لیزر سے ایٹمی ایندھن کی تیاری۔ نیا تنازع

ایٹمی ٹیکنالوجی کے شعبے میں انقلاب برپا ہونے والا ہے۔ ایک زمانے سے دنیا بھر کے ماہرین اس کوشش میں مصروف تھے کہ یورینیم افزودہ کرنے کا کوئی ایسا طریقہ وضع کریں جو کم خرچ بھی ہو اور آسان بھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے لیے وسیع و عریض تنصیبات کی ضرورت پیش نہ آئے۔ ماہرین اب اس منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

امریکی ماہرین نے ایٹمی ری ایکٹرز کے لیے کم خرچ ایندھن تیار کرنے کا آسان اور موزوں طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ جنرل الیکٹرک کے انجینئرز نے لیزر ٹیکنالوجی کی مدد سے یورینیم افزودہ کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ جنرل الیکٹرک کے ماہرین دو سال سے کامیاب تجربات کرتے آئے ہیں اور اب ایک ارب ڈالر کی لاگت سے یورینیم افزودہ کرنے کا لیزر پلانٹ لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے امریکا کی وفاقی نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی سے اجازت طلب کی ہے۔ اس پلانٹ سے ایٹمی ری ایکٹرز کے لیے ٹنوں کے حساب سے افزودہ یورینیم آسانی سے حاصل کیا جاسکے گا اور اس سے ماحول کے لیے زیادہ خطرات بھی پیدا نہیں ہوں گے۔

لیزر ٹیکنالوجی سے یورینیم کی افزودگی خوش آئند سہی مگر خدشات کی دیوار کھڑی کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ایٹمی ٹیکنالوجی کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ لیزر ٹیکنالوجی کے استعمال کی صورت میں بھی یورینیم کی افزودگی ماحول کے لیے خطرات پیدا کرے گی اور دوسری طرف ایٹمی ٹیکنالوجی کی مدد سے ہتھیار تیار کرنے کے عمل کو تقویت ملے گی کیونکہ اس صورتحال میں یورینیم افزودہ کرنے کے پلانٹس آسانی سے قائم کیے جاسکیں گے اور ان کا سراغ لگانا بھی مشکل ہوگا۔ سب سے بڑا اعتراض یہ سامنے آیا ہے کہ دہشت گرد ایٹمی ٹیکنالوجی کو ہتھیار بنانے کے لیے زیادہ آسانی سے استعمال کر سکیں گے۔ واضح رہے کہ لیزر ٹیکنالوجی کی مدد سے یورینیم افزودہ کرنے کے شعبے میں ایران نے بھی چند ایک کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ مغربی طاقتوں کے لیے ایران کا اس شعبے میں پیش رفت یقینی بنانا زیادہ تشویش کا باعث ہے۔

سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے مشیر اور پرنسٹن یونیورسٹی میں نیوکلیئر فزکس کے استاد فرینک این پیل کا کہنا ہے کہ یورینیم افزودہ کرنے کے نئے طریقے قدرے آسان مگر انتہائی خطرناک ہیں کیونکہ ان کی مدد سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا عمل آسان اور تیز ہو جائے گا۔ وہ اس سلسلے میں غیرمعمولی احتیاط اور سخت قوانین نافذ کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ فرینک پیل خاص طور پر اس ٹیکنالوجی کو صیغۂ راز میں رکھنے کی بات کرتے ہیں مگر شاید ایسا کرنا ممکن نہیں۔ جنرل الیکٹرنک کے جس پلانٹ میں لیزر ٹیکنالوجی کی مدد سے یورینیم افزودہ کرنے کے کامیاب تجربات کیے گئے اس کی ملکیت میں جاپانی کمپنی ہٹاچی بھی شریک ہے۔ ہٹاچی سے لیزر ٹیکنالوجی کے استعمال کا یہ پہلو پوشیدہ رکھنا ممکن نہیں۔

امریکا میں نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے سب سے بڑے ادارے لاس الموس لیب کے سابق ڈائریکٹر مائیکل کر کہتے ہیں کہ لیزر ٹیکنالوجی سے یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت بڑی کامیاب ہے مگر خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔ سخت اقدامات نہ کرنے اور احتیاط نہ برتنے کی صورت میں خرابیاں تیزی سے رونما ہوسکتی ہیں۔

یورینیم قدرتی طور پر الگ تھلگ ایک فیصد سے بھی کم پایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں سائنس دان یورینیم کو زیادہ مقدار میں اور آسانی سے افزودہ کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔ کمیاب ہونے پر بھی یورینیم اس لیے زیادہ مقبول ہے کہ اس کی مدد سے توانائی زیادہ آسانی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ ری ایکٹرز گریڈ کا ایک پائونڈ افزودہ یورینیم ہزار پائونڈ کا پڑتا ہے۔ لیزر ٹیکنالوجی کے ذریعے یورینیم افزودہ کرنے کا تصور نیا نہیں۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں یہ تصور سامنے آیا، تب امریکی ماہرین نے حکومت کو تجویز پیش کی تھی کہ بڑی مقدار میں یورینیم افزودہ کرنے کے لیے لیزر ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جائے۔ تب سے اب تک اس شعبے میں غیرمعمولی پیش رفت ہوئی ہے۔ ماہرین پسندیدہ آٹسو ٹوپس حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس صورت میں یورینیم کی پیداوار تیزی سے بڑھے گی اور زیادہ توانائی کا حصول آسان ہو جائے گا۔

دنیا بھر میں درجنوں ممالک کے ہزاروں سائنس دان لیزر اور دیگر طریقوں سے یورینیم افزودہ کرنے کی کوشش میں مصروف رہے ہیں۔ آسٹریلیا میں تین عشروں کی محنت کے بعد ماہرین نے کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔ ہارسٹ اسٹروو اور مائیکل گلیڈز دونوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یورینیم افزودہ کرنے کے لیے ان کا وضع کردہ طریقہ آسان اور زیادہ پیداواری ہے۔ آٹسوٹوپس الگ کرنے کا طریقہ انہوں نے سلیکس کے نام سے پیش کیا ہے۔ مئی ۲۰۰۶ء میں جنرل الیکٹرک نے سلیکس کو پیٹنٹ کرایا۔ کمپنی کے نیوکلیئر بزنس کے ڈائریکٹر اینڈریو سی وائٹ کا کہنا ہے کہ سلیکس سب کچھ بدل دینے والی ٹیکنالوجی ہے۔ جی ای کی گلوبل اینرچمنٹ (لیزر) نے اعلان کیا ہے کہ ایک لیزر پلانٹ سے ۶۰ ایٹمی ری ایکٹروں کو چلانے کے لیے کافی تصور ہونے والا ایندھن مل سکے گا۔ اور اس سے ۴ کروڑ ۲۰ لاکھ مکانات کو بجلی فراہم کی جاسکے گی۔

ایٹمی اسلحے کے مخالفین لیزر ٹیکنالوجی کی مدد سے یورینیم افزودہ کرنے کے شدید مخالف ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ اس صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی ایسی تیزی سے پھیلے گی کہ اس پر قابو پانا ممکن نہ ہوگا۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لیزر کی مدد سے یورینیم افزودہ کرنے کے پلانٹ کا سراغ لگانے میں کئی دشواریاں پیش آئیں گی۔ چھوٹے ممالک بھی یہ پلانٹ لگا سکیں گے۔ گزشتہ برس امریکن فزیکل سوسائٹی نے بھی لیزر سے یورینیم افزودہ کرنے کی مخالفت کی تھی۔ سوسائٹی کے ایک عہدیدار اور جارج ٹائون یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر فرانسس سلیکی نے بتایا ہے کہ کانگریس کے ارکان، ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی کی مہم چلانے والوں اور ہزاروں شہریوں نے فیڈرل نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی کو لکھا ہے کہ لیزر ٹیکنالوجی کے استعمال پر پابندیاں لگائی جائیں۔ اوباما انتظامیہ کو اس معاملے میں کوئی نہ کوئی قدم اٹھانا پڑے گا۔ ریگولیٹری اتھارٹی کو ایٹمی اسلحے پر پابندی کے حوالے سے رونما ہونے والی ناکامیوں کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔

واشنگٹن میں ایک انڈسٹری گروپ نیوکلیئر انرجی انسٹی ٹیوٹ نے لیزر ٹیکنالوجی کے استعمال پر قدغن لگانے کی شدید مخالفت کی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کو صیغۂ راز میں رکھنے کے حوالے سے بہت سے اقدامات پہلے ہی کیے جاچکے ہیں۔ ایسے میں مزید احتیاط سے معاملات مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔

لائسسنگ کے بارے میں حتمی فیصلہ آئندہ برس ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ ڈیزائن میں تبدیلیوں پر زور دیا جائے۔

(بشکریہ: ’’لاس اینجلس ٹائمز‘‘۔ ۱۸؍اگست ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*