
وزارت عظمیٰ کے لیے نریندر مودی کا انتخاب اور تیزی سے بدلتا عالمی منظرنامہ، خاص طور پر ایشیا میں امریکا کی بڑھتی دلچسپی اور مغرب کے ساتھ روس کی نئی سرد جنگ۔۔ ان تمام عوامل نے بھارت کے لیے خطے کی بڑی قوت بننے کے امکانات ایک بار پھر روشن کر دیے ہیں۔ وزیراعظم بنتے ہی مختصر عرصے میں نریندر مودی نے جاپان کا دورہ کر کے وزیراعظم شند زو آبے سے ملاقات کی، بھارت میں چین کے صدر میزبان بنے تو واشنگٹن میں امریکی صدر براک اوباما نے ان کی مہمان نوازی کی۔
خطے میں تیزی سے ابھرتے چین کو قابو کرنے، بیدار ہوتے روس کے خلاف پیش بندی اور اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں سے مقابلے کے لیے امریکا واضح طور پر بھارت کو ساتھی کا درجہ دینا چاہتا ہے۔ امریکی سرکار بھارت سے شراکت داری محفوظ رکھنے کے لیے پیچھے ہٹنے کو بھی تیار ہے۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نریندر مودی کے دورۂ واشنگٹن میں بھارت کو امریکا کی جانب سے جدید ترین دفاعی ساز و سامان، فوجی تربیت اور خفیہ اطلاعات کی فراہمی میں تعاون پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی سے متعلق بھارت کے موقف کی تائید، مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری، جوہری ری ایکٹرز کی فراہمی، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کی حمایت اور افغانستان سے غیرملکی فوج کے انخلا کے بعد بھارت کو اہم کردار کی پیش کش متوقع ہے۔ اس دوران مسئلہ کشمیر کا تذکرہ کیا جائے گا، نہ ہی بھارت میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات ہوگی۔
محبت کے اس کھیل تماشے میں اگر کسی نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو وہ امریکا کے بجائے بھارت ہوگا۔ کیوں کہ بھارت اس نوعیت کی اہم شراکت داری کے تمام فوائد امریکا سے حاصل کر رہا ہے، اس کے باوجود نئی دلی سرکار، روس، چین، ایران اور دوسری طاقتوں سے تعلقات کے نتیجے میں ملنے والے فوائد چھوڑنا نہیں چاہتی۔
بھارت کے چین سے بہتر ہوتے تعلقات کا معاملہ پیچیدہ ہے۔ ایشیا کی دونوں بڑی قوتوں کی نظریں تجارت اور سرمایہ کاری میں تعاون کے مثبت اثرات پر ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ جنگِ عظیم دوم کے بعد عالمی معیشت کو امریکا کے اثر و رسوخ سے نکالا جائے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے دورۂ بھارت کے دوران بیس ارب ڈالر سرمایہ کاری کی پیش کش کی۔ یہ رقم مودی کی آبائی ریاست گجرات اور دیگر علاقوں میں انڈسٹریل پارکس اور انفرا اسٹرکچر کی بہتری پر خرچ کی جائے گی۔
عظیم قوت بننے کی کوشش میں پاکستان بڑی رکاوٹ
بھارت اور چین کے درمیان تعلقات میں اب بھی رکاوٹیں موجود ہیں۔ چین کے ہاتھوں ۱۹۶۲ء کی جنگ میں شکست کی یادیں اب تک بھارت کو تکلیف پہنچا رہی ہیں۔ سرحدی تنازع کسی طور سلجھایا گیا ہے لیکن مکمل طور پر حل نہیں کیا جاسکا۔ آنے والے دنوں میں دفاعی اور سرحدی معاملات پر رقابت کا رجحان چین کے بجائے بھارت میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ نئی دلی سرکار کی خواہش ہے کہ بھارت ایشیا اور دنیا بھر میں چین کی عسکری اور معاشی قوت کے ہم پلہ ہو جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ چین کے اسٹریٹجک تعلقات اور اشتراک ختم ہو جائے۔ ایک ایسی قیمت پر جو بیجنگ ادا کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔
دوسری جانب، بیجنگ کلیدی ترجیحات پر سمجھوتا کیے بغیر بھارت سے نرم رویہ اختیار کرنے کو تیار ہے، تاکہ اس کی سرحدوں کے اطراف امریکا کی سرپرستی میں ایشیائی ملکوں کا کوئی اتحاد نہ بنے۔ چین کے بعض حکام کا بیان ہے کہ ’’جب گھر کے صدر دروازے پر بھیڑیا (امریکا) موجود ہو تو پچھلے دروازے پر کھڑی لومڑی (بھارت) سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ’’بھارت اگر امریکا کا اسٹریٹجک پارٹنر بن کر سامنے آتا ہے تو چین اسے خطے میں غیرموثر کرنے کے لیے پاکستان کو بھرپور مدد اور تعاون فراہم کرے گا۔ فی الحال چین کا پاکستان کے لیے یہی مشورہ ہے کہ بھارت سے الجھا نہ جائے۔
