صدارتی مباحثے حقیقی اور راز کُشا ہونے کی بنا پر بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ خاص طور سے عوام نے اس بات کو محسوس کیا کہ خارجہ پالیسی سے متعلق سنجیدہ بحث ان دنوں کس قدر شفاف ہے۔ سوائے اس کے کہ ہم نے خارجہ پالیسی سے متعلق کوئی سنجیدہ بحث نہیں کی‘ ہماری بحث صرف عراق سے متعلق تھی۔ ہزاروں میل دو۔ایک نئی دنیا معرضِ وجود میں آرہی ہے۔ ایک یسی دنیا جس کو ہینڈل کرنے کے لیے امریکا کی تیاری نہیں ہے۔ گذشتہ ۵ سو سالوں میں بین الاقوامی سطح پر طاقت کے توازن میں دو عظیم تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ پہلی تبدیلی مغربی یورپ کا عروج تھی۔ یہ خطہ ۱۷ویں صدی کے اواخر میں امیر ترین خطہ ہو چکا تھا جو کہ دنیا کا سب سے زیادہ متحرک اور توسیع پسندانہ عزائم کا حامل علاقہ تھا۔ دوسرا عروج ریاستہاے متحدہ امریکا کا تھا جو خانہ جنگی اور جنگِ عظیم اول کے مابین دنیا کا واحد سب سے اہم ملک بن گیا۔ وہی رجحان ٹھیک اِس وقت اُسی قوت کے ساتھ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ایشیا کے عروج کی صورت میں اس کی قیادت چین کر رہا ہے جو کہ آئندہ چند دہائیوں میں بین الاقوامی نقشے کو بنیادی طور سے بدل کر رکھ دے گا۔ امریکا کے لیے خواہ معاملہ روزگار کے تحفظ کا ہو یا سکیورٹی کا‘ نئے عالمی نظام کی شناخت کرنا اور اس کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنا کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ چین کا عروج اب مستقبل کی بات نہیں رہی۔ یہ دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے اور یہ پہلی تین معیشتوں کے مقابلے میں تین یا چار گنا شرح سے بڑھ رہی ہے اور اشیائے صرف‘ زرعی ساز و سامان اور دیگر مصنوعات کی برآمدات اور درآمدات کے معاملے میں یہ اب دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ جلد ہی دنیا کا سب سے زیادہ سرمایہ ایکسپورٹ کرنے والا اور مشتری کمپنیوں کا حامل ملک ہو جائے گا۔ بھارت نما یا صحت اور عزم کے ساتھ ترقی کر رہا ہے۔ یہ اپنے حجم کی وجہ سے ایشیائی توازن میں ایک دوسرے وزن کا کام کر رہا ہے۔ مشرقی ایشیا کی طویل خوشحالی ۳۰ سالوں سے زائد کے عرصے پر محیط ہے۔ ایشیائی‘ دنیا کے سب سے زیادہ بچت کرنے والے بھی ثابت ہوئے ہیں۔ ان کی پس انداز رقموں نے ہی امریکی خسارے کی تلافی کی ہے۔ ایک دو سال کے لیے کسی عارضی ترقیٔ معکوس کا امکان ہے لیکن طویل المیعاد رجحان بہت واضح ہے۔
ایک اہم مثال لیجیے: امریکا کے عالمی معیشت پر چھا جانے کی ایک وجہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں اس کی حیران کن ترقی رہی ہے۔ لیکن یہاں بھی ایشیا کافی طاقتور ہو رہا ہے۔ کمپیوٹر سائنس سے بایو ٹیکنالوجی تک ایشیائی سائنس کا کوئی آغاز دیکھ سکتا ہے۔ یہ بہت ہی ابتدائی مرحلے میں ہے لیکن دوبارہ تیر صرف ایک سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اعلیٰ سائنسی جریدہ ’’فزیکل ریویو‘‘ کا کہنا ہے کہ اس میں امریکیوں کے لکھے مضامین کی اشاعت ڈرامائی انداز میں گھٹتی جارہی ہے۔ ۱۹۸۳ء میں امریکیوں کے مضامین کا تناسب اس پرچے میں ۶۱ فیصد ہوتا تھا جبکہ گذشتہ سال یہ تناسب گھٹ کر صرف ۲۹ فیصد رہ گیا تھا۔ اس جریدے کے مدیر نے دی نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ اسکی اصل وجہ چین ہے جو ہر سال ایک ہزار مقالے جمع کراتا ہے۔ معاشی ترقی کے ساتھ ثقافتی و سیاسی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مغرب نے ایک طویل عرصے تک ایشیا کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ اسے سرمایہ کاری کی جگہ سمجھا یا پھر ایسا اسٹیج خیال کیا جہاں عظیم طاقتیں باہم برسرِ پیکار ہوں۔ ویتنام اور کوریا اس کی مثالیں ہیں۔ لیکن صورتحال بھی اب تبدیل ہونی ہے۔ چین اور بھارت دونوں قدیم تہذیبیں ہیں اور انہیں اپنی تہذیب پر فخر ہے۔ ان کی داخلی معیشتیں بھی بہت بڑی ہیں جو کہ صرف مغرب کی برآمدات پر منحصر نہیں ہیں۔ (۱۹۹۷ء کے مشرقی ایشیا کے بحران کی بعد تمام مشرقی ایشیائی ٹائیگر دم توڑ گئے لیکن چین اور بھارت بڑے مستحکم طریقے سے ابھر کر سامنے آئے‘ جب مغرب سے مانگ خشک ہو چکی تھی)۔ اعتماد میں ترقی کا یہ محض آغاز ہے اور یہ واضح طور سے تجارتی مذاکرات میں نمایاں ہے اور وقت کے ساتھ اس میں صرف اضافہ ہی ہو گا۔ امریکا دنیا میں طاقتور ترین ملک رہے گا لیکن اس کے اور دوسری طاقتوں کے مابین بتدریج فرق کم ہو گا۔ اسے اپنی ترقی کو باقی رکھنے کے لیے ایشیائی ترقی کے لیے گنجائش پیدا کرنی ہو گی۔ ایشیائی باشندوں کو بھی یہ امید رکھنی چاہیے کہ امریکا عالمِ نو پر اپنی توجہ مرکوز کرے گا اس لیے کہ صرف امریکا ہی ایشیا کی ترقی کو اس انداز سے یقینی بنا سکتا ہے کہ یہ ایشیا اور دنیا دونوں کے لیے مفید ثابت ہو۔ ورنہ ایشیا کی جانب سے چیلنج اطراف عالم میں لوگوں کو خوف کے سائے میں پناہ لینے پر مجبور کرے گا اور جو لوگوں میں احساسِ تحفظ اور قومیت کو بہ آسانی بیدار کر دے گا۔ اپنے ناول “Cakes and Ale” (پُرمسرت زندگی) میں Somerset Maugham نے معروف امریکی تارکِ وطن ہینری جیمس کا اپنی تصانیف کو بیسویں صدی کے اوائل میں یورپ کے اعلیٰ طبقے کی زندگی پر مرکوز کرنے پر مذاق اڑایا ہے۔
مائوگھم (Maugham) یہ شکایت کرتا ہے کہ جیمز تاریخِ عالم کے ایک واقعہ کی طرف سے رخ پھیر لیتا ہے یعنی امریکا کے عروج سے تاکہ وہ انگلینڈ کے دیہاتی گھروں کی چائے پارٹیوں میں ہونے والی خوش گپیوں کی رپورٹ پر اکتفا کرے۔ تمثیل بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ بہت اہم ہے‘ عراق میں فتح حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے‘ مشرقِ وسطیٰ کا امن بہت اہم ہے۔ لیکن میں حیران ہوں کہ آیا ہم ان موضوعات پر جس طرح امریکا میں شدّومدّ سے بحث کرتے ہیں توہم برطانوی سلطنت کے ایامِ زوال کے انگریزوں سے مشابہ معلوم ہوتے ہیں۔ لوگ دور دراز کے علاقوں مثلاً عراق‘ افغانستان اور سوڈان کی سیاسی و عسکری صورتحال (جو کہ ایسی چیزیں ہیں جو تبدیل ہونے والی نہیں) پر بڑے جوش و خروش کے ساتھ بحث کرتے تھے۔ وہ طاقت کے زور پر بھاری قیمت کے ساتھ دنیا کے انتہائی انتشار زدہ علاقوں کو استحکام بخشنے کی کوشش میں تھے۔ اس اثنا میں امریکا اٹلانٹک کے پار اپنی عظیم معاشی‘ تکنیکی اور تمدنی طاقت کو فروغ دے رہا تھا جو جلد ہی دنیا کو اپنے قبضے میں کر لینے والی تھی۔
(اداریہ ’’نیوز ویک‘‘۔ ۲۵ اکتوبر ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply