
ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتر محمد کی کتاب ’’اچیونگ ٹرو گلوبلائزیشن‘‘ سے اقتباسات کی دوسری اور آخری قسط ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں شائع ہونے والی اس کتاب میں مہاتر محمد نے عالمگیریت کے حوالے سے بحث کی ہے اور اس بحث کے دوران امریکا اور یورپ کے مجموعی استحصالی کردار پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ کتاب کے مندرجات سے چند امور میں اختلاف کی گنجائش ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ موصوف نے اسلامی دنیا کو درپیش مسائل بیان کرکے ان کا حل پیش کرنے کی قابلِ ذکر کوشش کی ہے۔
مغربی جمہوریت
جدید دنیا میں ماحول کچھ ایسا ہے کہ صرف جمہوریت کو ہی قبول کیا جا رہا ہے۔ طاقت ور ممالک نے کچھ ایسے حالات پیدا کیے ہیں کہ کسی بھی ملک کے لیے جمہوریت کی مغربی شکل اپنائے بغیر چارا نہیں۔ جو ملک جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے کے لیے تیار نہ ہو اسے حملے اور قبضے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کسی بھی جنگ میں شکست سے دوچار ملک کو جمہوریت کی جانب لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جمہوریت میں ہر انسان کو اپنی رائے دینے کا حق ملتا ہے۔ کسی پر بھی کوئی چیز تھوپی نہیں جاتی۔ مگر مفتوح ملک پر جمہوریت تھوپی جاتی ہے۔ اس کے پاس جمہوریت کو اپنانے کے سوا کوئی انتخاب باقی نہیں رہتا۔ کسی بھی ملک کو اپنی مرضی کی جمہوریت قبول کرنے پر مجبور کرنا کسی طور درست نہیں۔ اور یہ معاملہ اس وقت زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے جب کسی ملک کو کوئی ایسا نظام جمہوری قرار دے کر اپنانے پر مجبور کیا جائے جسے وہ جمہوری گردانتا ہی نہ ہو! مزید برآں یہ تصور بھی انتہائی غلط اور خطرناک ہے کہ دنیا میں اگر حقیقی جمہوریت ہے تو صرف مغرب میں ہے۔ جمہوریت کے کئی روپ ہیں۔ جمہوری سیٹ اپ کی ہر شکل میں چند خوبیاں ہیں اور چند خامیاں بھی۔ جمہوریت کی کوئی بھی شکل ہر اعتبار سے مکمل نہیں۔ ہر معاشرے کی ضرورت کے مطابق جمہوری سیٹ اپ میں تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں۔
دنیا ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں کمزور ممالک کے پاس صرف ایک راستہ رہ گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انھیں جمہوریت اپنالینی چاہیے۔ کمیونسٹ ممالک بھی خود کو جمہوری کہتے ہیں، تاہم ان کے اس دعوے کو مسترد کردیا جاتا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ مغربی طرز کی جمہوریت کا نمونہ پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ ممالک ہر وقت حملے اور قبضے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ مثلاً شمالی کوریا خود کو ’’عوامی جمہوریہ کوریا‘‘ کہتا ہے، تاہم مطلق العنان حکومت کے باعث اسے بھی حملے کے خطرے کا سامنا ہے۔
سوال صرف جمہوریت کو اپنانے کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہر ملک کو امریکی انداز کا لبرل ڈیموکریٹک سیٹ اپ اپنانا ہوگا۔ ایسے میں کشیدگی، تصادم، محاذ آرائی، اور عدم استحکام کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ ہر معاشرہ جمہوریت کو اپنے مزاج کے مطابق اپناتا ہے۔ جمہوریت کی کوئی بھی شکل اتنی جامع نہیں کہ ہر معاشرے پر اطلاق پذیر ہو۔
کسی بھی سیاسی نظام کو راتوں رات تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ ہر معاشرے کی اپنی روایات ہوتی ہیں، جنھیں کسی جواز کے بغیر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یورپ کی تاریخ شاہد ہے کہ جمہوریت کی موجودہ شکل تک پہنچنے میں اس نے ۲۰۰ سال صرف کیے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کا جمہوریت کو اپنانے کی جانب بڑھنا مرحلہ وار عمل ہے۔ جمہوریت کے ابتدائی دور میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہ تھا۔ سوئزر لینڈ میں بھی خواتین کو ووٹ دینے کا حق بیسویں صدی کے اواخر میں ملا۔
کسی بھی نظام کی خوبیوں اور خامیوں کا علم اسی وقت ہوسکتا ہے جب اسے مکمل طور پر اپنایا جائے۔ اسی صورت اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس مخصوص نظام کی حدود میں رہتے ہوئے کیا ممکن ہے اور کیا ممکن نہیں ہے۔ آزادی مفت نہیں ملتی۔ کسی بھی کام کو کسی ایک جگہ بہتر طور کیا جاسکتا ہے۔ ہر اقدام ہر جگہ ممکن نہیں۔ یہی سبب ہے کہ جمہوریت کی درجنوں اشکال پائی جاتی ہیں۔ ہمیں جمہوریت کی ہر شکل کا احترام کرنا چاہیے، کیوں کہ وہ طویل عمل کے ذریعے موجودہ منزل تک پہنچی ہے۔ اس مرحلے پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عراق میں جمہوریت متعارف کرانے کا امریکی تجربہ ناکامی سے ہی دوچار ہوگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت اس وقت حکومتی نظام کی بہترین شکل ہے، تاہم ہر اعتبار سے جامع تو یہ بھی نہیں۔ جمہوریت کی سب سے بڑی کمزوری بدعنوانی ہے۔ جمہوری حکومتوں کے ساتھ بدعنوانی کا دُم چَھلّا جڑا رہا ہے۔ جو لوگ خود کو انتخاب کے لیے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں وہی بدعنوان ہیں۔ سیاست دان چونکہ اپنی مقبولیت برقرار رکھنا چاہتے ہیں اس لیے وہ ووٹروں کو خوش کرنے کے اقدام بھی کرتے رہتے ہیں۔ بعض حالات میں وہ ووٹروں کو رشوت دینے سے بھی باز نہیں آتے۔ چند علاقوں میں ترقیاتی منصوبے زیادہ عمدگی سے تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ دوسرے بہت سے علاقوں کے لوگ ترستے ہی رہ جاتے ہیں۔ جمہوری ڈھانچے میں عوام خود کو طاقت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں اس لیے اپنے مطالبات منوانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ سیاست دانوں پر دبائو بھی ڈالتے ہیں۔ نتیجتاً رقوم کی بے ہنگم تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ جمہوریت عوام کو طاقت ضرور بخشتی ہے، مگر انہوں نے اس میں بدعنوانی کے پہلو کو یکسر نظر انداز کردیا ہے۔ بہت سے سیاست دان مذہب کے نام پر ووٹ لیتے ہیں۔ دل خراش حقیقت یہ ہے کہ بدعنوانی جمہوریت کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔
امریکی سیاست میں بھی وہی لوگ زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں جو امیدواروں کو زیادہ چندہ دیتے ہیں۔ جن علاقوں سے امیدواروں کو زیادہ چندہ نہیں ملتا، ان کے لیے کچھ خاص منصوبے بھی سامنے نہیں آتے۔ برطانیہ کا بھی یہی حال ہے۔ خود ووٹر بھی بدعنوان ہیں۔ ایسے میں اگر جمہوریت بدعنوان ٹھہرے تو اس میں استعجاب کا کیا پہلو ہے؟
اگر کسی معاشرے میں لوگوں کو طویل مدت تک جمہوریت کا ساتھ نصیب ہو تو وہ اس نظام میں پائی جانے والی بدعنوانی کو سمجھنے اور اس کا تدارک کرنے میں بھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اگر کسی سیاسی نظام کا تسلسل یقینی نہ بنایا جائے تو عوام اس سے بہتر طور پر آشنا نہیں ہوسکتے۔ اگر کسی معاشرے میں لوگوں کو اچانک ووٹ کا حق دے دیا جائے، تو ممکن ہے کہ وہ راتوں رات ملنے والی اس آزادی کو غلط ڈھنگ سے استعمال کریں۔ عین ممکن ہے کہ وہ بدعنوان لوگوں کو منتخب اداروں کی زینت بنادیں۔ جمہوریت میں بہت سی خامیاں ہیں جنھیں سمجھنا ناگزیر ہے۔ ایٹم بم استعمال کرنے والا واحد ملک، امریکا، جمہوری طرز حکومت کا حامل ہے۔ جس طرح دیگر نظام ہائے سیاست و حکومت میں خامیاں پائی جاتی ہیں اسی طرح بشری خامیوں سے جمہوریت بھی پاک نہیں۔
جمہوریت منتخب کرنے کا حق دیتی ہے، مگر اس کا غلط مطلب لے لیا گیا ہے۔ اس حق کے غلط استعمال سے نراجیت پھیلتی ہے۔ بہت سے لوگ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ صدام حسین کے دور کا عراق آج کے عراق سے بہتر تھا۔ جمہوریت میں حزب اختلاف جو کردار ادا کرتی ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ نئی منتخب حکومت کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ اس میں صرف خامیاں ہی تلاش کی جاتی ہیں۔ حزب اختلاف کو کسی نہ کسی معاملے میں حکومت پر تنقید کرنے کے موقع کی تلاش رہتی ہے۔ یعنی ٹانگ کھینچنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ ایسے میں حکومت کو بہتر ڈھنگ سے کام کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ جس حکومت کو احتجاج، مظاہروں، ہڑتالوں اور دھرنوں کا سامنا ہو اس کا انجام آخر کیا ہوسکتا ہے؟ حزب اختلاف کی ریشہ دوانیوں سے حکومت گرتی ہے اور انتخابات میں حزب اختلاف کو حزب اقتدار بننے کا موقع ملتا ہے۔ اب سابق حزب اقتدار کو حزب اختلاف میں بیٹھنا پڑتا ہے۔ وہ بھی حکومت کو کمزور کرنے اور گرانے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ یہ منحوس چکر چلتا ہی رہتا ہے اور عوام کو بے روزگاری اور معاشی بحران کا سامنا رہتا ہے۔
جمہوریت کو اپناتے وقت اس کی تمام خوبیوں اور خامیوں کو ذہن نشین رکھنا چاہیے تاکہ ضرورت پڑنے پر کسی بھی تبدیلی کی راہ ہموار کرنا دشوار نہ ہو۔ جمہوریت ایک ایسا عمل ہے جو درجہ بہ درجہ ہی اپنایا جاسکتا ہے۔ جس معاشرے کو عشروں تک مطلق العنانیت کا سامنا رہا ہو وہ معاشرہ جمہوریت کو پہلی کوشش میں مکمل طور پر نہیں اپنا سکتا۔ کسی بھی نظام کو راتوں رات اپنانا انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ کسی نظام کو اپنانے میں سست رفتاری اس لیے بہتر طریقہ ہے کہ اس صورت میں کسی بھی پیچیدگی کو قابو کرنا آسان ہوتا ہے۔ بہت تیزی سے سب کچھ تبدیل کرنے کی خواہش ہر معاملے کو بگاڑ دیتی ہے۔ ایسے میں نراجیت پیدا ہوتی ہے اور کوئی بھی ادارہ صحیح ڈھنگ سے کام نہیں کر پاتا۔ نئے نظام سے واقفیت نہ رکھنے والے لوگ آزادی کا مفہوم سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور اس کا غلط استعمال روکنا عموماً ممکن نہیں ہوتا۔
دہشت گردی
۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کے بعد سے یہ خدشہ پروان چڑھتا رہا ہے کہ امریکا کے خلاف دہشت گردی کا دائرہ وسعت اختیار کرے گا اور یہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ عراق میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے جنگ چھیڑنے کے بعد سے معاملہ مزید الجھ گیا ہے۔ عراقی روایتی جنگ تو ہار گئے، اب وہ گوریلا جنگ ہی لڑسکتے ہیں اور لڑ رہے ہیں۔ اس ضمن میں خاص طور پر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ کسی پر بھی حملہ آور ہو رہے ہوں تو آپ کے پاس اس کا معقول جواز ضرور ہونا چاہیے۔ امریکا اگر دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے تو اس کے بنیادی اسباب پہلے ختم کرنا ہوں گے۔
۱۱؍ ستمبر کے واقعات فلسطینیوں کے مقابل یہودیوں کی مسلسل حمایت کا نتیجہ تھے۔ اسرائیلیوں کے ہاتھوں فلسطینی بہت بڑے پیمانے پر شہید ہوتے رہے ہیں۔ نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کرنے والے مشرق وسطیٰ کے واقعات سے دل برداشتہ تھے۔ اگر ۱۱؍ ستمبر کے سے واقعات کا اعادہ روکنا ہے تو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مابین لڑائی رکوانا ہوگی۔
امریکا اپنے طرزِ عمل سے ثابت کرتا رہا ہے کہ اس کی سوچ یہ ہے کہ سب سے زیادہ طاقت ور ہونے کی بنیاد پر وہ کچھ بھی کرسکتا ہے، کسی بھی معاملے کو طاقت سے کچل سکتا ہے۔ امریکیوں پر اسرائیلیوں کا نفسیاتی غلبہ اس قدر ہے کہ انھوں نے دہشت گردی کے رجحان کو کچلنے میں ناکام ہونے کے بعد اب وہی طریقہ اختیار کیا ہے جو اسرائیلیوں کا ہے۔ دہشت گردوں کو دہشت زدہ کرنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ یعنی یہ کہ اگر کوئی دہشت گردی کر رہا ہے تو جواباً اس سے بڑی دہشت گردی کرو! اسرائیلی حکام فلسطینی خود کش حملہ آوروں کے مکانات تباہ کردیتے تھے اور پوری کی پوری آبادی کو تاراج کردیا جاتا تھا۔ یہی کچھ امریکا نے بھی کرنے کی ٹھانی ہے۔ یہ انتقامی رویہ معاملات کو مزید الجھا رہا ہے۔ امریکا کو سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کا موثر طریقہ یہ نہیں ہے کہ اس کا جواب بڑی دہشت گردی سے دیا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس حوالے سے امریکا اپنی سوچ اور عملی طریقوں میں کوئی تبدیلی لانے کے لیے تیار نہیں۔ عراق سے نمٹنے کے بعد امریکا دیگر ممالک کا رخ کرسکتا ہے۔ مشرقی یورپ بھی اس حوالے سے خاصا پریشان ہے۔
پریس کی آزادی
اس تصور کو خصوصی طور پر پروان چڑھایا جا رہا ہے کہ خلیج کی جنگ کے مقابلے میں عراق کی جنگ کی کوریج خاصی معروضی ہے، یعنی معاملات کو جوں کا توں بیان کیا جا رہا ہے۔ اس کا جواز یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ امریکی رپورٹر چوں کہ امریکی فوج کے ساتھ اس کی گاڑیوں میں سفر کر رہے ہیں اس لیے وہ واقعات کو زیادہ باریکی سے دیکھ سکتے ہیں۔ معروضیت کے دعوے کے لیے پیش کی جانے والی یہ دلیل خاصی بھونڈی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور یورپ سمیت کہیں بھی پریس آزاد نہیں۔ ایک طرف تو پریس یا پرنٹ میڈیا پر حکومتی دبائو ہوتا ہے، اور دوسری طرف اخباری مالکان یا ایڈیٹرز بھی اخبارات اور جرائد کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ریوپرٹ مرڈوک نیوز کارپوریشن کئی چینلز کے علاوہ اخبارات اور جرائد کی بھی مالک ہے۔ کسی زمانے میں کسی ایک ادارے کو بیک وقت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی فیلڈ میں آنے سے روکا جاتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب اخباری ادارے اپنے چینلز بھی لا رہے ہیں۔ اس رجحان کی خرابی بھی سب پر عیاں ہے۔ ایک ہی شخص اگر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا مالک ہو تو کسی بھی خبر کو بہتر طور پر کنٹرول کرسکتا ہے۔ ریوپرٹ مرڈوک کا اپنا ایجنڈا ہے جس پر وہ اپنے اداروں کے ذریعے عمل کرتا ہے۔ مرڈوک کے چینلز اور اخبارات میں وہی کچھ شائع ہوتا ہے جو اس کی مرضی اور ایجنڈے کے مطابق ہوتا ہے۔ میڈیا والے اپنی مرضی سے جو چاہتے ہیں شائع کرتے ہیں۔ سوال صرف ان پر تھوپی جانے والی سینسر شپ کا ہی نہیں ہے، ہم یہ بات کس طرح نظر انداز کرسکتے ہیں کہ وہ بہت کچھ اپنے طور پر بھی سینسر کرتے ہیں۔ میں نے جاپان میں منعقدہ ایک کانفرنس میں مندوب کی حیثیت سے شرکت کی اور تقریر بھی کی۔ اگلے دن صبح جب میں بیدار ہوا تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میری تقریر کے مندرجات پیش کرنا تو رہا ایک طرف، رپورٹس میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ میں نے اس کانفرنس میں شرکت کی تھی! کیا اس سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ میڈیا آزاد نہیں ہے؟ کانفرنس سے اپنے خطاب کے دوران میں نے ایشیائی ممالک میں یورپی رجحانات کی تقلید کے رجحان پر نکتہ چینی کی تھی۔ میں نے کہا تھا کہ ایشیائی کسی بھی معاملے میں اپنے طور پر کچھ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ یورپ کی اندھی تقلید کرنے پر کمر بستہ ہیں اور جو غلطیاں یورپ سے سر زد ہوئی ہیں، وہی ان سے بھی سر زد ہو رہی ہیں۔ میں نے ایشیائیوں کی کمزوری کی بات کی تھی، اور ساتھ ہی ساتھ مغرب پر تنقید بھی۔ ایک سابق امریکی وزیر دفاع بھی اس کانفرنس میں شریک تھے۔ جاپانی حکومت نے مناسب نہ سمجھا کہ مغرب پر تنقید کو شائع ہونے دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی نے تو میری تقریر مکمل طور پر سینسر کرنے کا فیصلہ کیا ہی ہوگا۔
اس ایک مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ میڈیا کو کس حد تک اور کس طرح کنٹرول کیا جاتا ہے۔ صرف حکومت ہی نہیں، بلکہ اخبارات اور چینلز کے مالکان بھی مواد کو ایڈٹ کرنے کے نام پر سینسر کرتے ہیں۔ ایڈیٹر اور سب ایڈیٹر بھی چاہیں تو مواد کو سینسر کرسکتے ہیں۔ ایسے میں پریس کی آزادی کی بات کرنا سادہ لوحی پر ہی محمول کیا جاسکتا ہے۔
عراق میں جاری جنگ کے ذریعے پہلی مرتبہ Embedded Reporting دیکھنے کو ملی ہے۔ امریکی فوج کے ساتھ سفر کرنے والے رپورٹر اور تجزیہ نگار ہر معاملے کو ایک خاص زاویے سے دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں تصویر کا صرف ایک ہی رُخ سامنے آسکتا ہے، اور آ رہا ہے۔ امریکی فوج کے ساتھ سفر کرنے والے رپورٹرز اور تجزیہ نگاروں کے ذریعے عراقیوں کی مشکلات عمدگی سے طشت از بام نہیں ہوسکی ہیں۔ اس معاملے میں بی بی سی نے خاصا عمدہ کردار ادا کیا ہے۔ بی بی سی نے معروضیت برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ دوسری طرف وائس آف امریکا کا انداز خاصا جانب دارانہ رہا ہے۔
