ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتر محمد کی کتاب ’’اچیونگ ٹرو گلوبلائزیشن‘‘ سے اقتباسات ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں شائع ہونے والی اس کتاب میں مہاتر محمد نے عالمگیریت کے حوالے سے بحث کی ہے اور اس بحث کے دوران امریکا اور یورپ کے مجموعی استحصالی کردار پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ کتاب کے مندرجات سے چند امور میں اختلاف کی گنجائش ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ موصوف نے اسلامی دنیا کو درپیش مسائل بیان کرکے ان کا حل پیش کرنے کی قابلِ ذکر کوشش کی ہے۔
میں نے اکتوبر ۲۰۰۳ء میں مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ ۲۲ سال تک کسی ملک کا نظم و نسق چلانا کیا ہوتا ہے، یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ اب محسوس ہوتا ہے کہ میں نے بہت طویل عرصہ وزیر اعظم کی حیثیت سے گزارا۔ میں نے کسی بھی دوسرے وزیر اعظم سے زیادہ مدت تک ملائیشیا کی خدمت کی ہے۔
میں مستعفی کیوں ہوا؟
مستعفی ہونے کا ارادہ تو میں نے ۱۹۹۸ء میں کرلیا تھا۔ مگر میں اپنے ارادے پر عمل اس لیے نہیں کرسکتا تھا کہ اس وقت معیشت کی حالت بہت خراب تھی۔ ایک طرف ملک کی معاشی حالت اچھی نہیں تھی، اور دوسری طرف میرے نائب کا بھی مسئلہ تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ اس طرح رخصت لوں کہ میرے بعد حکومتی معاملات کو کوئی اچھی طرح چلانے والا نہ ہو۔ میں نے بہتر نعم البدل ملنے تک مستعفی ہونے کا ارادہ ملتوی کردیا۔ اگر یہ الجھنیں نہ ہوتیں تو ۱۹۹۸ء میں اقتدار سے الگ ہوگیا ہوتا۔ ایسے میں کرنسی کا بحران بھی پیدا ہوا جس نے مجھے مجبور کیا کہ حکومتی ذمہ داریاں نبھاتا رہوں۔ ۱۹۹۹ء کے انتخابات سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ ہماری پارٹی (یو ایم این او) کمزور ہے۔ میں پارٹی کو اس حالت میں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ کوئی اس کی قیادت بہتر ڈھنگ سے نہ کرسکے۔ ان حالات میں بہتر یہ تھا کہ میں جولائی ۲۰۰۲ء (یو ایم این او کی جنرل اسمبلی کے اجلاس) تک حکومتی ذمہ داریاں سنبھالے رہوں۔
جب مجھے یقین ہوگیا کہ پارٹی مضبوط ہے، معیشت مستحکم ہے اور ملک بیشتر امور میں مضبوط ہے تو میں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ میں نے کسی کے مشورے سے نہیں کیا۔ مستعفی ہونے سے دو سال قبل میں نے اپنی کابینہ کے ایک رکن سے اس موضوع پر بات کی تھی۔ وہ کسی بھی حالت میں اس بات کے لیے تیار نہیں تھے کہ میں حکومتی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائوں۔ خیر، اس کے بعد میں نے اس موضوع پر کسی سے بات نہیں کی۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ میں کب رخصت لوں گا۔ جب میں نے جنرل اسمبلی میں اپنے فیصلے کا اعلان کیا تو بہت سوں کو یقین ہی نہیں آیا اور چند خواتین تو روئیں بھی۔ پارٹی کی جنرل اسمبلی نے مجھ سے کہا کہ کام جاری رکھو۔ میرے لیے اکتوبر ۲۰۰۳ء سے قبل مستعفی ہونا ممکن نہ تھا۔ ایک طرف تو نا وابستہ تحریک کی کانفرنس تھی اور دوسری طرف اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا اجلاس بھی ہونا تھا۔ بہت سوں کو امید تھی کہ میں ان دونوں اجلاسوں کو نمٹانے کے بعد بھی وزیر اعظم رہوں گا۔ مگر میں جانتا تھا کہ میں بہت کام کرچکا ہوں، اور اب اقتدار سے الگ ہونا ہی بہتر ہے۔
