اس وقت جبکہ ایران کے صدر محمود احمدی نژاد اسرائیل سے متعلق اپنے بیان کی وجہ سے میڈیا میں موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں‘ اسرائیل کے وزیراعظم ایریل شیرون نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ’’ایران کو اقوامِ متحدہ کی رکنیت سے خارج کر دینا چاہیے‘ اس لیے کہ وہ ملک جو کسی دوسرے ملک کی تباہی پر تاکید کرے‘ اقوامِ متحدہ کے رکن بنے رہنے کا اہل نہیں ہو سکتا‘‘۔ اسرائیل کے نائب وزیراعظم شِمَن پیرز نے بھی کہا ہے کہ ایرانی صدر کے بیان کے سبب ایران کو اقوامِ متحدہ سے نکال باہر کرنا چاہیے۔ اقوامِ متحدہ نے بھی ایک بیان جاری کیا‘ جس میںکہا گیا ہے کہ کسی بھی ملک کی جانب سے تشدد اور تباہی کی تبلیغ واضح طور سے اس کے اس دعوے سے میل نہیں کھاتی کہ وہ عالمی برادری کا ایک باشعور اور ذمہ دار رکن ہے‘‘۔ یہ دراصل یورپی یونین کے رہنمائوں کا بیان تھا‘ جسے اقوامِ متحدہ نے جاری کیا۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے لیکن ہمیں ایریل شیرون اور دیگر کے بیانات پر بھی ایک متوازن اور منصفانہ نگاہ ڈال لینی چاہیے:
٭’’یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب یہ غرقِ سمندر ہو گا‘‘۔ (اسرائیلی وزیراعظم کا غزہ کے حوالے سے بیان‘ جو اُس نے اوسلو معاہدے سے ٹھیک پہلے دیا تھا)۔
٭’’میں بین الاقوامی اصول نام کی کسی چیز سے واقف نہیں ہوں۔ میں عہد کرتا ہوں کہ میں ہر فلسطینی بچے کو جلا ڈالوں گا جو اس علاقے میں پیدا ہو گا۔ فلسطینی خواتین اور بچے فلسطینی مَردوں سے زیادہ خطرناک ہیں‘ اس لیے کہ فلسطینی بچوں کا وجود اس بات کی ضمانت ہے کہ فلسطینیوں کی نسل جاری رہے گی۔ لیکن مَردوں سے ایک محدود خطرہ لاحق ہے۔ میرا یہ عزم رہا ہے کہ اگر میں صرف ایک معمولی اسرائیلی شہری بھی ہوتا تو میں جس فلسطینی سے ملتا‘ اسے جلا ڈالتا اور اسے قتل کرنے سے قبل خوب اذیت دیتا۔ میں نے صرف ایک ہی وار میں ۷۵۰ فلسطینیوں کو قتل کیا ہے (یہ ۱۹۵۶ء میں رفاہ کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے)۔ میں اپنے سپاہیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ وہ عربی لڑکیوں کی آبرو ریزی کریں‘ اس لیے کہ فلسطینی لڑکیاں یہودیوں کی لونڈیاں ہیں۔ ہم ان کے ساتھ وہ کچھ کرتے ہیں جو ان کے ساتھ کرنا چاہیے۔ کوئی ہمیں نہیں بتاتا کہ ہم کیا کریں‘ ہم دوسروں کو بتاتے ہیں کہ وہ کیا کریں‘‘۔ (موجودہ وزیراعظم ایریل شیرون کا بیان ۱۹۵۶ء میں General Ouze Merham کو انٹرویو دیتے ہوئے)۔
٭’’گلیلی کو عربوں سے جدا کرنے کے لیے ہمیں دہشت گردی‘ قتل‘ دھمکی‘ قُرقی ضبطی اور سوشل سروسز سے ان کو محروم کر دینے کا عمل غرض کہ ہر طرح کے ہتھکنڈوں کو لازمی طور سے استعمال کرنا ہو گا‘‘۔
