
حال ہی میں حکومت کے ایک منصوبے کے متعلق ایک تنازعہ پیدا ہوا کہ وہ غیر ملکی خریداروں کو اراضی فروخت کر رہی ہے یا ٹھیکے پر دے رہی ہے، تاکہ زرعی پیداوار میں اضافہ ہو سکے اور سرمایہ حاصل کیا جائے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں دونوں اس منصوبے میں بہت دلچسپی لے رہی ہیں۔ لیکن اس کے نتیجے میں کیا ہو گا؟ اور اس قسم کے اقدام سے کیسے نقصان کا امکان ہے؟ یہ امر جائزے کا متقاضی ہے۔ اصولی طور پر یہ اقدام بہت اچھا نظر آتا ہے۔ تصور کریں اس سے بہت زیادہ سرمایہ کاری ہو گی، خصوصاً زرعی انفراسٹرکچر کی ترقی میں، دیہی علاقوں میں ملازمتوں کے زیادہ مواقع پیدا ہوں گے اور اسی طرح ملک کی معیشت کو فائدہ ہو گا۔ غالباً یہ اقدام ’’فرینڈز آف ڈیمو کریٹک پاکستان‘‘ اور دیگر امداد دینے والوں کے سامنے بھیک مانگنے کی نسبت بہتر ہو گا۔ تاہم اس تجویز سے پاکستان جو فائدے حاصل کرے گا اس کا انحصار اس کام کو سنبھالنے پر ہے۔
حکومت کا منصوبہ یہ ہے کہ تقریباً سات لاکھ ایکڑ اراضی سرمایہ کاروں کو دے دی جائے جو غالباً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھتے ہیں۔ فی الحال یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس تجویز کے ضمن میں کیا طریق کار اپنایا جائے گا؟ کیا اس میں صرف سرکاری اراضی شامل ہو گی یا نجی اراضی بھی؟
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ حکومتی حلقوں میں اجتماعی کاشتکاری کا تصور پھیلایا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں بھی اس کا تذکرہ ہوا تھا اور آپشن یہ تھی کہ اراضی چینی کاشتکاروں کو ٹھیکے پر دی جائے گی۔ بیجنگ نے تجویز پیش کی تھی کہ وہ دو ہزار ایکڑ اراضی ۱۰ سے ۱۵ سال کی مدت کے لیے ٹھیکے پر لے گا اور معاہدہ یہ ہو گا کہ چین تکنیکی اور مالی سرمایہ کاری کرے گا، بیجوں اور دوسرے آلات کی جدید اقسام میں سرمایہ کاری کرے گا اور پھر ٹھیکہ ختم ہونے پر نیا انفراسٹرکچر حکومت کے یا اراضی کے مالکان کے حوالے کر کے چلا جائے گا۔ حکومتی اہلکاروں نے مزید تبدیلیوں کی سفارش کی اور کہا کہ سرمایہ کار اراضی کے انفرادی مالکان کے ساتھ معاہدے کریں اور ضمانت دیں کہ ان کی ملکیت برقرار رہے گی اور سالانہ منافع میں انہیں حصہ بھی ملے گا۔ یہ اضافی منافع ہو گا جو انہیں طے کیے گئے منافع کے ساتھ ملے گا۔
چین کے ساتھ مذاکرات ناکام رہے اور اب ایسا نظر آتا ہے کہ موجودہ حکومت دوسرے ممکنہ خریداروں مثلاً سعودی عرب اور عرب امارات کی طرف رجوع کر رہی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو جو فارمولا پیش کیا جا رہا ہے اس کے متعلق مختلف کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ پہلی کہانی تو یہ ہے کہ حکومت غیر ملکی ٹھیکیداروں کو چولستان (پنجاب) اور بلوچستان میں زمین ٹھیکے پر دے رہی ہے۔ پنجاب کے وزیر زراعت نے واضح طور پر تصدیق کر دی ہے کہ چولستان کی تقریباً ۶ لاکھ ایکڑ زمین پیش کی گئی تھی جبکہ اس پیشکش کو علاقے میں کھارے پانی کی وجہ سے مسترد کر دیا گیا ہے۔
یہ کہانیاں بھی چل رہی ہیں کہ حکومت مندرجہ بالا دونوں ملکوں کی پرائیویٹ کمپنیوں کے پرائیویٹ مالکان سے زمین حاصل کرنے میں مدد کر رہی ہے کہ وہ وہاں سبزیاں اور دوسری فصلیں کاشت کریں جو وہ اپنے اپنے ملک کو ہی بھیجیں گے۔ یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ حکومت ٹیکسوں میں کچھ رعایت دے گی اور ٹھیکے پر حاصل کی گئی یا خریدی گئی زمینوں کی حفاظت کے لیے سیکوریٹی یونٹس رکھے جائیں گے۔
