عالمِ اسلام کے سیاق میں بیسویں صدی کے دو اہم واقعات قابلِ ذکر ہیں۔ ان میں سے ایک استعماری طاقتوں سے آزادی ہے۔ پچھلی صدی کے وسط میں مسلمان ممالک مغربی طاقتوں کی غلامی سے آزاد ہوئے۔ آزادی کی تحریک چلانے میں مسلمانوں کے تمام عناصر شریک تھے، لیکن یہ واقعہ ہے کہ ہر ملک میں مسلمان علما اور اُن کے اداروں نے ان تحریکات میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آزادی کے حصول کے لیے مسلمانوں نے جو جدوجہد کی، اس کا ایک بنیادی محرک یہ توقع تھی کہ آزادی کے بعد وہ اپنے ملک اور سماج کی تعمیرِ نو اسلام کے مطابق کرسکیں گے اور اللہ کی نازل کردہ شریعت اْن کے آزاد ملک کا قانون ہوگی۔ بیسویں صدی کا دوسرا اہم واقعہ یہ تھا کہ عالمِ اسلام میں ایسی تحریکیں اٹھیں جنھوں نے اسلام کے قیام کو اپنا نصب العین قرار دیا۔ برِصغیر میں جماعتِ اسلامی اور مصر میں الاخوان المسلمون کی تحریک کا آغاز ہوا۔ ان تحریکوں نے اپنے کام کو تنظیمی شکل دی، اپنے پیغام کو وسیع پیمانے پرپھیلایا اور اسلام کی ترجمانی و تفہیم کے لیے مدلل لٹریچر شائع کیا۔ بیسویں صدی کے اختتام تک ان تحریکوں کے اثرات ساری دنیا میں پھیل چکے تھے۔ مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے کو انھوں نے خاص طور پر متاثر کیا اور اْن کی ایک قابلِ ذکر تعداد کی زندگیوں کا رخ بدل دیا۔
عالمِ اسلام میں پیش آنے والے بیسویں صدی کے اِن دو اہم واقعات کے پس منظر میں اس عوامی تحریک کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے، جس کا ظہور پچھلے چند برسوں میں عالمِ عرب میں ہوا۔ اس عوامی تحریک کو دنیا کے مبصرین نے عام طور پر حیرت اور استعجاب کے ساتھ دیکھا۔ بہت سے حلقوں میں اس نئے مظہر سے جہاں خوش آئند توقعات وابستہ کی گئیں، وہیں جابر حکمرانوں کے درمیان تشویش اور بے چینی محسوس کی گئی۔ اب دنیا کے اور خود عالمِ اسلام کے سامنے اہم سوال یہ ہے کہ ’’کیا یہ عوامی تحریک اپنی فطری منزل تک پہنچے گی یا منفی طاقتیں اس تحریک کا زور توڑ دینے میں کامیاب ہوجائیں گی؟‘‘ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے دو اہم امور پر غور کرنا ہوگا۔ ایک قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ اس عوامی تحریک کی فطری منزل کیا ہے اور اس تحریک کی کامیابی عالمِ اسلام میں کیا اساسی تبدیلی لائے گی؟ دوسرا اہم سوال اُن عوامل سے متعلق ہے جو حالات پر اثر انداز ہوں گے۔ صحیح نتائج تک پہنچنے کے لیے ان داخلی اور خارجی عوامل کی نشاندہی ضروری ہے، جو عوامی تحریک کو کامیاب یا ناکام بناسکتے ہیں۔ یوں تو یہ عوامل بہت سے ہیں، لیکن قابلِ ذکر اثر ڈالنے والے عوامل غالباً مندرجہ ذیل ہیں:
(الف) مسلمان عوام
(ب) نئی نسل کا تعلیم یافتہ عنصر
(ج) مسلمان حکمراں طبقہ
(د) دینی جماعتیں اور علماء
(ہ) مغربی طاقتیں
