
میانمار (برما) ایک زمانے سے آمریت کے شکنجے میں چلا آرہا ہے۔ ملک کی جمہوری قوتیں اب تک اپنے آپ کو پوری طرح منوانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ میانمار میں آمریت کی راہ ترک کرکے جمہوریت کی شاہراہ پر گامزن ہونے کا عمل انتہائی پیچیدہ اور خطرناک ہے۔ معمولی سی غلطی ملک کو دوبارہ آمریت کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
میانمار میں پولنگ کے تمام مراحل مکمل ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر آنگ سانگ سوچی کی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے ۸ نومبر سے شروع ہونے والے انتخابات میں مجموعی طور پر ۷۷ فیصد نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ حکمراں فوجی قیادت کی حمایت یافتہ یونین سالیڈیریٹی اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے شرمناک حد تک معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف ۱۰ فیصد نشستیں حاصل کی ہیں۔ یہ سب کچھ بہت حیرت انگیز ہے۔ اگر یہ بات ذہن نشین رکھی جائے کہ ابھی پانچ سال قبل تک میانمار میں فوج حکمران تھی، اپوزیشن کے تمام رہنما نظر بند تھے اور جمہوریت کی راہ کسی بھی طرف سے ہموار ہوتی دکھائی نہ دیتی تھی تو نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی کامیابی غیر معمولی ہے۔ اب وہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت کی حامل ہے اور بہت آسانی سے اپنا صدر منتخب کرسکتی ہے۔
میانمار میں آمریت سے جمہوریت تک کا سفر ابھی مکمل نہیں ہوا مگر پھر بھی جو کامیابیاں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے حاصل کی ہیں، اُن کی اہمیت بہت سے دوسرے ممالک میں اس حوالے سے رونما ہونے والی ناکامیوں کی روشنی میں بہت زیادہ ہے۔ جب میانمار میں آمریت سے جمہوریت کی طرف سفر جاری تھا، تب عرب دنیا میں بیداری کی لہر دوڑی تھی اور کئی ممالک نے جمہوریت کی طرف سفر شروع کیا تھا۔ ان میں سے صرف تیونس ہی اب تک مستحکم رہ پایا ہے اور وہاں جمہوریت نے کسی حد تک قدم جمالیے ہیں۔ مصر کا نظامِ حکومت پہلے سے زیادہ جابرانہ ہوگیا ہے۔ شام اور لیبیا اب میدانِ جنگ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ایسے میں میانمار کا تجربہ بہت اچھا اور کامیاب رہا ہے جس پر وہاں کے سیاست دانوں کو فخر کرنا ہی چاہیے۔ میانمار میں جو کچھ ہو رہا ہے، اُس کا اثر خطے کے دوسرے ممالک پر کچھ زیادہ نہ پڑا۔ تھائی لینڈ کے لوگوں نے ۲۰۱۱ء میں جواں سال ینگلوک شناواترا کو وزیراعظم منتخب کیا۔ یہ الگ بات کہ بعد میں فوجی بغاوت کے ذریعے ان کی وزارتِ عظمیٰ اور جمہوریت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ کمبوڈیا اور ملائیشیا میں ۲۰۱۳ء میں ایسے انتخابات ہوئے جن میں غیر معمولی نقائص تھے۔ اپوزیشن نے نتائج قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے انتخابی اصلاحات اور دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا۔ اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی کے باعث دونوں ممالک میں حالات خراب ہوئے۔ چین اور ویت نام میں اب بھی مخالفین کو قید کرنے کا رجحان عام ہے۔
کسی بھی ملک میں جمہوریت کی طرف سفر کو ہر اعتبار سے فوری کامیاب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تھائی لینڈ ہو یا کوئی اور ملک، آمریت سے جمہوریت کی طرف جاتے ہوئے ہر قدم پر کامیابی کی ضمانت فراہم نہیں کی جاسکتی۔ کئی ممالک نے جمہوریت کی طرف سفر شروع تو کیا مگر چند ہی قدموں پر تھک کر بیٹھ گئے۔ ایسے میں اس بات کی کیا ضمانت دی جاسکتی ہے کہ میانمار میں جمہوریت کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ میانمار کے لیے بھی جمہوریت کی طرف لے جانے والا راستہ پُرخار ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ جن کے ہاتھ سے سب کچھ چِھنتا محسوس ہو، وہ بھلا یہ سب کیوں گوارا کریں گے؟