بہترین موقع کا انتخاب
ہر ملک میں اس حوالے سے الگ تصور پایا جاتا ہے کہ کسی بھی لیڈر کو کب تک خدمات انجام دینی چاہییں۔ چند ممالک میں تو یہ بھی طے کردیا جاتا ہے کہ صدر یا وزیر اعظم کو دو میعاد سے زیادہ مواقع نہیں دیے جاسکتے۔ بہت سے ممالک میں عمر کی حد بھی طے کردی جاتی ہے کہ کسی لیڈر کو کب تک عوام کی رہنمائی اور خدمت کرنی چاہیے۔ ملائیشیا میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اگر میں چاہتا تو بہ حیثیت وزیر اعظم کام کرتا رہتا۔ یہ سلسلہ مرتے دم تک جاری رہتا یا پھر عوام کی جانب سے ہٹائے جانے تک! میرا ذاتی نظریہ یہ ہے کہ کسی بھی لیڈر کو تمام معاملات درست کرنے کے بعد رخصت ہو جانا چاہیے۔ میں نے دیکھا کہ ملک اچھی حالت میں ہے، معیشت مستحکم ہے اور پارٹی بھی کمزور نہیں۔ مستعفی ہونے کا اس سے اچھا موقع بھلا کیا ہوسکتا تھا؟
اگر کوئی لیڈر مشکل حالات میں اقتدار سے الگ ہو تو آنے والوں کے لیے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ جب میں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تب میں اپنی بائیس سالہ کارکردگی سے مطمئن تھا۔
ملائیشیا میں روایت رہی ہے کہ جب کوئی لیڈر رخصت ہوتا ہے تو چارج اس کا نائب سنبھالتا ہے۔ مئی ۲۰۰۰ء سے میں اپنے نائب کی کارکردگی سے مطمئن تھا۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ حکومتی امور کس طور انجام دیے جاتے ہیں اور مسائل کو کس طرح حل کیا جاتا ہے۔ انھیں معلوم تھا کہ ملک کی پالیسیاں کیا ہیں اور کس طرح نافذ کی گئی ہیں۔ ملائیشیا میں حکومتی سیٹ اپ اجتماعی ذمہ داری کے اصول کے تحت کام کرتا ہے۔ ہم کسی بھی معاملے کو ذاتی پسند یا ناپسند کے حوالے سے نہیں کرتے۔ کسی بھی معاملے میں اگر کسی کے پاس کوئی آئیڈیا ہو تو وہ اسے کابینہ میں پیش کرتا ہے، اس آئیڈیا پر غور کیا جاتا ہے اور اگر وہ قابل عمل ہو تو اس کی منظوری دی جاتی ہے۔ میں بھی جب وزیر اعظم تھا تو کابینہ کو اپنے تصورات سے مطلع کرتا تھا۔ ہم جو کچھ بھی کرتے تھے، اجتماعی ذمہ داری کے ساتھ کرتے تھے۔ سوال صرف نئے آئیڈیا کا تھا۔ ہم سب کو اندازہ تھا کہ معیشت کس طرح کام کرتی ہے۔ پالیسیوں میں تھوڑی بہت تبدیلیاں تو رونما ہوتی رہتی ہیں۔ مجھے اپنے نائبین پر پورا بھروسہ تھا۔ مستعفی ہوتے وقت مجھے کسی بات نے تشویش میںمبتلا نہیں کیا۔
ایسٹ ایشین اکنامک کوکس
میں نے دسمبر ۱۹۹۰ء میں مشرقی ایشیا کے ممالک میں اتحاد پیدا کرنے کا تصور پیش کیا تھا۔ ابتدائی مرحلے میں چند ایک مشکلات درپیش تھیں۔
اب میرا تصور ’’ایشین پلس تھری‘‘ کی شکل میں سامنے آچکا ہے۔ میں نے اصلاً یہ تصور پیش کیا تھا کہ یہ ایک طرح کا مشاورتی فورم ہوگا جس میں مشرقی ایشیا کے ممالک اپنے مسائل پر غور کرتے ہوئے ان کا حل تلاش کیا کریں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی سوچا گیا تھا کہ اس فورم کی مدد سے کسی بھی بین الاقوامی مسئلے پر ہم آہنگ ہوکر مشرقی ایشیا کی بات بیان کی جاسکتی ہے۔ اس فورم کو پورے ایشیا تک محیط کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا کیوں کہ یہ بہت بڑا بر اعظم ہے۔ پورے بر اعظم کو کسی ایک فورم کے دائرے میں لانا بہت مشکل کام ہے۔ میں نے مشرقی ایشیا کے ایک فورم کا تصور پیش کیا اور بتایا کہ اسے درجہ بہ درجہ توسیع دی جاسکتی ہے۔ یورپی اتحاد کا بھی یہی معاملہ تھا۔ بات دو ممالک سے ’’یورپین اسٹیل اینڈ کول کمیونٹی‘‘ کی شکل میں شروع ہوئی تھی۔ آج ہمارے سامنے جو یورپی اتحاد موجود ہے اسے اس مقام تک آنے میں ۵۰ سال لگے ہیں۔ ایشیائی اتحاد کے لیے بھی ایسا ہی سوچا جاسکتا ہے۔ ایشیا بہت بڑا بر اعظم ہے۔ اس میں زبانوں‘ نسلوں اور ثقافتوں کا غیر معمولی تَنوّع پایا جاتا ہے۔ یورپ میں تقریباً سبھی باشندے ایک لسانی گروہ (لاطینی) سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے مابین مذہبی ہم آہنگی بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود انہیں متحد ہونے، مشترکہ منڈی تشکیل دینے اور مشترکہ کرنسی اپنانے میں پچاس سال لگے۔ ۱۹۹۱ء میں جب ہم نے مشرقی ایشیا کے اتحاد کا تصور پیش کیا تو امریکا کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ چین اس تصور کا حامی تھا۔ جنوبی کوریا بھی چاہتا تھا کہ ان خطوط پر سوچا جائے۔ امریکی دبائو کے تحت جاپان البتہ خاصا مخالف رہا۔ آخر کار امریکی مخالفت کا زور توڑنے کے لیے ایسٹ ایشین اکنامک کوکس کو ایشین پلس تھری میں تبدیل کرکے اپنایا گیا۔
ایشیائی اقوام میں زبانوں، نسلوں، مذاہب اور ثقافتوں کا اس قدر تَنوّع موجود ہے کہ انہیں متحد ہونے میں ۵۰ سال سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ یورپ ایک مثال کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے بہت کچھ سوچا اور کیا جاسکتا ہے۔ اگر پیش رفت سست رفتار بھی ہو تو کیا ہے، مقصود تو اتحاد ہے۔
عراق کے خلاف جنگ
عراق کے خلاف جنگ اور اس جنگ کی راہ ہموار کرنے والے واقعات کی نوعیت پر غور کرنے سے بین الاقوامی تعلقات کی نئی سمت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ عراق کے خلاف جنگ معاملات کو بات چیت سے سلجھانے کے بجائے صرف طاقت کے استعمال کے ذریعے طے کرنے کی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ کلیدی مسئلہ یہ ہے کہ امریکا نے فیصلہ سازی کے بین الاقوامی نظام کو یکسر مسترد کردیا۔ امریکا اپنی طاقت کے زعم میں کسی کی کوئی بات ماننے کو تیار نہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر انجمن اقوام بنائی گئی تھی۔ اس بین الاقوامی تنظیم کے قیام کا بنیادی مقصد جنگ کی راہ مسدود کرنا تھا۔ طے پایا تھا کہ کوئی بھی رکن ملک کسی ملک پر جنگ نہیں تھوپے گا اور جنگ کو صرف دفاعی حکمت عملی کے طور پر اپنائے گا، اور وہ بھی اس وقت کہ جب مفاہمت کے دیگر تمام راستے بند ہوچکے ہوں۔ بعد میں کیا ہوا؟ امریکا اس تنظیم سے نکل گیا جس کے نتیجے میں لیگ تحلیل ہو گئی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک بار پھر سوچا گیا کہ جنگ کی راہ کس طرح روکی جائے۔ دونوں عالمی جنگوں میں انسانیت کا اتنے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا تھا کہ اب جنگ کو مکمل طور پر روکنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ مہذب معاشرے میں جنگ کی اب کوئی گنجائش نہ رہی تھی۔ دنیا بھر کے سیاسی قائدین نے مل جل کر طے کیا کہ جنگ کو اختلافات ختم کرنے اور تنازعات کی راہ روکنے کے آلے کے طور پر استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔ اور اگر جنگ کرنا ہی ہو تو آخری حربے کے طور پر کی جائے۔ مثلاً کمبوڈیا میں کھیمروج کے مظالم کا خاتمہ اس گروپ کے خلاف جنگ کی صورت میں ہی ممکن تھا۔ ایسی جنگ بھی مذاکرات میں ناکامی کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہی ممکن تھی۔ ایسی کسی بھی صورت حال میں اقوام متحدہ ہی مختلف ارکان سے فوجی طلب کرکے ایک فوج تشکیل دینے کی مجاز تھی۔ چند برس قبل افریقا میں خانہ جنگی نے کم و بیش ۵۰ لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اقوام متحدہ نے اس قتل و غارت کو روکنے کے سلسلے میں کچھ نہ کیا۔ بوسنیا میں بھی اقوام متحدہ نے اس وقت مداخلت کی جب سربوں کے ہاتھوں کم و بیش ۲ لاکھ مسلمانوں کا خون ہوچکا۔ ان دونوں مثالوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی ادارہ کس حد تک کمزور ہے۔
عراق پر جو جنگ تھوپی گئی اس کی پشت پر بھی اصلاً اقوام متحدہ نہ تھی۔ عراق کی جانب سے کسی حملے کا حقیقی خطرہ بھی نہ تھا۔ ایسے میں دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کی صورت حال بھی نہ تھی۔ امریکا چاہتا تھا کہ عراق میں ایک ایسی حکومت کا خاتمہ کرے جو اسے پسند نہ تھی۔ امریکا نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ عراقی حکومت اپنے عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی تھی۔ یہ بھی کہا گیا کہ عراق کے پاس وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMD) کے بڑے ذخائر ہیں۔ ظالم حکمران تو دوسرے بہت سے دیگر ممالک میں بھی ہیں جو اپنے عوام کو جینے کا حق دینے کو بھی تیار نہیں۔ بہت سے ممالک کے پاس بھی وسیع تر تباہی کے ہتھیار بہت بڑے پیمانے پر موجود ہیں، مگر امریکا ان کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں کرتا۔ صاف ظاہر ہے کہ عراق پر جنگ در اصل تیل کے ذخائر پر کنٹرول کے لیے تھوپی گئی۔ جن مسائل کی بنیاد پر عراق کے خلاف جنگ کی گئی، انہی امور کی بنیاد پر اب ایران اور شمالی کوریا کے خلاف بھی جنگ کا امکان بہت واضح دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا ان ممالک کی حکومتوں کو بھی پسند نہیںِ کرتا۔ شام پر بھی دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ اس پر حملہ بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایران اور جنوبی کوریا کے علاوہ سوڈان اور لیبیا پر بھی امریکا ’’شیطانی محور‘‘ کے جز ہونے کا الزام عائد کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے لیے ان ممالک کو بھی نشانہ بنایا جائے۔ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ اب جس ملک پر بھی امریکا کی جانب سے وسیع تر تباہی کے ہتھیار رکھنے کا شک ظاہر کیا جائے گا اس پر حملے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ہمیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ دنیا بھر میں وسیع تر تباہی کے ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ امریکا میں ہے۔ اس نے اعلان کر رکھا ہے کہ ایٹمی ہتھیار انتباہ کے طور پر بنائے گئے ہیں۔ مگر اس کے باوجود امریکا واضح اشارے دیتا رہا ہے کہ وہ مخصوص حالات میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرسکتا ہے۔ اگر کوئی چھوٹا ایٹمی ہتھیار بھی استعمال کیا جائے تو تباہی کا دائرہ محدود کرنا ممکن نہیں رہتا۔ یہ سوال ذہن میں ابھرے بغیر نہیں رہتا کہ ایٹمی حملے کے سامنے ثابت قدم رہنے کی سکت کس میں ہوسکتی ہے؟ پیشگی حملے کا نظریہ بھی امریکا نے ہی وضع اور پیش کیا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس ملک سے کوئی خطرہ محسوس ہو اس پر حملہ کردیا جائے۔ اور اس کا جواز یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اگر آپ حملہ نہیں کریں گے تو وہ ملک حملہ کر گزرے گا۔ عراق پر تھوپی جانے والی جنگ اس کی بہت واضح مثال ہے۔ امریکا نے اپنے طرز عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ مشاورت اور فیصلہ سازی کے کسی بھی عالمی سیٹ اپ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور دنیا کا طاقت ور ترین ملک ہونے کی بنیاد پر وہ کچھ بھی کر گزرنے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ امریکا نے دنیا پر جتا دیا ہے کہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے، اور وہ بھی اس تَیقّن کے ساتھ کہ اسے ایسا کرنے کا اجازت نامہ حاصل ہے!
کیا اس امر میں کسی نوع کے شک کی گنجائش ہے کہ جنگ سے صرف قتال اور تباہی کی راہ ہموار ہوتی ہے؟ مشرقی تہذیب میں امن قائم کرنے اور جنگ و جدل سے گریز پر بہت زور دیا گیا ہے۔ مشرقی دنیا کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مقاصد کے حصول کے لیے جنگ ہی واحد راستہ نہیں، مذاکرات کے ذریعے بھی بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ملائیشیا عراق میں جنگ کا حامی تھا، نہ ہے۔ میرا اپنا نقطۂ نظر یہ تھا کہ بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد عسکری تعلقات پر نہیں ہونا چاہیے۔ مذاکرات سے معاملات کو سلجھانے اور کشیدگی کم کرنے میں خاطر خواہ مدد ملتی ہے۔ ہمیں کشیدگی زائل کرنے کی راہ ہموار کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ایک دوسرے کی بات سننا ناگزیر ہے۔ جب تک ہم اس کے لیے تیار نہ ہوں گے، کسی بھی اعتبار سے امن کے استحکام کی جانب نہیں بڑھ سکیں گے۔ جنگ یہ ثابت کرتی ہے کہ طاقت ور ہمیشہ فتح یاب ہوتا ہے، خواہ وہ حق پر نہ ہو! امریکا کو عراق کے خلاف جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کس نے نہیں کی؟ فرانس چاہتا ہے کہ یہ معاملہ عالمی برادری کے سامنے رکھا جائے، تمام ممالک سے رائے لی جائے تاکہ متفقہ فیصلے کے تحت کارروائی کی جائے۔ جرمنی اور روس بھی عراق پر جنگ تھوپنے کے خلاف تھے۔ امریکا نے تمام با اثر ممالک کی رائے کو بھی یکسر نظر انداز کرتے ہوئے دنیا کو بتا دیا کہ وہ جس کام کو خود درست سمجھے گا، کر گزرے گا۔
اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عراق سے امریکی سلامتی کو کوئی ایسا خطرہ لاحق نہ تھا جس کی بنیاد پر جنگ جیسی بڑی کارروائی ناگزیر قرار دی جاسکتی۔ امریکا کا دعویٰ تھا کہ عراق کے پاس وسیع تر تباہی کی ہتھیاروں کے ذخائر موجود ہیں۔ عراقیوں نے اپنے دفاع میں ان ہتھیاروں کو کسی بھی مرحلے پر استعمال نہ کیا۔ اس کا سبب یہ تھا ان کے پاس یہ ہتھیار تھے ہی نہیں۔ ابھی تک امریکا نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا کہ اس نے عراق پر جنگ تھوپ کر ہر اعتبار سے غلطی کی تھی۔ بین الاقوامی تعلقات کے لیے یہ کوئی خوش کن پیغام ہرگز نہیں۔ کوئی ملک خواہ کتنا طاقتور ہو، اسے اپنے ہی طے کردہ چند ایک اصولوں کا تو پابند ہونا ہی چاہیے۔ انصاف قائم کرنے کے نام پر کسی ملک کو نشانہ بنانا اور تباہی سے دوچار کردینا کسی بھی اعتبار سے کوئی قابل تقلید نظریہ نہیں۔
امریکا کی مٹھی میں بند دنیا!
کون ہے جو اس بات کو درست تسلیم کرنے سے انکار کرے گا کہ امریکا نے عراق پر حملہ تیل کی دولت پر اپنا تسلط جمانے کے لیے کیا؟ مگر یہ واحد سبب نہیں۔ امریکا در حقیقت دنیا کو بتانا چاہتا تھا کہ وہ اس حد تک طاقت ور ہے کہ کسی کو خاطر میں لانے کا پابند نہیں۔ اور یہ کہ وہ جو کچھ بھی چاہے گا، کرے گا۔ وہ دنیا پر اپنی برتری ثابت کرکے اسے منوانا چاہتا ہے۔ اس نے یہ پیغام سب پر واضح کردیا ہے کہ جو اس کا حکم نہیں مانے گا وہ جنگ کا خطرہ مول لے گا۔
بہت سے سرکردہ امریکی سیاست دان اور سیاسی تجزیہ نگار اب ایک ایسی دنیا کی بات کھل کر کرنے لگے ہیں جس کا مکمل کنٹرول امریکا کے ہاتھ میں ہو۔ انگریزی میں اسے Pan Americana کہا جاتا ہے۔ پوری دنیا کو امریکی مٹھی میں بند کرنے کا خواب دیکھنے والے یہ بات بھول رہے ہیں کہ اس دنیا میں تہذیبی، نسلی، لسانی اور مذہبی تَنوّع بہت زیادہ ہے۔ دنیا پر حکومت کرنا کسی ایک ملک کے لیے ممکن نہیں۔ چند ایک ممالک پر حملہ ضرور کیا جاسکتا ہے، تاہم انھیں مکمل طور پر اپنا تابع اور باج گزار بنانا ممکن نہیں۔ کسی ملک پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں معاملات کو معمول کے مطابق چلانا ممکن نہیں۔ اگر کوئی ملک پوری دنیا کو اپنے بس میں کرنا چاہے گا تو معاملات کو الجھائے گا اور کشیدگی میں اضافہ کرے گا، جیسا کہ امریکا نے ثابت بھی کیا ہے۔
عراق پر حملے سے کچھ دن قبل میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے قطر کے دارالحکومت دوہا میں تھا۔ اس اجلاس میں چند اسلامی ممالک نے خود کو امریکا نواز ثابت کیا۔ چند ممالک عراق کے خلاف جنگ کے حق میں نہ تھے۔ کسی بھی اسلامی ملک نے عراق جنگ کے حوالے سے واضح موقف اختیار نہ کیا۔ ہاں، عراق پر جنگ تھوپے جانے کے بعد سے اسلامی ممالک میں امریکا کے لیے مخالفت اور نفرت بڑھی ہے۔ امریکا نواز گردانے جانے والے ممالک میں بھی امریکا کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ چند ایک اسلامی ممالک میں اسامہ بن لادن سے ہمدردی رکھنے والوں کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے اور وہ اس رائے کے حامل ہیں کہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو امریکا کے خلاف جدوجہد جاری رکھنا چاہیے۔ امریکی جارحیت نے منفی رجحانات کو پروان چڑھانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
طاقت کے بے محابا استعمال اور اپنی اقدار دوسروں پر تھوپنے کے نتیجے میں صرف کشیدگی، نفرت اور مخاصمت پیدا ہوتی ہے۔ کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ امریکا الگ تھلگ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والی لیگ آف نیشنز سے وہ الگ ہوا تھا۔ مگر اب وہ ایسا نہیں کر رہا۔ امریکا نے کسی بھی بین الاقوامی تنظیم سے علیحدگی اختیار نہیں کی ہے۔ اب تک وہ اقوام متحدہ کا رکن ہے اور اس سیٹ اپ میں رہتے ہوئے وہ چاہتا ہے کہ اس کی بات تسلیم کی جائے، اور کسی بھی معاملے میں اس سے اختلاف کا اظہار نہ کیا جائے۔ امریکا ماضی کے برعکس عالمی اداروں سے نہ صرف یہ الگ نہیں ہو رہا، بلکہ ان اداروں کو اپنی مرضی کے تابع بنانا چاہتا ہے۔ اس امریکی خواہش کے نتیجے میں عالمی اداروں کا کیا حشر ہوا ہے، یہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔ امریکا نہ صرف یہ عالمی برادری سے الگ تھلگ نہیں ہو رہا، بلکہ پوری دنیا کو اپنے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی زبان، طرز زندگی، معاشی اصول، وضع قطع غرض یہ کہ ہر معاملہ دوسروں پر مسلط کرکے انھیں دست نگر بنانے کے فراق میں ہے۔ دوسروں کی رائے اس کے نزدیک کچھ وقعت نہیں رکھتی۔ عالمی برادری عراق کے خلاف جنگ کے حق میں نہیں تھی۔ امریکا نے دنیا کی بات نہ مانی اور اپنی مرضی سب پر تھوپی۔ عالمی رائے عامہ کو ٹھکرانے کا رویہ امریکا کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں نمایاں ہے۔ عراق کے مسئلے پر ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کے قائدین اور سرکردہ عہدیداروں میں کچھ زیادہ اختلاف رائے نہیں پایا گیا۔ اہم عالمی امور پر امریکی پالیسی ترتیب دینے کے معاملے میں امریکا کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی سوچ یکساں ہے۔
۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کے بعد سے امریکی فوج اور اسلامی دنیا کے مسلح گروپوں کے مابین لڑائی جاری ہے۔ پہلے افغانستان میں طالبان کے خلاف کارروائی کی گئی اور اس کے بعد عراق پر جنگ تھوپی گئی۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو خدشہ ہے کہ کہیں وسیع تر تناظر میں اسے تہذیبوں کے تصادم سے تعبیر کیا جانے لگے گا۔ اس میں ایک طرف ’’رب کی خوشنودی‘‘ کی حامل عیسائیت ہوگی اور دوسری طرف ’’شر کی علامت‘‘ سمجھا جانے والا اسلام ہوگا! حقیقت یہ ہے کہ مغرب کو اسلامی دنیا سے ہمیشہ شکایات رہی ہیں۔ مغرب کے حکمران جو کچھ اسلام کے بارے میں سوچتے ہیں اس کا اظہار ان کی امیگریشن اور دیگر پالیسیوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ عراق کے خلاف جذبات بھڑکائے گئے۔ اس معاملے کو غیر ضروری طور پر سیاسی رنگ دیا گیا۔ اس سے قبل مغرب میں عمومی طور پر عراق سے محض اس لیے نفرت کرنے کا رجحان نہ تھا کہ وہ اسلامی ملک تھا۔ مسلم دنیا کی اکثریت بھی عیسائیوں کو دشمن نہیں سمجھتی۔
امریکی افواج اور مسلم مسلح گروپوں کے مابین جو لڑائی جاری ہے وہ کسی بھی نقطۂ نگاہ سے تہذیبی تصادم نہیں۔ کچھ لوگ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے اسے تہذیبی تصادم کا نام دے کر کشیدگی بڑھا رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں تہذیبوں کے مابین کشیدگی واضح ہے، مگر اس کے باوجود اسرائیلیوں کے خلاف فلسطینیوں کی لڑائی کو تہذیبوں کا تصادم قرار نہیں دیا جاتا۔ ۱۹۹۳ء میں امریکی سیاسی تجزیہ نگار سیمیوئل ہنٹنگٹن نے ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جس نے سیاسی تجزیہ نگاروں کے حلقوں میں تہلکہ مچایا تھا۔ اس نے اس مضمون کو وسعت دے کر ۱۹۹۶ء میں اسی عنوان سے کتاب لکھی جو خاصی متنازع فیہ ٹھہری۔ اس کتاب میں ہنٹنگٹن نے لکھا ہے کہ مغرب کو اپنی عسکری اور سیاسی برتری قائم کرنے کے لیے ہمیشہ کسی نہ کسی دشمن کی ضرورت رہی ہے۔ کسی دشمن کی موجودگی کو جواز بناکر وہ اپنی عسکری قوت میں اضافہ کرتا رہا ہے۔ اگر مسلم اور عیسائی دنیا میں تصادم کی کیفیت پیدا ہوئی تو اسرائیل کو بھی فلسطینی علاقوں پر حملے کرنے، ان پر قبضہ جمانے اور فلسطینیوں کو زیر نگیں کرنے کا جواز مل جائے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ تمام عیسائی اس بات سے اتفاق کرتے ہوں گے کہ مسلمانوں سے ہمیشہ محض اس بنیاد پر جنگ کی حالت میں رہا جائے کہ وہ مسلمان ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ کسی بھی واقعے پر تہذیبوں کے تصادم کا عنوان چسپاں کردیا جاتا ہے۔ اس صورت میں کشیدگی اور نفرت بڑھے گی۔ جب بھی اسلام اور عیسائیت کی بات کی جائے گی تو متعلقہ افراد کسی نہ کسی کیٹیگری کا حصہ تو ہوں گے ہی۔
ایران کے سابق صدر محمد خاتمی نے تہذیبوں کے تصادم کے مقابل تہذیبوں میں مکالمے کا نظریہ پیش کیا۔ میں اس نظریے کا حامی ہوں۔ میری رائے یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی تہذیب جامع نہیں۔ سب کی اپنی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ بات چیت ہونا چاہیے تاکہ کشیدگی کم کرنے میں مدد ملے۔ تہذیبی برتری کا موجودہ اور مقبول تصور در اصل جامعیت یا اقدار کی برتری پر نہیں، بلکہ معاشی و عسکری قوت کے ارتکاز پر ہے۔ کسی بھی تہذیب کو برتر قرار دینے اور سمجھنے کا یہ معیار غلط ہے۔ طاقت ور ہمیشہ حق پر نہیں ہوتا۔ بہتر یہ ہے کہ تمام تہذیبوں کے لوگ مل جل کر اس دنیا کو زیادہ سے زیادہ پرامن بنانے کے لیے کام کریں تاکہ کشیدگی کا خاتمہ ہو اور مثبت اقدار کے فروغ کی راہ ہموار ہو۔۔۔ (جاری ہے!)
☼☼☼
Leave a Reply