
دسمبر ۲۰۰۸ء کے آخر میں اسرائیل نے غزہ کے خلاف بمباری کے شدید حملہ میں ’’رصاص مصبوب‘‘ (Cast Lead) نامی جنگی مہم چھیڑی، جس کا علانیہ مقصد حماس کے زیر حکمرانی غزہ کے راکٹ حملوں کا مقابلہ تھا۔ تین ہفتے تک جاری حملہ میں بے حد و حساب عام تباہی و بربادی کے ساتھ چودہ سو فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہو چکے تھے۔ اس وقت ترکی کے وزیر خارجہ اور موجودہ وزیر اقتصادیات علی بابا جان نے کہا تھا: ’’میں نے اسرائیلی وزیر ایہود باراک کو متنبہ کیا تھا کہ اگر آپ نے غزہ کے خلاف کچھ کیا تو اسے سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس کے خلاف ہمارا سخت ردعمل ہوگا‘‘۔ اس وارننگ کی روشنی میں غزہ حملہ نے ثابت کر دیا کہ وہ ترکی، اسرائیل کے تعلقات میں واقعتا تبدیلی کا موڑ ہوگا۔ غزہ پر حملہ سے پہلے ترکی ثالثوں کا خیال تھا کہ وہ اسرائیل و شام کے درمیان امن معاہدہ تک پہنچنے والے ہیں۔ اس حملہ کے بعد ترکی کا غضب ناک ردعمل اتنا بڑھا کہ جب ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوان اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے ساتھ ڈیوس عالمی اقتصادی کانفرنس میں شریک ہوئے تو برملا اس کے منہ پر غصہ سے کہا: ’’اسرائیلی خوب جانتے ہیں کہ قتل (عام) کیسے کیا جاتا ہے‘‘۔
۳۱؍مئی ۲۰۱۰ء کے قتل عام کے بعد ترک قوم کو معلوم ہو گیا کہ اسرائیل کے بارے میں ایردوان حق پر تھے۔ اس دن اسرائیلی کمانڈو نے ترکی بیڑہ میں شامل مرمرۃ سفینہ پر حملہ کیا جس پر صرف شہری سوار تھے اور وہ اسرائیلی محاصرہ کا شکار غزہ تک انسانی ضروریات کا امدادی سامان لے کر جارہے تھے، اس وحشیانہ حملہ میں نوترک شہری شہید ہوئے۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس نے جو کچھ کیا وہ اپنے دفاع کے لیے کیا اور اس نے اس بیڑہ کے منتظمین پر الزام لگایا (چونکہ ایک ترک امدادی انجمن کے ممبر تھے) کہ وہ عالمی مجاہدین کا محض فرنٹ تھے۔ ترکی نے ظاہر ہے اس کی نفی کرتے ہوئے علانیہ رسمی معذرت طلب کی اور اقوام متحدہ کی طرف سے امریکا کی سربراہی میں تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اگر اسرائیل کو یہ قبول نہیں تو ترکی اس کے ساتھ سفارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر سکتا ہے۔
بعض مغربی ممالک کا خیال ہے کہ ترکی کا مشرق کی طرف رجحان اور آخری برسوں میں اس کے حساب سے ترکی کی خارجہ پالیسی کی ترتیب نو کی وجہ سے ایردوان اور ان کی جماعت کی اسلامی جڑیں ہیں۔ اس کی تصدیق ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف سیکوریٹی کونسل کی طرف سے پابندیوں کی مخالفت میں ووٹنگ سے بھی ہوتی ہے۔ ان حالات میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مغرب ’’ترکی کو کھو چکا ہے‘‘۔ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اس خیال کو دہراتے ہوئے یورپی یونین کی ملامت کی ہے کہ اس نے یورپی تنظیم میں ترکی کی شمولیت کی ہمت افزائی کے لیے مزید کوششیں نہیں کیں۔ بہرحال مرمرۃ کشتی پر حملہ کا حادثہ ترکی کے رُخ کی تبدیلی کی ایک اور دلیل ہے۔ ترکی کے ناقدین کہتے ہیں: ’’بیڑہ کو روکنے کے لیے ترکی بہت کچھ کر سکتا تھا‘‘۔ جب کہ ترک حکومت کا کہنا ہے: ’’حکومت غیر سرکاری تنظیموں کے (نیک) کاموں میں مداخلت نہیں کر سکتی‘‘۔
سابق سلطنتِ عثمانیہ کے اہم جزو عالم عربی کی طرف ترکی نے گزشتہ ۹۰ برس سے توجہ نہیں کی اور پورا دھیان مغرب پر دیا۔ پہلے اس نے ناٹو اتحاد میں شامل ہونے کی کوشش کی جس میں ۱۹۵۲ء میں کامیابی ہوئی اور پھر یورپی یونین میں شمولیت چاہتا رہا، اسی وجہ سے اس نے اسرائیل کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کیے، جب کہ نمایاں ترک سیکولر حلقہ کے نزدیک اسرائیل دوستی ریڈیکل اسلامی عناصر کا علاج تھا۔
سابق حکومتوں سے بڑھ کر ایردوان کی حکومت نے ترکی کے تمام میدانوں میں اصلاحات کیں جن کی وجہ سے پبلک امور میں ترک فوج کی ٹانگ اڑانے (مداخلت) کی عادت کم ہوئی، اور برے پڑوس کی قدیم ترکی شکایت کے بدلہ خارجہ پالیسی میں زیادہ اعتماد و حوصلہ آیا۔ اس لیے اس نے ’’پڑوسیوں کے ساتھ صفر کی حد تک مشکلات و مسائل کو گھٹانے‘‘ کی پالیسی اختیار کی۔ وزیر خارجہ احمد دائود اوغلو کی یہ پالیسی مغربی مقاصد سے بھی متفق ہے، عراق میں بھی اس کی صحت ثابت ہو چکی ہے، امریکا و ترکی دونوں امریکا کی وہاں سے واپسی تک حالات مستحکم رکھنا چاہتے ہیں۔ شیعہ و سنی گروہوں میں اتحاد قائم کرنے میں اوغلو نے بنیادی کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے ایرانی اثر و رسوخ کم ہوا، اور ترکی کے سابق دشمن عراقی کردوں کی دشمنی بھی کم ہوئی۔ اقوام متحدہ میں آخری ووٹنگ سے پہلے ایران امریکا کے لیے دردسر تھا، مگر ترکی کا ایران گیس پر بڑا اعتماد ہے اور اس کے ساتھ کسی بھی بڑی کشمکش کے برے نتائج ہو سکتے ہیں، اس لیے ترکی کے وزیر مالیات محمد شیمشک نے صاف طور پر کہا: ’’ہم کٹھ پتلی نہیں ہیں‘‘ اسی لیے نئی منڈیوں کی تلاش میں اس نے پڑوسیوں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کیے، جس کی وجہ سے عالمی مالی بحران کے باوجود ترک اقتصادیات مستحکم رہیں اور نمود تعاون تنظیم کا اندازہ ہے کہ اس سال مقامی نمو سات فیصد ہو گی جس سے ترکی کی صلاحیت پر اعتماد بڑھے گا۔
ترکی کی نئی خارجی سیاست کا ایک اور عنصر عراق پر امریکی قبضہ کی مخالفت ہے جس کو ترک ناپسند کرتے ہیں اور خفا ہوتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات کو بھی ترک حکومت ناپسند کرتی ہے۔ اس لیے بابا جان کا کہنا ہے کہ فریقین کے تعلقات کبھی بھی ماضی والی پوزیشن میں واپس نہیں آئیں گے۔ مگر یہ بات بھی صحیح ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے خاتمے کی قیمت بھاری ہو گی۔
متعدد مغربی سفارت کاروں کا خیال ہے کہ غزہ سے اسرائیلی محاصرہ ختم کرانے کی کوششوں میں زیادہ طاقت سے ترکی کی شرکت اس کے لیے اس لیے غلط ہو گی کہ وہ تنہا بذاتِ خود اسرائیلی اور فلسطینی فریقوں کے درمیان مسئلہ کو حل نہیں کرا سکتا۔ اگرچہ عرب عوام میں اس کا بہتر محصول ملے گا اس لیے کہ ایردوان وہاں ہیرو ہو چکے ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ جماعت میں عام رائے یہ ہے کہ خطہ میں ترکی کی سرگرمی سے یورپی یونین میں اس کی قیمت بڑھے گی اور جہاں تک امریکا کا معاملہ ہے تو اس کو عراق و افغانستان میں ترکی کی ضرورت ہے۔ اس لیے وہ اس کی تھوڑی بہت زحمت ہی سے سہی برداشت کرے گا، جب کہ اسرائیل اور ایران ان نظریات کو شدت سے آزمائیں گے۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’المجتمع‘‘ کویت)
Leave a Reply