بھارتی ٹی وی چینلوں پر بھی اب مختلف اشیا کی فروخت بڑھانے کے لیے وہی الفاظ استعمال کیے جا رہے ہیں جو مغربی دنیا میں کئی عشروں سے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ جو چیز پیش کی جارہی ہے اس سے اچھی چیز تو کوئی ہے ہی نہیں اور یہ کہ جو قیمت وصول کی جارہی ہے اس کا مکمل نعم البدل دیا جارہا ہے۔ اب خبروں میں بھی اسی ایجنڈے پر عمل ہو رہا ہے۔ مغربی میڈیا میں اب خبریں اور اشتہارات ایک ہوچکے ہیں۔ یہی کچھ بھارت میں بھی ہو رہا ہے۔
چند ماہ قبل کرکٹ کے ایک بڑے ایونٹ انڈین پریمیئر لیگ کے دوران دو ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے پتا چلتا ہے کہ میڈیا کی کوریج کا معیار کیا ہے۔ شاہ رخ خان کو ممبئی کے وانکھیڈے اسٹیڈیم میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ ایک سیکورٹی گارڈ نے شاہ رخ خان سے بدتمیزی کی۔ یہ معاملہ میڈیا میں اس وقت تک چھایا رہا جب تک آسٹریلوی کرکٹر لیوک پامرز بیک (Luke Pomersbach) اور زوہا حمید (Zohal Hameed) کا اسکینڈل سامنے نہیں آگیا۔
ٹی وی کے نیوز چینل دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں صرف وہی لوگ خبروں میں جگہ پانے کے قابل ہیں، جو کچھ ہیں۔ کسی غریب اور اس سے متعلق کسی بھی ایونٹ کو خبروں میں جگہ پانے کا کوئی حق ہی نہیں ہے۔ بھارت بھر میں ہر سال لاکھوں لڑکیوں کو پیدائش سے قبل ہی قتل کردیا جاتا ہے۔ ہزاروں ایسی ہیںجو جہیز نہ لانے کی پاداش میں جلادی جاتی ہیں یا طعنے سُن سُن کر اپنے آپ کو نذر آتش کردیتی ہیں۔ ہزاروں خواتین کو عفت سے محروم کرنے کے بعد قتل کردیا جاتا ہے مگر ان کا میڈیا میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ایک مشہور کرکٹ ٹیم کے مشہور رکن کا کسی لڑکی سے اسکینڈل سامنے آئے اور زیادتی ثابت ہو تو میڈیا کے لیے اِس خبر میں زیادہ ’’جُوس‘‘ ہوتا ہے کیونکہ ناظرین کے لیے یہ خبر زیادہ پُرکشش ہوتی ہے۔
بھارت میں روزانہ ہزاروں خواتین سے زیادتی ہوتی ہے، ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور انہیں سر عام تذلیل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے مگر ان کا ذکر میڈیا میں خال خال ملتا ہے۔ جدید خیالات کی حامل اور مغربی انداز کی وہ خواتین میڈیا کی ساری توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں جو میڈیا پر آنے کی بھوکی بھی ہوتی ہیں۔ خواتین سے زیادتی، تشدد اور قتل جیسے جرائم کی خبریں روزانہ اخبارات میں ذرا سی جگہ پاتی ہیں اور بیشتر واقعات کی تو خیر رپورٹنگ ہی نہیں کی جاتی۔
بھارت کئی مسائل میں بُری طرح الجھا ہوا ہے۔ ان میں افلاس، خواتین سے زیادتی، قتل اور ماحول کی ابتر حالت نمایاں ہیں مگر مرکزی دھارے کے میڈیا میں اِن مسائل کا ذکر شاذ و نادر ہی سنائی دیتا ہے۔
بلند و بالا عمارات سے کھیتوں تک ہر مقام پر وہ لوگ رات دن محنت میں مصروف ہیں جنہیں ان کی محنت کا صلہ نہیں ملتا اور ان کی محنت پر پلتے وہ لوگ ہیں جو اِس نوعیت کی محنت نہ صرف یہ کہ کرتے نہیں بلکہ جانتے بھی نہیں۔ ان کی رہائش بلند عمارات کی بالائی منزلوں میں ہوتی ہے، زندگی کے مسائل سے بہت دور۔
بھارت بھر میں کروڑوں افراد کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا زندگی کا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ ہے مگر شہروں میں بسنے والوں اور ان کے لیے چلائے جانے والے ٹی وی چینلوں کے لیے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ کسی بھی جدید شاپنگ مال یا سپر اسٹور کی سیر کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ڈیزائنرز جینز اور اسپورٹس ویئر کی قیمتیں سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ دنیا بھر سے بہترین برانڈز اب بھارت میں بھی جگہ بنا چکے ہیں۔ کنزیومر ازم اپنے زرّیں دور سے گزر رہا ہے۔ شہروں کے بڑے اسٹورز کے شاندار شوکیسوں میں بہترین انٹر نیشنل برانڈ دستیاب ہیں۔ یہ دنیا لنگیوں (دھوتیوں)، بھاپ اڑاتی چائے یا بھوک کی کمی سے ہڈیوں کا ڈھانچا بن جانے والے والدین اور ان کے بھوکے بچوں کی نہیں۔
یہ لاکوستے (Lacoste)، نایک (Nike) اور بیرستو (Baristo) کی دنیا ہے۔ یہ ایسی دنیا ہے جس میں ایک کپ کافی کی قیمت ملک بھر میں عام آدمی کی ایک دن کی اجرت کے مساوی بھی ہوسکتی ہے۔ صَرف کا رُجحان نقطۂ عروج پر ہے۔ ہر طرف مادّہ پرستی کا دور دورہ ہے۔ یہ بڑی بڑی، فوروہیل گاڑیوں کی دنیا ہے۔ یہ ہے جدید بھارت۔ اس کے ساتھ ہی وہ پرانا بھارت ہے جو کنزیومر ازم کا کچرا اٹھانے پر مامور ہے۔
شہروں کے شاندار شاپنگ مال اُن غریب عورتوں نے بنائے ہیں جن کے بچے قریب ہی مٹی میں اور کچرے کے ڈھیر پر کھیلتے رہے ہوں گے۔ غریب عورتوں نے یہ شاندار شاپنگ مال اُن مال دار عورتوں کے لیے بنائے ہیں جو شاپنگ کرتی پھرتی ہیں اور ان کے بچوں کو نوکر سنبھالتے ہیں۔
بھارت کا بڑا حصہ شدید افلاس اور محرومی کے شکنجے میں ہے جبکہ ایک چھوٹا سا حصہ دولت پر قابض ہے اور اس امر کا نئے سرے سے تعین کرنے میں مصروف ہے کہ کون کیا ہے اور کسے اہمیت دی جانی چاہیے۔ ان چند لوگوں نے خود کو یہ طے کرنے پر مامور کرلیا ہے کہ بھارت کے لیے کون اہم ہے اور کون نہیں۔ یہ ایسا کنزیومر ازم اور نیا لبرل ازم ہے جو صرف تقسیم و تفریق پر یقین رکھتا ہے۔
مگر کیا کیجیے کہ یہی وہ دنیا ہے جس میں ہم سب جی رہے ہیں۔ کسی کو اس بات سے کیا غرض کہ کسی دلت عورت کی عزت پر حملہ کیا گیا اور پھر اسے قتل کردیا گیا۔ یہ بات اب کس کے لیے اہم ہے کہ نیپال سے لڑکیوں کو لاکر بھارت کے بڑے شہروں اور پس ماندہ علاقوں میں واقع جسم فروشی کے اڈوں پر بٹھا دیا جاتا ہے۔
یہ تمام خرابیاں اور پیچیدگیاں کوئی اہمیت اِس لیے نہیں رکھتیں کہ یہ تو معاشرے کا حصہ ہیں، معمول ہیں۔ میڈیا کی شہ سرخیوں کے لیے اِن باتوں میں کوئی کشش نہیں۔ متوسط طبقے کے لیے اِن باتوں میں ذرا بھی جاذبیت نہیں۔ چینلوں کو آمدنی بڑھانے سے غرض ہے۔ جس چیز سے آمدنی بڑھ سکتی ہے وہی چلے گی۔ سفید چمڑی والی ایک عورت کا معاملہ آسٹریلوی کرکٹر کے ساتھ تھا۔ میڈیا کے لیے اِس خبر میں زیادہ کشش تھی کیونکہ کالی چمڑی ’’آؤٹ‘‘ اور گوری چمڑی ’’اِن‘‘ ہے! اشتہارات میں بھی تو رنگت گوری کرنے والے سامان کی بھرمار ہے۔ اِس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ رنگت گوری ہونے کا مطلب خوبصورت ہونا ہے۔
مغربی دنیا
یہی حال شخصی آزادی کا بھی ہے۔ مختلف طریقوں سے میڈیا نے لوگوں کو یہ بھی تسلیم کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ اُن کی انفرادی زندگی زیادہ اہم ہے، شخصی اوصاف کی طرح شخصی معاملات اور ترقی بھی زیادہ اہم ہے! میڈیا کے ذریعے ہر شخص کے ذہن میں یہ بات ٹھونسی گئی ہے کہ دوسروں سے الگ دکھائی دینا ہی کچھ ہوتا ہے۔ کنزیومر ازم کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے لیے لوگوں کو اشتہارات کے ذریعے زیادہ سے زیادہ خریداری کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اُنہیں باور کرایا جاتا ہے کہ اگر اُنہوں نے فلاں فلاں برانڈ کی چیزیں نہ خریدیں تو اُن کی زندگی میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور رہ جائے گی۔
زیادہ سے زیادہ صَرف کا رجحان اور فرقہ واریت پر مبنی شناخت کے بجائے شخصی آزادی کی بنیاد پر نمایاں انفرادی حیثیت کا تصور آزاد منڈی کی معیشت کو فروغ دینے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اب ایسی بہت سی اشیا ہیں جو مشہور شخصیات کی تصدیق کی بدولت اور غیر معمولی کوریج والے آئی پی ایل جیسے ایونٹس کے ذریعے ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ ہم اِن ڈسپوزیبل اشیا کو اپنے وجود کا حصہ بناچکے ہیں۔ بھارت کے انتہائی پس ماندہ علاقوں میں بھی اب ایک نیا بھارت جنم لے رہا ہے کیونکہ ٹیکنالوجی کی بدولت اب ٹی وی کی نشریات دیہی علاقوں میں بھی قدم جماچکی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ نیا، بے باک بھارت کس کا ہے؟ اس کے معیارات کون طے کر رہا ہے اور ان معیارات سے کِسے فائدہ پہنچے گا؟ ٹی وی چینلوں پر پیش کی جانے والی خبروں اور اشتہارات پر ذرا توجہ سے نظر ڈالیے تو اندازہ ہو جائے گا کہ پردے کے پیچھے کون ہے۔
کیا واقعی آپ میں بہت دم خم ہے؟ کیا آپ میں فی الواقع غیر معمولی کشش ہے اور کیا واقعی میڈیا چلانے والوں کو آپ کے مفادات سے اِس قدر غرض ہے کہ وہ آپ کا بھلا چاہتے ہیں؟ اِن تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ میڈیا پر پیش کیے جانے والے اشتہارات کی رُو سے آپ میں کئی اعتبار سے کمی پائی جاتی ہے۔ کنزیومر آئٹمز اور اُن کی فروخت سے متعلق اشتہارات تیار کرنے والوں کی نظر میں آپ کی کوئی وقعت نہیں۔ اگر آپ کی کچھ وقعت ہوتی تو وہ یہ کیوں کہتے کہ فلاں پروڈکٹ استعمال کرکے اپنی وقعت بڑھائیے؟ سچ یہی ہے کہ آپ کو ایسی اشیا خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو کچھ دیر کے لیے آپ کو کچھ اچھا محسوس کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں اور پھر آپ اِن اشیا کے مستقل خریدار ہو جاتے ہیں۔
جب تک کنزیومر ازم کے نقطۂ نظر سے ہماری نفسی بھوک مٹائی جاتی رہے گی اور مشہور شخصیات اور بڑے ایونٹس کے ذریعے اشیا کی توثیق کی جاتی رہے گی، بیشتر صارفین کنزیومر ازم اور تجارتی ذہنیت کو چیلنج تو کیا کرسکیں گے، وہ اِن حقائق کو سمجھنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
[کولن ٹاڈ ہنٹر کا تعلق شمال مغربی انگلینڈ سے ہے مگر اُنہوں نے بھارت میں کئی سال گزارے ہیں۔ انہوں نے ’’دکن ہیرالڈ‘‘، ’’نیو انڈین ایکسپریس‘‘ اور ’’مارننگ اسٹار‘‘ (برطانیہ) کے لیے بہت لکھا ہے۔ ان کی تحریریں کئی دوسرے اخبارات، جرائد اور کتب میں بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔]
(“From Bollywood to Hollywood”… “Global Research”. September 1st, 2012)
Leave a Reply