اس قسم کی تجاویز سے کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ اوّل: حکومت ان سرمایہ کاروں کو مالی رعایات کیوں مہیا کر رہی ہے، خصوصاً اس لیے کہ اگر یہ سرمایہ حاصل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ پیداوار اپنے ملکوں میں کیوں لے جائیں گے؟ دوم: اگر اراضی کے کوئی دوسرے دعویدار نہیں ہیں یا اگر سارا معاملہ افہام و تفہیم سے طے پا جاتا ہے تو حکومت کو سیکوریٹی یونٹ رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ یا کیا ایسا تو نہیں ہے کہ کچھ لوگوں سے زمین زبردستی حاصل کی جائے گی جس سے اسلام آباد اور ٹھیکہ کرنے والے ملکوں کو ایسے کام کے بدلے میں جوابی کارروائی کا خدشہ ہو؟
مشرقِ وسطیٰ یا خلیجی ریاستوں کے پاس زمین فروخت کرنے یا انہیں ٹھیکے پر دینے میں ایک بنیادی مسئلہ ہے وہ یہ کہ ان ملکوں کی پاکستان میں پہلے ہی سے جائیدادیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر چولستان میں زمین کے وسیع خطے کئی سال سے مختلف خلیجی حکمرانوں کے لیے مختص ہیں، جو ان زمینوں کو شکار گاہوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور انہوں نے علاقے میں بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرا رکھی ہیں۔
خلیجی ریاستیں اور سعودی عرب اب ایسے نظر آتے ہیں کہ ان کے پاس حالات کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے سنبھالنے کی صلاحیت ہے، کیونکہ ہم نے حال ہی میں دیکھا ہے جب شاہ عبداللہ نے پرویز مشرف کو تسلّی دی تھی اور نواز شریف کو اپنے پاس بلایا تھا۔ ان روابط کے ساتھ سیاسی معیشت کا بھی کچھ تعلق ہے، خصوصاً نچلی سطح پر۔ یہ حکمران اپنے ساتھ جو سرمایہ اور سیاسی اثر و رسوخ لاتے ہیں اس سے مقامی سطح پر شراکت داری پیدا ہو جاتی ہے۔ جبکہ اس کی مثالیں جنوبی پنجاب میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اس علاقے سے مشرف حکومت کے ایک وزیر مملکت نے ابوظہبی کے حکمران طبقے کے ایک اہم ایجنٹ کی شراکت داری کے ساتھ ایک شوگر مل قائم کی۔
مذاکرات میں اس قدر راز داری برتی جا رہی ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاشتکار فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ سیاسی طور پر بااثر زمین مالکان نہ صرف بہتر بندوبست حاصل کریں گے بلکہ ڈیل میں شراکت دار بھی بن جائیں گے۔ اس میں متعدد فوجی جرنیل بھی شامل ہوں گے جنہیں چولستان میں زمین ملی ہوئی ہے۔ یہ لوگ کاشتکاری سے واقف نہیں اور غالباً اس وقت انہیں مالی طور پر بھی کچھ زیادہ حاصل نہیں ہو رہا اور وہ اس قسم کی ڈیل سے بہت خوش ہوں گے۔ علاقے کے بڑے زمین مالکان کو بھی بہت خوشی ہو گی جو دستیاب سہولتوں سے ہر صورت میں فائدہ اٹھائیں گے اور اپنی زمینوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے اپنے تعلقات استعمال کریں گے۔ مثال کے طور پر پھلوں کی برآمد ایک منافع بخش کاروبار ہے لیکن اس سے سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے والے بڑے زمین مالکان ہیں اور وہ بھی غیر ملکی اداروں کو اراضی ٹھیکے پر دینے کے آئیڈیاز کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں۔ اس وقت مسئلہ یہ درپیش ہے کہ زراعت کے فروغ کے ذرائع پر چند لوگوں کی اجارہ داری ہے۔ ایک ایسا نظام وجود میں لانے کی ضرورت ہے جس میں ذرائع زیادہ سے زیادہ کاشتکاروں کی رسائی میں ہوں۔ شاید زیر غور فارمولا کی نسبت اس نظام سے زیادہ فائدہ ہو۔ جس طریقے سے اراضی ٹھیکے پر دی جا رہی ہے اس سے پاکستان کے ایک جعلی جمہوری ملک ہونے کی شہرت ہی میں اضافہ ہو گا۔
(بشکریہ: ’’ڈان‘‘ ترجمہ: ریحان قیوم)
Leave a Reply