
شیلے (Percy Bysshe Shelley) ایک انگلش شاعر ہے۔ وہ ۱۷۹۲ء میں پیدا ہوا اور ۱۸۲۲ء میں اس کی وفات ہوئی۔ اس نے ایک بار کہا تھا کہ ہمارے سب سے زیادہ شیریں نغمے وہ ہیں‘ جو سب سے زیادہ غمناک نغمے ہیں:
(Our sweetest songs are those that are saddest songs.)
یہ ایک عام تجربے کی بات ہے۔ ہر عورت اور مرد کا یہ حال ہے کہ اس کو دردناک کہانیاں یا غم انگیز اشعار زیادہ پسند آتے ہیں۔ اکثر مقبول ناول وہ ہیں جو طربیہ نہیں ہیں بلکہ المیہ ہیں۔ اسی طرح اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ گیت کار زیادہ مقبول ہوتے ہیں جو پُرسوز لہجے میں گانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ایسا کیوں ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پُرسوز اشعار یا پُرسوز کہانیاں انسان کے دل کے تاروں کو چھیڑنے میں زیادہ کامیاب ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر انسان عملاً محرومی یا عدم یافت کی نفسیات میں جیتا ہے ۔ ایسی حالت میں خوشی کی بات اس کو غیر واقعی معلوم ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں غم کی بات اس کو زیادہ مبنی برواقعہ نظر آتی ہے۔
زیادہ گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ انسان ایک لذت پسند حیوان ہے:
Man is a pleasure seeker animal.
ناقابل پیمائش حد تک وسیع کائنات کے اندر انسان ایک استثنائی مخلوق ہے۔ اس عالم میں انسان ایک واحد مخلوق ہے‘ جو احسا س لذت کی صفت رکھتا ہے۔ یہ انسان کی انوکھی صفت ہے کہ وہ مختلف قسم کی لذتوں کا احساس رکھتا ہے اس سے لطف اندوز ہوسکتا ہے ۔ وسیع کائنات میں بے شمار مخلوقات ہیں‘ مگر لذت سے لطف اندوز ہونے کی صفت استثنائی طور پر صرف انسان کے اندر پائی جاتی ہے۔
انسان کے لیے سوچنا بھی لذت ہے‘ دیکھنا بھی لذت ہے‘ سننا بھی لذت ہے‘ بولنا بھی لذت ہے‘ کھانا اور پینا بھی لذت ہے ‘ سونگھنا بھی لذت ہے اور چھونا بھی لذت ہے‘ حتی کہ ہری گھاس کا لان ہو اور اس پر آپ ننگے پاؤں چلیں تو اس لمس میں بھی آپ کو بے پناہ لذت محسوس ہوگی۔
مگر یہاں ایک عجیب تضاد پایا جاتا ہے۔ انسان کے اندر لذت کا احساس تو انتہا درجے میں موجود ہے‘ مگر لذت سے لطف اندوز ہونا اس دنیا میں اس کے لیے ممکن نہیں۔ میں ایک بار کشمیر گیا‘ وہاں پہل گام کے علاقے میں پہاڑی دریا ہے‘ جو پہاڑوں کے اوپر برف پگھلنے سے جاری ہونے والے چشموں کے ذریعہ سے بنتا ہے‘ اس کا پانی انتہائی خالص پانی ہے۔ جب میں پہل گام پہنچا اور وہاں دریا کے صاف و شفاف پانی کو دیکھا تو مجھے خواہش ہوئی کہ میں اس کا پانی پیوں۔ میں نے بہتے ہوئے دریا سے ایک گلاس پانی لے کر پیا تو وہ مجھے بہت زیادہ اچھا لگا ‘تمام مشروبات سے زیادہ اچھا۔ میں نے ایک گلاس کے بعد دوسرا گلاس پیا‘ یہاں تک کہ میں چھ گلاس پانی پی گیا۔