سب سے پہلے تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انتخابات خواہ کسی شکل میں ہوں، جمہوریت کی طرف لے جانے والا راستہ ہوتے ہیں۔ اگر انتخابات باقاعدگی سے ہوتے رہیں تو لوگوں میں رفتہ رفتہ جمہوریت کی طرف رواں ہونے کا شعور پیدا ہوتا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں آمرانہ حکومتیں بھی خود کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے نام نہاد ہی سہی، انتخابات کا انعقاد کرتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے مفادات کے لیے انتخابات میں دھاندلی بھی کی جاتی ہے مگر خیر اس کے باوجود انتخابات کی اہمیت ہے۔ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومتیں جتنی بھونڈی ہوتی ہیں، عوام میں جمہوریت کی طلب اُتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ ۱۹۹۰ء اور اس کے بعد سے میانمار میں فوجی قیادت نے کئی بار نام نہاد انتخابات میں کامیابی حاصل کی مگر عوام کے ذہن میں یہ بات پختہ تر ہوتی گئی کہ ایسے نام نہاد انتخابات سے بننے والی حکومت کسی کام کی نہیں ہوتی۔ نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے کئی بار انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ اس کے نتیجے میں فوجی قیادت پر بھی دباؤ بڑھا کہ انتخابات شفاف ہونے چاہئیں تاکہ عوام کے حقیقی نمائندے منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچیں۔ اور جب انتخابات واقعی شفاف اور غیر جانب دارانہ ہوئے تو نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے بھرپور کامیابی حاصل کرلی۔
جو کچھ میانمار میں ہوا وہی کچھ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں برازیل اور میکسیکو میں ہوا تھا۔ برازیل میں فوجی حکومت نے سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا مگر جب جرنیلوں کی مقبولیت میں کمی واقع ہونے لگی، تب اپوزیشن نے عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے فوجی قیادت پر دباؤ بڑھایا تاکہ وہ اقتدار کی باگ ڈور عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے کریں۔ فوجی قیادت نے ۱۹۶۴ء میں منتخب حکومت کا تختہ الٹا جس کے بعد اپنی مرضی کے انتخابات کا انعقاد کیا تاکہ عوام پر یہ ثابت کرسکیں کہ وہ بھی سیاست دانوں کی طرح ملک کو بہتر انداز سے چلا سکتی ہے۔ مگر عوام کو تادیر بے وقوف بنانا ممکن نہیں ہوتا۔ ۱۹۸۵ء میں فوجی قیادت نے انتخابات میں شکست تسلیم کی اور سویلین صدر ٹنکریڈو نیویز کو اقتدار سونپ دیا۔ میکسیکو میں فوج کی قائم کردہ انسٹی ٹیوشنل ریوولیوشنری پارٹی نے انتخابات تب تک قبول کیے، جب تک ان میں دھاندلی ممکن تھی اور مرضی کے نتائج حاصل کرنا بہت آسان تھا۔ مگر دھاندلی کے نتیجے میں عوام کی طرف سے شفاف انتخابات کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔ اور پھر یہ ہوا کہ فوج کی طرف سے انتخابات کو اپنی مرضی کا رکھنے کی کوششیں بیک فائر کرگئیں اور حقیقی جمہوریت کی راہ ہموار ہوتی گئی۔
۱۹۸۸ء میں یہ ہوا کہ انتخابات کی شب اپوزیشن لیڈر کی پوزیشن بہت بہتر تھی مگر صبح کو ووٹوں کی گنتی کے انچارج وزیر مینیوئل بارٹلیٹ نے اعلان کیا تھا کہ انتخابی نتائج تیار کرنے والے کمپیوٹرز رات گئے کریش ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی حکمراں عسکری پارٹی نے اپنی بھرپور فتح کا اعلان کردیا، عوام نے اندازہ لگالیا کہ وہ دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ روزِ روشن کی طرح واضح انتخابی دھاندلی نے ان میں غیر معمولی سیاسی و جمہوریتی شعور پیدا کیا جس کے نتیجے میں انتخابی اصلاحات کی راہ ہموار ہوتی گئی۔ اور پھر جب ۱۹۸۶ء میں غیر جانب دار الیکشن کمیشن قائم کیا گیا، تب عوام نے جمہوریت کی طرف سفر شروع کیا۔ ۲۰۰۰ء کے عام انتخابات میں میکسیکو کے عوام نے انسٹی ٹیوشنل ریوولیوشنری پارٹی کو ناکامی سے دوچار کیا، فوجی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور ملک میں حقیقی جمہوریت کی راہ ہموار کردی۔
یہ بات کسی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ آمریت سے جمہوریت تک کا سفر اُس وقت زیادہ کامیاب رہتا ہے جب ملک میں جاری نظامِ حکومت کے چلانے والے اپنی ذمہ داری کو کسی حد تک محسوس کریں اور عوام کی طاقت کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے انکار نہ کریں۔ میانمار کے جابر ترین حکمرانوں میں سے ایک تھان شا کے دور میں اصلاحات کا عمل شروع ہوا۔ یہ ۲۰۰۰ء کے اوائل کی بات ہے۔ بات یہ تھی کہ عوام کی رائے تبدیل ہو رہی تھی۔ وہ فوجی حکومت کو مزید برداشت کرنے کے موڈ میں نہ تھے اور نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کو امیدوں کا مرکز بنائے ہوئے تھے۔ فوجی حکمرانوں نے بھی محسوس کرنا شروع کیا کہ اگر انہوں نے اصلاحات نہ کیں اور جمہوریت کی راہ ہموار کرنے میں دیر کی تو ملک کا وجود ہی داؤ پر لگ جائے گا۔ تھان شا نے ۲۰۰۸ء میں نیا آئین متعارف کرایا اور ۲۰۱۱ء میں اقتدار سے الگ ہو کر تھین شین کے برسر اقتدار آنے کی راہ ہموار کی جو آنگ سانگ سوچی کے ساتھ کام کرنے کو تیار تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئین میں فوج کو بہت سے ایسے اختیارات اور مراعات سے نوازا گیا تھا جن کا کوئی جواز نہ تھا مگر یہ کہ آئین کی رو سے فوج کو پارلیمنٹ میں ۲۵ فیصد نشستیں دے دی گئی تھیں، مگر اس کے باوجود جمہوری قوتوں نے اصلاحات کے نام پر امتیازی مراعات دینا گوارا کیا کیونکہ ملک بہرحال جمہوریت کی طرف گامزن تو ہوا تھا۔ جرنیلوں کو یقین تھا کہ اگر جمہوریت آئے گی بھی تو ان کا کچھ نہ کچھ حصہ اس کے اندر ضرور ہوگا۔
ایسا ہی کچھ جنوبی افریقا میں ۱۹۹۰ء اور اسپین میں ۱۹۷۰ء کے عشرے میں ہوا تھا۔ افریقن نیشنل پارٹی نے عشروں تک ایک ایسا نظام چلایا تھا جس میں اکثریت رکھنے والے سیاہ فام افراد کے لیے ووٹ کاسٹ کرنا ممنوع تھا۔ نسل پرستی پر مبنی یہ نظام سیاہ فام اکثریت کے لیے انتہائی امتیازی نوعیت کا تھا مگر اس کے باوجود چلایا جاتا تھا۔ ۱۹۹۰ء کے اوائل میں نیشنل پارٹی نے آئین میں تبدیلیاں متعارف کراتے ہوئے سیاہ فام اکثریت کو ووٹ کے حق سے ہمکنار کرنے کا فیصلہ کیا مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی یقینی بنائی گئی کہ سفید فام اقلیت کی املاک کو کچھ نہیں ہوگا۔ آئین کے تحت اس کی ضمانت حاصل کرنے کے بعد سیاہ فام اکثریت کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ یوں ملک میں نسل پرستی کا خاتمہ ممکن ہوسکا۔
اسپین میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ فوجی آمر ہی نے اپنا جانشین منتخب کیا جس نے جمہوریت کی طرف سفر شروع کیا۔ جنرل فرانسسکو فرانکو نے کنگ جوآن کارلوس کو اپنا جانشین منتخب کیا جس کے بارے میں کم لوگوں کو یقین تھا کہ وہ ملک کو جمہوریت کی طرف لے جانے میں کامیاب ہوگا۔ کنگ جوآن کارلوس نے ایڈولفو سواریز کو وزیراعظم منتخب کیا جس نے ملک میں حقیقی سیاسی اصلاحات کی راہ ہموار کی۔ فوج کے بہت سے افسران کو کنگ جوآن کارلوس پر بھرپور اعتماد تھا کیونکہ فوج سے اس کے گہرے تعلقات تھے۔ ۱۹۸۱ء میں فوج کے چند اعلیٰ افسران نے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی تو کنگ جوآن کارلوس سے توقع وابستہ کی کہ وہ ساتھ دے گا مگر اس نے ایسا نہیں کیا اور حقیقی جمہوریت کی بنیاد ڈال دی۔
دنیا بھر میں تبدیلی کے لیے متبادل راستہ تشدد کا ہے۔ کئی ملکوں میں آمریت کے خلاف جدوجہد قتل و خون پر مبنی رہی ہے۔ مگر یہ بھی ایک المناک حقیقت ہے کہ قتل و غارت سے مزید قتل و غارت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں جمہوریت کے لیے وہی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہوتی رہی ہیں جو اندر سے اٹھی ہیں اور پُرامن طریقے سے اصلاح اور تبدیلی کے لیے کام کرتی آئی ہیں۔ میانمار میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے جو کچھ کیا، وہی جنوبی افریقا میں نیشنل پارٹی نے بھی کیا۔ یہ پارٹی اگرچہ نسل پرستی پر مبنی پالیسیوں پر عمل پیرا رہی تھی مگر اس کے باوجود اس نے تبدیلی کی راہ بھی ہموار کی اور ایسا کرنے میں کامیاب رہی۔ جنوبی کوریا میں دو Kim ملک کو حقیقی جمہوریت کی طرف لے جانے میں کامیاب رہے۔ انڈونیشیا میں سوہارتو نے ۱۹۶۷ء سے ۱۹۸۹ء تک خاصی قوت کے ساتھ حکومت کی مگر جب ملک معاشی بحران کی زد میں آیا اور عوام نے جابر حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تب سوہارتو کو بھی عوام کی رائے کے سامنے جھکنا پڑا۔ پولینڈ میں بھی یہی ہوا۔ لیخ ویلیسا کی سربراہی میں محنت کشوں کی پارٹی سالیڈیریٹی نے حکمرانوں کو یقین دلا دیا کہ اب ان کے دن پورے ہوچکے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان میں سے ہر کیس میں عوامی تحریک نے بھرپور کامیابی حاصل کرلی، مگر اہم بات یہ ہے کہ عوام نے بھرپور احتجاج کے ذریعے اپنی بات منوائی نہ کہ قتل و غارت کی راہ پر چلتے ہوئے کچھ کیا۔ حالیہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حقیقی سیاسی تبدیلی پرامن سیاسی تحریک کے نتیجے میں یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ جن ممالک میں قتل و غارت کے ذریعے کوئی بڑی سیاسی تبدیلی لانے کی کوشش کی جاتی ہے، وہاں معاشرہ شکست و ریخت کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے۔
کسی بھی آمریت زدہ معاشرے میں حقیقی جمہوری قوتیں جب بات چیت کا راستہ اختیار کرتی ہیں تو معاملات بہتری کی طرف جاتے ہیں۔ میانمار میں اینگریس نامی تھنک ٹینک نے فوج اور سیاسی قوتوں کے درمیان رابطے بہتر بنانے کا فریضہ انجام دیا جس کے نتیجے میں قتل و غارت کے بغیر حقیقی سیاسی تبدیلیوں کی راہ ہموار ہوئی۔ اس ادارے کا ایک بانی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کا رکن تھا جس نے فریقین کو مذاکرات کی میز تک لانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس شخصیت کے والدین نے ڈیفنس سروسز اکیڈمی میں تعلیم دی تھی جس کی بدولت اسے فوجی حلقوں کا اعتماد بھی حاصل تھا۔ اینگریس نے فوج اور سیاست دانوں کے درمیان پُل کا کردار ادا کیا یعنی ۲۰۱۱ء میں تھین شین اور آنگ سانگ سوچی کی ملاقات کی راہ ہموار کی۔ ایسا ہی کچھ تیونس میں بھی ہوا تھا۔ وہاں قتل و غارت پر بات چیت کو ترجیح دی گئی۔ نظامِ حکومت کی تبدیلی میں چند اعلیٰ شخصیات نے مرکزی کردار ادا کیا۔
حقیقی سیاسی تبدیلیوں کے لیے پڑوسی بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مشرقی یورپ کے بیشتر ممالک سابق سوویت یونین کے زیر اثر تھے۔ جب سوویت یونین کی تحلیل ہوئی تو مشرقی یورپ کے ممالک نے مغربی یورپ کی طرف دیکھا۔ مغربی یورپ جدید، خوش حال اور مضبوط تھا۔ وہاں لبرل ڈیموکریسی تھی۔ مشرقی یورپ کے ممالک کو یقین تھا کہ مغربی یورپ انہیں اپنائے گا اور ان کے معاشی استحکام میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ یورپی یونین نے مشرقی یورپ کو مکمل تباہی کی طرف جانے سے روکنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ میکسیکو نے بھی غیر معمولی سیاسی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے امریکا اور کینیڈا کے ساتھ نارتھ امریکا فری ٹریڈ ایگریمنٹ میں شمولیت اختیار کی جس کے نتیجے میں اس کی معیشت مکمل تباہی سے محفوظ رہی۔ جنوبی کوریا اور تائیوان کو سیاسی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے بھرپور مدد درکار تھی جو امریکا نے فراہم کی۔
عوامی بیداری کی حالیہ لہر کے دوران عرب ممالک مجموعی طور پر اِس لیے ناکام رہے کہ ان کے درمیان اسرائیل کے سوا کوئی بھی حقیقی جمہوری ملک نہ تھا جس کی طرف دیکھ کر وہ تحریک پاسکتے۔
میانمار کا معاملہ کامیاب اس لیے رہا ہے کہ انتقام لینے پر ذرا بھی یقین نہیں رکھا گیا۔ نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی میں ایسے افراد کی تعداد کم نہیں جن پر فوجی حکومت نے بہت مظالم ڈھائے مگر یہ لوگ انتقام پر یقین نہیں رکھتے۔ انہیں اندازہ ہے کہ اگر سابق حکمرانوں کو کسی ملکی عدالت یا بین الاقوامی میں گھسیٹا گیا تو انتقام در انتقام کا سلسلہ شروع ہوگا جس کے نتیجے میں جمہوریت داؤ پر لگ جائے گی۔ جنوبی افریقا میں نیلسن مینڈیلا اور ڈیسمنڈ ٹوٹو نے بھی اپنے چاہنے والوں اور حامیوں سے یہی استدعا کی کہ وہ انتقام کی سیاست کا شکار نہ ہوں۔ دی ٹروتھ اینڈ ری کونسیلئیشن کمیشن نے مظالم کے اعتراف کا ریکارڈ تو تیار کیا مگر کسی کے خلاف کارروائی مناسب نہ جانی۔ اور اس کے نتیجے میں ملک مستحکم ہوا۔
ایسا نہیں ہے کہ معاف کردینا ہر معاملے میں کارگر ہی ثابت ہوا ہو۔ سابق نظامِ حکومت کی بہت سی انتہائی طاقتور اور سفاک شخصیات کو معاف کردینا خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے، بالخصوص اس وقت کہ جب انہیں کام کرنے سے نہ روکا جائے۔ یہ لوگ ایک بار پھر بھرپور طاقت کے ساتھ نئے نظام کے لیے خطرہ بھی بن سکتے ہیں۔ یعنی جمہوریت کو بچانے کے لیے ان پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ اسی ایک طریقے سے انہیں خرابیاں پیدا کرنے سے روکا جاسکتا ہے۔
مصر، تھائی لینڈ اور روس میں یہی ہوا تھا۔ میانمار میں جن لوگوں نے حقیقی تبدیلی کی راہ ہموار کی ہے، انہوں نے اس بات کا بھی خیال رکھا ہے کہ پچھلے نظامِ حکومت کے لوگ زیادہ طاقتور نہ ہو پائیں اور ملک میں ایک بار پھر خرابیوں کو راہ نہ ملے۔ جب جرمنی ایک ہوئے تب سابق مشرقی جرمنی کی خفیہ پولیس کے تمام اعلیٰ افسران کو ہٹایا گیا تاکہ وہ مثبت تبدیلی کے لیے کوئی حقیقی خطرہ بن کر نہ ابھر سکیں۔ مگر روس میں کے جی بی کے سابق اعلیٰ افسران ولادی میر پوٹن کو اقتدار میں آنے سے روکا نہ جاسکا۔ بورس یلسن کے دور میں پوٹن نے طاقت حاصل کی۔ روس میں یہ نظریہ مجموعی طور پر ناکام رہا ہے کہ قانون سے کوئی بھی بالا نہیں۔
کسی بھی ملک میں جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لیے لازم ہے کہ معاملات کو متوازن رکھنے پر توجہ دی جائے یعنی نئے نظام کے تحت کام کرنے والوں پر فرض ہے کہ سابق حکمران طبقے کو کنٹرول میں رکھنے کی بھرپور کوشش کریں۔ اگر وہ اس معاملے میں غفلت برتیں گے تو ملک ایک بار پھر ناکامی کی طرف جائے گا اور آمریت پھر مسلط ہوجائے گی۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“From dictatorship to democracy: The road less travelled”. (“The Economist”. Nov. 28, 2015)
Leave a Reply