چین اور بھارت کے تعلقات میں پیچیدگی اس وقت بھی سامنے آئی جب صدر شی جن پنگ نئی دلی میں تھے اور یہ خبر سامنے آئی کہ مقبوضہ کشمیر میں چین کی سرحد کے ساتھ دونوں ملکوں کے فوجی اگلے مورچوں پر آگئے ہیں۔ ایسے موقع پر جب صدر شی جن پنگ بھارت میں ہوں، چین کی جانب سے ایسی حرکت کا تصور ممکن نہیں۔ بھارت میں موجود ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ بھارتی فوج کی چین کی سرحد کے قریب تعیناتی کا حکم صرف وزیراعظم نریندر مودی ہی دے سکتے ہیں۔ پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ عسکری قوت کا یہ مظاہرہ مودی نے اپنے انتہا پسند حلقہ انتخاب کو دکھانے کے لیے کیا؟ یا دورۂ واشنگٹن سے پہلے امریکا کو یہ پیغام دینا تھا کہ دونوں حکومتوں کا مقصد یکساں ہے؟
یوکرین کے معاملے پر روس اور مغرب میں حالیہ سرد جنگ کے بعد بھارت (اور دوسرے غیراتحادی ملکوں) کو فائدہ ہوسکتا ہے اور دونوں فریقوں سے بہتر انداز میں معاملات طے ہوسکیں گے۔ لیکن ایسی صورت میں کہ جب مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہو، روس اور مغرب کے لیے کسی تیسرے فریق کو قبول کرنے کے امکانات کم ہو جائیں گے۔
بھارت کے امریکا سے بڑھتے تعلقات اور ماسکو کے بجائے واشنگٹن سے ہتھیاروں کی فروخت کے معاہدوں کو اب تک روس نے خندہ پیشانی سے قبول کیا ہے۔ ماسکو اور بھارت کے تعلقات طویل عرصے سے قائم ہیں، اس کے مقابلے میں روس نے پاکستان کو دفاعی ساز و سامان کی فروخت پر اب تک غیراعلانی پابندی لگا رکھی ہے۔ تاہم امریکا اور بھارت میں بڑھتی قربت، روس اور چین کے درمیان کلیدی شعبوں میں اشتراک، پاکستان اور امریکا میں بڑھتی دوری کے بعد ماسکو کا جھکاؤ اسلام آباد کی طرف ہو رہا ہے، ساتھ ہی بھارت اور روس کے تعلقات میں کھنچائو آرہا ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ روس اب دفاع اور دیگر امور میں بھارت، پاکستان اور افغانستان کے ساتھ برابری کا برتاؤ اختیار کرے۔
بھارت کے لیے عظیم قوت بننے کی راہ میں پہلی رکاوٹ اب بھی پاکستان ہی ہے۔ پاکستان جب تک خطے میں بھارت کی برتری تسلیم نہیں کرتا، جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک بھی آواز اٹھاتے رہیں گے۔ پاکستان جب تک بھارت کو جنوبی ایشیا میں الجھائے رکھتا ہے، عالمی سطح پر بڑی طاقت کا کردار ادا کرنے کے لیے بھارت خود کو آزاد نہیں سمجھ سکتا۔
بھارت کی برتری تسلیم نہ کرنے سے متعلق پاکستان کے عزم اور مقابلے کی صلاحیت ختم کرنے کے لیے مودی کی قیادت میں حکومت نے کئی محاذ کھول رکھے ہیں۔ بھارت اس سلسلے میں پاکستان کے خلاف روایتی و ایٹمی ہتھیاروں اور دیگر فوجی ساز و سامان میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے مرکز کی حیثیت سے پیش کر کے اسے عالمی برادری میں تنہا کر رہا ہے۔
پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے لیے بلوچ علیحدگی پسندوں اور افغانستان کے راستے دہشت گردی کے لیے تحریک طالبان کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ اقتصادی اور ثقافتی فوائد بتا کر پاکستان کی اشرافیہ کو ’’بھارتی شرائط پر‘‘ تعاون کے لیے قائل کیا جارہا ہے۔ بھارت کو اس سلسلے میں مغرب کے بعض مخصوص حلقوں کی بھی بھرپور مدد حاصل ہے۔
اس حکمت عملی کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں، نئی دلی اور مغربی ملکوں نے اس جانب مناسب توجہ ہی نہیں دی۔ اس حکمت عملی سے پاکستان میں انتہا پسندی بڑھی اور قوم پرستوں کی سیاسی حیثیت مضبوط ہوئی۔ کالعدم تحریک طالبان سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی ہچکچاہٹ اس بات کا ثبوت ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دفاعی شعبے میں توازن تیزی سے بگڑ رہا ہے، اس وجہ سے پاکستان کا کم از کم دفاع کے لیے ایٹمی ہتھیاروں پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔
کشمیر سمیت تمام حل طلب مسائل، دہشت گردی کے واقعات اور خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں اضافے کے باعث پاکستان اور بھارت کا تنازع عالمی امن اور سلامتی کے لیے بڑا خطرہ بن گیا ہے۔ بھارت کی پاکستان کے ساتھ ایک اور حادثاتی یا منصوبہ بندی کے تحت جنگ ہوئی تو عظیم طاقت بننے کے لیے نئی دلی سرکار کی کوششیں داؤ پر لگ سکتی ہیں۔
(مترجم: سیف اﷲ خان)
“India’s great power game”.
(Daily “Dawn”. Sep 28, 2014)
Leave a Reply