غزہ میں جاری لڑائی ۲۰۰۸ء کے بعد سے تیسری ہے۔ اگر معاملات کو درست کرنے کا دیرپا طریقہ نہ سوچا گیا تو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ اگلے مناقشے تک کا محض ایک وقفہ ثابت ہوگا۔ مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارے کو کنٹرول کرنے کے مقابلے میں غزہ کا معاملہ کم پیچیدہ ہے مگر عالمی رہنماؤں کی شدید ناکامی نے اس مسئلہ کو غیر معمولی حد تک پیچیدہ کردیا ہے۔
۱۹۴۹ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد فریقین نے غزہ کی پٹی کی سرحد قبول کی تھی۔ ایریل شیرون نے جب غزہ سے رضاکارانہ انخلا کا آپشن اختیار کیا، تب غزہ سے ۲۰۰۵ء میں آخری اسرائیلی آبادکار بھی نکل گیا۔ ایریل شیرون کا فیصلہ ویسا ہی تھا جیسا ۲۰۰۰ء میں ایہود بارک نے جنوبی لبنان سے نکلنے کے حوالے سے کیا تھا۔ غزہ میں ایسا کوئی بھی مقدس مقام نہیں جس پر مسلمان، یہودی اور عیسائی آپس میں لڑتے رہے ہوں۔
بہت سے اسرائیلی یہ سوچتے ہیں کہ صبح جب آنکھ کھلے گی تب معلوم ہوگا کہ غزہ کی پٹی ہاتھ سے جاچکی ہے یا اُس کا مصر سے الحاق کر دیا گیا ہے۔ مگر غزہ کی پٹی کہیں نہیں جارہی۔ ۳۶۵ مربع کلومیٹر میں ۱۸؍لاکھ افراد بسے ہوئے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ بحیرۂ روم کے کنارے یہ چھوٹا سا علاقہ آخر کس طرح پوری دنیا کی بھرپور توجہ کا مرکز بن گیا؟
صدیوں سے اِس علاقے سے گزرنے والوں نے یہاں کی شاندار فطری خصوصیات کو سراہا ہے۔ غزہ کی زمین زرخیز ہے اور موسم ایسا ہے کہ کئی علاقوں کے پرندے یہاں آنا اور قیام کرنا پسند کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں غزہ ’جَو‘ کا اچھا برآمد کنندہ تھا۔ چند برس پہلے تک غزہ کے پھلوں کی برآمدات بھی خاصی ہوا کرتی تھیں۔ اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے غزہ کی بدنصیبی یہ ہے کہ اِسے دو سلطنتوں کا نقطۂ اتصال ہونے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل ہے۔
غزہ سٹی ایک قدرتی بندرگاہ سے جڑی ہوئی ہے اور کم و بیش ساڑھے تین ہزار سال سے آباد علاقہ ہے۔ غزہ کے عسکریت پسندوں نے اسرائیل پر حملوں اور تجارتی سامان کی ترسیل کے لیے سرنگوں کا نیٹ ورک پھیلایا ہوا ہے۔ یونان کے عظیم فاتح سکندراعظم کی افواج نے بھی غزہ سٹی سے ملحق علاقے کو اِسی طور گھیرا تھا اور اِس علاقے کی افواج کا تین ماہ محاصرہ جاری رکھا۔ بعد میں سکندر کے فوجی غزہ سے مال غنیمت ۶ بڑے جہازوں میں بھر کر لے گئے۔ اِس کے ۱۵۰۰ سال بعد یعنی ظہورِ اسلام کے بعد غزہ پر مسلمانوں اور عیسائیوں نے باری باری حکومت کی۔ کئی صدیوں بعد اِس خطے پر نپولین کا بھی حکم چلا۔
۱۹۰۶ء میں برطانوی حکومت نے، جو اس وقت مصر کو بھی کنٹرول کرتی تھی، ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ سے اِس امر پر اتفاق کیا کہ مصر و سینائی اور ترک صوبے فلسطین کے درمیان سرحد کے تعین پر اتفاق کیا اور یوں رفاہ ساحلی قصبے کی حیثیت اختیار کرگیا اور یہ حیثیت برقرار ہے۔
غزہ میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تنازعات کی ابتدا برطانوی دور ہی میں ہوگئی تھی۔ ۱۹۲۲ء میں یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات کا ذکر ملتا ہے۔ ۱۹۲۹ء میں مقبوضہ بیت المقدس، الخلیل اور دیگر علاقوں میں پھوٹ پڑنے والے فسادات کے بعد غزہ کے ۵۴ یہودی باشندوں نے نقل مکانی کی، گوکہ اُن کے عرب پڑوسیوں نے انہیں مکمل تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ ۱۹۴۵ء تک غزہ کی ۴ فیصد زمین یورپ سے تعلق رکھنے والے یہودیوں کی ملکیت تھی جو آبادی کا ۲ فیصد تھے۔ ۱۹۴۷ء کے اقوام متحدہ کے منصوبہ تقسیم کے تحت غزہ کو یہودیوں کی ریاست کے شانہ بشانہ معرض وجود میں لائی جانے والی فلسطینی ریاست کا حصہ بننا تھا۔ ۱۴؍مئی ۱۹۴۷ء کو جب اسرائیل معرضِ وجود میں آگیا، تب مصر کی فوج نے غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا اور یہ علاقہ دنیا بھر میں موجود فلسطینیوں کے لیے انتہائی پرکشش ہوگیا۔
اسرائیل نے غزہ کو کئی بار تباہی سے دوچار کیا ہے۔ مگر پھر بھی غزہ میں فلسطینیوں کے لیے ہمیشہ کشش رہی ہے۔ دنیا بھر سے فلسطینی غزہ کا رُخ کرتے رہے ہیں اور وہ اپنے ساتھ بہت سی پیچیدگیاں بھی لائے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ کسی پسماندہ خطے سے فلسطینی ہجرت کرکے غزہ پہنچے اور اپنے ساتھ طرح طرح کی بیماریاں بھی لے آئے۔ اقوام متحدہ نے بہت سے فلسطینیوں اور کوئیکرز کو غزہ کی سرزمین پر بسانے کے لیے فنڈز بھی فراہم کیے ہیں۔ سابق برطانوی راج میں بھی فلسطینیوں نے بڑی تعداد میں غزہ کا رُخ کیا۔ جگہ کم تھی اور آبادی زیادہ۔ اس کے نتیجے میں مسائل بڑھتے گئے۔ غزہ کے باشندوں کے مسائل تو بڑھے ہیں، اُنہیں حل کرنے کی کوششیں برائے نام بھی دکھائی نہیں دیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ آج غزہ میں ہر طرف مسائل ہی مسائل ہیں۔ غربت اور بے روزگاری نے بہت سے دوسرے مسائل کو جنم دیا ہے۔ جس وقت غزہ کی آبادی ۸۰ ہزار تھی، تب وہاں ۲ لاکھ پناہ گزین آئے تھے۔ آج بھی تناسب کچھ ایسا ہی ہے۔ ۱۸؍لاکھ کی آبادی میں کم و بیش ۱۲؍لاکھ پناہ گزین ہیں۔ اگر پناہ گزین مصر کا رُخ کرتے تو اُسی طرح کیمپوں میں رہ سکتے تھے جس طرح اُنہوں نے لبنان، اردن اور شام میں رہائش اختیار کی تھی۔ مصریوں نے غزہ کا انتظام تو سنبھالا مگر اُسے ملک کا حصہ بنانے سے گریز کیا۔ اردن نے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے معاملے میں اِس کے برعکس کیا تھا۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے اسرائیل کے وزیر اعظم بین گوریان نے تجویز پیش کی تھی کہ غزہ کی پٹی کو اسرائیل کا حصہ بنا لیا جائے اور اس کے فلسطینی پناہ گزینوں کو اسرائیل بھر میں دوبارہ آباد کردیا جائے۔
بین گوریان کی تجویز کو اقوام متحدہ اور عرب ریاستوں نے فوری طور پر مسترد کر دیا کیونکہ عرب ریاستیں کسی بھی حالت میں اسرائیل کے رقبے میں اضافہ برداشت نہیں کرسکتی تھیں۔ مصر کے زیرِ انتظام غزہ فلسطینی قوم پرستی کا مرکز بن گیا۔ کبھی کبھی فلسطینی قوم پرستی مصر کے فوجی ڈکٹیٹر جمال عبدالناصر کے خلاف بھی ہوا کرتی تھی جیسا کہ ۱۹۵۵ء میں ہوا۔ غزہ کی پٹی میں بسے ہوئے فلسطینیوں کو مصر کی انٹیلی جنس نے اپنے مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا۔ اسرائیل کے خلاف ڈھکے چھپے حملوں کے لیے مصری انٹیلی جنس ہی نے فلسطینی فدائین تیار کیے تھے۔
غزہ میں جو کچھ ہوتا تھا، اس کا اسرائیل کو کسی حد تک فائدہ یوں پہنچا کہ اُسی کی بنیاد پر اسرائیل نے مصر کے خلاف کارروائیوں کی راہ ہموار کی۔ اسرائیل اور مصر کی لڑائی میں غزہ کے فلسطینی کبھی کبھی پِس کر رہ جاتے تھے۔ فرانس اور برطانیہ کی مدد سے اسرائیل نے اکتوبر ۱۹۵۶ء میں جمال عبدالناصر کی انتظامیہ کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔ اس کے نتیجے میں غزہ بھی لپیٹ میں آیا اور ایک ہزار سے زائد ہلاکتوں کے بعد امریکا اور اقوام متحدہ کو مداخلت کرنی پڑی۔ امریکا اور اقوام متحدہ کے دباؤ ہی پر بین گوریان کو غزہ پر چار ماہ کا قبضہ ختم کرنا پڑا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ جمال عبدالناصر سے یہ یقین دہانی بھی حاصل کی گئی کہ اس خطے کو پُرسکون رکھا جائے گا۔ اس کے بعد دس سال قدرے سکون سے گزرے مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اسرائیل کے لیے خطرات ختم ہوگئے تھے۔ فدائین ختم نہیں ہوئے تھے بلکہ زیرِ زمین چلے گئے تھے۔ ۱۹۶۴ء میں غزہ کی سرکردہ ہستیوں نے مل کر تنظیم آزادی فلسطین قائم کی۔ جون ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں غزہ کی پٹی کو اسرائیلیوں نے چند گھنٹوں میں فتح کرلیا اور ہتھیار ڈالنے والے مصری فوجیوں کو وہاں سے نکال دیا گیا۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ باقی نہ رہا۔ فلسطینی فدائین چار سال تک اسرائیلی قبضے کے خلاف ڈھکی چھپی جنگ لڑتے رہے۔ اسرائیلی انٹیلی جنس نے بہتر سمجھا کہ غزہ میں فلسطینی قوم پرستوں کے نیٹ ورک کو کمزور کرنے کے لیے اسلام پسند فلسطینی گروپوں کو پنپنے دیا جائے۔ یوں شیخ احمد یاسین نے قوم پرست ’’تنظیم آزادی فلسطین‘‘ کو چیلنج کرنے کے لیے مزاحمت پسند تنظیم ’’حماس‘‘ کی بنیاد رکھی۔
مقبوضہ حالت میں پروان چڑھنے والی دو نسلوں نے اپنی مایوسی اور کمزوری ہی سے اتنی توانائی کشید کی کہ ۱۹۸۷ء میں اسرائیل کے خلاف بھرپور مزاحمتی تحریک ’’انتفاضہ‘‘ کا آغاز کیا جاسکے۔ غزہ کی پٹی سے شروع ہونے والی یہ تحریک بہت جلد ایسی تیزی سے پروان چڑھی کہ اس نے دریائے اردن کے مغربی کنارے کو بھی لپیٹ میں لے لیا اور اردن کے شاہ حسین کو بھی وہاں سے اپنے ملک کا قبضہ ختم کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ ۱۹۹۰ء کے اوائل میں ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں طے پانے والے معاہدے کے تحت تنظیم آزادی فلسطین نے دو ریاستوں کا نظریہ تسلیم کرلیا جس کے تحت غزہ، مشرقی مقبوضہ بیت المقدس اور غرب اردن پر مشتمل فلسطینی ریاست کو معرضِ وجود میں آنا تھا۔ حماس کے بانی شیخ احمد یاسین نے اس معاہدے کی شدید مخالفت کی جس کے نتیجے میں اسرائیل نے انہیں جیل میں ڈال دیا۔ اپنے قائد کی گرفتاری سے دل برداشتہ ہوئے بغیر حماس کے ارکان نے القسام بریگیڈ قائم کی جس کا بنیادی مقصد اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا تھا۔ ۱۹۹۴ء میں یاسر عرفات نے غزہ میں نئی فلسطینی اتھارٹی کی قیادت کی جو حماس کے لیے ایک بڑے دھچکے سے کم نہ تھی۔ اختیارات کا کچھ حصہ غرب اردن کے حوالے کردیا گیا۔ اوسلو معاہدے میں یاسر عرفات کے پارٹنر یزاک رابن کو ایک یہودی انتہا پسند نے ۱۹۹۵ء میں قتل کردیا۔ اب اسرائیل کی قیادت بنیامین نیتن یاہو کے ہاتھ میں آئی جس نے حماس کو ختم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور ۱۹۹۷ء میں حماس کی جلا وطن قیادت کے سربراہ خالد مشعل کو زہر دے کر مارنے کے لیے ایجنٹس عمان بھیجے۔
