
دس سال قبل عرب دنیا میں عوامی بیداری کی ایک ایسی لہر (عرب اسپرنگ) اٹھی جس نے بہت کچھ الٹ، پلٹ کر کے رکھ دیا۔ عوامی بیداری کی اس لہر نے نئی امیدوں کو جنم دیا اور یوں بہت کچھ بدل گیا۔ دس سال قبل عوامی سطح پر ابھرنے والی جذبات کی اس لہر نے بعض ایسی حکومتوں کو ختم کردیا، جن کے خاتمے کی کوئی راہ دکھائی نہ دیتی تھی اور اور پھر عوامی بیداری کی اس لہر کے بطن سے ایک ایسی تحریک نے بھی جنم لیا جس نے خلافت کے احیا کا بیڑا اٹھایا۔ یوں مشرقِ وسطیٰ نے اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ایسے واقعات کے ساتھ قدم رکھا جن پر بظاہر کسی کا کوئی اختیار نہ تھا۔ عوامی بیداری کی اس لہر نے بعض ایسے واقعات کو جنم دیا جن کے دور رس اثرات مرتب ہونے تھے اور ہوئے، تاہم مشکل یہ ہے کہ عرب دنیا میں عوامی سطح پر بیداری کی لہر کے اٹھنے سے جن تبدیلیوں کا خواب دیکھا گیا تھا وہ اب تک شرمندۂ تعبیر ہونے کی منزل سے بہت دور ہے۔
مصر، تیونس، لیبیا اور یمن میں بیداری کی لہر نے غیر معمولی تبدیلیوں کو راہ دی۔ عوام میں غیر معمولی جوش و خروش تھا۔ ایسے میں اصلاحات کا سوچا گیا۔ توقع یہ تھی کہ جب اصلاحات کا عمل مکمل ہوگا تو ان ممالک کی تقدیر بدل جائے گی۔ افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ آمریت کا ایک دور ختم ہوا تو دوسرا شروع ہوا یا پھر خرابیوں نے ان ممالک کا رخ کرلیا۔ یمن، لیبیا اور شام میں خانہ جنگی چھڑگئی۔ یہ سلسلہ بہت حد تک اب بھی برقرار ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ عرب دنیا میں عوامی بیداری کی جو لہر اٹھی تھی وہ راتوں رات ختم ہوگئی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ آٹھ سال بعد لبنان، سوڈان، الجزائر اور عراق میں بھی عوامی بیداری کی لہر اٹھی اور بہت سے معاملات کو پلٹ کر رکھ دیا۔ لبنان کی مصنفہ اور مترجم لینا منذر کا خاندان لبنان اور شام میں منقسم ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ بہت سے معاملات اس قدر تبدیل ہوچکے ہیں کہ آسانی سے شناخت نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات تو اب ثابت ہوچکی ہے کہ عوام چاہیں تو طویل مدت سے اقتدار پر قابض کسی بھی آمر کے خلاف کامیاب تحریک چلاسکتے ہیں۔ سوال صرف ہمت سے کام لینے کا ہے۔
عرب بہار کی ابتداء ۱۷ دسمبر ۲۰۱۰ء کو تیونس کے شہر سیدی بوزید سے ہوئی، جب ایک شخص نے پولیس کی طرف سے ہراساں کیے جانے پر تنگ آکر گورنر کے دفتر کے سامنے پٹرول چھڑک کر خود سوزی کی۔ تیونس یا خطے میں خود سوزی کرنے والا محمد بوعزیزی پہلا شخص نہیں تھا مگر اس کی موت نے ایسی آگ لگائی جس کا دائرہ دیکھتے ہی دیکھتے وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ سرکاری میڈیا پر سخت پابندیوں کے باعث اس کی کہانی پھیلی بھی نہیں تھی مگر پھر بھی بات لوگوں تک پہنچ گئی۔ خود کو آگ لگانے والا بو عزیزی ۴ جنوری کو چل بسا۔ تب تک احتجاج کا دائرہ ملک گیر ہوچکا تھا۔ زین العابدین بن علی کا ۲۳ سالہ اقتدار بالآخر ختم ہوا۔ دس دن بعد تیونس کے صدر زین العابدین بن علی کو سعودی عرب فرار ہونا پڑا۔ اور اس کے بعد مصر، لیبیا اور یمن میں بھی احتجاج شروع ہوگیا، لوگ سڑکوں پر آگئے۔
مصر میں غیر معمولی احتجاجی لہر دکھائی دی۔ مصر کا دارالحکومت قاہرہ خطے کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس شہر میں لاکھوں افراد نے گھروں سے نکل کر تحریر اسکوائر کا رخ کیا اور ریاستی جبر کا سامنا کرتے ہوئے احتجاج جاری رکھا۔ تیس سال سے اقتدار پر قابض حسنی مبارک نے چاہا کہ مظاہرین کو سختی سے کچل دیا جائے۔ تحریر اسکوائر کے ارد گرد فوج کے وہ دستے بھیجے گئے جو خطرناک ترین صورتِ حال کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے نمٹنے کے معاملے میں خصوصی دستوں نے، ہدایات کی روشنی میں، خاصی سفّاکی دکھائی۔ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا مگر اس کے باوجود لوگوں نے ہمت نہ ہاری اور حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کرنے کے حوالے سے کاوش جاری رکھی۔ جو کچھ قاہرہ سمیت پورے مصر میں دکھائی دیا اُس نے خطے ہی کو نہیں بلکہ دور افتادہ ممالک میں بھی آمریت کے خلاف احتجاج کو ہوا دی۔
مصر کے لوگوں نے جو کچھ کیا اُس نے تاریخ رقم کی۔ خطے میں چند آمر عشروں سے اقتدار سے چمٹے ہوئے تھے۔ مصر میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک نے پورے خطے میں عوام کو ظلم کے خلاف کھڑا ہونے کا حوصلہ بخشا۔ مصر میں جو کچھ ہو رہا تھا وہ دیکھتے ہی دیکھتے خطے کے متعدد ممالک میں ہونے لگا۔ مصر کے سینئر صحافی احدف السیف نے برطانوی اخبار ’’دی گارجین‘‘ میں لکھا کہ ’’لوگ نظامِ حکومت کی تبدیلی کے لیے میدان میں آگئے ہیں اور اب وہ اپنی بات منوائے بغیر گھروں کو واپس نہیں جائیں گے‘‘۔
آمروں کے طویل اقتدار سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال راسخ ہوچکا تھا کہ اب کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی اور یہ کہ آمریت ہی ان کا مقدر ہے۔ مطلق العنان حکمرانی نے اُن کے دل و دماغ ماؤف کردیے تھے۔ جب عرب دنیا میں بیداری کی لہر دوڑی تو یہ احساس بھی پوری شدت کے ساتھ ابھرا کہ مطلق العنان حکمران دس فٹ کا قد نہیں رکھتے یعنی عام انسانوں ہی کی طرح ہیں اور کوئی بھی بڑی تبدیلی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔
مصنفہ لینا منذر کو اچھی طرح یاد ہے، جب بیداری کی لہر دوڑی تو ابتدائی دنوں میں یہ تصور شکست و ریخت سے دوچار ہوا کہ عرب دنیا میں اب کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی۔ یہ تصور پایا جاتا تھا کہ ہم عرب کاہل اور جبر کے خلاف کھڑے ہونے سے بیزار ہیں اور یہ کہ ہم نے شخصی حکومتوں کو مقدر سمجھ کر قبول کرلیا ہے کہ اس میں بنیادی خطا ہماری ہی ہے، ہم ہیں ہی اس قابل کہ ہم پر آمر حکومت کریں۔
۱۱؍فروری ۲۰۱۱ء کو وہ ہوا جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ جی ہاں، مصر کے مطلق العنان حکمران حسنی مبارک نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ لینا منذر کو یاد ہے کہ جس رات حسنی مبارک نے اقتدار چھوڑا وہ روتی رہیں۔ انہیں یقین ہی نہیں آیا کہ مصر کے لوگ اتنے بہادر بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کے بعد شام میں بھی تبدیلی کی لہر اٹھی۔ لوگوں نے بشارالاسد کے اقتدار کے خلاف جدوجہد شروع کی۔
استنبول میں قتل کیے جانے سے ۶ ماہ قبل سعودی عرب کے منحرف مصنف جمال خاشقجی نے لکھا کہ ’’عرب دنیا میں بیداری کی جو لہر اٹھی اس نے ثابت کردیا کہ عرب دنیا اور جمہوریت میں بھی تال میل ہوسکتا ہے۔ ایک زمانے سے یہ کہا جارہا تھا کہ عرب دنیا میں جمہوریت آ ہی نہیں سکتی۔ عوامی بیداری کی لہر نے ثابت کیا کہ یہ سوچ غلط ہے‘‘۔
مصر میں حسنی مبارک اور تیونس میں زین العابدین بن علی کے بعد لیبیا میں معمر قذافی، یمن میں علی عبداللہ صالح اور گزشتہ برس سوڈان میں عمر البشیر کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ یہ سب کچھ عوام کے بیدار ہونے پر ممکن ہوسکا۔
ان پانچ آمروں نے مل کر مجموعی طور پر ۱۴۶ سال حکومت کی۔ ہم یمن کے ایک ہو جانے سے قبل شمالی یمن پر علی عبداللہ صالح کے بارہ سالہ اقتدار کو اس میں شامل نہیں کر رہے۔ زین العابدین بن علی نے ۱۹۸۷ء سے ۲۰۱۱ء تک، حسنی مبارک نے ۱۹۸۱ء سے ۲۰۱۱ء تک، معمر قذافی نے ۱۹۶۹ء سے ۲۰۱۱ء تک، علی عبداللہ صالح نے ۱۹۹۰ء سے ۲۰۱۲ء تک اور عمر البشیر نے ۱۹۸۹ء سے ۲۰۱۹ء تک حکومت کی۔
۲۰۱۹ء میں Noah Feldman نے ’’عرب ونٹر‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی اور تب سے یہ اصطلاح بھی عام ہوئی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ماہر مائیکل اگنی ٹئیف کہتے ہیں کہ فیلڈمین کی کتاب نے عرب دنیا میں بیداری کی لہر کی موت کو بیان کیا ہے۔ یہ ایک بڑا المیہ ہے۔
عرب دنیا کے لوگ بیدار تو ہوئے اور مطلق العنان حکومتیں ختم بھی کیں مگر اس سے جو خلا پیدا ہوا وہ بہتر انداز سے پُر نہ کیا جاسکا، اور اس کے نتیجے میں ایک بار پھر خرابیاں پیدا ہوئیں اور جمہوریت کے بجائے پھر مطلق العنان حکومتیں قائم ہوگئیں۔ مصر میں حسنی مبارک کا اقتدار ختم ہوا تو انتخابات بھی ہوئے اور اخوان المسلمون کو اقتدار ملا مگر صرف ایک سال بعد اس اقتدار کی بساط لپیٹ دی گئی اور اس کے بعد پولیس نے ایک بار پھر پورے ملک میں انقلابی سوچ کا گلا گھونٹنا شروع کیا۔ صدر مرسی کے تحت صرف ایک سال گزارنے کے بعد وزیر دفاع جنرل عبدالفتاح السیسی نے بغاوت کی اور اخوان المسلمون کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا اور صدر محمد مرسی کو معزول کرکے جیل میں ڈال دیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی عبدالفتاح السیسی اقتدار میں ہے اور اس کا طرزِ حکومت حسنی مبارک کے دور کی سفاکی سے بڑھ کر ہے۔
ایک بڑی مشکل یہ بھی ہوئی کہ مصر میں حسنی مبارک کے آمرانہ اقتدار کے خلاف تحریک چلانے والوں میں اختلافات نے جنم لیا۔ مصر میں پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کا جبر ختم ہوا نہ افلاس کا گراف نیچے لایا جاسکا۔ عوام کی مشکلات کم نہ ہوئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت مصر میں افلاس ریکارڈ بلندی پر ہے۔ نئی نسل اس قدر مایوس اور بیزار ہے کہ وہ بہتر مستقبل کے لیے مصر کی حدود سے نکلنے کو ترجیح دینے پر مجبور ہے۔
بحرین خلیج فارس کے خطے کی واحد ریاست ہے، جہاں عوامی سطح پر مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں کو کچل دیا گیا اور یہ سب کچھ محض اس لیے ہوا کہ سعودی عرب ایسا چاہتا تھا۔ سعودی عرب میں بھی ریاستی مشینری نے عوامی سطح پر کسی بھی نوعیت کے احتجاج کی راہ مسدود کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ الجزائر میں بھی عوام اٹھے مگر انہیں دبوچ لیا گیا۔ مراکش میں عوام کے احتجاج کو چند اصلاحات اور عدالت کے ذریعے چند سخت اقدامات کی مدد سے کچل دیا گیا۔
لیبیا میں معاملہ تھوڑا مختلف تھا۔ معمر قذافی کے ۴۲ سالہ اقتدار کے خلاف کھڑے ہونے والے جب اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے تو متوازن حکومت قائم نہ کرسکے اور جنگجو گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ گویا ایک خرابی نے ختم ہوکر دوسری خرابی کو جنم دیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کے حصے بخرے ہوگئے۔ یمن فرقہ وارانہ بنیاد پر پیدا ہونے والے تنازع کی دلدل میں جا گرا۔
شام وہ ملک ہے جہاں عرب دنیا میں اٹھنے والی بیداری کی لہر کی موت واقع ہوئی اور انقلابی سوچ موسمِ بہار سے گزر کر موسمِ سرما میں داخل ہوئی۔ بشار الاسد کے خلاف بھی جذبات بہت شدید تھے۔ شام کی دیواروں پر لکھ دیا گیا تھا کہ بشار! اب تمہاری باری ہے۔ زین العابدین بن علی اور حسنی مبارک کا اقتدار ختم ہوچکا تھا۔ جن نوجوانوں نے حکومت کے خلاف بولنے کی جسارت کی تھی انہیں گرفتار کرکے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے نتیجے میں ملک بھر میں شدید احتجاج کی لہر اٹھی۔ مزاحمت کا دائرہ وسعت اختیار کرتا گیا۔ بشارالاسد کا اقتدار ختم نہ کیا جاسکا۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ حکومتی مشینری نے بشار کا اقتدار بچانے کے لیے عوام کو داؤ پر لگادیا۔ کم و بیش ۳۸ ہزار افراد قتل کردیے گئے۔ حکومت کے خلاف کھڑے ہونے کی جسارت کرنے والوں سے انتہائی سختی سے نمٹا گیا۔ عوام کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اقتدار بچانے کے لیے بشار الاسد اپنے ہی ہم وطنوں کی زندگی داؤ پر لگادے گا۔
جہاں جہاں عوامی بیداری کی لہر کو سختی سے کچلا گیا وہاں جہادیوں کو ابھرنے کا موقع ملا۔ اپنے پیاروں کی موت کا مشاہدہ کرنے والوں کے پاس جہادیوں سے ہاتھ ملانے کے سوا چارہ نہ تھا۔ ریاستی مشینری انہیں کچھ بھی دینے کو تیار نہ تھی۔ ایسے میں شام، لیبیا اور یمن میں جہادیوں نے ریاستی مشینری کے خلاف مورچے سنبھالے تو لوگ ان کے ساتھ ہولیے۔ رابرٹ ورتھ نے اپنی کتاب ’’اے ریج فار آرڈر‘‘ میں لکھا ہے کہ لیبیا، یمن اور شام میں پیدا ہونے والی خرابیوں سے جہادیوں کو پنپنے کا بھرپور موقع ملا۔ اسی کے نتیجے میں داعش نے ۲۰۱۴ء میں شام اور عراق کے علاقوں میں خلافت کے احیا کا اعلان کیا۔ یہ علاقے رقبے میں برطانیہ کے برابر تھے۔
مزاحمت جس قدر کچلی گئی، داعش کی مقبولیت اُسی قدر بڑھتی گئی۔ یورپ سے بھی ہزاروں نوجوان داعش سے وابستہ ہوئے اور یوں عرب دنیا میں جمہوریت کے بیج بونے کی امید ختم ہوتی گئی۔ جن ممالک میں آمرانہ اقتدار کو ختم کیا گیا، وہاں مسلم انتہا پسند نمایاں ہوئے اور مطلق العنان حکمرانوں نے دوبارہ اقتدار سنبھال کر مغرب کو یقین دلایا کہ وہ مسلم انتہا پسندی کو ختم کرکے دم لیں گے۔ یوں مطلق العنان حکمرانوں کو دوبارہ مضبوط ہونے کا موقع مل گیا۔ عرب دنیا میں آمروں کے خلاف تحریک اٹھی تو مغرب نے آمروں کی حمایت ترک کردی مگر بعد کی صورت حال میں انہوں نے کوئی متبادل تلاش کرنے اور اس کی مدد کرنے میں خاطر خواہ دلچسپی نہ لی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ عرب دنیا میں آمرانہ طرزِ حکومت کے خلاف اٹھنے والی لہر اب بیٹھ چکی ہے۔ شام تباہ ہوچکا ہے۔ یہی حال یمن اور لیبیا کا بھی ہے۔ مصر میں خرابی زیادہ نہ پھیل سکی۔ تیونس بھی بہت حد تک درست حال ہی میں ہے۔ شام میں خرابی اس حد تک پھیلی کہ لاکھوں افراد دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ یمن میں آج بھی لاکھوں بچوں کو غذا کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ لیبیا کی سرزمین جنگجو گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔
کیا سب کچھ ختم ہوچکا ہے؟ عوام انقلابی سوچ سے بیزار اور تائب ہوچکے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ عرب تجزیہ کاروں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ لوگ بالکل مایوس نہیں ہوئے۔ وہ اب بھی تبدیلی کے حق میں ہیں۔ بیداری کی لہر نے دم نہیں توڑا۔ لوگ اب بھی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور ایسا کر بھی رہے ہیں۔ معاملات کی شفافیت اور جمہوریت کے اصول پر مبنی اصلاحات کے لیے سوڈان، الجزائر، عراق اور لبنان میں مظاہروں کی نئی لہر شروع ہوچکی ہے۔ لندن کے اسکول اور اوریئینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز کے پروفیسر عرشین ادیب مقدم کہتے ہیں کہ اصلاحات اور جمہوریت کے بنیادی مطالبات نے اب تک دم نہیں توڑا۔ اگر یہ مطالبات پورے نہ ہوئے تو ایک بار پھر بیداری کی لہر پوری عرب دنیا میں پھیلے گی اور انقلاب کے نعرے بلند ہوں گے۔ اگر کوئی ریاست اس بنیادی حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہتی ہے تو اُسے بہت کچھ جھیلنا اور بالآخر عوام کے مطالبات کے آگے جھکنا پڑے گا۔ علاء الاسوانی مصر کے معروف ترین ناول نگار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انقلابی سوچ کو گلے لگانا کسی سے محبت کرنے جیسا عمل ہے۔ انقلابی سوچ سے انسان بہتر ہوتا چلا جاتا ہے۔
عرب دنیا میں تیونس واحد مثال ہے، تیونس کے ’’جیسمین ریوولیوشن‘‘ کی مثال دے کر سمجھایا جاتا ہے کہ کس طور انقلاب کو کامیابی سے ہم کنار کیا جاسکتا ہے۔ تیونس میں قتل و غارت روکنے پر توجہ دی گئی۔ سیاست دان اور عوام نے مل کر ملک و قوم کو تقسیم کرنے والے معاملات کی راہ میں دیوار کھڑی کی۔ النہضہ پارٹی نے اتفاقِ رائے کی حکومت یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کی اور اس کوشش میں کامیاب بھی رہی۔ برد باری اور تحمل پسندی نے تیونس کو مصر اور شام کی طرح بربادی کی طرف جانے سے روکا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“From hope to agony, what’s left of the Arab Spring?” (“AFP”. November 24, 2020)
Leave a Reply