ان پانچ عوامل کے علاوہ ایک اہم عامل، اسلامی تحریک ہے۔ اسلامی تحریک کو اللہ کی تائید کے سہارے، ایسی منصوبہ بند جدوجہد کرنی ہوگی کہ اس کا کردار، حالات کا رُخ متعین کرنے میں فیصلہ کن ثابت ہو۔ وہ دوسرے مثبت عوامل کو صحت مند تبدیلی کے حق میں استعمال کرسکے اور منفی عوامل کے اثر کو زائل کرسکے۔
عوامی تحریک کی منزل
دنیا کے عوام کے سامنے یہ تخیل پوری قوت کے ساتھ آچکا ہے کہ اُن پر حکومت کرنے والے ان کی رائے سے منتخب ہونے چاہئیں۔ دنیا میں مقبول اس تخیل کا اثر، عرب ممالک کے عوام پر بھی پڑا ہے، چنانچہ جن ممالک میں بادشاہتیں قائم ہیں یا جہاں ڈکٹیٹروں کی حکومت ہے، وہاں کے عوام اُن سے آزادی چاہتے ہیں۔ یہ توقع فطری ہے کہ عالمِ عرب میں جاری عوامی تحریک کا نتیجہ، ایسی حکومتوں کا قیام ہوگا جو عوام کی آزاد رائے سے منتخب ہوںگی۔
لیکن یہ واقعہ ہے کہ عالمِ عرب کی عوامی تحریک کا ظہور محض معاصر دنیا کے جمہوری رجحان کا عکاس نہیں ہے، بلکہ اُس کی جڑیں پچھلی صدی کی اس تحریک آزادی سے ملتی ہیں، جو استعمار کی غلامی سے نجات کے لیے عالمِ اسلام میں برپا ہوئی تھی اور جس کو عوام اورعلما دونوں کا سرگرم تعاون حاصل تھا۔ دونوں تحریکوں کا یہ تعلق ایک تاریخی حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس حقیقت کا ادراک عوامی تحریک کی فطری منزل متعین کردیتا ہے۔ یہ منزل ہر مسلمان ملک میں ایک ایسی حکومت کا قیام ہے جو اسلام کے مطابق ملک اور سماج کی تعمیرِنو کا عزم رکھتی ہو اور جس کے چلانے والے، عوام کی آزاد مرضی سے منتخب ہوتے ہوں۔
دنیا کے ذرائع ابلاغ پر جن عناصر کا قبضہ ہے، انھوں نے یہ تخیل پیش کیا ہے کہ عوامی تحریک کے نتیجے میں ایک سیکولر جمہوری حکومت قائم ہونی چاہیے لیکن یہ خیال سطحیت پر مبنی ہے۔ یہ اُس تحریک آزادی کو نظر انداز کرتا ہے جس میں غیر معمولی قربانیاں دی گئی تھیں اور جس کا سب سے قوی محرک، اسلامی نظامِ زندگی کے احیا کا وہ جذبہ تھا، جس نے عالمِ اسلام کے عوام کو سرشار کررکھاتھا۔ حقیقت یہ ہے کہ معاصر عوامی تحریک پچھلی صدی کی تحریک آزادی کا تسلسل ہے چنانچہ اُس کی فطری منزل استعمار کی غلامی سے مکمل نجات اور شریعتِ الٰہی کو نافذ کرنے والی حکومت کا قیام ہے۔
کسی عوامی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے دنیا میں عموماً دو طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک طرف ظلم، جبر اور تشدد کے ذریعے تحریک کو روکا جاتا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ مظالم اور شدائد سے گھبرا کر تحریک کے علمبردار اپنے مشن سے باز آجائیں گے۔ اگر تحریک چلانے والے ثابت قدمی کا ثبوت دیں اور قربانیوں کے لیے آمادہ ہوں تو عموماً یہ حربہ تحریک کا راستہ روکنے میں کامیاب نہیں ہوتا، بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ زیادتیوں اور مظالم سے تحریک کو ایک نئی زندگی ملتی ہے۔
بڑھتا ہے اور ذوقِ گناہ، یاں سزا کے بعد