اردن کی انٹیلی جنس نے یہ منصوبہ پکڑ لیا۔ نیتن یاہو کو خالد مشعل کے لیے تریاق بھیجنا پڑا اور شیخ احمد یاسین کو رہا کرنا پڑا۔
شیخ احمد یاسین اور خالد مشعل کے آگے یاسر عرفات کا چراغ بجھ سا گیا۔ شیخ احمد یاسین کو ۲۰۰۴ء میں شہید کردیا گیا۔ خالد مشعل حماس کی قیادت سنبھالے ہوئے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کی کمزور ہوتی پوزیشن نے ۲۰۰۰ء میں ایک اور انتفاضہ کی راہ ہموار کی اور خود کش حملوں کا سلسلہ چل پڑا۔
اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول سنبھالنے والی تنظیم الفتح کی حمایت اور مدد جاری رکھی مگر حماس کی پوزیشن مسلسل مستحکم ہوتی رہی۔ محمود عباس نے ۲۰۰۵ء میں الفتح کی قیادت سنبھالی، مگر حماس کی مقبولیت برقرار رہی۔ حماس نے ۲۰۰۷ء میں الفتح کو غزہ سے نکال دیا۔ اسرائیل نے ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۲ء میں غزہ پر شدید بمباری کی۔
اسرائیل غزہ کو غیر مسلح کر کے اپنی سرزمین پر حملے روکنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف حماس چاہتی ہے کہ غزہ کا محاصرہ ختم کردیا جائے تاکہ وہ ضرورت کی اشیا بآسانی حاصل کرسکے۔ اسرائیل کے نقطہ نظر سے بھی دیکھیے تو غزہ کی پٹی کو غیر مسلح کرنے کے لیے لازم ہے کہ اقتصادی ناکہ بندی ختم کی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو غزہ میں اسرائیل کے خلاف جذبات بھڑکتے ہی رہیں گے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے غزہ کے لوگ چور دروازوں کا سہارا لیتے رہیں گے۔ اگر اسرائیل سرنگوں کا نیٹ ورک تباہ کرنا چاہتا ہے تو غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کردے۔ اسی صورت وہ غزہ کے لوگوں کو عسکریت پسندی سے دور رکھنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے باوجود ایک دوسرے پر عسکری فتح کی خواہش موجود ہے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب غزہ کے مکینوں کو بہتر اور محفوظ زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ان کی معاشی پریشانیاں دور کی جائیں۔ ایسا کیے بغیر بہتری کا خواب دیکھنا حماقت کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ غزہ میں تین نسلیں بحرانی مراحل سے گزرتی ہوئی جوان ہوئیں۔ انہوں نے قبضہ بھی دیکھا ہے اور ماتم بھی۔ مزاحمت بھی کی ہے اور شکست کا منہ بھی دیکھا ہے۔ اب یہ سب کچھ ختم ہوجانا چاہیے۔ اوسلو معاہدے کے تحت لازم تھا کہ غزہ کو اولیت دی جائے۔ جب اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کے تمام راستے بند ہوجائیں اور ہر امکان دم توڑ دے، تب بھی غزہ کی بنیاد پر امن بحال کیا جاسکتا ہے۔
”Gaza, victim of history”.
(” New York Times”. August 27, 2014)
Leave a Reply