(David Ben-Gurion مئی ۱۹۴۸ء میں اسرائیلی جنرل اسٹاف کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے)۔
٭’’اسرائیل کو چاہیے تھا کہ چین میں مظاہرین کو طاقت سے کچل دینے کے واقعات سے بھرپور فائدہ اٹھاتا‘ اس طرح کہ جس وقت دنیا کی نگاہیں چین پر مرکوز تھیں‘ اُسی وقت عربوں کو اپنی زمینوں سے بڑے پیمانے پر بے دخل کر دیتا‘‘۔
(بنجامین نیتن یاہو کی ۱۹۸۹ء میں Bar-llan یونیورسٹی میں تقریر)۔
٭’’ہمیں ضرور عربوں کو بے دخل کر دینا چاہیے اور ان کی جگہوں کو اپنے قبضے میں لے لینا چاہیے‘‘۔ (ڈیوڈ بن گورین کا ۱۹۳۷ء میں بیان۔ بحوالہ کتاب Ben Gurion and the Palestenian Arabs, Oxford University Press, 1985)۔
٭’’ہمیں تمام فلسطینیوں کو قتل کر دینا ہے تاآنکہ وہ غلام کی حیثیت سے یہاں رہنے کے لیے تیار نہ ہوں‘‘۔
(Chairman Heilbrun of the Committee for the Re-election of General Shlomo Lahat, the mayor of Tel Aviv, October 1983)
٭’’تجربے کے لیے میں غیرمہذب قبائل اور باغی عربوں کے خلاف زہریلی گیس کے استعمال کی وکالت کرتا ہوں۔ گیس کے استعمال سے خوف کھانے کی بات مجھے سمجھ میں نہیں آتی ہے۔۔۔ ہم سرحدوں پر افراتفری کے فوری خاتمے کے لیے کسی بھی ہتھیار کے استعمال سے جو ہماری دسترس میں ہو‘ کسی بھی صورت حال میں بہ آسانی دستبردار نہیں ہو سکتے‘‘۔ (ونسٹن چرچل کا ۱۹۱۹ء میں عراقی باغیوں پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کرنے کے لیے Royal Air Force کو مشرقِ وسطیٰ کا کمانڈ حوالے کیے جانے کے وقت بیان۔ واضح رہے کہ اس وقت ونسٹن چرچل برٹش وار آفس میں سیکرٹری آف اسٹیٹ کے عہدے پر مامور تھے)۔
٭’’عرب آبادی سے گلیلی کو جدا کرنے کے لیے ہمیں دہشت گردی‘ قتل و غارتگری‘ دھمکی‘ قرقی ضبطی اور ہر طرح کے سوشل سروسز سے محروم کر دینے کے عمل سے کام لینا ہو گا‘‘۔ (Israel Koenig, “The Koeing Memorandum”)
٭’’فلسطینی مگرمچھ کی مانند ہیں۔ آپ انہیں جتنا زیادہ گوشت دیں گے‘ وہ اتنا ہی زیادہ مطالبہ کریں گے‘‘۔ (اس وقت کے وزیراعظم ایحود بارک کا ۲۸ اگست ۲۰۰۰ء کا بیان جو ۳۰ اگست ۲۰۰۰ء کے یروشلم پوسٹ میں شائع ہوا)۔
٭’’فلسطینیوں کو حشرات الارض کی مانند کچل دینا چاہیے‘ ان کے سروں کو دیواروں اور چٹانوں سے دے مارنا چاہیے‘‘۔ (اسرائیلی وزیراعظم میناخیم بیگن کا Jewish Settlers سے خطاب۔ بحوالہ نیویارک ٹائمز‘ یکم اپریل ۱۹۸۸ء)
پھر اسرائیل کا کیوں ان بیانات کے سبب اقوامِ متحدہ سے اخراج نہیں ہوا‘ جس کا مطالبہ ایران کے لیے جناب Peres کر رہے ہیں؟
(Courtesy of Thomas Paine’s Corner)
(بشکریہ: ’’تہران ٹائمز‘‘۔ ۳۱ اکتوبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply