
خطے میں ہونے والی نمایاں تبدیلیوں کے پیش نظر اردن نے اپنے روایتی حلیفوں کے علاوہ ان خلیجی ریاستوں کی جانب دیکھنا شروع کردیا ہے جو خطیر مالی امداد فراہم کرتی رہی ہیں۔ خلیجی تعاون کی تنظیم کی جانب سے اردن کے لیے پانچ سالہ امدادی پیکج جس کی مالیت ۶ء۳ بلین ڈالر ہے،اس پیکج کا جنوری ۲۰۱۷ء میں اختتام ہو گیا تھا۔ تاہم خلیجی تعاون کی تنظیم نے مزید مالی تعاون کا وعدہ نہیں کیا۔
اردن کی معاشی صورتحال ابتری کا شکار ہے۔ سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات نے گزشتہ سال اردن کو ایک ارب ڈالر بطور قرض فراہم کیا تھا، تاکہ اردن اپنے معاشی بحران پر قابو پا سکے۔
اردن کا حالیہ معاشی بحران صرف اس کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے نہیں بلکہ دیگر اہم مسائل اسرائیل فلسطین تنازع، ممکنہ امریکی معاہدہ، غزہ، مغربی کنارے اور یروشلم کی موجودہ صورتحال کو بدل سکتا ہے۔ اردن کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ یروشلم میں اردن کے اہم کردار کی وجہ سے طے پا جائے گا۔ اس معاہدے کے مطابق یروشلم کی قانونی حیثیت میں کسی قسم کی تبدیلی کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
ایک جانب خلیجی ممالک نے اردن کے لیے امداد کو کم کردیا ہے تو دوسری جانب اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین نے امداد میں اضافے کا عندیہ دیا ہے۔
تقریباً ایک ملین شامی پناہ گزین اردن میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں، ان کی اکثریت غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ہمہ جہتی مالی بحران، اندرونی خلفشار اور ممکنہ امریکی معاہدے کے نتیجے میں اسرائیلی مفادات کو تحفظ حاصل ہوگا۔ یہ وہ مسائل ہیں جس کی وجہ سے اردن نئے حلیفوں کی تلاش میں ہے۔ اس حوالے سے پہلا اشارہ شاہ عبداللہ دوئم کا جنوری کے وسط میں دورہ عراق ہے۔ شاہ عبداللہ کا یہ دس سال میں عراق کا پہلا دورہ ہے۔ دو ہفتے قبل ہی اردن کے وزیراعظم نے عراق کے ساتھ کیے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اردن کی نیوز ایجنسی پیڑہ نے اسے تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز سے تعبیر کیا۔ شاہ عبداللہ نے فروری میں ترکی کا دورہ بھی کیا اور رجب طیب ایردوان سے ملاقات کی۔ اس کے باوجود کہ خلیجی ممالک اور انقرہ کے درمیان خاصی کشیدگی پائی جاتی تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق دونوں سربراہان نے فلسطین کے مسئلے اور فنڈ کی فراہمی کے حوالے سے گفتگو کی۔ دونوں ممالک نے آپس میں تجارتی تعلقات میں اضافے پر بھی اتفاق کیا۔ ۱۳ فروری کو اردن کے بادشاہ نے ایران کو اسلامی انقلاب کی چالیسویں سالگرہ پر مبارکباد کا پیغام بھیجا، ساتھ ہی ایرانی صدر حسن روحانی کی صحت اور ایرانی عوام کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
اردن نے قطر کے ساتھ بھی تعلقات کے نئے دور کا آغاز کر دیا ہے۔قطر کے خلیجی ممالک کے ساتھ حالیہ کشیدہ تعلقات کے باوجود اردنی پارلیمانی وفد نے دوحہ کا دورہ کیا اور اعلیٰ سرکاری حکام کے ساتھ ملاقات کی اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔قطر نیوز ایجنسی کے مطابق ایک ماہ قبل شاہ عبداللہ نے قطر کے امیر کے نام پیغام میں باہمی تعلقات کے امور پرتعاون طلب کیا۔ اردن کے سرکاری ذرائع کے مطابق خلیجی ممالک کی ناراضی کے باوجود قطر کے ساتھ تعلقات بتدریج بہتر ہورہے ہیں، اب اومان اور دوحہ کے درمیان کوئی تنازع نہیں۔ قطر کی جانب سے بھی گرم جوشی کا مظاہرہ سامنے آرہا ہے۔
اردن کی موجودہ حکمت عملی اس جانب اشارہ ہے کہ اردن اب اپنے روایتی حلیفوں پر انحصار کی پالیسی ترک کررہا ہے۔ دوسری جانب ایران، یمن جنگ میں بلا واسطہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے خلاف محاذ آرا ہے۔ یاد رہے عراق ایران کا ایک اہم ترین حلیف ہے۔
اردن کی جانب سے گزشتہ سال شام سے متصل سرحد کو دوبارہ کھولے جانے کو ایک مثبت عمل قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ تمام اشارے اس جانب نشان دہی کرتے ہیں کہ اب اردن اپنے برسوں کے روایتی حلیفوں کوچھوڑ کر نئے دوستوں کی جانب بڑھ رہا ہے۔
(ترجمعہ: محمودالحق صدیقی)
“From Tehran to Ankara, Jordan’s search for new allies is picking up pace”. (“middleeasteye.net”. April 26, 2019)
Leave a Reply