
یورپ کو ترکی سے توقع تھی کہ وہ روسی ایندھن پر انحصار ختم کرنے میں مدد کرسکتا ہے مگر شاید انقرہ کے ارادے کچھ اور ہیں۔
اوائل فروری میں بحیرئہ اَسود اور بحیرئہ مَرمَرہ پر ہیلی کاپٹر کی چار گھنٹے طویل پرواز کے دوران تُرک وزیرِ توانائی تانیر یِلدز (Taner Yildiz) اور توانائی کی روسی کمپنی گزپروم (Gazprom) کے سربراہ الیگسی مِلر (Alexey Miller) نے کچھ ایسے منصوبے تیار کیے، جو طویل مخاصمت کا شکار باہمی تعلقات کو نئے سرے سے استوار کرسکتے تھے۔ دونوں نے ’’تُرک نہر‘‘ (Turkish Stream) نامی مجوزہ راستے پر غور کیا جو روسی ساحلی شہر اَناپا سے قدرتی گیس یونان کی سرحد کے ساتھ واقع تُرک شہر اِپسلا تک پہنچائے گا۔ گیس پائپ لائن کے حوالے سے یہ ماسکو کی نئی پُرشکوہ پیشکش ہے۔
مگر یلدز اور ملر نے یورپ کے سیاسی جغرافیائی منظرنامے کی نئی ممکنہ کمزوریوں کا بھی پتا لگایا۔ ہیلی کاپٹر کی اُس سواری اور نتیجتاً اوائل مئی میں طے پانے والے باضابطہ معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ برسلز کے معاملے میں ترکی کا صبر جواب دیتا جارہا ہے۔ یورپی یونین کئی دہائیوں سے ترکی کی رکنیت کا معاملہ لٹکائے ہوئے ہے اور ترکی اب اس یورپی پالیسی کا حامی نہیں دکھائی دیتا کہ روس کو تنہا کرنے کے لیے توانائی کے نئے ذرائع تلاش کیے جائیں۔ اب یہ ایک پائپ لائن، جو اگلے سال سے ہی گیس مہیا کرسکتی ہے، روسی صدر ولادی میر پوٹن کو اتنا دلیر بناسکتی ہے کہ وہ اس اتحاد کو کمزور کردیں، جس کی مضبوطی کے لیے مغرب نے کئی دہائیاں صَرف کی ہیں۔ نتیجتاً یورپ کا توانائی اور سلامتی کا سارا منظرنامہ درہم برہم ہوسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں توانائی کے یورپی خریداروں کے راستے میں آکر ترکی ایسا کلیدی عنصر بن سکتا ہے، جس کی خطے میں توانائی کے حوالے سے اجارہ داری کے لیے روس کو ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ترکی ایک عرصے سے پائپ لائن کی عالمی سیاست میں مرکزی سطح پر موجود ہے۔ یورپ کا خواب ہے کہ اک روز قدرتی گیس کی پائپ لائنیں وسطی ایشیا اور قفقاز (Caucasus) سے ایندھن یورپ پہنچائیں گی اور ترکی کی کلیدی جغرافیائی حیثیت اس کی اجازت بھی دے گی کیونکہ آزربائیجان جیسے علاقوں میں گیس وافر مقدار میں موجود ہے۔ یورپی خواب مارچ ۲۰۱۵ء میں شرمندئہ تعبیر بھی ہوتے دکھائی دیے، جب کئی سال کوششوں کے بعد ترکی اور آزربائیجان نے اناطولیہ سے گزرنے والی پائپ لائن کا سنگِ بنیاد رکھا۔ یہ پائپ لائن بحیرئہ قزوین (Caspian Sea) سے براستہ ترکی و قفقاز یورپ تک گیس پہنچائے گی۔
لیکن یہاں ایک رکاوٹ ہے: یورپ اتنی گیس استعمال نہیں کرتا، جو دو اتنی بڑی پائپ لائنوں کا جواز بن سکے۔ سادہ لفظوں میں بات کریں تو پائپ لائن ترکی سے گزرے گی لہٰذا وہی طے کرے گا کہ یورپ کو توانائی کے امور پر کس سے بات کرنی چاہیے۔
یورپ کے ساتھ ترکی کے یہ کھیل بساط تو نہیں الٹتے، البتہ مہروں کو ہلا ضرور دیتے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے سیکولر انقرہ کا جھکاؤ مسلسل مغرب کی جانب ہے اور یہ وابستگی ۱۹۵۲ء میں اور مضبوط ہوئی جب ترکی نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن حالیہ صدی کی شروعات کے ساتھ پانسا پلٹنا شروع ہوا جب صدر رجب طیب ایردوان کے دیرینہ مشیر اور موجودہ وزیراعظم احمد داؤد اولو نے مسلم دنیا سے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہوئے واشنگٹن اور نیٹو سے فاصلے بڑھانے شروع کیے۔ (مثال کے طور پر ۲۰۰۳ء میں انقرہ نے امریکا کی چوتھی انفنٹری کے ڈویژن کو عراق پر حملے کے لیے ترکی سے گزرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد بھی، داعش کے خلاف امریکی سرکردگی میں جاری لڑائی لڑنے سے ترکی ہچکچاتا رہا ہے اور اسرائیل کے ساتھ دیرینہ خوشگوار تعلقات کے بعد اب اس کا رویہ تلخ ہوگیا ہے۔)
سو ’’تُرک نہر‘‘ کو اب داؤد اولو کے خواب کی تعبیر کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ توانائی کے یورپی و ایشیائی مرکز پر واقع ترکی گویا عثمانی دور کی طرف واپس پلٹ رہا ہے۔
روس کے لیے یہ بڑی بَروقت تبدیلی ہے کیونکہ وہ تقریباً دس سال سے اس کوشش میں ہے کہ یورپ کو توانائی کے مسائل میں الجھا کر یوکرین کے مسئلے سے غافل کردیا جائے۔ ۲۰۰۷ء سے پوٹن نے روس کی تیار کردہ ’’جنوبی نہر‘‘ نامی پائپ لائن کا چرچا کرنا شروع کیا۔ یہ پائپ لائن بحیرئہ اسود اور ترکی کے قریب پانیوں سے گزر کر بلغاریہ کے راستے پورے یورپ کو روسی گیس پہنچائے گی۔ تاہم ماسکو کو ۲۰۱۴ء میں آکر اندازہ ہوا کہ یہ منصوبہ یورپی یونین کے قانون سے مطابقت نہیں رکھتا۔ برسلز بھی اجارہ داریوں کو زیادہ پسند نہیں کرتا، خاص طور پر جب وہ توانائی اور اسے لے کر چلنے والی پائپ لائنوں، دونوں پر محیط ہوں۔
بہرحال، روس متبادل راستے کی تلاش میں پہلے ہی آگے بڑھ چکا تھا۔ دسمبر ۲۰۱۴ء میں جب پوٹن ایک روزہ تجارتی و معاشی دورے پر انقرہ میں تھے تو انہوں نے اچانک ایک نیوز کانفرنس میں جنوبی نہر منصوبے کے خاتمے اور تُرک نہر کے آغاز کا اعلان کردیا۔ انہوں نے کہا ’’توانائی سے متعلق روس اور ترکی کے تعلقات صحیح معنوں میں ایک تزویراتی سطح پر پہنچ چکے ہیں‘‘۔ اگرچہ یہ ابتدائی اعلان روسی حکام اور ترک میزبانوں سمیت ہر ایک کے لیے چونکا دینے والا تھا، تاہم اس کے محض دو مہینے بعد ہی یلدز اور ملر ہیلی کاپٹر میں بیٹھے اس پر تبادلۂ خیال کررہے تھے۔
روس سے ترکی کی بڑھتی قربت کا اہم اور تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ انقرہ تقریباً ۵۰ سال سے مغرب کی سلامتی کے نظام کا لازمی حصہ ہے اور روسی توانائی پر انحصار کم کرنے کے یورپی منصوبوں کا مرکز بھی ہے، جس کی اہمیت میں یوکرینی بحران کے بعد مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایردوان کی زیرِ قیادت ترکی اب یورپ کا حصہ بننے کا خواب نہیں دیکھ رہا اور بظاہر ایک ایسے ملک کا ساتھی بنتا جارہا ہے، جو عمومی طور پر عالمی نظام اور یورپی سلامتی کو بالخصوص نظرانداز کرنے پر تُلا ہوا ہے۔
برسلز کے نقطۂ نظر سے توانائی کی فراہمی کے لیے راہداری کے طور پر یوکرین کی نسبت ترکی زیادہ قابلِ اعتماد ہے مگر یہ کردار نبھانے کے لیے درکار بنیادی ڈھانچا اس کے پاس نہیں ہے، مثلاً قدرتی گیس ذخیرہ کرنے کے ٹینک وغیرہ۔ اس کے علاوہ، روس اور یورپ کے درمیان بچھی ہوئی دیگر پائپ لائنوں کے برعکس ’’تُرک نہر‘‘ براہِ راست یورپی یونین تک گیس پہنچائے گی بھی نہیں۔ گیس برسلز سے بہت دُور ہی جمع کرلی جائے گی اور امید یہ ہوگی کہ وہ کئی بلین ڈالر خرچ کرکے تُرک یونان سرحد تک گیس لینے جائے گا۔
ماسکو کے لیے ’’تُرک نہر‘‘ کا دوسرا پہلو یقینی ہے۔ اگر یہ تعمیر ہوتی ہے تو پوٹن بالآخر یوکرین کو تنہا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، ایسے میں جبکہ یورپ کا بڑا حصہ اب بھی روسی گیس پر انحصار کررہا ہوگا اور انقرہ کے لیے ’’تُرک نہر‘‘ وہ سواری ہوگی، جو ترکی کی تعمیرِ نو کے داؤد اولو کے خواب کو تعبیر کی منزل تک پہنچا دے گی۔ مستقبل کی تابناکیوں کے لیے ان کی تمنائیں اپنی جگہ، ایسا لگتا ہے کہ وہ روس کے ساتھ تاریخ میں موجود پیچیدگیوں کو نظرانداز کررہے ہیں۔
سولہویں صدی کے وسط سے سرد جنگ کے عروج تک، تُرک اور روسی ۴۰۰ برس تک بحیرئہ اسود، باسفورس اور کرائمیا میں بالادستی کے لیے نبردآزما رہے ہیں اور تاریخ کی کتابوں میں ان موضوعات پر ابھی گَرد نہیں جمی ہے۔ امن کی کچھ دہائیوں کے بعد جزیرہ نما کرائمیا میں رہنے والے لاکھوں تُرک تاتار اسٹالن کے دور جیسی روسی جارحیت کا خوف دوبارہ محسوس کررہے ہیں۔ روس بحیرئہ اسود میں بحری سرگرمیاں بڑھا رہا ہے اور پوٹن ترکی کے قریب مضبوط عسکری موجودگی کا خواب دیکھ رہے ہیں، جس میں قبرص اور شام کے ساتھ نئے ساحلی معاہدے بھی شامل ہیں۔ شام سے متعلق دیرینہ اختلافات اس کے علاوہ ہیں: ترکی نے اسلامی گروہوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کیونکہ وہ صدر بشار الاسد سے جان چھڑانا چاہتا ہے، جبکہ روس اپنے شامی اتحادی کا بھرپور حامی ہے۔
سو پائپ لائن کے اس نئے منصوبے اور روس کے ساتھ تزویراتی شراکت داری مضبوط بنانے میں ترکی کا کردار ایک جواری جیسا ہے، جو صدیوں پرانی تاریخی دشمنی اور مسابقت کو سستی گیس اور ایک دوستانہ مصافحے کے ذریعے ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ دیکھ کر پرانی تُرک کہاوت ذہن میں آتی ہے، ’’گَلّے سے بچھڑ جانے والی بھیڑ بہت جلد بھیڑیے کی خوراک بن جاتی ہے‘‘۔ اس معاملے میں بھیڑیے کے بجائے ریچھ کا نام لیا جاسکتا ہے۔
(مترجم: حارث رقیب عظیمی)
“Gently down the stream”.
(“Foreign Policy”. May 11, 2015)
Tulin Daloglu
Leave a Reply