البتہ تحریکوں کا راستہ روکنے کے لیے دنیا میں ایک دوسرا حربہ بھی استعمال ہوتا رہا ہے اور وہ زیادہ کارگر ہے۔ تحریک کے مخالفین یہ کوشش کرتے ہیں کہ تحریک کی منزل کے بارے میں خود اُس کے علمبرداروں کے ذہن میں انتشار اور خلجان (Confusion) پیدا کردیا جائے۔ اگر یہ کوشش کامیاب ہوجائے تو فکری انتشار، بہت جلد عملی انتشار کی شکل اختیار کرلیتا ہے یا تحریک انحراف (Deviation) کی طرف لے جانے لگتی ہے۔ چنانچہ اس وقت دنیا کے ذرائع ابلاغ اسی سعی میں لگے ہوئے ہیں کہ عالمِ عرب کی عوامی تحریک کو اُس کی اصل منزل سے منحرف کردیا جائے۔ عالمِ اسلام کے باشعور عناصر کو پوری کوشش کرنی ہوگی کہ مفسدینِ عالم کا یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو، عوامی تحریک انحراف کا شکار نہ ہونے پائے، بلکہ اپنی حقیقی منزل کی طرف گامزن رہے۔
عالمِ اسلام کا باشعور عنصر
مسلمانوں کی نفسیات کی تشکیل میں اسلام بنیادی کردار ادا کرتا ہے لیکن دنیا کے مقبول نعرے اور نظریات، دنیا کے دوسرے انسانوں کی طرح، مسلمانوں کو بھی متاثر کرتے ہیں چنانچہ عالمِ عرب کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے تحت الشعور پر یقینا اسلام کی حکمرانی ہے، لیکن اُن کے شعور پر اجنبی تصورات نے بھی اپنے اثرات ڈالے ہیں۔ سیکولراِزم، نیشنلزم، علاقائی و قبائلی عصبیت اور عرب قومیت کے منفی اثرات اس سلسلے میں قابلِ ذکر ہیں، جنھوں نے عرب دنیا کے مسلمانوں کے اسلامی شعور کو متاثر کیا ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کے اس عنصر کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے جو اِن باطل نظریات اور نعروں کے شر سے واقف ہے اور جسے اسلام کا صحیح فہم بھی حاصل ہے۔ اس عنصر کو ’’تحریکِ اسلامی‘‘ کہا جاتا ہے۔ عالمِ اسلام کو درست رہنمائی فراہم کرنا، اس عنصر کا بنیادی کام ہے۔
کسی انسانی گروہ کی رہنمائی کرنے کے لیے کچھ صلاحیتیں درکار ہیں۔ حالات کا درست تجزیہ کرکے پیش قدمی کی راہ نکالنے کی صلاحیت اُن میں سے ایک ہے۔ درست تجزیے کے لیے محض حالاتِ زمانہ کے متعلق معلومات کافی نہیں، بلکہ اُس نقطۂ نظر کا گہرا شعور بھی تجزیہ کرنے والوں کو حاصل ہونا چاہیے جس کے وہ علمبردار ہیں۔ اسی طرح رہنمائی کے لیے درکار دوسری بنیادی صفت عزم و حوصلہ اور کردار کی پختگی ہے۔ اس وصف کے بغیر کوئی رہنمائی، انسانوں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتی۔ ایک تیسری صفت جس کی ضرورت ہے، وہ وسیع النظری اور عالی ظرفی ہے۔ جس گروہ کی رہنمائی پیش نظر ہے اس کے تمام افراد، شعور کی پختگی کے اعتبار سے یکساں نہیں ہوتے۔ اُن کی خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود صبر، حکمت، ہمدردی اور دلسوزی کے ساتھ ان کی رہنمائی کا کام بڑا ظرف چاہتا ہے۔
