ہندوستان کے عام انتخابات کے نتائج سامنے آ چکے ہیں۔ یوں تو بہت سارے پہلو، ان انتخابات کے ایسے ہیں جو دعوتِ غور و فکر دیتے ہیں، لیکن پانچ نمایاں پہلوئوں کا تذکرہ نامناسب نہ ہو گا:
الف) انتخابات میں کسی مرکزی سوال (Issue) کی غیر موجودگی۔
ب) ’’مسلم مخالف لہر‘‘ پیدا کرنے کی کوششوں کی ناکامی۔
ج) علاقائی عوامل کا اہم رول۔
د) بی ایس پی اور کمیونسٹ پارٹیوں کی حوصلہ شکنی۔
ہ) بی جے پی کی طاقت میں قابلِ لحاظ کمی۔
کسی مرکزی سوال کا موجود نہ ہونا:
سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ۲۰۰۹ء کے عام انتخابات میں کوئی مرکزی سوال یا Issue نمایاں طور پر عوام کے سامنے نہیں لایا گیا۔ ملکی سیاق میں جن سوالات کو بجا طور پر بڑی اہمیت حاصل تھی (اور ہے) وہ یہ تین سوالات تھے:
(۱) امریکا سے نیوکلیائی معاہدے اور اُس کے نتیجے میں ملک کی آزادی و خودمختاری کو لاحق خطرہ۔
(۲) گلوبلائزیشن کے سباق میں ملک کے لیے موزوں معاشی پالیسی۔
(۳) خارجہ پالیسی پر امریکا کے بڑھتے ہوئے اثرات کی مضرّت۔
اِن سوالات کی اہمیت واضح ہے۔ لیکن ان سوالات پر انتخابی مہم کے دوران کوئی قابلِ ذکر بحث نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں (یعنی کانگریس اور بی جے پی) کا مؤقف ان معاملات میں یکساں ہے۔ دونوں پارٹیاں یکساں امریکا نواز اور نیو کلیائی معاہدے کی حامی ہیں۔ دونوں سرمایہ دارانہ نظام کی تائید کرتی ہیں اور گلوبلائزیشن اور ’’لبرلائزیشن‘‘ کی قائل ہیں۔ اس طرح دونوں امریکا اور اسرائیل سے فوجی اور سیاسی تعلقات میں اضافے کی خواہاں ہیں اور عربوں سے زبانی دوستی کا دعویٰ کرنے کے باوجود عملاً وہ اسرائیل کو عرب ممالک سے زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔
اس لیے یہ تو کوئی تعجب کی بات نہیں کہ دو بڑی سیاسی پارٹیوں نے ان اہم سوالات کو موضوع بحث نہیں بنایا ہے البتہ یہ ضرور تعجب اور تشویش کی بات ہے کہ دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی ان سوالات کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ کمیونسٹ پارٹیاں ان سوالات پر گفتگو کرتی رہی ہیں لیکن انتخابی مہم کے دوران وہ عوام کو ان موضوعات کی اہمیت سے باخبر نہیں کرا سکیں۔ علاقائی پارٹیوں نے ان سوالات کا یا تو کوئی تذکرہ نہیں کیا یا وہی موقف اختیار کیا جو بی جے پی اور کانگریس کا ہے۔ اس طرح دیگر عوامی فورم، اخبارات، حقوق انسانی کی تحریکیں اور ذرائع ابلاغ میں ہونے والے مباحثے بھی ان موضوعات کی اہمیت اجاگر کرنے سے قاصر رہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی عوام (جن کے سیاسی شعور کا آج کل بہت تذکرہ ہو رہا ہے) ابھی فی الواقع ’’سیاسی شعور‘‘ کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں اور روز مرہ کے مسائل (بجلی، پانی، سڑک) سے تو وہ خاصے باخبر ہیں لیکن ملک کی آزادی اور خود مختاری جیسے دور رس سوالات کی اہمیت ان کے سامنے نہیں ہے۔
لیکن سب سے بڑھ کر یہ ناکامی مسلمانوں کی ہے۔ مسلمان ’’سیکولر‘‘ پارٹیوں کی تائید کرنے کی ضرورت پر تو عموماً خوب زور بیان اور زورِ قلم صرف کرتے رہے لیکن انہوں نے ملک کی خارجہ پالیسی، امریکا نوازی اور سرمایہ دارانہ نظام کے احیاء جیسے سوالات پر گفتگو نہیں کی۔ اب جبکہ انتخابات مکمل ہو چکے ہیں اور ملکی سیاست میں آئندہ پانچ سال تک کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں ہے مسلمانوں کے لیے موقع ہے کہ ان موضوعات پر گفتگو شروع کریں۔
مسلمانوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارا ملک امریکی دبائو سے آزاد ہو اور آزاد و منصفانہ خارجہ پالیسی اختیار کرے، پڑوسی ممالک سے اس کے تعلقات خوشگوار ہوں اور اس کی قیادت میں ’’غیر جانبدار ممالک کی تحریک‘‘ (Non Aligned Movement) کا احیاء ہو۔ اسی طرح مسلمانوں کو اس امر کی بھی کوشش کرنی چاہیے کہ سرمایہ داری کے احیا کے بجائے یہاں کا معاشی ڈھانچہ ’’اسلامی اقدار‘‘ سے قریب ہو اور حکومت عوام کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کو تسلیم بھی کرے اور عملاً ادا بھی کرے۔ انتخابات کی ہنگامی فضا کے مقابلے میں موجودہ معمول کی فضا میں ان سنجیدہ موضوعات پر گفتگو کے مواقع زیادہ ہیں۔ مسلمانوں کو ان مواقع کا استعمال کرنا چاہیے۔
مسلم مخالف طاقتوں کی ناکامی:
اس الیکشن میں بی جے پی نے اپنے منشور کے ذریعے یہ تاثر دیا کہ وہ اپنے ’’مسلم مخالف ایجنڈے‘‘ پر قائم ہے چنانچہ ’’رام مندر‘‘ کی تعمیر کے عزم کا اس نے اپنے منشور میں تذکرہ کیا۔ اسی کے ساتھ بی جے پی نے مختلف طریقوں سے یہ کوشش کی کہ مسلمانوں کے خلاف جذباتی فضا بنائی جائے۔ اس کوشش کی دو نمایاں مثالیں ورون گاندھی کی تقریریں اور نریندر مودی کی انتخابی مہم کی دوڑ دھوپ ہیں۔ ’مسلم مخالف‘ فضا بنانے کی ان کوششوں کو الیکشن کمیشن نے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور اخبارات و ذرائع ابلاغ نے عموماً ان کوششوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ چنانچہ بی جے پی ملک میں کوئی ’’جذباتی لہر‘‘ پیدا کرنے میں ناکام رہی۔
اس سلسلے میں سب سے خاص بات یہ ہے کہ ان کوششوں کا عوام پر کوئی قابلِ لحاظ اثر نہیں پڑا۔ یہ ملک کے حالات کا ایک خوش آئند پہلو ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کی دیرینہ کوشش یہ رہی ہے کہ مسلمانوں اور ملک کے دوسرے باشندوں کے درمیان اتنی دوری پیدا کر دی جائے کہ وہ ایک دوسرے کی بات ہی نہ سن سکیں۔ خدا کے فضل سے یہ طاقتیں اس مقصد میں ناکام رہی ہیں۔ موجودہ الیکشن میں جو غیر جذباتی فضا عموماً رہی وہ اس ناکامی کی ایک علامت ہے۔
اب مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس فضا نے جو مواقع پیدا کیے ہیں اُن کو استعمال کریں اور دعوتِ حق تمام باشندگانِ ملک تک پہنچائیں۔ ملک میں شرپسند قوتیں موجود تو ضرور ہیں مگر بہرحال وہ اتنی طاقتور نہیں ہیں کہ دعوتِ حق کو لوگوں کے کانوں تک پہنچنے سے روک سکیں۔
علاقائی عوامل کا اہم رول:
اس الیکشن میں ملک کے مختلف حصوں میں نتائج میں بڑا اختلاف رہا ہے۔ مثلاً کرناٹک میں بی جے پی آگے تھی اور اس کی پڑوسی ریاست آندھرا پردیش میں کانگریس آگے تھے۔ اسی طرح علاقائی پارٹیوں (مثلاً ڈی ایم کے) نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ جو پارٹیاں اپنے دعوے کے لحاظ سے تو علاقائی نہیں ہیں مگر عملاً اُن کے اثرات ایک علاقے تک ہی محدود ہیں (مثلاً ایس پی) اُن کی کارکردگی بھی قابلِ لحاظ رہی۔ یہ ساری صورتحال بتاتی ہے کہ اگرچہ الیکشن ملکی پیمانے کا تھا لیکن عوام کی پسند و ناپسند کے متعین کرنے میں علاقائی عوامل کو بڑی اہمیت حاصل رہی اور بسا اوقات انہوں نے فیصلہ کن رول ادا کیا۔
غور کیا جائے تو علاقائی عوامل کی یہ اہمیت دراصل نتیجہ ہے کسی ’’مرکزی سوال‘‘ (Key Issue) کی غیر موجودگی کا، جس کا تذکرہ سطورِ بالا میں کیا جا چکا ہے۔ اس لحاظ سے تو یہ بات خوش آئند ہے کہ چند ’’بڑی پارٹیوں‘‘ کی اجارہ داری متاثر ہوئی ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ صورتحال عوام کے شعور کی ناپختگی کی غماز بھی ہے۔
مسلمانانِ ہند کا تذکرہ اس سیاق میں بھی ضروری ہے۔ اب مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اسلام کے دائمی اصولوں کی روشنی میں وہ ملک میں ایسی تحریک چلائیں جو ہمہ گیر عدل و انصاف کی علمبردار ہو۔ اگر ایسی تحریک میدان میں آئے تو وہ انصاف پسند طبقے کی توجہات کو اپنی طرف مبذول کرا سکتی ہے اور وہ عناصر جو اب تک صرف کسی ’’علاقے کی فلاح و بہبود‘‘ کو اپنا مقصد بنائے ہوئے ہیں اس طرف راغب ہو سکتے ہیں کہ پوری انسانیت کی فلاح کو اپنا مقصود بنائیں۔
دلِت پارٹی اور کمیونسٹ پارٹیاں:
الیکشن سے قبل بی ایس پی کے حوصلے بہت بلند تھے اور اُس کی لیڈر محترمہ مایاوتی بلاتکلف یہ کہہ رہی تھیں کہ وہ ’’وزیراعظم‘‘ بننا چاہتی ہیں۔ الیکشن کے نتائج نے اُن کی حوصلہ شکنی کی ہے (چنانچہ انہوں نے ایک موقع شناس سیاستدان کی طرح اب یو پی اے کی حکومت کو اپنی ’’غیر مشروط حمایت‘‘ پیش کر دی ہے) دلتوں کی پارٹی کی یہ صورتحال ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ’’دلت تحریک‘‘ اس ملک میں نصف صدی سے زائد عرصے سے سرگرم عمل ہے۔ یہ تحریک مختلف مراحل سے گزری ہے اور ’’بی ایس پی‘‘ اس تحریک کا سیاسی بازو ہے۔ ’’دلت تحریک‘‘ کی روح ذات پات کے نظام سے بے اطمینانی اور اس کے مظالم سے چھٹکارا پانے کی خواہش ہے لیکن اب بی ایس پی ’’دلت تحریک‘‘ کے اصل ایجنڈے سے منحرف و تائب ہو چکی ہے اور محض ’’اپنی لیڈر‘‘ کے لیے حصولِ اقتدار اس پارٹی کا مقصد بن گیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اب یہ پارٹی ذات پات کے نظام پر کسی اضطراب کا اظہار نہیں کرتی اور ’’برہمن نوازی‘‘ اس کا شعار بنتی جا رہی ہے۔
بی ایس پی میں یہ بنیادی تبدیلی آ چکی ہے اس کا احساس دلت عوام کو ہو چلا ہے۔ چنانچہ اس انتخابی مہم میں ایسی خبریں بھی آئیں کہ دلت عوام محترمہ مایاوتی کی تقریر سننے جمع تو ہوئے (اور کہا جاتا ہے کہ اُن میں سے بہت سے محض ہیلی کاپٹر دیکھنے کے شوق میں آئے تھے) لیکن دورانِ تقریر وہ مجمع چھوڑ کر چلے گئے۔ اسی طرح ایک چونکا دینے والی خبر یہ آئی کہ ایک دلت خاندان کو بی ایس پی کے ورکروں نے مارا پیٹا کیوں کہ اس نے بی ایس پی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیا تھا۔
اقتدار کے حصول کے لیے جلد بازی اور اپنے اصولوں سے انحراف کسی تحریک کی روح کا کس طرح خاتمہ کر دیتا ہے، بی ایس پی کی یہ صورتحال اس کی ایک عبرت انگیز مثال ہے۔ بی ایس پی کے دورِ حکومت میں یو پی میں دلتوں پر ظلم و ستم اسی طرح جاری رہا ہے جس طرح سابق حکومتوں میں ہوا کرتا تھا۔ اس کا احساس بھی دلت عوام کو ہو گیا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی ایک طویل عرصے سے بنگال میں برسرِ اقتدار ہے لیکن اس مرتبہ لوک سبھا کے انتخاب میں اس کی کارکردگی بہت متاثر ہوئی۔ اس کی ایک وجہ سرمایہ دارانہ نظام سے سمجھوتہ ہے۔ دلت تحریک کی طرح کمیونسٹ تحریک بھی اپنی اصل روح کو ترک کر چکی ہے اور کسی نہ کسی طرح ’’حصولِ اقتدار‘‘ اس کا مطمح نظر بن چکا ہے، لیکن اس کی دوسری وجہ وہ خرابیاں ہیں جو بنگال میں اقتدار پر قابض رہنے کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہیں۔ پارٹی کے ممبران (جنہیں کیڈر Cadre کہا جاتا ہے) اقتدار کے نشے میں چُور ہیں اور عوام پر بے تحاشا ظلم کرتے ہیں۔ اس الیکشن کے دوران بھی اُن کے ظلم و ستم کی مثالیں سامنے آئی ہیں۔ ان زیادتیوں کے خلاف عوام میں غصے کا ابھرنا ایک فطری ردِعمل ہے۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ کمیونسٹ پارٹیاں (کانگریس اور بی جے پی کے ایجنڈے سے مختلف) ’’اپنے ایجنڈے‘‘ پر عوام کی توجہ مبذول نہیں کرا سکیں۔ اس کا تذکرہ ہم پہلے عنوان کے تحت کر چکے ہیں۔
بی جے پی کی صورتحال:
بی جے پی کو اس مرتبہ ۱۹ فیصد سے کچھ کم ووٹ ملے ہیں، جبکہ ۲۰۰۴ء کے الیکشن میں اس پارٹی کو ۲۲ فیصد سے کچھ زیادہ ووٹ ملے تھے اس طرح اس کے ووٹوں میں تقریباً ساڑھے تین فیصد کمی آئی ہے۔ ووٹوں کے موجودہ فیصد کو دیکھا جائے تو یہ پارٹی ۵۴۳ کے ایوان میں ۱۰۲ سیٹوں کی حقدار قرار پاتی ہے۔ ہندوستانی جمہوریت کے مخصوص سسٹم کی بناء پر اس کو اپنے ووٹوں کے حقیقی تناسب سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں (یعنی ۱۱۶)۔
بی جے پی کے بالمقابل کانگریس کو ۲۰۰۹ء کے اس الیکشن میں ۲۸ فیصد سے کچھ زائد ووٹ ملے ہیں، جب کہ ۲۰۰۴ء کے الیکشن میں کانگریس کو ۲۶ فیصد سے کچھ زائد ووٹ ملے تھے۔ اس طرح کانگریس کے ووٹوں میں ۲ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ووٹوں کے تناسب کا لحاظ کیا جائے تو کانگریس ۵۴۳ کے ایوان میں ۱۵۵ سیٹوں کی حقدار ٹھہرتی ہے۔ فی الواقع اس پارٹی کو ۲۰۶ سیٹیں ملی ہیں۔ (اس کی وجہ یہاں کی جمہوریت کا مخصوص سسٹم ہے جو ’’متناسب نمائندگی‘‘ پر مبنی نہیں ہے)۔
کانگریس اور بی جے پی دونوں کے مجموعی ووٹوں کو دیکھیں تو دونوں پارٹیوں نے ۲۰۰۴ء کے انتخابات میں ۴۹ فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ ۲۰۰۹ء میں اُن کے مجموعی ووٹوں میں ڈیڑھ فیصد کی کمی آئی ہے۔ (یہ ڈیڑھ فیصد ووٹ دوسری پارٹیوں کو ملے ہیں مگر اُن کی وجہ سے اِن چھوٹی پارٹیوں کی سیٹوں میں متناسب اضافہ نہیں ہوا ہے)۔
کیا بی جے پی کے ووٹوں میں ساڑھے تین فیصد کی اس کمی کے معنی یہ ہیں کہ اس پارٹی کے سماج میں اثرات میں اسی قدر کمی ہو گئی ہے؟ ہمارے خیال میں یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہ ہو گا۔ جو نتیجہ فی الواقع نکالا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ پارٹی کے اثرات میں کچھ نہ کچھ کمی تو ضرور واقع ہوئی ہے۔ مگر یہ کمی اتنی زیادہ نہیں ہے کہ اس پارٹی کے خطرے کو مستقبل میں ناقابلِ لحاظ قرار دیا جا سکے۔
واقعہ یہ ہے کہ بی جے پی اصلاً آر ایس ایس کی جارحانہ قوم پرستی کی تحریک کا حصہ ہے۔ سماج کے ایک طبقے کے علاوہ ایڈمنسٹریشن، بیورو کریسی، نظامِ تعلیم اور فوج میں ’’جارحانہ قوم پرستی‘‘ کی اس تحریک کے اثرات بڑے گہرے ہیں۔ اپنے اثرات کو قائم رکھنے اور آگے بڑھانے کے لیے یہ تحریک تنہا ’’الیکشن‘‘ پر اعتماد نہیں کرتی بلکہ ہمہ جہتی طریقے اختیار کرتی ہے۔ اس لیے بی جے پی کی الیکشنی ناکامی، خوش آئند تو ضرور کہی جا سکتی ہے لیکن اتنی بڑی تبدیلی کی غماز نہیں ہے کہ بی جے پی کے اس خطرے کو نظر انداز کر دیا جائے۔ ’’جارحانہ قوم پرستی‘‘ کے رجحانات اور اثرات سے سماج کو آزاد کرانے کے لیے منصوبہ بند کوششیں اب بھی اتنی ہی ضروری ہیں جتنی پہلے تھیں۔
یہ خبر بھی ملی ہے کہ آر ایس ایس نے کانگریس کی کامیابی پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ یہ بہت معنی خیز بات ہے اور اس کا پتہ دیتی ہے کہ آر ایس ایس کے نزدیک کانگریس پارٹی بھی آر ایس ایس کے ’’وسیع تر ایجنڈے‘‘ کے حصول میں معاون ہے۔ واقعات آر ایس ایس کے اس خیال کی تردید نہیں کرتے۔
مسلم مسائل:
۲۰۰۹ء کے انتخابات میں اصل مقابلہ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ہوا۔ انتخابات کے نتائج آنے کے بعد مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا کہ جو نسبتاً زیادہ مضر پارٹی تھی وہ برسرِاقتدار نہیں آئی اور اس پارٹی کو اقتدار ملا جس کا شر نسبتاً کم ہے۔ یہ اطمینان بجا ہے لیکن اس کے ساتھ اس امر واقعی کا ادراک ضروری ہے کہ جہاں تک مسلمانوں کے مسائل کا معاملہ ہے اُن کے حل کے لیے مسلمانوں کو خود ہی کوشش کرنی ہو گی۔ اُن کے لیے مطمئن ہو کر بیٹھ جانے کا کوئی موقع نہیں ہے۔
مسلمانوں کے وہ نمایاں مسائل جن کا تعلق حکومت سے ہے درج ذیل ہیں:
۱۔ مسلم نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جیلوں میں بند ہے اور مقدمات کا سامنا کر رہی ہے۔
۲۔ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کا اقلیتی کردار خطرے میں ہے۔
۳۔ مسلمانوں کے پرسنل لاء میں عدالتیں اور اسمبلیاں مداخلت کرتی رہتی ہیں۔
۴۔ ملک کے بڑے حصے میں اردو زبان میں تعلیم کی سہولت موجود نہیں ہے۔
۵۔ غیر سودی بنکاری کی اجازت نہیں مل سکی ہے اور مسلمان سود میں ملوث ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔
۶۔ مسلمانوں کی ایک تنظیم پر ناروا پابندی لگی ہوئی ہے۔
۷۔ مسلمانوں کے خلاف فسادات منظم کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں ملی ہے۔
۸۔ شمال مشرق کے مسلمانوں کو ’’غیر ملکی‘‘ کہہ کر تنگ کیا جا رہا ہے۔
ان مسائل کے حل کے لیے مسلمانوں کو خود کوشش کرنی ہو گی اور حکومت سے مسلسل مطالبہ کرنا ہو گا کہ وہ انصاف کرے۔ اس سلسلے میں اُن کو اہلِ صحافت، سیاسی پارٹیوں اور دانشور طبقے سے بھی مؤثر ربط قائم کر کے ’’مسلم موقف‘‘ کی وضاحت کرنی ہو گی اور اُس کی معقولیت پر ان سب کو مطمئن کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ قانونی چارہ جوئی کی تمام ممکن شکلیں بھی اختیار کرنی ہوں گی۔
کشمکش کے درمیان:
الیکشن کے ہنگامی دور سے فرصت پاکر اب مسلمانوں کو چاہیے کہ اس وقت ملک میں مختلف رجحانات کے درمیان جو کشمکش برپا ہے اس میں صحیح رول ادا کریں۔ ہر رجحان اور ہر نقطہ نظر کے حامیوں کی کوشش یہ ہے کہ اُن کا نظریہ برسرِاقتدار آئے۔ ایسے موقع پر مسلمانوں کا صحیح رول یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کی ان مختلف طاقتوں میں سے کسی ایک کا ساتھ دینے لگیں بلکہ اُن کا مطلوبہ رول یہ ہے کہ وہ حق کے علمبردار اور داعی بن کر کھڑے ہوں اور حق کی جانب تمام انسانوں کو بلائیں اور یہ کوشش کریں کہ زندگی کے ہر گوشے میں حق غالب ہو جائے۔
غلبہ حق کے لیے کی جانے والی یہ جدوجہد لمبی بھی ہو سکتی ہے۔ اس دوران (یعنی جب تک حق غالب نہ ہو جائے) ملک میں کسی نہ کسی باطل طاقت کا اقتدار ہو گا لیکن قرآن مجید کا بیان کردہ یہ قانونِ فطرت ہمارے سامنے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ زمین میں ’’فساد‘‘ کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتا اور مشیت الٰہی ایک انسانی گروہ کو دوسرے انسانی گروہوں کے ذریعے دفع کرتی رہتی ہے:
’’اگر اللہ انسانوں کے ایک گروہ کے ذریعے دوسرے گروہ کو دفع نہ کرتا رہتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا، لیکن اللہ تمام جہانوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے‘‘۔(البقرہ: ۲۵۱)
چنانچہ مسلمانوں کو چاہیے کہ قانونِ الٰہی پر بھروسہ کریں اور کسی حال میں باطل کا سہارا نہ ڈھونڈیں بلکہ حق کے غلبے کے لیے اپنی ساری طاقت لگا دیں۔
باطل دوئی پسند ہے، حق لاشریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول
(اقبالؒ)
(بحوالہ: ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ دہلی۔ جون ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply