
جرمن صدر فرینک والٹر سٹین مائر نے حال ہی میں اسرائیل کا دورہ کیا اور وزیر اعظم نفتالی بینیٹ سے ملاقات کی۔ بینیٹ کے امریکی والدین جولائی ۱۹۶۷ء میں سان فرانسسکو سے مقبوضہ فلسطین آئے تھے تاکہ اپنی نوآبادی بنائی جائے۔ بینیٹ فخریہ کہہ چکے ہیں: ’’اپنی زندگی میں بے شمار عربوں کوقتل کرچکا ہوں اور مجھے کوئی پروانہیں کہ کوئی مجھے کیا کہتا ہے‘‘۔
دورے پر آنے سے پہلے سٹین مائر نے اسرائیل کے لیے خیرسگالی کا اظہار اس طرح کیا کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے اسرائیلی حکام کو نوآبادیاتی جنگی جرائم پر مقدمے سے بچانے کی خاطر زور دے کر کہا کہ ’’جرمن حکومت کا موقف یہ ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت اس معاملے میں (اسرائیلی حکام کو طلب کرنے کا) کوئی اختیار نہیں رکھتی کیونکہ فلسطینی ریاست ہی موجود نہیں ہے‘‘۔ سبکدوش اسرائیلی صدر ریوین ریولن نے اسرائیل کی سلامتی کے حوالے سے عزم اور ان تحقیقات کی مخالفت کرنے پر سٹین مائر کا شکریہ ادا کیا۔
دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد مغربی جرمنی کی تمام حکومتوں کی طرح سٹین مائر نے بھی فلسطین پر قبضے کی شکل میں یہودی نوآبادیات کی غیر متزلزل حمایت کی، جس کا سبب وہ احساسِ جرم ہے جو جرمنی کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ ان کاکہنا تھا: ’’نازی حکومت نے اپنی سیاسی طاقت کو بڑے پیمانے پر (یہودیوں کے ساتھ ) بدسلوکی کے لیے استعمال کیا تھا چنانچہ جرمنی ماضی کے اُس بوجھ کے ساتھ آج بھی شرمندہ ہے‘‘۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یورپی یہودیوں کی نسل کشی کے بارے میں جرمنی کا ضمیر دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد جرمنی کے سیاسی کلچر میں جاگتا رہا ہے، تاہم نوآبادیاتی نوعیت کے اور جرمنی کے دیگر نسل کشی کے اُن جرائم کے بارے میں ضمیر کی یہ بیداری سامنے آتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی جو ۷۱۔۱۸۷۰ء میں متحدہ جرمنی کے دور میں کیے گئے اور وہ جرائم بھی کم نہیں۔
سٹین مائر کے ان جملوں کی حماس کے ایک ترجمان نے مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ سٹین مائر نے ’’قبضے کو برقرار رکھنے کی ترغیب دی ہے تاکہ (اسرائیل) اپنے جرائم اور جارحیت کو جاری رکھے، اور (اسرائیلی) حکومت کو بین الاقوامی قانون سے بالاتر رکھا جائے‘‘۔ پاپولر فرنٹ برائے آزادی فلسطین نے جرمن صدر کے ریمارکس کو ’’شرمناک اور متکبرانہ‘‘ اور ’’اسرائیل کو مزید جرائم کرنے کی دعوت‘‘ قرار دیا۔ یہاں تک کہ فلسطینی اتھارٹی نے ان ریمارکس کو ’’بین الاقوامی قوانین کے اصول و ضوابط سے انحراف‘‘ اور ’’آئی سی سی کے دائرہ کار کے ساتھ ساتھ اس کے احکامات میں مداخلت‘‘ قرار دیا۔
بے شک جرمنی فلسطینی عوام کے بڑے بڑے سفاک دشمنوں میں سے ایک رہا ہے اور ۱۹ویں صدی ہی سے وہ استعماری آباد کاری کے خلاف فلسطینیوں کی جدوجہد کا مخالف ہے۔ فلسطین کی نوآبادیات میں جرمنی کا حصہ نظریاتی، مالی، طبیعی اور فوجی رہا ہے۔
فلسطین میں آباد کاریاں
فلسطین میں جرمنی کی آباد کاری کا موضوع بہت سوں کے لیے نئی معلومات لائے گا۔ یہ افریقا میں جرمنی کی نوآبادیات شروع کرنے سے ایک دہائی قبل کی بات ہے کہ جرمنوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کو اپنے ہزار سالہ عقائد (millenarian beliefs) کی وجہ سے لوتھرین چرچ سے نکال دیا گیا اور انہوں نے ۱۸۶۱ء میں خود کو جرمن ٹیمپلرز کے طور پر دوبارہ منظم کیا، اور فلسطین میں آباد کاروں کی کالونیاں قائم کرنے کا آغاز کیا۔ پہلی کالونی ۱۸۶۶ء میں نظارت کے قریب بنائی گئی تھی، اور ۱۸۶۹ء میں انہوں نے فلسطینی شہر ’’حیفا‘‘ میں ایک کالونی بنا لی۔ یروشلم کے پرانے شہر کے قریب ریفائیم سمیت تین مزید کالونیاں بنا لی گئیں۔
۷۸۔۱۸۷۷ء میں عثمانی سلطنت اور روس کی جنگ کے دوران جرمن جنگی بحری جہاز فلسطین کے ساحلوں پر آئے تاکہ ممکنہ حملے کی صورت میں جرمن کالونیوں کا دفاع کیا جائے۔ اس دوران میں، جرمن قونصل نے عثمانیوں کو ٹیمپلرز کالونیوں کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا جو اس سے پہلے ایسا کرنے سے انکار کر چکے تھے۔
ٹیمپلرز فلسطین میں کیا چاہتے تھے؟در حقیقت، وہ فلسطین کو عیسائی ریاست بنانا چاہتے تھے، اور امید کر رہے تھے کہ جنگ کے اختتام پر یہ علاقہ جرمنی کو دیا جائے گا۔ جب ۱۹۰۸ء میں نوجوان ترکوں کی تحریک قسطنطنیہ میں شروع ہوئی تو اِدھر فلسطینی کسانوں نے جرمن کالونیوں اور صہیونی یہودی کالونیوں پر حملہ کیا۔ ایک بار پھر، جرمنوں نے ایک جنگی جہاز حیفا کو روانہ کیا۔
جرمن بادشاہ قیصر ولہیم نے ۱۸۹۸ء میں فلسطین کا دورہ کیا۔ اس کے وفد کے ایک رکن، Colonel Joseph Freiherr von Ellrichshausenنے فلسطین میں قائم جرمن کالونیوں کی ترقی کے لیے ایک سوسائٹی بنانے کا فیصلہ کیا اور ان کو قرض دیا۔ اس رقم سے ٹیمپلرز کے نئے قافلوں کی آمد نے ۲۰ویں صدی کے اوائل میں والہلہ، گلیلی کے بیت اللحم، اور والڈہیم کی کالونیاں تعمیر کیں۔ Wilhelmia ان کے علاوہ تھی۔
پہلی جنگِ عظیم کے موقع پر فلسطین میں تقریباً ۲۰۰۰ ٹیمپلرز آباد تھے۔ ۱۹۳۰ء کی دہائی میں ان بیشتر ٹیمپلرز نے ہٹلر کی نازی حکومت کی حمایت کی۔ بالآخر جنگ ختم ہونے کے بعد انگریزوں اور صہیونیوں نے ان کالونیوں پر قبضہ کر لیا اور ٹیمپلرز کو نکال باہر کیا۔
صہیونی تحریک کے لیے نمونہ
اس سے پہلے ۱۸۷۱ء میں نو متحدہ جرمنی اپنے مشرقی صوبوں کو نوآبادیات بنانے پر تُلا ہوا تھا، جن میں پولش باشندوں کی اکثریت تھی۔ ایک پُرشین (Prussian) کالونائزیشن کمیشن بنایا گیا جس کا مقصد مغربی پرشیا اور پوسین جیسے صوبوں کو نوآبادیات بنا کر اور پولش قومی شناخت کو کچل کر انہیں جرمن سانچے میں ڈھالنا تھا۔ ۱۹۱۴ء تک یہ کمیشن تقریباً ایک لاکھ ۵۵ ہزار لوگوں کو سیکڑوں چھوٹی چھوٹی جرمن کالونیوں میں آباد کرنے میں کامیاب رہا تھا، تاہم پولینڈ کے زمینداروں نے اپنی آبادکاری کی تنظیم قائم کر کے مزاحمت دکھائی اور جرمن کوششوں کو مؤثر طریقے سے شکست دی۔
پوسین کو جرمن نوآبادیات بنانا ۲۰ویں صدی کے اوائل میں فلسطین کو نوآبادی بنانے کی صہیونی کوششوں کے لیے ایک نمونہ بن گئی۔ صہیونی تنظیم کے فلسطینی بیورو کا سربراہ جرمن یہودی اور پوسین میں پیدا ہونے والا آرتھر روپن تھا، جس نے ’’زرعی زمین پر رہنے والی پولش اکثریت اور بنیادی طور پر شہری علاقوں کی جرمن آبادی کے درمیان مستقل کشمکش‘‘ دیکھی تھی۔
روپن ۱۹۰۷ء میں فلسطین پہنچا۔ اس کی آمد کا مقصد وہاں یہودی آباد کاری کے امکانات تلاش کرنا تھا۔ اس کے دورے کے اخراجات جوئش نیشنل فنڈ (جے این ایف) نے برداشت کیے۔ فلسطین پہنچنے کے دو ہفتوں بعد روپن نے جے این ایف کو لکھا: ’’میری رائے میں جے این ایف کا کام بالکل اسی طرح کا ہے جیسا (پرشین) کالونائزیشن کمیشن نے پوسین اور مغربی پرشیا میں کیا۔ جب بھی غیر یہودیوں (یعنی عربوں ) کی طرف سے زمین فروخت کے لیے پیش کی جائے گی جے این ایف اُسے خرید لے گا اور پھر اُسے جزوی یا کلی طور پر یہودیوں کو فروخت کے لیے پیش کردے گا۔
روپن نے ۱۹۰۸ء میں فلسطین لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی (پی ایل ڈی سی) بنائی، جس کا کام اس کی تاسیسی دستاویز کے مطابق یہ قرار پایا کہ پوسین کو جرمن نوآبادی بنانے میں جو طریقے استعمال ہوئے ان طریقوں کو اپنایا جائے گا۔ صہیونی رہنما اوٹو واربرگ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پی ایل ڈی سی نے ’’نئے طریقے اور نئے تجربات (اس لیے ) تجویز نہیں کیے کہ اُن کی نوعیت نامعلوم ہے (یعنی نئے طریقوں کے ناکام ہونے کا خدشہ موجودہے)۔ ہم اس کے بجائے پرشیا کی نوآبادی کا طریقہ اپناتے ہیں کیونکہ کالونائزیشن کمیشن گزشتہ دس سال سے ان پر عمل پیرا ہے۔ واربرگ خود پرشیا کالونائزیشن کمیشن کا رکن رہا اور ۱۹۱۱ء سے ۱۹۲۱ء تک زیڈ او کا صدر رہا۔
دریں اثنا، جرمن آباد کاروں کی نوآبادیات اور قتل عام کے ذریعے نسل کشی خاص طور پر نمیبیا اور تانگانیکا میں تیزی سے جاری رہی۔ تانگانیکا میں ۱۸۹۱ء اور ۱۸۹۸ء کے درمیان جرمنوں نے ڈیڑھ لاکھ واحے (Wahehe) باشندوں کو قتل کیا، جنہوں نے جرمن نوآبادیات کے خلاف بغاوت کی تھی۔ نمیبیا میں ۱۹۰۴ء سے ۱۹۰۷ء تک، انہوں نے کم از کم ۶۵۰۰۰ ہیریرو قتل کیے جو اُن کی آبادی کا تقریبا ۷۵فیصد سے ۸۰ فیصد بنتا ہے، جبکہ ۱۰؍ہزار ناما باشندوں کو قتل کیا گیا جو اُن کی آبادی کا ۳۵ سے ۵۰ فیصدبنتا ہے۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد پولینڈ میں، اور افریقا اور جنوبی بحرالکاہل میں جرمن آباد کاروں کی کالونیوں کے ہاتھ سے نکلنے کے بعد جمہوریہ ویمر (Weimar Republic) نے لیگ آف نیشنز میں کوشش کی کہ ان علاقوں پر جرمن اقتدار بحال کیا جائے لیکن ناکام رہی۔
فلسطینیوں کی بے دخلی
فلسطین کی یہودی نوآبادیات کے بارے میں ویمر حکومت کی پالیسی ابتدا ہی سے واضح تھی۔ اگرچہ جرمن یہودیوں کی اکثریت نے صہیونیت کی مخالفت کی (۱۸۹۷ء اور ۱۹۳۳ء کے درمیان فلسطین جانے والے جرمن یہودی نوآبادکاروں کی تعداد ۲۰۰۰ سے زیادہ نہ تھی، اُن میں بھی اکثریت اُن روسی یہودی تارکین وطن کی تھی جو جرمنی آئے تھے ) تاہم ویمر جمہوریہ نے اعلانِ بالفور کی فوری حمایت کر دی، اور ۱۹۲۶ء میں لیگ آف نیشنز میں شمولیت کے بعد فلسطین میں یورپی یہودی نوآبادیات کی ایک فعال حامی بن گئی۔
نازیوں کی آمد اور اقتدار سے بھی ایشیا اور افریقا میں اپنی نوآبادیاں بنانے کے جرمن عزم میں کوئی فرق نہیں پڑا، اگرچہ نازیوں نے بنیادی طور پر مشرقی یورپ کو نشانہ بنایا۔ نازیوں کی یہود دشمن پالیسیاں جو ۱۹۳۰ء کی دہائی میں جاری رہیں، درحقیقت فلسطین پر صہیونی نوآبادیات کی رفتار بڑھانے میں معاون ثابت ہوئیں۔ ۱۹۳۳ء میں نازی حکومت کے پہلے چند مہینوں کے دوران ہی صہیونی تحریک نے نازیوں کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تاکہ جرمنی چھوڑ جانے والے یہودیوں کی رقومات فلسطین منتقل کی جائیں، یہ معاہدہ ۱۹۳۹ء تک نافذ رہا۔
اس معاہدے نے ۱۹۳۹ء تک جرمن یہودیوں کے تقریباً ۴۰ ملین ڈالر فلسطین کو منتقل کرنے میں سہولت دی، یہ صہیونی تحریک کے لیے کافی رقم تھی۔ صہیونی تحریک نے یہ رقم فلسطین میں مزید نوآبادی بنانے اور مقامی لوگوں کو بے دخل کرنے کے لیے استعمال کی۔ درحقیقت ۱۹۳۳ء سے ستمبر ۱۹۳۹ء تک فلسطین میں لگائے گئے تمام سرمائے کا ۶۰ فیصد اسی معاہدے کے نتیجے میں آیا۔
لیگ آف نیشنز میں جرمنی کے نمائندے نے اکتوبر ۱۹۳۳ء میں اراکین کو یقین دلایا کہ حکومت ’’یہودیوں کی جرمنی سے فلسطین نقل مکانی کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے‘‘۔ کچھ ہی دن بعد نازی جرمنی لیگ آف نیشنز سے نکل گئی۔ یروشلم میں جرمنی کے قونصل جنرل ہینرخ ولف نے ان کوششوں میں تعاون کیا۔ انہوں نے ۱۹۳۴ء کے موسم گرما میں جرمن مشینری خریدنے کی خاطر نیتنیا کی یہودی کالونی کے لیے ایک لاکھ فلسطینی پونڈ کا قرض حاصل کیا۔
ایس ایس کی جرمن خفیہ سروس کے یہودی شعبے کے سربراہ کی حیثیت سے، لیوپولڈ وان ملڈن سٹائن پکا صہیونی تھا۔ وہ ۱۹۳۰ء کی دہائی میں فلسطین کے چھ ماہ کے دورے سے لوٹ کر آیا تھا اور یہودی آباد کاروں کی استعماریت کی تعریفیں کرتا تھا۔ اس نے جوزف گوئبلز کی نگرانی میں شائع ہونے والے نازی پارٹی کے پروپیگنڈا اخبار “Der Angriff” (جس کا مطلب ’حملہ‘ ہے) میں قسطوں کی ایک رپورٹ یہودی کالونیوں کی تعریف میں شائع کی: ’’اس زمین نے ایک دہائی میں (یہودیوں کی) اصلاح کر دی ہے۔ یہ نیا یہودی ایک نئی قوم ہوگا‘‘۔
مئی ۱۹۳۵ء میں ایس ایس کے سربراہ رینارڈ ہیڈرخ نے خود ایس ایس کے سرکاری اخبار “Das Schwarze Korps” میں ایک مضمون لکھا جس میں اس نے صہیونیوں کی تعریف کی: ’’صہیونی اپنے سخت نسلی موقف پر قائم ہیں اور فلسطین نقل مکانی کر کے اپنی یہودی ریاست بنانے میں مدد کر رہے ہیں۔۔۔ ہماری نیک خواہشات کے ساتھ ساتھ ہماری سرکاری حیثیت (official good) ان کے ساتھ جائے گی‘‘۔
قابل قدر خدمت
صہیونی ملیشیا ہیگانا (Haganah) کے ایجنٹ فیول پولکس کو ۱۹۳۷ء میں برلن روانہ کیا گیا تھا، اس نے وان ملڈن سٹائن کے سرپرست ایڈولف ایخ مین کے ساتھ بطور مذاکراتی شراکت داری کی تھی۔ پولکس نے ۱۹۳۳ء اور ۱۹۳۵ء کے درمیان جرمنی سے موزر پستول اور گولہ بارود ملنے پر ایخ مین کا شکریہ ادا کیا۔ اس اسلحے نے ۱۹۳۶ء میں صہیونی ملیشیا کی اُس وقت ’’قابل قدر خدمت‘‘ کی، جب فلسطینیوں نے یہودیوں کی نوآبادی کے خلاف تحریک چلائی اور یہ اسلحہ فلسطینیوں کو قتل کرنے میں کام آیا۔
صہیونیوں نے ایس ایس کے ایخ مین اور ہربرٹ ہیگن کو فلسطین میں اپنی کالونیاں دکھانے کے لیے مدعو کیا۔ وہ صحافیوں کے بھیس میں اکتوبر ۱۹۳۷ء میں وہاں آئے۔ ان کی آمد پر پولکس انہیں ماؤنٹ کارمل لے گیا اور ایک kibbutz کا دورہ کرایا (یہ kibbutz محدود آبادی والا یہودیوں کا مخصوص قصبہ ہوتا ہے جس کی معیشت امدادِباہمی کے اصول پر زراعت اور صنعت سے چلائی جاتی ہے)۔ ایخ مین کئی دہائیوں بعد، دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب ارجنٹائن میں روپوش تھا تو یاد کرتا تھا کہ وہ ’’یہودی آبادکاروں کی اُس محنت سے بہت متاثر ہوا تھا جو وہ اپنی زمین پر کالونیوں کی تعمیر کے سلسلے میں کر رہے تھے‘‘۔ یہودی کالونیوں کے اس دورے کے بعد اس نے کہا کہ ’’اگر میں یہودی ہوتا تو میں سب سے زیادہ پرجوش صہیونی ہوتا‘‘۔
فلسطین جانے والے تقریباً ۵ لاکھ جرمن یہودیوں میں سے لگ بھگ ۵۰ ہزار ۱۹۳۳ء اور ۱۹۳۹ء کے درمیان وہاں گئے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد مغربی جرمنی کے قیام کے بعد، ہر حکومت نے (اور ۱۹۹۰ء میں دوبارہ متحد ہونے کے بعد سے بھی ہر جرمن حکومت) نے جرمنی کی آباد کار نواز نوآبادیاتی پالیسیاں جاری رکھیں، جو ۱۸۷۰ء کے اتحاد سے اب تک کبھی ختم نہیں ہوئی، خواہ حکمرانی کی قِسم کوئی بھی رہی ہو، ماسوائے مشرقی جرمنی کے اُس دور کے جب وہاں روس کے زیرِ اثر سوشلسٹ حکومت تھی۔ مغربی جرمنی دوسری جنگِ عظیم کے بعد صہیونیت اور اسرائیل کے ساتھ اپنے اتحاد کا جواز سمجھتا ہے کہ یہ اُس نسل کشی کا ازالہ ہے جو نازی حکومت نے جرمن عوام سے ملنے والی حمایت کے بَل پر انجام دی تھی، اور یہی جذبہ سٹین مائر کے اقدام میں کارفرما ہے۔
مغربی جرمنی نے اسرائیل کو ۵۰ء اور ۶۰ء کی دہائی میں ٹینکوں سمیت بڑی اقتصادی اور فوجی امداد فراہم کی، جسے اسرائیل نے فلسطینیوں اور دیگر عربوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی سے اب تک، جرمنوں نے اسرائیل کو تیار ایٹمی آبدوزیں بھی فراہم کیں۔ حالیہ برسوں میں، اسرائیل نے جرمنی کی فراہم کردہ آبدوزوں کو ایٹمی مواد سے لیس کروز میزائلوں سے مسلح کیا ہے۔
جاری دشمنی
۲۰۱۲ء میں اسرائیل کے وزیر دفاع ایہود بارک نے جرمن اخبار ڈیر اسپیگل سے کہا کہ جرمنوں کو ’’فخر‘‘ ہونا چاہیے کہ انہوں نے اسرائیل کی ریاست کا وجود ’’کئی سال تک‘‘ محفوظ رکھا ہے۔ ۱۹۹۰ء کے بعد والا نومتحدہ جرمنی فلسطینیوں کی بے دخلی میں اُس سے زیادہ مددگار ہے جتنا وہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں تھا۔ تب مغربی جرمنی کے چانسلر کونارڈ اڈیناور نے زور دے کر کہا تھا کہ ’’وفاقی جمہوریہ (جرمنی) کو نہ تو یہ حق پہنچتا ہے اور نہ ہی یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے بارے میں کوئی موقف اپنائے‘‘۔
یہ غفلت اور لاپروائی اُن اربوں ڈالر کے علاوہ ہے جو جرمنی اسرائیلی حکومت کو ہولوکاسٹ کے ازالے کے طور پر ادا کر چکا ہے۔ بظاہر تو اسرائیل اور صہیونیت نازی ازم کا شکار ہوئے تھے، جب کہ درحقیقت ہولوکاسٹ میں مارے جانے والے وہ یورپی یہودی تھے جنہوں نے یورپ سے نقل مکانی کر کے فلسطین میں آباد اپنی کالونیوں میں جانے سے انکار کر دیا تھا، چنانچہ وہ نازیوں کا ہدف بن گئے۔
۱۹۶۰ء کی دہائی کے اواخر سے، مغربی جرمنی کی حکومتوں نے صہیونی استعمار کے خلاف فلسطینی مزاحمت کو ’’مجرمانہ‘‘ اور ’’دہشت گردی‘‘ قرار دے رکھا ہے۔ جرمنی میں فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کرنے والی تنظیموں بشمول فلسطینی طلبہ کی جنرل یونین پر پابندی عائد ہے۔
۱۹۷۲ء کے میونخ اولمپکس میں اسرائیلی کھلاڑیوں کے قتل کے واقعے کے بعد مغربی جرمنی نے اپنا نسل پرستانہ ’’ایلین قانون‘‘ لاگو کرتے ہوئے ’’ایک صریح جھوٹ‘‘ کی بنیاد پر فلسطینی مزدوروں اور طلبہ کو بڑے پیمانے پر ملک بدر کیا اور اُن پر الزام لگایا کہ انہوں نے میونخ حملے میں معاونت کی تھی، حالانکہ انہوں نے نہیں کی تھی۔
نومتحدہ جرمنی کی ۱۹۹۰ء کے بعد سے فلسطینیوں کے ساتھ دشمنی مسلسل جاری ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسرائیلی آباد کاروں کی استعماریت کی حمایت میں سٹین مائر کے تبصرے سے چند ہی روز پہلے جرمنی نے نمیبیا میں نوآبادیاتی دور کی اپنی نسل کشی کاآخرکار اعتراف کیا تھا۔
جرمنی دنیا بھر میں آبادکاروں کی نوآبادیات کے لیے جو بھرپور حمایت کرتا ہے اس کے پیشِ نظر کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اور صہیونی آباد کاروں کے لیے، اور بینیٹ جیسے عربوں کے فخریہ قاتل کے لیے جرمنی کی دیرینہ پشت پناہی نہ صرف نازی جرمنوں کے ہاتھوں نسل کشی پر اس کا اعترافِ جرم ہے، بلکہ اس سے دنیا بھر میں غیر سفیدفام نوآبادیاتی عوام (مثال کے طور پر فلسطینیوں) کے بارے میں جرمنی کی نوآبادیاتی نسل پرست سوچ کا بھی پتا چلتا ہے۔ جہاں تک جرمنی کا تعلق ہے، اس کی نظر میں اِن غیر سفیدفام باشندوں کی سفید فام آباد کاروں کے مفاد میں کبھی کوئی اہمیت نہیں۔
“Germany: An enduring enemy of the Palestinian struggle”.(“middleeasteye.net”. July 16, 2021)
Leave a Reply