-June2018)
بہت ہی عمدہ اور مختصر
ایک غیر معمولی مضمون اور اتنا ہی اچھا ترجمہ