چھٹے گلاس کے بعد بھی میرا اشتیاق باقی تھا۔ مگر میں مزید پانی نہ پی سکا۔ اب میرے سر میں سخت درد شروع ہوگیا۔ درد اتنا شدید تھامیں فوراً وہاں سے واپس سری نگر پہنچا۔ سری نگر میں ایک شمیری تاجر کے یہاں میرے شام کے کھانے کا انتظام تھا۔ کئی اور لوگ اس موقع پر بلائے گئے تھے۔ میں وہاں پہنچا تو میرے سر میں اتنا شدید درد ہورہا تھا کہ میں کھانے میں شریک نہ ہوسکا۔ ایک اور کمرے میں جاکر لیٹ گیا۔
یہی حال دنیا کی تمام لذتوں کا ہے۔ انسان دولت کماتا ہے۔ اقتدار حاصل کرتا ہے۔ اپنی پسند کی شادی کرتا ہے۔ اپنے لیے شاندار گھر بناتا ہے۔ عیش کے تمام سامان اکھٹا کرتا ہے۔ مگر جب وہ یہ سب کچھ کرچکا ہوتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اور لذتوں کے درمیان ایک حتمی رکاوٹ حائل ہے۔ کسی بھی لذ ت سے وہ اپنی خواہش کے مطابق لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ لذت کے تمام سامان بھی اس کو خوشی اور سکون دینے میں ناکام رہتے ہیں۔
لذتوں کے بارے میں انسان کی خواہش لامحدود ہے۔ مگر لذتوں کو استعمال کرنے کے لیے وہ خود ایک محدود صلاحیت رکھنے والا انسان ہے۔ انسان کی یہی محدودیت ہر جگہ اس کے اور سامانِ لذت کے درمیان حائل ہوجاتی ہے۔ سب کچھ پانے کے بعد بھی وہ بدستور احساسِ محرومی میں مبتلا رہتا ہے۔ انسان کی جسمانی کمزوری‘ جوانی کا زوال‘ بڑھاپا‘ بیماری‘ حادثات اور آخر میں موت‘ مسلسل طور پر اس کی خواہشوں کی نفی کرتے رہتے ہیں۔ لذت کا سامنا حاصل کرلینے کے باوجود یہ ہوتا ہے کہ جب وہ اس کو استعمال کرنا چاہتا ہے تو خواہش کی تکمیل سے پہلے ہی اس کی طاقت کی حد آجاتی ہے۔ وہ ایک ختم شدہ طاقت (sent force) کی مانند بن کررہا جاتا ہے۔
اس تضاد کو لے کر مزید مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تضاد دراصل تضاد نہیں ہے‘ بلکہ وہ ترتیب کے فرق کا نتیجہ ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ فطرت کے نظام کے تحت‘ انسان کے لیے یہ مقدر کیاگیاہے کہ وہ موت سے قبل کے دور میں اپنی مطلوب لذتوں کا صرف تعارف حاصل کرے اور موت کے بعد کے دور میں ان لذتوں کو حقیقی طور پر اور مکمل طور پر حاصل کرے۔
یہ ترتیب اتفاقی نہیں ہے‘ وہ خود فطرت کا حصہ ہے‘ وہ فطرت کے پورے نظام میں پائی جاتی ہے۔ اس دنیا میں انسان کو جو کامیابی بھی ملتی ہے‘ وہ اسی ترتیب کے اصول کے تحت ملتی ہے۔ اس دنیا کی کوئی بھی کامیابی ترتیب کے اس اصول سے مستثنیٰ نہیں۔
زراعت میں پہلے بونا ہوتاہے‘ اس کے بعد کاٹنا۔ باغبانی میں پہلے پودا اُگانا ہوتا ہے اور اس کے بعد اس کا پھل حاصل کرنا۔ لوہے کے ساتھ پہلے پگھلانا ہوتا ہے اور اس کے بعد اس کو اسٹیل بنانا۔ غرض اس دنیا میں جتنی بھی چیزیں ہیں‘ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ یہی ترتیب اور تدریج کا معاملہ ہوتا ہے۔ ہر چیز پہلے اپنے ابتدائی دور سے گزرتی ہے اور پھر وہ اپنے انتہائی مرحلے تک پہنچتی ہے۔ فطرت کے اس اصول میں کسی بھی چیز کا کوئی استثنانہیں۔
یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان کو لذت کا لامحدود احساس دیا گیا ہے‘ مگر لذتوں سے لامحدود طو ر پر تمتع کرنے کا سامان موت کے بعد آنے والی اگلی دنیا میں رکھ دیا گیا ہے۔ موجودہ دنیا میں آدمی اپنی لذت طلبی کی صلاحیت کو دریافت کرتا ہے اور اگلی دنیا میں وہ اپنی لذت طلبی کے مطابق‘ لذت کے تمام سامانوں کو حاصل کرے گا۔موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات میں لذت کا احساس اور موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں لذت سے تمتع۔
خالقِ کائنات نے اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق ‘ ایسا کیاہے کہ موجودہ دنیا میں وہ انسان کو ممکن لذتوں کا ابتدائی تعارف کراتا ہے۔ اس طرح وہ انسان کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ اگر تم اِ ن لذتوں سے ابدی طور پر اورکامل طورپر متمتع ہونا چاہتے ہو تو اپنے اندر اس کا استحقاق پیدا کرو۔
یہ استحقاق کیا ہے۔ یہ استحقاق ‘ ایک لفظ میں یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو پاکیزہ روح (Purified Soul) بنائے۔ وہ اپنے آپ کو ہر قسم کے منفی احساسات سے پاک کرے۔ وہ اپنے آپ کو لالچ ‘ خود غرضی‘ حسد‘ جھوٹ‘ غصہ‘ انتقام‘ تشدد اور نفرت جیسے تمام غیر انسانی جذبات کا شکار ہونے سے بچائے۔ وہ اپنے اندر وہ اعلیٰ انسانی شخصیت پیدا کرے۔جو مکمل طور پر مثبت شخصیت ہو۔ جو اپنے اعلیٰ اوصاف کے اعتبار سے اس قابل ہو کہ وہ خدا کے پڑوس میں رہ سکے۔ جو شیطانی انسان سے اوپر اٹھ کر ملکوتی انسان (Divine Personality)بن جائے۔
انسان کی زندگی دو مرحلوں میں تقسیم ہے۔ موت سے پہلے اور موت کے بعد۔ اس مرحلۂ حیات کا نسبتاً مختصر حصہ موت سے پہلے کے دور میں رکھا گیا ہے اور اس کا زیادہ طویل عرصہ موت کے بعد کے دور میں۔ انسان کی کہانی کو اگر صرف موت سے پہل کے مرحلۂ حیات کی نسبت سے دیکھا جائے تو وہ ایک المیہ (Tragedy) نظر آئے گی لیکن اگر انسان کی کہانی کو موت کے بعد کے مرحلۂ حیات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو وہ مکمل طور پر ایک (Comedy) نظرآنے لگے گی۔
فطرت کے اس تخلیقی نقشہ (Creation Plan) کے مطابق‘ انسان ایک انتہائی نازک مقام پر کھڑا ہوا ہے۔ وہ ایک ایسے مقام پر ہے‘ جہاں اس کو دو ممکن انتخابات میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ موجودہ دنیا کے مواقع کو فطرت کے نقشے کے مطابق استعمال کرنا اور پھر ابدی لذتوں میں جینے کا مستحق بن جانا یا موجودہ دنیا میں غفلت کی زندگی گزارنا‘ اور بعد کے دورِ حیات میں ابدی طور پر لذتوں سے محروم ہوجانا۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’بیداری‘‘ حیدرآباد۔ ستمبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply