
ایران اور چھ بڑی طاقتوں (امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی) کے درمیان ۲۴ نومبر ۲۰۱۳ء کو جنیوا میں ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد ۲۰ جنوری ۲۰۱۴ء سے شروع ہو چکا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ معاہدہ چھ ماہ کے لیے ہے اور ایران کو متنازع جوہری پروگرام سے مکمل طور پر باز رکھنے کے سلسلے میں طویل المیعاد معاہدے کے لیے آئندہ اجلاس ۱۸ فروری کو ویانا، آسٹریا میں ہوگا۔ بات چیت کے اس دور میں حتمی معاہدے کے ساتھ تہران پر پابندیوں کے مکمل خاتمے کی امید ہے، جس کے بعد ایران کے مختلف ممالک سے مکمل سفارتی تعلقات کی بحالی اور خطے میں اس کے نئے کردار کا آغاز ہو جائے گا۔ جنیوا معاہدے پر عملدرآمد کرتے ہوئے ایران نے یورینیم کی افزودگی ۲۰ فیصد سے کم کر دی ہے، جس کے بدلے امریکا نے ۲ء۴؍ارب ڈالر کے ایرانی منجمد اثاثے غیر منجمد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ رقم ایران کو چھ ماہ کے دوران قسطوں میں ادا کی جائے گی، جب کہ منجمد اثاثوں میں سے ۵۵۰ ملین ڈالر کی پہلی قسط فروری کے پہلے ہفتے میں مل جائے گی۔
امریکی، یورپی اور عرب تجزیہ کاروں سمیت اوباما کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنیوا معاہدہ اچانک طے نہیں پایا۔ دونوں ممالک کے درمیان خفیہ رابطے برسوں سے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق خصوصاً عراق و افغانستان میں امریکی آمد کے بعد واشنگٹن اور تہران کے درمیان پسِ پردہ سفارت کاری، رابطوں اور تعلقات میں تیزی آئی۔ ایران کے ریاستی و انتظامی ڈھانچے میں بھی اچانک اتنی بڑی تبدیلی کا رونما ہونا ممکن نہیں، جہاں صدر یا حکومت کو کامل اختیار حاصل نہیں، اور سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کسی کو اعتماد میں لیے بغیر بھی معاہدے سے انکار کر سکتے ہیں۔ بھارت میں ایرانی سفیر، غلام رضا انصاری نے ایک مقامی اخبار کو پینل انٹرویو میں بتایا کہ ’’لوگوں کا کہنا ہے کہ ایران پابندیوں یا فوجی دھمکیوں کے باعث جنیوا آیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد یورپ نے ہمیشہ پیشکش کی کہ وہ مفاہمت یا سمجھوتے کے لیے تیار ہے۔ ہم نے یورپ سے کہا کہ وہ این پی ٹی کے مطابق ہمارے حق کا احترام کرے۔ ہم نے ان کی پیشکش قبول کی اور مذاکرات بھی کیے، مگر آخر میں محسوس ہوا کہ وہ ہمارے حق کا احترام نہیں کر رہے‘‘۔ ایرانی سفیر نے مزید بتایا کہ ’’اس وقت ہمارے پاس صرف ۱۶۴ سینیٹری فیوجز تھے اور آج ۹۰۰۰ سینیٹری فیوجز ہیں (حقیقتاً ۱۶۰۰۰ ہیں) آج پوری دنیا ایرواسپیس، بائیو ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر سائنس میں ہماری صلاحیت و ترقی سے واقف ہے۔ ہم نے جنیوا مذاکرات امریکی پابندیوں یا فوجی دھمکیوں کے سبب نہیں کیے۔ ہم جنیوا نئی سوچ کے ساتھ گئے اور جو ہم چاہتے تھے، وہ ہم نے حاصل کرلیا۔ بعض ایسی چیزیں تھیں جو ایران اور دنیا کی ضرورت ہیں اور علاقے کے لیے اہم ہیں‘‘۔
امریکی خبر رساں ادارے نے دسمبر کے آخر میں انکشاف کیا تھا کہ امریکی صدر اوباما کے قریبی ساتھی جیک سولوین نے ۲۰۱۲ء میں ایرانی حکام سے اومان میں خفیہ مذاکرات کیے۔ جیک سولوین تب محکمہ خارجہ میں ڈپٹی چیف آف اسٹاف اور ڈائریکٹر پالیسی پلاننگ تھے۔ انہوں نے دیگر امریکی حکام کے ساتھ مل کر ۲۰۱۳ء میں ایرانی حکام سے کم ازکم پانچ خفیہ ملاقاتیں کیں اور جنیوا ایٹمی معاہدے کے لیے راہ ہموار کی۔ جیک سولوین نے شام اور لیبیا سے متعلق امریکی پالیسی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ خیال رہے کہ جنیوا معاہدے کے بعد مغرب نے شام میں ایرانی کردار کو باقاعدہ تسلیم کر لیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ جنیوا معاہدے کے لیے ایران کی اہم شرط، شام میں بشار الاسد کو اقتدار سے نہ ہٹانا تھی، جس پر امریکا راضی ہو گیا اور جنیوا معاہدے کے بعد شام میں صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی۔
امریکا، ایران روابط کے حوالے سے یہ انکشاف بعض لوگوں کے لیے حیران کن ہوگا کہ امریکا کو عراق میں جارحیت کے وقت سُنّی مسلمانوں کی جانب سے مزاحمت کے ساتھ ہی بااثر شیعہ رہنما جناب مقتدیٰ الصدر کے حامیوں کی جانب سے بھی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اس موقع پر بھی امریکا نے ایران کی خدمات حاصل کی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ مقتدیٰ الصدر کو امریکی کارروائی سے بچانے کی آڑ میں ایران بُلا کر نظربند کر دیا گیا یا ان کا عراق میں اپنے حامیوں سے براہ راست رابطہ منقطع کر دیا گیا، جس کے بعد امریکا کو عراقی سنی و شیعہ مشترکہ مزاحمت سے نجات مل گئی یا مزاحمت کمزور پڑ گئی اور واشنگٹن، بغداد میں اپنے اور ایران کے حامی عناصر کو اقتدار میں لانے میں کامیاب ہو گیا۔ موجودہ عراقی وزیراعظم نوری المالکی ایران کی جانب واضح جھکائو رکھتے ہیں اور مقتدیٰ الصدر ان کے مخالف ہیں۔ شام کی خانہ جنگی میں ایران، اس کے حامی اور لبنان کی حزب اللہ بشارالاشد کا ساتھ دے رہے ہیں، جب کہ مقتدیٰ الصدر شامی حکومت کے مخالفین کے حامی ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق، مقتدیٰ الصدر کی جانب سے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کے تعاون و مدد کی درخواست کو مسترد کر دینا، ایرانی حکومت کو بھی سخت جواب ہے۔ نصراللہ چاہتے تھے کہ مقتدیٰ الصدر کی مہدی آرمی، جس کے ۶۰ ہزار مسلح جنگجو ہیں شام میں بشارالاسد کی فوج سے مل کر لڑیں، جس طرح حزب اللہ لڑ رہی ہے۔ مگر مقتدیٰ الصدر نے انکار کر دیا اور اپنا وزن اسدمخالفین کے پلڑے میں ڈال دیا۔
امریکا پر اثرات
دنیا کی واحد سپرپاور، امریکا گزشتہ برس اقتصادی مشکلات کا شکار رہی۔ امریکا کو اپنی نئی جنگی حکمت عملی کے تحت جہاں خطیر سرمائے کی ضرورت ہے، وہیں روایتی ہتھیاروں کی کھپت کے لیے منڈیوں کی بھی۔ امریکا کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ تخفیف اسلحہ کے معاہدے کے تحت اپنی ہتھیار ساز اور جنگی طیارے بنانے والی فیکٹریوں کو بند کر دے یا ان کی پیداوار کم کر دے۔ اس صورت میں ہزاروں امریکی بے روزگار ہو سکتے ہیں، جو امریکی معیشت کے لیے تباہ کن ہوگا۔ واشنگٹن کو اپنی یہ جنگی فیکٹریاں بھی چلانی ہیں اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل ہتھیار اور مشینوں کے لیے کثیر سرمائے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت عالمی منڈی میں اپنے لڑاکا جہاز، ٹینکس، توپیں اور دیگر ہتھیار فروخت کرکے ہی پوری کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک سے زیادہ اچھی اور پرکشش مارکیٹ کہیں اور نہیں مل سکتی، جو نہ صرف امریکی ہتھیاروں کو مہنگے داموں خرید سکتے ہیں، بلکہ امریکی ٹیکنیشنز اور ماہرین کو ملازمت دیتے ہیں کہ ان جہازوں اور ہتھیاروں کو چلانے اور دیکھ بھال کے لیے بھی امریکیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ عربوں کو ہتھیاروں کی فروخت کے لیے جواز کی ضرورت پڑے گی اور ایران سے امریکا کا جنیوا معاہدہ یہ جواز اور اسباب پیدا کرے گا۔
ایران کے پڑوس میں چھوٹی مگر مالدار خلیجی ریاستیں ہیں، امریکا ایران معاہدے کے فوراً بعد ۱۱ دسمبر ۲۰۱۳ء کو سعودی عرب کے زیرقیادت چھ خلیجی ممالک کویت، بحرین، قطر، اومان اور متحدہ عرب امارات کا کویت میں ہنگامی اجلاس ہوا، جس میں مشترکہ فوجی کمانڈ اور مشترکہ خلیجی پولیس فورس کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ کویت کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ امریکا اور ایران کے بڑھتے تعلقات و گرمجوشی کے پیش نظر خلیجی ممالک اپنی اجتماعی سلامتی و تحفظ یقینی بنانے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور مشترکہ فوجی کمانڈ تحفظ کو یقینی بنائے گی، جبکہ مشترکہ پولیس فورس رکن ممالک انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون کرے گی۔ خیال رہے کہ ان ممالک میں حکومت مخالف مظاہروں کو سرکاری طور پر دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے، بعدازاں امریکی وزیر دفاع چک ہیگل خلیجی ممالک پہنچ گئے اور انہوں نے عربوں کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ ایران سے معاہدہ عربوں کے خلاف نہیں۔ انہوں نے خلیجی خطے کی سلامتی کے لیے ’’امریکی تعاون بڑھانے‘‘ کا وعدہ کیا اور خلیجی اتحاد کو میزائل اور دیگر ہتھیاروں کی فروخت کے لیے راہ ہموار کی۔
امریکی صدر اوباما نے ۱۶؍دسمبر کو اعلان کیا تھا کہ خلیجی ممالک کے اتحاد کو امریکی ہتھیار فروخت کیے جائیں گے۔ اے ایف پی کے مطابق صدر اوباما نے وزیر خارجہ جان کیری کو میمورنڈم میں لکھا کہ خلیجی ممالک کو بیلسٹک میزائل نظام، میری ٹائم سیکورٹی اور انسداد دہشت گردی آپریشن کے لیے ہتھیاروں کی فروخت، امریکا کی سلامتی کو مضبوطی فراہم کرے گی اور عالمی امن کو پروان چڑھائے گی، لہٰذا ان کی فروخت پر سے پابندی ہٹا دینی چاہیے۔ سپر پاور نے ہتھیاروں کی تجارت بڑھا لی اور اپنی نئی حکمت عملی کے لیے ریسرچ کے اخراجات بھی عربوں سے وصول کرنے کا بندوبست کرلیا۔ مغربی میڈیا کے مطابق امریکا نے ۱۵ دسمبر کو بحرین میں اپنی فوجی موجودگی دگنی کرنے کا فیصلہ کیا۔ مذکورہ امریکی حکمت عملی کا ایک مقصد اسرائیل کا تحفظ بھی ہے۔ جنیوا معاہدے پر اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے تنقید کو عالمی میڈیا نے رسمی احتجاج قرار دیا، کیونکہ یہ سوچنا کہ تل ابیب معاہدے کی ابتدا سے لے کر حتمی مرحلے تک ناواقف تھا، صرف حماقت ہی ہوسکتی ہے۔ اس کا ثبوت اسرائیلی صدر شمعون پیریز کی ۹ دسمبر ۲۰۱۳ء کو تل ابیب میں عالمی میڈیا سے بات چیت ہے، جس میں انہوں نے ایرانی صدر سے ملاقات کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے واضح کیا کہ ’’ایران ہمارا دشمن نہیں ہے‘‘۔ یہودی ریاست کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’’دشمنی لوگوں کا نہیں، پالیسی معاملہ ہے‘‘۔ اگرچہ بنیادی طور پر یہ معاہدہ ایران اور امریکا کے درمیان ہے، لیکن واشنگٹن نے عالمی طاقتوں خصوصاً روس اور چین کو بھی اس معاہدے میں شریک کیا کہ دونوں ممالک ایران کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ جنیوا معاہدے سے صرف امریکا ہی مستفید نہیں ہوگا بلکہ تمام بڑی طاقتیں اپنا حصہ بقدر جثہ حاصل کریں گے۔
ایران پر اثرات
جنیوا معاہدے سے ایران کو غیر معمولی فوائد حاصل ہوئے۔ بین الاقوامی سطح پر اس کی تنہائی ختم ہو گئی اور سات ارب ڈالر کا فوری فائدہ حاصل ہوا۔ ایرانی کرنسی مضبوط ہوئی اور تہران، شام کے تنازع میں اپنا موقف منوانے میں کامیاب ہو گیا۔ نتیجتاً بشارالاسد کو اقتدار سے محروم کرنے کی عرب کوششیں ناکام ہو گئیں۔ یوں خطے میں اس کی بالادستی تسلیم کر لی گئی اور شرق اوسط میں ’’مسلکی بلاک‘‘ بنانے کی خواہش پوری ہو گئی۔ دوسری جانب امریکی انخلا کے بعد افغانستان خصوصاً ایران سے متصل افغان علاقوں میں تہران کے اثر و رسوخ کی راہ بھی ہموار ہو گئی اور مستقبل میں طالبان کے نفوذ کو روکنے کے لیے کردار بھی مل گیا۔
افغان میڈیا کے مطابق کابل کی وساطت سے ناٹو کے ساتھ ایرانی چابہار بندرگاہ استعمال کرنے کا معاہدہ ہو گیا، جس کے ذریعہ اب ناٹو کی واپسی ہوگی اور تہران کو آمدنی۔ تیل و گیس کی فروخت میں حائل رکاوٹیں دور ہو گئیں۔ ایران، عراق اور شام کو پائپ لائن کے ذریعے قدرتی گیس فراہم کرے گا، جس کے لیے عراق میں پائپ لائن بچھانے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ خیال رہے کہ معاہدے سے قبل ایران پر پابندیوں کے باوجود اس منصوبے پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ اسی طرح شام کے ذریعے ۳۴۸۰ میل طویل پائپ لائن بحیرۂ روم کے راستے یورپ تک بچھانے کا معاہدہ ہوا تھا۔ اب ترکی کی جگہ شام شامل ہو گیا ہے۔ یہ تبدیلی کسی بڑی منصوبہ بندی کو ظاہر کرتی ہے۔ امریکی دبائو پر سوئس کمپنی نے اس معاہدے کو ختم کر دیا تھا۔ نیشنل ایرانین گیس کمپنی کے مطابق، ایران صرف عراق کو ۹۰ ملین کیوبک میٹر گیس یومیہ فراہم کرکے سترہ ارب ڈالر سالانہ حاصل کرے گا۔ ایران میں مستقبل میں معاشی ترقی کی تیز رفتاری کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ معاہدے کے فوراً بعد برطانیہ نے تہران سے سفارتی تعلقات استوار کر لیے۔ ابتدائی طور پر دونوں ممالک نے غیر رہائشی سفیر مقرر کر دیے۔ برطانوی ادارے اپنا رُخ تہران کی جانب موڑ رہے ہیں۔
سعودی عرب پراثرات
ایران، امریکا معاہدے پر سب سے زیادہ ناراضی کا اظہار سعودی عرب نے کیا۔ برطانیہ میں سعودی سفیر پرنس محمد بن نواف نے ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں اپنے مضمون میں لکھا کہ ’’یہ مغرب کا خطرناک جُوا ہے، اس پر ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔ ایران اور شام کے حوالے سے مغربی پالیسیاں شرقِ اوسط کی سلامتی و استحکام کے لیے خطرہ ہیں، ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ مغرب نے ایک حکومت (شام) کو برقرار رہنے اور دوسرے (ایران) کو یورینیم افزودگی کا پروگرام جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے، جس سے (ایٹمی) ہتھیاروں کے پھیلائو کا خطرہ ہے‘‘۔ سعودی عرب، عراق، شام، لبنان اور بحرین میں ایران کے بڑھتے اثر و رسوخ سے خطرات محسوس کرتا ہے۔ واشنگٹن میں قائم ’’انسٹی ٹیوٹ فار وار اینڈ اسپیس‘‘ کے مطابق کئی علاقائی ممالک کی نظر میں ایران اب بھی توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے۔ اس بارے میں ایرانی نژاد تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ’’سعودی عرب کے خیال میں اگر ایران اپنے وسائل کو امریکا سے لڑائی پر مزید خرچ نہیں کرتا، تو خلیج فارس پر بالادستی و غلبے کی بہتر پوزیشن میں آجائے گا۔ یہ خلیج فارس دونوں ممالک کے درمیان علاقائی بالادستی کی تاریخی رقابت کا حامل ہے اور بحرین کی سیاسی صورتحال کے باعث حال ہی میں اس میں اضافہ ہوا ہے‘‘۔ تجزیہ کار کا مزید کہنا تھا کہ امریکا سے تعلقات کی بحالی سے ایران کو شامی حکومت اور خطے میں حزب اللہ جیسی دیگر قوتوں کی حمایت و مدد میں اضافہ ہوگا۔ امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے مطابق امریکا کئی عشروں سے سعودی عرب پر انحصار کرتا آیا ہے۔ شرق اوسط میں امریکی فوجی اڈے اس کے تعاون سے قائم ہوئے، مگر جنیوا میں حالیہ پیش رفت نے واشنگٹن کے لیے سعودی عرب کو کم اہم کر دیا ہے اور اس کے تنہا رہ جانے کا خدشہ ہے۔
جنیوا معاہدے کے بعد شام کی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی آئی اور پسپا ہوتی سرکاری فوج کو نئی توانائی ملی۔ بشارالاسد پرامریکا و یورپ کا دبائو عملاً ختم ہوگیا۔ بشارالاسد مخالف قوتوں میں اختلافات کی خبریں مغربی میڈیا پر آنے لگیں۔ شامی فوج نے حملے تیز کر دیے اور مخالفین سے کئی علاقے واپس لے لیے۔ جائزہ لینے سے جو اعداد و شمار سامنے آئے، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنیوا معاہدے کے بعد بشارالاسد کے مخالفین کی ہلاکتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا اور صورتحال پر اسد کی گرفت اب مضبوط ہو گئی ہے۔ یہ صورتحال سعودی عرب کے لیے باعث تشویش اور پریشانی کا سبب ہے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۱۶؍فروری ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply