
جمہوریہ گیمبیا مغربی افریقا کا ایک ممتاز ملک ہے۔ اس کا کل رقبہ ۴۱۲۷ مربع میل (11,295 km²) ہے۔ یہ ایک لمبائی کے رُخ کی ریاست ہے، جس کا طول ۲۹۵ میل اور عرض ۱۵ تا ۳۰ میل کے درمیان درمیان ہے۔ (اس کی آبادی سترہ لاکھ ہے) جغرافیائی طور پر دریائے گیمبیا اس مملکت کی پہچان ہے، یہ دریا افریقا کے مشہور دریاؤں میں سے ایک ہے، جو سات سو میل طویل بہاؤ کے بعد بحراوقیانوس میں جا گرتاہے۔افریقا سے بحراوقیانوس تک بحری رسائی اسی دریا سے ہی ممکن ہے۔ ’’بنجل‘‘ (Banjil) گیمبیا کا دارالحکومت ہے جبکہ ملک کا سب سے بڑا شہر ’’سریکنڈا‘‘ ہے جوملک کی سیاسی تہذیبی و معاشی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے۔ سال کے چند مہینے یہاں بارش ہوتی ہے، جس کی سالانہ شرح ۳۰۰؍ملی میٹر تک ہی ہوتی ہے جبکہ باقی سارا سال یہاں کا موسم خشک ہی رہتا ہے۔ ہریالی سے بھرپور خطوں کی اس سرزمین کے جنگلات میں کئی قسم کے جنگلی جانور بھی پائے جاتے ہیں۔ گیمبیا تین اطراف سے سینیگال کے ملک میں گھرا ہوا ہے جبکہ چوتھی سمت میں گیمبیا کو سمندر کا جوار حاصل ہے۔
۱۴۵۵ء میں پرتگالی ملاح سیاحوں نے اس سرزمین کو دریافت کیا۔ پرتگالیوں نے تجارت شروع کی اور ان کے بعد انگریز، فرانسیسی، ڈچ اور سویڈن کے تجار بھی یہاں پہنچنے لگے۔ اٹھارویں صدی میں برطانیہ نے یہاں قبضہ کیا اور اپنی فوج اور فوجی مشینری لگاکر مقامی افراد کو شکار کر کرکے انہیں غلاموں کے طور پر یورپی ممالک بھیجنے لگے۔انسانیت کے برطانوی ٹھیکیداروں نے غلاموں کی تجارت کے لیے گیمبیامیں باقاعدہ ایک بحری اڈا بھی بنایا۔اس کے بعد ایک طویل عرصے تک برطانیہ اور فرانس کے درمیان گیمبیااور دریائے گیمبیا کے معاملے پر تنازع رہا اور پیرس اور لندن میں اس علاقے کی قسمت کے فیصلے ہوتے رہے۔ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم کے لیے اس سرزمین سے بے شمار فوجی لیے، خاص طور پر برما کے محاذ کے لیے تاجِ برطانیہ نے جنگ کے ایندھن کے طور پر گیمبیا کے کالوں کا انتخاب کیا اور یورپی ’’جمہوریت‘‘ کے استحکام کے لیے افریقی خون سے ہولی کھیلی گئی تاکہ ’’عالمی امن‘‘ قائم ہو سکے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس ’’سیکولرازم‘‘نے کتنے ہی نقاب بدلے۔ لیکن مشرق وسطیٰ ہو، ایشیائے بعید یا پھر افریقی سیاہ فام اقوام کی سرزمین ہو، سیکولرازم کا انسانیت دشمن کردار یکساں ہی نظر آتا ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے زمانے سے ہی افریقی سیاست میں گیمبیا کا مرکزی کردار رہا، ۱۹۴۳ء میں ’’کاسا بلانکا کانفرنس‘‘ مراکش جاتے ہوئے امریکی صدر روز ویلیٹ نے ایک رات کا قیام گیمبیا میں کیا اور یہ کسی امریکی صدر کا افریقی براعظم کے کسی ملک کا پہلا دورہ تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے تباہ کن نتائج نے عالمی استعمارکے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے بند باندھ دیا تھا، دوسری طرف شعور کے باعث ۱۹۶۰ء تک یہاں بہت سی سیاسی پارٹیاں بن چکی تھیں اور قریے قریے سے آزادی کی صدائیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ ساتھ ہی ساتھ گیمبیا میں نئے دستورکی تحریک نے بھی اپنی رفتارتیزکر لی تھی۔۱۹۶۲ء کے انتخابات نے مملکت کے مستقبل کی راہیں وضع کر دیں اور برطانیہ ایک طرح سے ان انتخابات کے بعد اپنا اثر و رسوخ کھو بیٹھا اور بدیسی حکمرانوں کی اُلٹی گنتی شروع ہوگئی۔ تاجِ برطانیہ چاہتا تھا کہ سینیگال اور گیمبیا اکٹھے رہیں، لیکن مقامی قیادت اس پر تیار نہ تھی، چنانچہ ۱۸فروری ۱۹۶۵ء کوایک طویل جدوجہد کے بعد گیمبیا کو آزاد کرالیا گیا، ۱۹۷۴ء کو اس مملکت کو ’’جمہوریہ گیمبیا‘‘ کا نام دیا گیا۔ سینیگال نے یہاں قبضہ کی کوشش کی لیکن ناکام ہوا، جس کے بعد ۱۹۸۲ء میں دونوں ملکوں نے مل کر ’’سینی گیمبیا‘‘ کے نام سے کنفیڈریشن بنالی جس میں دفاع اور معیشت میں یکساں پالیسی، جبکہ دیگر اُمور میں آزادی دے دی گئی۔ تاہم ۱۹۸۹ء میں گیمبیا نے اس کنفیڈریشن سے مکمل علیحدگی کا اعلان کر دیا، تب سے گیمبیا ایک مکمل آزاد و خودمختار ریاست ہے۔
’’جالا‘‘نام کے لوگ اس سرزمین کے قدیم باشندے ہیں جو کہ اب زیادہ تر مغربی گیمبیا میں مقیم ہیں۔ ’’مانڈینگو‘‘ نسل کے لوگ یہاں کے اکثریتی قبائل ہیں جو کل آبادی کا چالیس فیصد ہیں۔جبکہ دارالحکومت ’’بنجل‘‘ میں ’’وولوف‘‘ نام کے خاندان زیادہ پائے جاتے ہیں۔ دریائے گیمبیا کے انتہائی اوپری علاقوں میں ’’فولانی‘‘قبائل آباد ہیں اور یہ قبائل اب ایک طاقت کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ان مشہور افریقی نسلوں کے علاوہ بہت سے دیگر قبائل کے لوگ بھی یہاں بکثرت آباد ہیں۔ یہاں نوے فیصدآبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور شاید اسی وجہ سے کم و بیش پوری مملکت میں ایک ہی طرح کی ثقافت مروج ہے۔ یہاں ریلوے لائن اور اندرون ملک ہوائی سفر نہیں ہے۔ پرائمری تعلیم مفت ہے لیکن لازمی نہیں، ثانوی تعلیمی ادارے بھی بکثرت ہیں لیکن اعلیٰ تعلیم کے لیے طلبہ کو بیرون ملک کا سفر کرنا پڑتا ہے۔کم و بیش یہی صورتحال صحت کی بھی ہے۔
گیمبیاکی سب سے بڑی پہچان اس سرزمین پر کاشت ہونے والی مونگ پھلی ہے، جو یہاں کی سب سے بڑی فصل ہے اورحکومت کی آمدن کا بہت بڑا ذریعہ بھی۔ جدیدطریقوں کے عین مطابق مونگ پھلی کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔ جہاں پراسے کئی مراحل سے گزارکر بیج کو برآمد کردیا جاتا ہے۔
یہاں کی زمینیں زیادہ تر خاندانوں کی ملکیت ہوتی ہیں اور پورا کا پورا خاندان مل کر اپنی زمینوں کی اور ان پر کاشت کی ہوئی فصلوں کی نگہداشت کرتا ہے۔ یہاں کے کاشتکاربہت محنتی اور دیانتدارہیں۔ حکومت یہاں پر چاول کی کاشت پر بھی توجہ دیتی ہے اور جہاں جہاں سبزہ بہت زیادہ ہے وہاں پالتوجانوروں کے فارم بھی بنائے گئے ہیں۔دریا کے ساتھ ساتھ رہنے والوں کو وہاں کی حکومت مچھلی کے شکارکے لیے قرضے بھی فراہم کرتی ہے،تاکہ وہ لوگ کشتیاں خرید کر یہ کام کرسکیں۔ مقامی لوگوں سے مچھلیاں خرید کر حکومت انہیں واجبی سے مراحل سے گزار کر برآمد کر دیتی ہے۔ گیمبیا کی تجارت زیادہ تر فرانس، برطانیہ اور سینیگال سے ہے۔
حکومت کا سربراہ ’’صدر مملکت‘‘ ہوتا ہے جسے پانچ سال کے لیے چُنا جاتا ہے۔ پچاس اراکین پر مشتمل ایوان نمائندگان ہے، جس میں چھتیس ارکان منتخب ہوتے ہیں اور باقی نامزدگیوں سے پہنچتے ہیں۔ ’’پیپلز پروگریسو پارٹی‘‘ یہاں کی اکثریتی سیاسی جماعت ہے۔ حکومت کی تشکیل کے لیے صدر مملکت ایوان نمائندگان میں سے اپنا نائب صدر اور وزرا چُنتا ہے، جن سے مل کر وہ ریاست کا انتظامی ڈھانچہ چلاتا ہے۔ اعلیٰ عدالت ’’سپریم کورٹ‘‘ ہے جس کے سربراہ کا تقرر بھی صدر مملکت ہی کرتا ہے۔ ملک میں ۳۵؍اضلاع ہیں جنہیں سات انتظامی صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ہر ضلع کی حکومت وہاں کے منتخب نمائندوں کے تحت کام کرتی ہے۔گیمبیاکے ایوان ہائے اقتدارپرفوجی شب خون کثرت
سے مارا جاتا رہا جس کے باعث ۹۰ فیصد مسلمان اکثریت کے باوجود گیمبیا کو سیکولر ریاست کا درجہ حاصل ہے۔ اس کی وجہ جملہ اسلامی ممالک میں استعمار کی چھوڑی ہوئی طاقتور باقیات میں سے سب سے بڑا ادارہ فوج ہی ہے۔
اسلام کی آمد کے وقت یہ علاقہ بربروں کے زیراثر تھا۔ اپنے آغاز میں ہی اسلام یہاں ساتویں صدی ہجری میں پہنچ گیا اور بہت سے قبائل نے اسلام قبول کرلیاتب سے صدیوں تک یہاں اسلام ہی برسر اقتدار رہا اور بہت سے مسلمان خاندانوں نے حکومت کی۔ گیمبیا کی تہذیب و ثقافت پر اسلام کے بے پناہ اثرات ہیں، خاص طور پر انیسویں صدی کی تجدیدی کاوشوں سے جہاں بہت سے قبائل دائرہ اسلام میں داخل ہوئے وہاں پہلے سے موجود مسلمانوں کی اصلاحِ عقائد بھی کی گئی۔ یہاں کے قوانین میں اسلامی شریعت کے کچھ حصے بھی شامل ہیں، مسلمانوں کے باہمی معاملات ’’سپریم اسلامی کونسل‘‘ حل کرتی ہے جبکہ مسلمانوں کے لیے عدالتیں بھی قائم کی گئی ہیں۔ مسلمانوں کے مذہبی ایام پر عام تعطیل بھی کی جاتی ہے۔ یہاں کے مسلمان تصوف سے بے پناہ لگاؤ رکھتے ہیں اور عملی طور پر مسلمانوں کی اکثریت فقہ مالکی کی پیروکار ہے، تاہم کچھ عرب اورافریقی ملے جلے قبائل میں فقہ شافعیہ بھی رائج ہے۔ گیمبیا نے ۲۰۱۹ء میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کا بھی قصد کر رکھاہے۔
Leave a Reply