ڈاکٹر شمل ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ڈاکٹر شمل پاکستان آئیں اور اس بار حکومت ان کی زیادہ سے زیادہ آئو بھگت کرنا چاہتی تھی۔ لاہور عجائب گھر نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے پتا چلا کہ میری مصورانہ خطاطی کا ایک فن پارہ ڈاکٹر شمل کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے صدر پاکستان‘ وزارتِ خارجہ اور وزارتِ ثقافت و سیاحت نے وقتاً فوقتاً میری مصورانہ خطاطی کے کئی نمونے غیرملکی سربراہوں‘ نمائندہ سفارتی شخصیتوں اور میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ نیویارک جیسے ہنر و فن کے اعلیٰ اداروں کو تحفے میں دیے تھے اور لاہور عجائب گھر نے بھی میرے فن کا ایک نمونہ کچھ ہی عرصہ پہلے اردن کی شہزادی وجدان کو پیش کیا تھا۔ شہزادی وجدان اردن کی کونسل برائے فنونِ لطیفہ کی چیئرپرسن تھی اور ان کے حوالے سے میری مصورانہ خطاطی کا نمونہ اردن کی مرکزی آرٹ گیلری کی زینت بنا۔ یہ سب اعزازات میرے لیے ہر ایک انداز میں اگرچہ نہایت بیش قیمت تھے‘ لیکن ڈاکٹر انماری شمل کو میری پینٹنگ تحفہ میں دیے جانے کے احساسِ مسرت کی اور ہی شان اور انفرادیت تھی۔ وہ کسی ملک کی سربراہ یا ملکہ یا شہزادی تو نہ تھی۔ وہ اسلامی تہذیب و تمدن کی ایک بے بدل عالمہ اور اقبالیات کی اقلیمِ مغرب کی فرمانروا ضرور تھی۔
فنِ خطاطی کا آغاز اور اس کے ارتقا کے بارے میں مجھے جہاں جہاں سے علم حاصل ہو‘ میں نے ایک ندیدے بچے کی طرح اپنی جھولی بھرنے کی پوری پوری کوشش کی۔ لیکن استاد‘ کتابیں‘ مکتب‘ اکادمیاں‘ عجائب گھر اور آرٹ گیلریاں اگرچہ ہنر و فن کی بصیرت بخشنے اور رہنمائی ارزانی کرتے ہیں لیکن فوری زیادہ اور قابلِ بھروسہ علم اور بے لوث بصیرت ہمیں ان افراد یا اشخاص سے محض خوش نصیبی کی بنا پر مل جاتی ہے جو حسنِ اتفاق سے ہمارے پسندیدہ افراد کسی بھی وجہ سے قرار پا جاتے ہیں۔ ڈاکٹر شمل ایسی ہی شخصیات میں سے ایک تھی‘ جس نے ’’خطاطین، سلاطین اور درویش‘‘ اور ’’خطاطی اور شاعری‘‘ اور ’’خطاطی اور تصوف‘‘ کے عنوانات سے تاریخ کے مسلم معاشروں میں فنِ خطاطی اور خطاطین کے مقام اور مرتبے کے بارے میں لکھا۔ ان خطاطین کے بارے میں بتایا جن کے جوتے اٹھانے میں شہزادے اور شہزادیاں پہل کرتی تھیں‘ ان سلاطین کا ذکر کیا جو خطاطین کی دوات پکڑ کر مؤدب اور مستعد کھڑے ہونا اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر شمل نے ان درویشوں کی حکایات بیان کیں‘ جنہوں نے خطاطین کے ہاتھ پر بیعت کی۔ میں عالمِ اسلام میں شامل کم و بیش ہر ایک ملک کا نام جانتا ہوں لیکن چند ممالک کے علاوہ بہت سارے مسلم ممالک کی زبانوں کا بھی نام مجھے معلوم نہیں ہے۔ چنانچہ میں ڈاکٹر شمل کا ممنونِ احسان ہوں‘ جس نے فنِ خطاطی کی مقدس اور صوفیانہ کردار کی ترجمان لیکن بکھری ہوئی ہندی افغانی‘ چینی‘ اندلسی‘ ایرانی‘ عراقی‘ ترکی اور مصری کڑیاں جوڑ کر مسلم اُمہ کی رگوں میں ایک رواں دواں روایت کا شعور مجھے دیا تو میں نے جانا کہ ترکی میں شیخ حامد اﷲ نہ صرف یہ کہ عظیم ترین خطاط تسلیم کیے جاتے ہیں بلکہ وہ اتنے ہی بلند روحانی مرتبے پر بھی فائز ہیں۔ ان کے فنِ خطاطی میں فیضِ عام کا عالم یہ ہے کہ نوآموز تو ایک طرف‘ بڑے بڑے اساتذۂ فن بھی نسخ اور ثلث کے قلم تراشتے ہیں‘ اس کو کاغذ میں لپیٹے ہیں۔ پھر شیخ حامد اﷲ کی قبر کی مٹی میں دو انگشت گہری جگہ بنا کر پیغمبرِ اسلامﷺ پر درود و سلام کے بعد اس میں قلم جمعہ کی رات کو دفن کر دیتے ہیں اور ایک ہفتہ بعد یہ قلم نکال لیتے ہیں اور جب بھی وہ مشقِ فن کرتے ہیں‘ پہلی سطر ان قلموں سے لکھ کر آغاز کرتے ہیں۔
ڈاکٹر شمل سے میری پہلی بالمشانہ ملاقات اُس وقت ہوئی جب میری مصورانہ خطاطی لاہور عجائب گھر کے اُس وقت تاحیات چیئرمین‘ فن پرور اور فن کار نواز مرحوم بی اے قریشی نے ان کو پیش کی۔ ڈاکٹر شمل نے میرے فن کی بہت تعریف کی۔ ایک جملہ خاص طور پر یاد رہ گیا ہے۔ ’’اسلم کمال لکھے ہوئے الفاظ کو تصویر کی طرح دیکھتا ہے‘‘۔ اس رمزیہ اور کنایہ جملے کا حقیقی مفہوم تو ڈاکٹر شمل کے ذہن میں ہو گا‘ جو میں نہ سمجھ سکا‘ وہ یہ تھا کہ شاعری کو شاعر بن کر پڑھنا اور ہے لیکن اسی شاعری کو مفکر بن کر پڑھنا بالکل اور ہے۔ اسی طرح الفاظ کو مصور بن کر دیکھنا بھی بجا لیکن ان کو خطاط بن کر بھی پڑھنا چاہیے۔ چنانچہ میں ڈاکٹر شمل کا احسان مند ہوا کہ ان کے رمزیہ اشارے نے میرے اندازِ نظر میں ایک نئے زاویے کا اضافہ کر دیا۔ مجھے یاد ہے اس اضافے سے پہلے میں غالب کے اس شعر کو ایک سوقیانہ شعر خیال کرتا تھا:
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
لیکن اس شعر کو اپنے اندازِ نظر کے نئے زاویے سے خطاط بن کر پڑھتا ہوں تو یاد آجاتا ہے:
لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالب
جادۂ رہِ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو
یعنی کششِ کافِ کرم والے قلم سے بے غرض اور بے لوث ہو کر کسی کے نام کی محبت میں بغیر مطلب خط لکھنا اور خط لکھتے ہی چلے جانا ہی تو دراصل وہ عمل اعلیٰ ہے‘ جس کے اعجاز سے خط بالآخر خطاطی کے بلند مرتبے پر فائز ہو کر اسمائے حسنہ کے نور سے معجز نگاری کرنے لگتا ہے۔ بقول مولانا روم:
از خطِ تخلیقِ او دانی کی چیست؟
انفس و آفاق ہا یک نقطہ نیست!