عرب میڈیا میں بھی جانب داری صاف دکھائی دیتی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹنگ کو خالص معروضی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ امریکی اور عرب میڈیا کو متوازن رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔ الجزیرہ کو اس کے ایجنڈے نے گرفت میں لے رکھا ہے۔ آزاد اور خود مختار پریس وہ ہے جس میں ہر شخص کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا حق ملے۔ اس معیار کے تناظر میں کسی بھی پریس کو آزاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اخبارات کے ایڈیٹر طے کرتے ہیں کہ کسی بھی چیز کو کس طرح شائع ہونا چاہیے۔ لکھنے والوں کے حقوق پر شب خون مارا جاتا ہے۔ صرف تعلیم کے ذریعے ہی لوگوں کو یہ جاننے کا موقع دیا جاسکتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ سب کچھ شائع ہونا چاہیے، تاکہ لوگ خود فیصلہ کریں کہ کون حق بجانب ہے۔
کیا اسلام تشدد پسند ہے؟
آج ساری دنیا میں عمومی طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اسلام ایک تشدد پسند دین ہے اور سراسر مغرب کے خلاف ہے۔ یہ تصور یا تاثر یقیناً بے بنیاد ہے۔ اسی طور یہ بھی غلط ہے کہ اسلام، اپنے عمومی رویے اور عمل کے اعتبار سے، عیسائیت اور یہودیت کے خلاف ہے۔
یہ تاثر بھی عام ہے کہ عربوں اور یہودیوں کے مابین اسرائیل اور فلسطین کے حوالے سے تنازع دو ہزار سال سے چل رہا ہے۔ یعنی یہ کہ یہ جنگ دو ہزار سال کے طویل عرصے پر محیط ہے۔ فلسطینیوں اور یہودیوں کے تنازع کے بارے میں اس سے بے بنیاد اور حقیقت سے پرے بات ہو ہی نہیں سکتی۔ سفاک حقیقت یہ ہے کہ یہ یورپ تھا جس نے یہودیوں پر مظالم ڈھائے، انھیں ایذائیں دیں۔ اور اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہسپانیہ میں عیسائیوں کے غلبے کے دوران اور ان کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم سے بچنے کے لیے مسلمانوں کے ہمراہ یہودیوں نے بھی نقل مکانی کی اور شمالی افریقا، مراکش، الجزائز، مصر اور سلطنت عثمانیہ (ترکی) میں پناہ لی۔ اگر مسلمان یہودیوں یا صہیونیت کے خلاف ہوتے تو عیسائیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی شکست کے بعد یہودیوں نے ہسپانیہ میں رہنے کو ترجیح دی ہوتی۔ آج اگر دنیا بھر کے مسلمان یہودیوں کو اپنا دشمن گردانتے ہیں تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت پر مشتمل فلسطینی علاقے پر قبضہ کرکے یہودیوں کے لیے ایک ریاست قائم کی گئی۔ اسرائیل نے بعد میں مزید فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرکے بڑی تعداد میں مسلمانوں کو قتل کیا۔
عربوں نے اصلاً تو ایک روایتی جنگ کے ذریعے فلسطین کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اردن، مصر اور الجزائر نے مل کر فلسطین کو آزاد کرانے کی جنگ لڑی۔ انھیں شکست کا سامنا اس لیے کرنا پڑا کہ یورپ اور امریکا نے اسرائیل کی مدد کی۔ جب عرب دنیا نے محسوس کیا کہ روایتی جنگ میں اسرائیل کو شکست نہیں دی جاسکتی تو اس نے جنگ کا یہ طریقہ ترک کیا۔ فلسطین کو دوبارہ حاصل کرنے اور وہاں اپنی حکومت قائم کرنے کا معاملہ فلسطینیوں پر چھوڑ دیا گیا۔ فلسطینیوں کے پاس اپنی منظم فوج تو تھی نہیں، اس لیے انھوں نے مزاحمت کا راستہ اپنایا۔ اس مزاحمتی تحریک کو دنیا انتفاضہ کے نام سے جانتی ہے۔
انتفاضہ کا آغاز فلسطینی بچوں کی جانب سے اسرائیلی فوجی گاڑیوں اور فوجیوں پر پتھرائو سے ہوا۔ ابتدائی ردعمل یہ تھا کہ اسرائیلی فوجی ربر کی گولیاں چلاتے، مگر بعد میں انھوں نے اصل گولیاں برسانے کا سلسلہ شروع کیا۔ بہت سے فلسطینی (جن میں بچے بھی شامل تھے) شہید یا زخمی ہوئے۔ اس کے نتیجے میں فلسطینی مشتعل ہوئے اور انھوں نے غیر فوجی اسرائیلیوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کیا۔ اسرائیلی شہریوں کو قتل کرنے کی کوشش میں بھی بہت سے فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے بعد ان کی جانب سے اسرائیل میں خود کش بمباری کا سلسلہ شروع ہوا۔ انھوں نے طیارے ہائی جیک کیے اور میونخ اولمپکس میں اسرائیلی ایتھیلٹس پر حملے بھی کیے۔
فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم دیکھتے ہوئے عرب دنیا نے ان کے ساتھ مل کر لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اور پھر ۱۱؍ ستمبر کو نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا۔
جب کبھی مسلمانوں کی جانب سے کوئی حملہ ہوتا ہے تو انھیں مسلم دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے جب دہشت گردی کے مرتکب ہوتے ہیں تو ان کے مذہب کا حوالہ دینے سے یکسر گریز کیا جاتا ہے۔ شمالی آئر لینڈ میں کیتھولک یا پروٹیسٹنٹ عیسائیوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کو عیسائیوں کی دہشت گردی قرار دینے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ بھارت میں مسلمانوں پر حملہ کرنے والے ہندوئوں کو ہندو دہشت گرد نہیں کہا جاتا۔ جاپان میں اوم شن رکیو نامی فرقے سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کو بدھ دہشت گرد قرار نہیں دیا جاتا۔ لیکن جب کبھی مسلمانوں کی جانب سے کچھ ہوتا ہے تو انہیں مسلم دہشت گرد قرار دینے میں تاخیر سے کام نہیں لیا جاتا۔ دہشت گردی یا دہشت گردوں پر اس نوعیت کا لیبل چسپاں کرنا درست نہیں، کیوں کہ دہشت گردوں کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہوتا۔ ملائیشیا کے مسلمان تشدد پسند نہیں، اور مشرقی وسطیٰ کے مسلمانوں کی اکثریت کے بارے میں بھی یہی بات کہی جاسکتی ہے۔
کسی بھی برتر اور منظم فوج سے لڑنے کے لیے چھاپہ مار جنگ کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ شمالی آئر لینڈ میں پروٹیسٹنٹ اور کیتھولک عیسائی اپنے حقوق اور اہداف حاصل کرنے کے لیے غیر روایتی ہتھیاروں کا سہارا لیتے ہیں۔ اسپین میں باسک علیٰحدگی پسند تحریک، فرینچ کورسیکا سے علیٰحدگی کا مطالبہ کرنے والے عناصر، میکسیکو سے آزادی کا مطالبہ کرنے والے اور فلپائن میں خود مختار ریاست قائم کرنے کی بات کرنے والے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گردی کا سہارا لیتے رہے ہیں۔ یہ بات سورج کی طرح روشن اور واضح ہے کہ تشدد پسندی صرف مسلمانوں کا وصف نہیں۔ اور اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ تشدد کو کسی مذہب سے جوڑا جائے۔ جن لوگوں کو دیوار سے لگا دیا جاتا ہے وہ کسی نہ کسی طور مزاحمت تو کریں گے۔ اور یہ مزاحمت ہر اس ہتھیار کی مدد سے ہوگی جو انھیں دست یاب ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تشدد کے اسباب تلاش کیے جائیں، اور انھیں دور کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔
☼☼☼
Leave a Reply