امتِ مسلمہ بھی ایک انسانی گروہ ہے۔ اس کی رہنمائی کافریضہ، تحریک اسلامی کے سپرد ہے۔ چنانچہ تحریکِ اسلامی کو اپنے اندر بلند حوصلگی اور عالی ظرفی کی صفات پیدا کرنی ہوں گی۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اسلام کے نقطہ نظر کا مستند فہم، علمبردارانِ تحریک کو حاصل ہو اور وہ حالات کا تجزیہ اس فہم کی روشنی میں کرسکیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج امتِ مسلمہ مختلف عصبیتوں کا شکار ہے، جو قومی و وطنی بھی ہیں، قبائلی اور نسلی بھی اور مسلکی، فرقی و جماعتی بھی۔ ان حالات میں تحریکِ اسلامی کا ایک اہم کام یہ ہے کہ عصبیتوں سے مسلمانوں کو نجات دلائے، جائز اختلافات کو عصبیت بننے سے روکے اور دین کی بنیاد پر مسلمانوں کو یک جہتی، اتحاد، اجتماعیت اور اشتراکِ عمل پر آمادہ کرے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے یہ بہرحال ناگزیر ہے کہ تحریکِ اسلامی خود اپنے بارے میں چوکنّی رہے اور اپنے دامن کو کسی عصبیت سے آلودہ نہ ہونے دے۔ اس کا مقام تقاضا کرتا ہے کہ قرآن و سنت فی الواقع اس کی اساسِ کار ہوں، اُن کے دائرے کے اندر وہ تمام اہلِ ایمان کا یہ حق تسلیم کرے کہ وہ اخلاص کے ساتھ، علم کی روشنی میں قرآن و سنت کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کریں۔ تحریکِ اسلامی کو ایسے رویے سے اجتناب کرنا چاہیے، جو اُسے ایک مسلک یا محدود مکتبِ فکر بنادے۔ اس کے دامن میں وہی وسعت ہونی چاہیے جو خود اسلام کے آفاقی تصور میں پائی جاتی ہے۔
عالمِ اسلام میں حالات بظاہر ایسے موڑ پر آچکے ہیں کہ مثبت اور منفی دونوں امکانات بروئے کار آسکتے ہیں۔ مثبت امکان یہ ہے کہ مسلمان ممالک میں اسلامی نظام کی طرف پیش قدمی شروع ہوجائے اور اس راہ کے مراحل طے ہونے لگیں۔ اس کے برعکس منفی امکان بھی موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ عوامی تحریک کا رخ سیکولر نظام کی طرف موڑ دیا جائے۔ ان حالات میں اسلامی تحریک کا کردار کلیدی ہے۔ اُسے ذہنی، فکری اور عملی تیاری کے ساتھ امت کے تمام عناصر کی رہنمائی کرنی ہوگی۔ اگر اخلاص کے ساتھ علمبردارانِ تحریک نے یہ کام انجام دیا اور تنگ نظری و عصبیت سے اپنے کو بچائے رہے تو توقع کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کے دلوں کو اْن کی طرف راغب کردے گا، اُمت اُن کی رہنمائی سے مستفید ہوگی۔ استعمار کی چالیں ناکام ہوں گی اور عالمِ اسلام کی حقیقی آزادی کی راہیں کْھلیں گی۔ تب اس کا بھی امکان ہے کہ عالمِ اسلام کی خوشگوار تبدیلیاں دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے لگیں اور نیشنلزم و سیکولراِزم کے فتنوں سے نجات کی راہ، دنیائے انسانیت کو نظر آجائے۔ تحریکِ اسلامی کو موجودہ حالات، احتسابِ زمانہ کے ساتھ، خود احتسابی اور تجدیدِ عہد کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں، اپنے عمل کا حساب
مسلمان عوام
پوری دنیا میں مسلمان عوام، دین سے محبت کرتے ہیں اور دینی شعائر کا احترام کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ وہ تین کمزوریوں کا شکار ہیں۔ ایک کمزوری یہ ہے کہ اُن کے اندر دین کا علم بہت کم اور محدود ہے۔ عموماً دین کے بارے میں اُن کی معلومات کاذریعہ وہ باتیں ہیں، جو انھوں نے مختلف مجالس میں سن رکھی ہیں، جو غلط اور صحیح کا ملغوبہ ہیں۔ دین کے سرچشموں… قرآن و سنت… سے عوام کا رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے اور بعض نادان مخلصین اور ہوشیار مفسدین برابر یہ کوشش کرتے رہتے ہیں کہ عوام قرآن و سنت سے واقف نہ ہونے پائیں۔
مسلمان عوام کی دوسری کمزوری اخلاقی پستی ہے۔ مغربی استعمار کی غلامی کی دو صدیوں نے اُن کے اخلاق و کردار کو بگاڑ دیا ہے۔ رسمی آزادی حاصل ہوجانے کے بعد مسلمانوں کی حکومتوں نے عموماً عوام کی دینی و اخلاقی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں کیا ہے۔ اس کے برعکس بگاڑ کے لیے ذرائع ابلاغ جو کوشش کرتے ہیں، حکومتیں اُن کی سرپرستی کرتی ہیں۔ عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد اپنی معیشت کے سلسلے میں حلال و حرام کی قیود سے ناواقف ہے یا ان سے بے پروا ہے۔ اصلاح و تلقین کرنے والے بھی عموماً اپنی گفتگو میں معیشت کو موضوعِ بحث نہیں بناتے۔ بددیانتی اور غیر ذمہ داری کے ساتھ مفاد پرستی بھی عام ہے۔ اپنے مفاد کے لیے لوگ، مفسدین کا آلہ کار بننے کے لیے یا اُن کی لیڈری و سیادت قبول کرنے کے لیے بآسانی آمادہ ہوجاتے ہیں۔ دین سے لگائو کے باوجود فرض عبادات تک سے عوام کا ایک بڑا حصہ غافل ہے۔
عوام کی ایک تیسری کمزوری غلط مذہبیت ہے۔ تعویذ، گنڈے اور غیر مسنون اذکار اس کی علامت ہیں۔ جب یہ بگاڑ آگے بڑھتا ہے تو مشرکانہ رسومات، اور عرسوں کے اہتمام کی شکل اختیار کرتا ہے۔ پیر اور مرشد کے ساتھ عقیدت میں غلو کیا جاتا ہے اور اس کی غیر مشروط اطاعت درست سمجھی جاتی ہے۔ بدعات کو بلا تکلف قبول کرلیا جاتا ہے اور قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ اصل دین پر خود ساختہ مذہبی رسوم و رواج کا بھاری بوجھ ڈال دیا جاتا ہے جو دین کی پُرکشش شبیہ کو چھپا دیتا ہے اور سلیم الفطرت طبیعتیں دین کی طرف راغب ہونے کے بجائے اس سے متنفر ہونے لگتی ہیں۔
یہ سمجھنا خام خیالی ہے کہ عوام کی دین سے محبت اور دینی شعائر سے اُن کی عقیدت، اسلامی نظام کی طرف پیش قدمی کے لیے کافی ہے اور عوام کی مندرجہ بالا کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے کسی خاص اہتمام کی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقتِ واقعہ اس کے برعکس ہے۔ عوام میں پائے جانے والی ان خرابیوں کی اصلاح کے بغیر اسلامی نظام کی طرف پیش قدمی بہت مشکل ہے۔ جس طرح دستور اور قانون کے اندر اصلاح درکار ہے، اسی طرح عوام کی اصلاح کے لیے بھی منصوبہ بند کوشش ضروری ہے۔ بگڑا ہوا مسلم معاشرہ، اسلامی نظام کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ اسلامی تحریک کو معاشرے کی ہمہ جہتی اصلاح کے لیے کام کرنا ہوگا۔ بلاشبہ ایک صالح حکومت معاشرے کے سدھار کا کام بڑے پیمانے پر کرسکتی ہے، لیکن یہ سمجھنا صحیح نہیں ہے کہ حکومت ہی اس سلسلے میں واحد مؤثر عامل ہے۔ معاشرے کو متاثر کرنے والے بہت سے عوامل ایسے بھی ہوتے ہیں، جو حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہوتے۔ اس لیے معاشرے کی اصلاح اور حکومتی ڈھانچے میں تبدیلی دونوں کی ضرورت ہے۔
نئی نسل
مسلمانوں کی نئی نسل دین سے محبت میں اپنے بزرگوں سے پیچھے نہیں، البتہ دو باتیں اُسے دین اور دیندار لوگوں سے دور کرتی ہیں: (الف) مسلمانوں کے مسلکی جھگڑے اور (ب) دیندار لوگوں کے کردار کی پستی۔ تحریک اسلامی کا کام یہ ہے کہ اس نئی نسل کے سامنے دین کی وہ تصویر پیش کرے، جو اِن کمزوریوں سے پاک ہو۔ نئی نسل کو اللہ کے دین کے حقیقی پیغام سے واقف ہونا چاہیے، جو اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے پھر اُن کے سامنے یہ بات بھی آنی چاہیے کہ اختلاف کی جائز حدود کیا ہیں اور ایسے اختلافات کے باوجود اتحادِ عمل کا راستہ کیا ہے۔ اس طرح یہ بھی ضروری ہے کہ تحریکِ اسلامی، نوجوان نسل کو اُن دین دار افراد سے متعارف کرائے جن کا اخلاق بلند اور کردار بے داغ ہے۔ اللہ کے فضل سے ماضی میں بھی امت میں بلند کردار افراد موجود تھے اور آج بھی وہ امت کی زندگی کی علامت ہیں۔
مسلمانوں کی نئی نسل خواندگی اور تعلیم کے اعتبار سے اپنے بزرگوں سے آگے ہے۔ تعلیم نے اُسے مغربی کلچر سے روشناس کرایا ہے۔ جمہوریت کے نعرے اس نے سنے ہیں اور اُس کے مظاہر دیکھے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور سائنس کی ترقی کا اثر اس نے قبول کیا ہے۔ تحریکِ اسلامی کو چاہیے کہ اس پس منظر میں نئی نسل کی رہنمائی کرے۔ مغربی کلچر کا ایک وصف، بحث و گفتگو کی آزادی ہے، اسلام اخلاقی حدود کی پابندی کے ساتھ اس کا قائل ہے۔ اسی طرح ذرائع ابلاغ اور ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کو اسلام درست سمجھتا ہے بشرطیکہ یہ استفادہ حدود اللہ کے دائرے میں ہو اور اُن ضوابط کے تحت ہو جو اللہ نے مقرر کیے ہیں۔ اسلام اس طرزِ حکومت کا قائل ہے، جس میں حکمراں، عوام کی مرضی سے چُنے جائیں اور اس سلسلے میں معاصر رجحان کی تائید اسے حاصل ہے۔ تحریکِ اسلامی مسلمانوں کی نئی نسل کو ان تمام امور کے سلسلے میں اسلام کے نقطۂ نظر سے آگاہ کرسکتی ہے اور یہ کام اسے ضرور کرنا چاہیے۔
عالمِ اسلام میں برپا عوامی تحریک میں نئی نسل نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ابھی تک ان کی دلچسپی زیادہ تر جمہوریت کی بحالی سے ہے۔ اب ان کے سامنے وہ سارے پہلو بھی آنے چاہئیں جن میں مغربی جمہوریت اصلاح کی محتاج ہے۔ تحریکِ اسلامی یہ تجزیہ پیش کرے تو نئی نسل کو اسلامی نقطۂ نظر پر مطمئن کرنا کوئی مشکل امر نہ ہوگا۔ اسی طرح یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ جمہوریت سیاسی نظام کے محض ایک پہلو کا نام ہے۔ سیاسی نظام کے سلسلے میں اساسی سوال یہ ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں کے سلسلے میں ہدایت کہاں سے اخذ کی جائے گی؟ اسلام کے نزدیک اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس ہدایت کا ماخذ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی ہے، جو اس کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت میں موجود ہے۔ تحریکِ اسلامی کو چاہیے کہ اس نقطۂ نظر سے نئی نسل کو واقف بھی کرائے اور انھیں مطمئن بھی کرے۔
سیکولراِزم کے حق میں ذرائع ابلاغ کا پروپیگنڈا جاری ہے۔ تحریکِ اسلامی کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ سیکولراِزم کے تجربے کا تنقیدی جائزہ لے کر بتائے کہ وہ انسانی مسائل حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سیکولر تہذیب تین صدیوں سے دنیا کے ایک بڑے حصے پر حکمراں ہے۔ اس نے دنیا میں امن کے قیام کے بجائے دنیا کو استعماری طاقتوں کا غلام بنادیا ہے۔ سیکولر ٹیکنالوجی نے خشکی اور تری میں فساد برپا کرکے دنیا کو ماحولیاتی بحران سے دوچار کیا ہے۔ سیکولر نظریے کے تحت اباحیت اور بے حیائی کو فروغ ملا ہے۔ انسانی قدریں پامال ہورہی ہیں اور خاندان بکھر رہے ہیں۔
مسلمان حکمراں طبقہ
مسلمانوں کے حکمراں طبقے میں مخلص اور باکردار افراد بھی موجود ہیں، لیکن بہت کم۔ اس طبقے کی اکثریت تین بڑی کمزوریوں کا شکار ہے۔ (الف) دین سے ناواقفیت اور اس سے بے پروائی (ب) کردار کی پستی اور مسرفانہ طرزِ زندگی (ج) مفاد پرستی اور مغرب سے مرعوبیت۔ ان کمزوریوں نے اُن کو بزدلی اور خوف میں بھی مبتلا کردیا ہے اور وہ بآسانی اپنے ملک اور امتِ مسلمہ کے خلاف غداری پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔
اِن حالات میں تحریکِ اسلامی کا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے پر توجہ کرے۔ حکمراں عموماً اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تعلیم یافتہ افراد میں مندرجہ بالا کمزوریاں پائی جائیں تو اُن کی اصلاح کی ہمہ جہتی کوشش کی جانی چاہیے۔ یہ مسلم معاشرے کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ دوسری طرف مسلمان عوام کو اس جانب متوجہ کیاجانا چاہیے کہ اگر حکمرانوں کا انتخاب ان کے اختیار میں ہو تو وہ ایسے افراد کو منتخب کریں جو ان نمایاں کمزوریوں سے پاک ہوں۔
یہ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ عالمِ اسلام حقیقی سیاسی آزادی اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتا اور اسے برقرار نہیں رکھ سکتا، جب تک وہ صنعت و حرفت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں قابلِ لحاظ ترقی نہ کرلے۔ یہ ترقی اس حد تک ہونی چاہیے کہ عالمِ اسلام معاشی، تکنیکی اور حربی پہلو سے
خودکفیل (Self Reliant) ہو جائے۔ اس کیفیت کے بغیر حکمرانوں کی نیک کرداری بھی ملک کو غلامی سے نہیں بچاسکتی۔ خود کفیل ہونے کے لیے منصوبہ بند کوشش درکار ہے۔ عالمِ اسلام کے تمام عناصر کو اس سلسلے میں کام کرنا ہوگا اور تحریکِ اسلامی ان کوششوں میں تعاون پیش کرسکتی ہے۔ خواندگی کا اہتمام، تعلیم کی ترقی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے اداروں کا قیام، صنعت و حرفت نیز زراعت کی ترقی کا اہتمام اور ان کاموں کے لیے ضروری وسائل کی فراہمی ضروری ہے۔ ان تمام امور میں مسلمان ممالک کا آپسی تعاون بھی درکار ہے۔ ملک کی آزادی کے لیے بنیادی شرط تو آزادی کی طَلَب اور اس کے حصول کا جذبہ ہے، لیکن اس کو برقرار رکھنے کے لیے خود کفیل ہونا بھی شرط ہے۔
دینی جماعتیں اور علما
بہت سے روایتی دینی حلقے جماعتِ اسلامی اور اخوان المسلمون سے مختلف امور میں اختلاف کرتے رہے ہیں اور یہ جماعتیں ان کی تنقید کا ہدف بھی بنی ہیں۔ اس واقعے کے باوجود ایسے افراد، ان حلقوں میں ہمیشہ پائے جاتے رہے ہیں، جنھوں نے جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کے کاموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔
اس تنقید کے باوجود جو بعض دینی حلقوں کی طرف سے کی گئی ہے، حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تحریک کی نمائندہ تنظیمیں اور روایتی دینی حلقے، اپنی اصل حیثیت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے معاون ہیں چنانچہ اسلامی نظام کے قیام کی جانب پیش رفت میں تحریکِ اسلامی کو ان تمام عناصر کا تعاون حاصل ہونا چاہیے جو دین کے لیے مخلص ہیں اور دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ اس تعاون کے راستے میں آخر کیا چیز رکاوٹ ہے؟
اِس سوال پر غور کیا جائے تو دو ممکن رکاوٹوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے: (الف) تنگ نظری اور جماعتی و مسلکی عصبیت اور (ب) مفاد پرستی۔
چنانچہ اسلامی تحریک کو کوشش کرنی چاہیے کہ خود اس کا دامن اِن کمزوریوں سے پاک ہو۔ پھر اسے اِس طرف توجہ کرنی چاہیے کہ دینی حلقوں اور جماعتوں میں وسیع النظری اور باہمی تعاون کی فضا فروغ پائے۔ اس سلسلے میں نوجوانوں سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ عموماً ان کے مزاج میں گروہی عصبیت کے بجائے حق پسندی غالب ہوتی ہے اور مفاد پرستی کے بجائے ان میں راہِ حق میں قربانی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔
مغربی طاقتیں
حالات پر اثر انداز ہونے والا آخری اہم عامل مغربی طاقتیں ہیں۔ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام، اپنے استعماری عزائم کے ساتھ پوری دنیا پر مسلط ہونے کی کوشش کررہا ہے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ مشرق میں ہوں یا مغرب میں، اسلام کی دعوت ان تک پہنچنی چاہیے، اسی طرح ہر فرد چاہے وہ حکمراں طبقے سے تعلق رکھتا ہو، اس کا مستحق ہے کہ اس کو فلاح و نجات کی راہ دکھائی جائے، لیکن جہاں تک جبر و استبداد پر مبنی، عالمی سرمایہ داری کے نمائندے، استعماری نظام کا تعلق ہے، اس کے خلاف مسلسل، منصوبہ بند اور انتھک جدوجہد کی ضرورت ہے۔ تحریکِ اسلامی کا کام یہ ہے کہ اس عظیم جدوجہد کے سلسلے میں انسانوں کی رہنمائی کرے۔ اس راستے میں اسے دنیا کے ان تمام عناصر کا تعاون حاصل ہوگا، جو اللہ کی زمین پر عدل و انصاف کا قیام چاہتے ہیں۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگیٔ نو‘‘ نئی دہلی۔ نومبر ۲۰۱۳ء)
Leave a Reply