خدا‘ انسان اور شاعر (God, Man and Poet) کے عنوان سے اپنی مصری کی متعدد بڑی نمائشیں یورپ کے مختلف ممالک میں ۱۹۸۶ء میں کیں۔ آیاتِ قرآنی کی مصورانہ خطاطی کو خدا سے‘ فکری مصوری پر مشتمل تصاویر کو انسان سے اور کلامِ اقبال کی مصوری کو شاعر سے منسوب کیا گیا تھا۔ جرمنی میں اس کی نمائش بون کے کلچر سینٹر میں ہوئی۔ سفیرِ پاکستان نے افتتاح کیا۔ ڈاکٹر شمل کئی کام چھوڑ کر آئیں اور خود کہہ کے انہوں نے میری مصوری‘ خطاطی اور تشریحی مصوری پر جرمن زبان میں اتنا فاضلانہ اظہارِ خیال کیا کہ مجھے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ رہی۔
میں نے اپنے لیکچر میں کہا کہ میں نے انسان‘ کائنات اور خدا کو فکرِ اقبال کی روشنی میں سمجھا ہے اور میرا ایمان فکرِ اقبال کے تنوع اور تازگی کا مرہونِ احسان ہے۔ چنانچہ میں ایک ’’اقبالی مسلمان‘‘ ہوں۔ ڈاکٹر شمل کو میری یہ ’’اقبالی مسلمان‘‘ کی اصطلاح اتنی پسند آئی کہ انہوں نے اس کا ذکر ڈائریکٹر اقبال اکادمی کے نام خط میں تفصیل سے کیا۔ لیکن وہ خط گم ہو گیا۔ خط اکثر گم ہو جایا کرتے ہیں۔ خط جو قلم سے لکھے جاتے ہیں اور ایک پرانی کہاوت کے مطابق ’’قلم بیک وقت آنسو بھی بہاتا ہے اور مسکراتا بھی ہے‘‘۔
بون کلچر سینٹر سے ڈاکٹر شمل کا فلیٹ چند منٹ کے پیدل فاصلے پر تھا۔ ڈاکٹر عثمان ملک کی سیکرٹری یوٹا شمتھ کی رہنمائی میں وہاں پہنچا تو ڈاکٹر شمل منتظر تھیں۔ چھوٹا سا فلیٹ دوسری منزل پر تھا۔ کتابیں‘ رسائل‘ تصویریں اور دیس دیس کے نوادرات گھر میں اِدھر اُدھر اگرچہ ایک سلیقے اور قرینے سے رکھے گئے تھے لیکن صاف نظر آتا تھا‘ ایک بوڑھی عورت لیکن عالمہ‘ تنِ تنہا ان سب اشیا کی دیکھ بھال آخر کہاں تک کر سکتی ہے؟
انہی دنوں ڈاکٹر شمل کے مشرف بہ اسلام ہونے اور مکلی قبرستان میں اپنے لیے قبر محفوظ کروانے اور اپنا اسلامی نام جمیلہ رکھنے کی خبریں سیکنڈے نیویا میں پہنچنے والے پاکستانی اخبارات میں عام پڑھنے میں آرہی تھیں۔ میں نے ان خبروں کے حوالے سے پوچھا تو ڈاکٹر شمل نے مشرف بہ اسلام ہونے کے معاملے میں کچھ انکار اور کچھ اقرار کا انداز اپنا کر موضوع بدل دیا۔ میں نے جمیلہ نام رکھنے کی تصدیق چاہی تو آپ ’’اﷲ جمیل و یحب الجمال‘‘ (God is beautiful and loves beauty) مشہور حدیث کا حوالہ دے کر طرح دے گئیں۔ میں نے مکلی قبرستان کا ذکر چھیڑا تو ڈاکٹر شمل نے اس قبرستان کی تاریخی نوادریت پر اچا خاصا لیکچر دے دیا۔ میں نے ایک اور حربہ آزماتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر صاحبہ! اردو کے مشہور شاعر احسان دانش نے کیا خوب کہا ہے:
قبر کا چوکھٹا خالی ہے‘ اسے یاد رکھو
کیا خبر کب کوئی تصویر سجا دی جائے
’’بہت خوب‘‘ ڈاکٹر شمل نے احسان دانش کے اس شعر پر اردو میں داد دینے کے بعد کچھ توقف کیا‘ آنکھیں بند کیں۔ پھر سنبھل کر خوشگوار لہجے میں انگریزی میں کہا:
A good muslim remembers his grave always and I have got reserved one for myself, look at me!
ڈاکٹر شمل کے گھر میں دوسرا فرد ان کی بلی نظر آتی تھی۔ جو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ان کی گود میں آکر چند لمحے رکتی اور پھر جیسے گھر کی دیکھ بھال کو نکل جاتی تھی۔ اس کے علاوہ کارنس پر‘ تپائیوں پر‘ اور شوکیس میں جگہ جگہ کالی بھوری‘ سفید‘ گرے اور چتکبری ننھی منھی بہت ساری بلیاں‘ دھات کی بنی ہوئیں‘ کانچ اور چوب کی بنی ہوئیں ماڈل کھلونوں‘ شیلڈز کی صورت‘ جابجا اپنی نیلی پیلی آنکھوں سے دیکھتی نظر آتی تھیں۔ بلیوں کی یہ فراوانی دیکھ کر میں نے پوچھا ’’ڈاکٹر صاحبہ آپ کو بلیوں سے بہت زیادہ محبت ہے۔ اس کی کوئی خاص وجہ؟‘‘
ڈاکٹر شمل نے آنکھیں بند کر کے منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا کر‘ کچھ یاد کر کے اور مسکرا کر اردو میں کہا ’’صحابیٔ رسولؐ ابو ہریرہؓ تھے۔ میں اُمِ ہریرہ ہوں‘‘۔
میری مصورانہ خطاطی کی جو پینٹنگ لاہور میوزیم نے ڈاکٹر شمل کو پیش کی تھی‘ وہ آپ نے ڈرائنگ روم اور بیڈ روم کے دروازے کے اوپر چھت کے نیچے آویزاں کر رکھی تھی۔ مجھے اس کی طرف متوجہ کر کے کہا۔
I come and go, come and go under the words of God.
ہائیڈل برگ سے واپس بون آنے کی بجائے ڈیوس برگ میں اپنے دوست عثمان ملک کے ہاں ٹھہرا۔ ڈاکٹر عثمان ملک ایک ماہر دندان ساز ہیں۔ آپ ایک قابلِ فخر پاکستانی ہیں۔ انہوں نے پاکستانی کلچر کے تعارف پر جرمن زبان میں جو کتاب لکھی‘ وہ آج بھی سیکنڈے نیویا کے ممالک میں مستند خیال کی جاتی ہے اور ڈاکٹر صاحب کے مقدر میں یہ اعزاز آیا کہ ڈاکٹر شمل جیسی بے مثال مستشرق ڈاکٹر عثمان کی اس کتاب کی شریک مصنفہ ہیں۔
میں نے ڈاکٹر شمل کو فون پر بتایا کہ میں ڈاکٹر عثمان ملک کے ہاں ڈیوس برگ میں ٹھہرا ہوں۔ ڈاکٹر شمل نے ڈاکٹر عثمان اور ان کی فرنچ بیوی کو سلام کہا اور دعوت دی کہ اگر بون کا چکر لگے تو چائے کا کپ پیش کروں گی اور جب میں کچھ دنوں بعد ان کے ہاں پہنچا تو ڈاکٹر صاحبہ نے برادرِ مکرم فتح محمد ملک کی خیریت پوچھنے کے بعد یہ سوال کیا کہ ہائیڈل برگ میں دن کیسے گزرے؟
ہائیڈل برگ میں ایک صبح سویرے سویرے ڈاکٹر صاحبہ‘ فتح محمد ملک اور مَیں ان کی رہائش گاہ سے نیچے بسمارک پلائز کی طرف جارہے تھے۔ دریائے نیکر کے دونوں کناروں پر بتدریج بلند ہوتی ہوئی ڈھلوانیں اور ان کے درمیان ایک کتاب کی طرح کھلتا ہوا ہائیڈل برگ کا منظر ناقابلِ فراموش ہے۔ علم و ادب کی متانت اور حسنِ فطرت کی فرحت کا امتزاج قلب و نظر کی زندگی کا سامان کرتا ہے۔ میں ہر قدم پر اس شہر کی دلکشی کا اسیر ہو رہا تھا۔ سامنے تھنکرز روڈ کے اوپر جہاں پہاڑ کی بلندی ختم ہوتی ہے‘ وہاں چیڑ کے درختوں کا ایک جھنڈ سر بلند تھا اور اس جھنڈ کے عقب میں گہرے فرے رنگ کے بادل پیچ و تاب کھا رہے تھے۔ سورج طلوع ہو کر پہاڑ کی منڈیر اور درختوں کے جھنڈ کی چھتنار کے درمیان سے جھانکتا ہوا جلال و جمال کا مسحور کن منظر بنا رہا تھا میں اس نظارے میں یوں کھویا کہ ملک صاحب بہت آگے جاکر مجھے اپنے ساتھ نہ پاکر واپس پلٹ کر آئے اور مجھے ازخود رفتہ پاکر بولے۔ اے مصور تو کہاں گم ہے؟
میں چونک کر بے خودی سے باہر نکلا۔۔۔ ملک صاحب! جس تجلی کا مشاہدہ میں نے یہ سامنے کے اس منظر میں کیا ہے‘ مجھے یقین ہے علامہ اقبال نے بھی جبین جبریل کا نقش و عکس ہائیڈل برگ کے ہی کسی منظر میں دیکھا ہو گا۔
یا نمایاں بامِ گردوں سے جبینِ جبریل
’’اقبال اوفر‘‘ کی سیر کی۔ بانگِ درا کی مشہور نظم ’’ایک شام‘‘ کا جرمن زبان میں ترجمہ پتھر پر کندہ ایک باغیچے میں نصب دیکھا۔ دریائے نیکر کے ہی دوسرے کنارے پر اُس مکان کی زیارت کی اور اس پر یادگاری تختی کے پاس فوٹو بھی کھنچوائی جس میں علامہ اقبال نے رہائش رکھی تھی۔ اس مکان کے سامنے نیچے اتر کر نیکر کے کنارے پر مشامِ تیز سے ان نقوش کفِ پا کی تلاش کی کوشش کی جن پر ’’ایک شام‘‘ مصرع مصرع‘ شعر شعر اتری ہو گی‘ جس کے سات اشعار میں حرف س چھ بار‘ لفظ خاموش چار بار اور اس کا مخفف خموش تین بار اور مجموعی طور پر حرف ش کی سولہ بار صورت اس نظم کی بافت میں شاعر نے کسی نور باف کی طرح یوں بن دی ہے کہ شعر کا ایک مصرع صدائوں کو دھیما کر کے پرسکون کرتا ہے اور دوسرا مصرع اس پر چپ کی تہ بچھاتا چلا جاتا ہے اور پوری نظم آہستہ آہستہ ایک اونگھ میں اتر جاتی ہے۔
مجھ سے یہ نقشہ سن کر شاعرِ مشرق کی اس مغربی مداح نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس نے دونوں ہاتھ آپس میں ملا کر ٹھوڑی نیچے رکھ لیے۔ میں نے اس کے ضعیف لیکن فکرِ اقبال کے نور سے روشن چہرے پر معصومیت آمیز شوخیاں کی کرنیں بکھرتی دیکھیں۔ ڈاکٹر شمل نے رک رک کر ٹھہر ٹھہر کر اردو زبان کے الفاظ تلاش کرتے ہوئے کہا۔ تم مصور ہو‘ ہر ایک شے کو ایک تصویر کی طرح دیکھتے ہو۔ ہائیڈل برگ واقعی بہت خوبصورت شہر ہے۔ یہ معلموں اور متعلموں کا شہر‘ یہ مکتبوں اور مدرسوں کی وادی ہے۔ مجھے امید ہے پروفیسر ملک نے ضرور اس شہر کے کسی بلند مقام سے‘ کسی ایسے کوچے‘ کسی ایسی گلی کی طرف بھی متوجہ کیا ہو گا‘ جہاں دھوپ اور چھائوں‘ روشنی اور سائے آپس میں گھل مل کر اس احساس میں ڈھل جاتے ہوں گے کہ یہاں ایما ویگے ناسٹ کا گھر ہے۔ ایما جس کی رعنائی خیال سے عمارت ہائیڈل برگ اور اس کی ہوائے حکمت و دانش ’’زبورِ عجم‘‘ کے اس شعر میں سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں:
وادیٔ عشق بسے دور و دراز است ولے
طے شود جادۂ صد سالہ بآہے گاہے
۱۹۹۳ء میں جرمنی کے شہر کولون جانا ہوا۔ کولون یونیورسٹی سے متعلق میرے دوست عثمان ملک کے حلقۂ ہم نفساں کی روحِ رواں شاعرہ بار برا میولر اور مصورہ کرسچیانے کی میزبانی کا لطف اٹھانے کا موقع ملا۔ کرسچیانے بون میں ڈاکٹر شمل کے گھر کے قریب رہتی تھیں اور ڈاکٹر صاحبہ کی نیازمند بھی تھیں۔ انہوں نے ہی ڈاکٹر شمل کو میری آمد کے بارے میں اور میرے پروگرام کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ انہوں نے میرا سلام بھی ڈاکٹر صاحبہ تک پہنچایا اور میری ملاقات کے لیے وقت اور دن بھی طے کیا۔
ڈاکٹر شمل سے ملنا گم شدہ اسلامی تہذیب کی ایسی مستند کتاب سے ملنا تھا جو کتاب بولتی تھی۔ باتیں کرتی تھی اور اپنے قاری کو قونیہ‘ کوفہ‘ قم‘ کبھی قرطبہ‘ کبھی دمشق‘ دہلی‘ لاہور‘ کبھی شیراز بلخ بخارا‘ کبھی بغداد کبھی جیحوں سیحوں اور کبھی کنارِ دجلہ و فرات لیے پھرتی تھی۔ ڈاکٹر شمل کو شعائر اسلامی اور اسلامی تصوف سے عشق تھا۔ وہ اپنے آپ کو کبھی کبھی رابعہ بصری کہہ کر اپنی عقیدت کا اظہار کیا کرتی تھیں۔
اس بار ڈاکٹر شمل کے ہاں گیا تو چائے پر چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہیں۔ ڈاکٹر شمل نے کئی پاکستانی شاعروں‘ ادیبوں اور مصوروں کے بارے میں پوچھا۔ پھر اچانک وہ اٹھیں اور تھوڑی دیر بعد واپس آئیں اور اپنا لیٹر پیڈ میری طرف بڑھایا اور کہا کہ تمہاری فلاں بلیک اینڈ وائٹ کیلی گرافی‘ جس میں تم نے اپنا سلہوٹ ایک قرآنی دعا کے ساتھ ایک سٹی سکیپ میں دکھایا ہے‘ مجھے چاہیے۔ ایک سندھی خاتون (جس کا نام مجھے یاد نہیں رہ سکا) کے ساتھ ایک کتاب صوفی ازم پر مکمل ہونے والی ہے۔ یہ کیلی گرافی میں اس میں استعمال کروں گی۔ یہ لو لیٹر پیڈ اور اس پر تم اس کو استعمال کرنے کی تحریری اجازت دے دو۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحبہ‘ آپ کو اس اجازت کی کیا ضرورت ہے‘ میں تو خطاطی کے جملہ حقوق آپ کے نام کر سکتا ہوں۔ لیکن ڈاکٹر شمل نے جس اصرار کے ساتھ مجھ سے اجازت لکھوائی‘ اُس کے پس پردہ آپ کی عظمت ہی عظمت تھی۔ مجھے بخوبی احساس تھا کہ ایک بزرگ خاتون عالمہ صرف اور صرف میری عزت افزائی اور میرے ناچیز ہنر کی قدردانی کے لیے یہ تکلیف کر رہی ہیں۔
’’اقبال اکادمی پاکستان‘‘ کا انٹرنیشنل ایوارڈ لینے ڈاکٹر شمل لاہور آئیں تو اکادمی نے اس موقع پر کلام اقبال کی میری مصوری پر مشتمل ایک نمائش کا اہتمام بھی کیا اور اس کا افتتاح آپ سے کروایا۔ میں نے بڑی تفصیل کے ساتھ انہیں تصویریں دکھائیں۔ وہ جگہ جگہ رک کر کچھ ایسے مقامات کی نشاندہی کرتیں کہ مجھے حیرت ہوئی کہ نامحسوس طور پر میرے اسلوب میں رونما ہونے والی کئی تبدیلیوں کا انہیں کس قدر ادراک تھا۔ اسی رات اقبال اکادمی پاکستان نے ’’سلوز‘‘ میں ڈنر دیا۔ ڈاکٹر شمل کے اعزاز میں ڈاکٹر جاوید اقبال‘ جسٹس ناصرہ جاوید اور ان کے فرزند منیب اقبال بھی کھانے میں شامل تھے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے مجھ سے پوچھا کہ یہ جو نمائش میں اتنی تصویریں رکھی ہیں‘ یہ میں اپنے گھر میں کہاں رکھتا ہوں؟
میں نے جواب دیا کہ میرے گھر میں میرے بچوں کے بیڈ دراصل تصاویر کے بکس ہیں۔ اس پر ڈاکٹر صاحبہ نے کمال قدر دانی سے فرمایا کہ ’’ایوان اقبال‘‘ کے بورڈ آف گورنر کی اگلی میٹنگ میں ان تصاویر کو آپ سے خرید کر ایوانِ اقبال میں آویزاں کرنے پر ان شاء اﷲ بات ہو گی۔ ڈاکٹر شمل نے بہت مسرت کا اظہار کرتے ہوئے تائید کی اور کہا۔ ’’اس کام میں مزید دیر اب نہیں ہونی چاہیے‘‘۔
میرا دل خوشی سے بھر گیا۔ آنکھ آنسوئوں سے بھر گئی۔ ’’ایوانِ اقبال‘‘ میں میری اقبالیاتی مصوری کی گیلری کی خشتِ اول لگ گئی تھی۔
اگلے روز ناظم اقبال اکادمی ڈاکٹر شمل کو الحمراء آرٹس کونسل لے کر آئے‘ جہاں خطاطی کی کل پاکستان نمائش لگی ہوئی تھی۔ اس نمائش کا کرتا دھرتا راقم تھا۔ میں نے ڈاکٹر شمل کو خطاطوں اور مصور خطاطوں سے ملایا اور ان کے فن پارے دکھائے۔ اس پیرانہ سالی کے باوجود پوری نمائش دیکھی اور پسند کی اور کچھ باتوں پر ناپسندیدگی کا بھی اظہار بزرگانہ شفقت کے ساتھ کیا۔ یہاں اس تحریر کا موضوع اجازت نہیں دیتا‘ میں وہ ساری باتیں کبھی مصورانہ خطاطی کے باب میں لکھوں گا۔
ڈوسل ڈارف جرمنی کا کلچرل کیپٹل کہلاتا ہے۔ پچھلے برس ۲۰۰۲ء میں میرے جرمن دوستوں نے مجھے وہاں بلایا۔ کنسٹ میو سے ڈوسل ڈارف کو دیکھنے کی مری بہت دیرینہ خواہش پوری ہوئی۔ وہاں سے میں نے ڈاکٹر شمل کو بون فون کر کے ان کی خیریت معلوم کی۔ ان کی آواز سے پتا چلتا تھا کہ بہت کمزور ہو چکی ہیں۔ کہنے لگیں۔ تم جانتے ہو کہ میں اپنے مہمانوں کی صرف چائے کے ایک کپ سے ہی تواضع کر سکتی ہوں۔ ڈوسل ڈراف سے تم اتنے مارک خرچ کر کے چائے پینے آئو‘ یہ فضول خرچی ہے۔ اگر تمہارا بون آنے کا پروگرام ہے تو میری طرف سے دعوت ہے۔
میں نے بون آنا ہی تھا۔ بون سے فون کر کے جب ڈاکٹر شمل کے ہاں پہنچا تو وہ توقع سے زیادہ کمزور ہو چکی تھیں۔
اس ملاقات میں ڈاکٹر شمل نے پاکستان کے بارے میں بہت ساری باتیں کیں جو عموماً نہ کیا کرتی تھیں اور نہ انہیں ان کی فرصت ہوا کرتی تھی۔ کئی پاکستانی پینٹرز اور شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں پوچھا۔
اس بار انہوں نے اپنی نوجوانی اور جوانی کی بہت ساری فوٹو گرافس مجھے خاص طور پر دکھائیں۔ وہ اپنی مدھم اور نحیف آواز میں کچھ اردو اور زیادہ انگریزی زبان میں ان تصویروں میں مقامات‘ شخصیات اور دیگر اہم تفصیلات بھی بیان کرتی رہیں۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ ماضی کو دہرانے میں انہیں لطف مل رہا تھا۔ انہوں نے خاص طور پر پاکستان میں ضیاء الحق کے دورِ حکومت کا ذکر بہت پسندیدگی سے دو تین بار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جھیل سیف الملوک کی سیر کی دیرینہ خواہش پوری کرنے کے لیے انہیں وہاں تک لے جانے کے لیے بہت خوبصورت ہیلی کاپٹر کا انتظام کیا گیا۔ ڈاکٹر شمل نے آنکھیں بند کر کے ماضی کو ذہن میں تازہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’میاں محمد بخش کے سیف الملوک کی پری بدیع الجمال کی طرح جھیل پر آسمان سے میں اتری تھی‘‘۔
اقبالیات کی شہرہ آفاق عالمہ اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی بے مثال دانشور اور مفسر ڈاکٹر انماری شمل ۲۶ جون ۲۰۰۳ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی۔ ان کی آخری رسومات بون کے ایک گرجا گھر میں ادا کی گئیں۔ ڈاکٹر شمل تمام عمر آخرت (Hearafter) کے بارے میں متجسس رہیں۔ اسی جستجو میں ان کے لبوں پر آخری الفاظ یہ تھے۔
’’مجھے جانے دو‘‘۔ (Let me go)
ہائیدل برگ میں دریائے نیکر کے کنارے پر ایک شاہراہ کو علامہ اقبال کے جشنِ صد سالہ کے موقع پر ’’اقبال اوفر‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اہلِ جرمنی کے اس اظہارِ عقیدت کے جواب میں اہلِ پاکستان نے لاہور کی خوبصورت نہر میاں میر کے مال روڈ سے گلبرگ روڈ تک کے کنارے کو ’’خیابان گوئٹے‘‘ اور اس کے بالمقابل کنارے کو گلبرگ روڈ سے مال روڈ تک ’’خیابانِ ڈاکٹر انماری شمل‘‘ کے ناموں سے منسوب کر کے عقیدت و احترام کی روایت کو آگے بڑھا دیا۔
ان دنوں ابھی ڈاکٹر شمل سے میری ملاقات بالمشافہ نہیں ہوئی تھی اور میری سواری موٹر سائیکل تھی۔ لاہور کی شدید گرمی میں اگر صبح صبح ہوا چلنے لگے تو نہر کنارے جو لطف موٹر سائیکل کی سواری میں آتا وہ کسی اور سواری پر ممکن ہی نہیں تھا۔
ایک دن صبح سویرے جب میں نے موٹر سائیکل پر گلبرگ روڈ کو عبور کیا تو سامنے ’’خیابانِ ڈاکٹر انماری شمل‘‘ کے نہر کنارے بورڈ پر نظر پڑی تو آگے سے آتے ہوئے ہوا کے جھونکے مجھے موجِ بادِ صبا کی طرح معطر اور فرحت بخش لگنے لگے۔ ایک اعلیٰ و ارفع علمی اور فکری راحت کا احساس میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ لیکن یہ احساس زیادہ دیر اور زیادہ دور تک ساتھ نہ چل سکا۔ مال روڈ کے پل کے پہلو میں نصب بورڈ پر نظر پڑی تو شدید جھٹکا لگا۔ ’’خیابانِ ڈاکٹر انماری شمل‘‘ کے آخری لفظ شمل کے سپیلنگ کا آخری حرف ایل لکھا ہوا نہیں تھا۔ میں نے ’’لاہور کارپوریشن‘‘ جو ان دنوں ابھی کارپوریشن ہی تھی‘ خط بھی لکھا اور متعدد بار فون کیا کہ شمل کے سپیلنگ ادھورا ہے۔ برائے کرم اسے پورا کر دیا جائے۔ لیکن جب خط کا اثر نہ ہوا نہ فون کا‘ تو میں نے اس زمانے کے مشہور اردو اخبار ’’امرو‘‘ میں ’’شمل کا ایل‘‘ کے عنوان سے دو کالم لکھے کہ اقبالیات کی اتنی بڑی محسنہ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اس کے نام میں آخری حرف کی ناروا کمی بری طرح کھٹکتی ہے۔ چنانچہ محسنہ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اس کے نام میں آخری حرف کی ناروا کمی بُری طرح کھٹکتی ہے۔ چنانچہ:
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
جب میں نے یہ کالم لکھے تو ڈاکٹر شمل سے میری نیاز مندی کا ابھی باب نہیں کھلا تھا۔ چونکہ میں نے ان کالموں کے تراشے ڈاکٹر شمل کو نہیں بھجوائے تھے اور ایسا کرنا مناسب بھی نہیں تھا‘ اس لیے یہ کالم ان کے علم میں آنے کی توقع کرنا اتنا ہی عبث ہے‘ جتنا اس خبر کا ان تک پہنچنا عبث ہو گیا ہے کہ لاہور کی نہر کے مال روڈ سے گلبرگ تک دونوں کناروں پر ادھر بھی جشنِ بہاراں اُدھر بھی جشنِ بہاراں ہے اور اس جوشِ جشنِ بہاراں میں نہ خیابان گوئٹے اور نہ ’’خیابان ڈاکٹر انماری شمل‘‘ کا کوئی اشارہ کوئی استعارہ باقی نہ کوئی نشان اور نہ کوئی نشان باقی:
خبرِ تحیرِ عشق سن
نہ جنوں رہا نہ پری رہی
(بشکریہ: ’’اقبالیات‘‘۔ اقبال اکادمی پاکستان‘ لاہور)
Leave a Reply