
سماجی منظر نامہ
وفاقی جمہوریہ جرمنی میں بالعموم ریاست اور مذہب کے باہمی تعلقات اور اس کی قانونی اساس کا بالخصوص خاکہ بیان کرنے کے لیے ہم ان روابط کے سماجی تناظر کے حوالے سے چند تعارفی کلمات سے بات شروع کرتے ہیں۔ گزشتہ ساٹھ برس کے دوران بنیادی سماجی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ۱۹۵۰ء میں وفاقی جمہوریہ جرمنی کی ۹۶ فیصد سے زائد آبادی کسی ایک بڑے عیسائی فرقے سے تعلق رکھتی تھی۔ تقریباً ۵۰ فیصد پروٹسٹنٹ اور تقریباً ۴۶ فیصد رومن کیتھولک تھے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے کے آغاز تک اس صورتحال میں کوئی خاص فرق نہیں آیا تھا۔ تاہم اس کے بعد عیسائی فرقوں کا زوال شروع ہوا اور چرچ سے قطع تعلق کرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ لادینیت کا یہ بڑھتا ہوا رجحان اور گرجا گھروں سے دوری کا عمل پوری مغربی دنیا میں جاری تھا ۔ (غالباً واحد اہم استثنا صرف ریاست ہائے متحدہ امریکا ہی تھا) لیکن جرمنی کے خصوصی حوالے سے دیکھا جائے تو اس کا ایک اور اہم پہلو بھی لائق توجہ ہے۔ ۱۹۴۹ء سے ۱۹۶۰ء تک جرمنی کا جغرافیائی اور نظریاتی طور پر دو مختلف ریاستوں میں تقسیم رہنا۔ جرمنی کا بنیادی اور اساسی قانون Grundgesetz ہے۔ یہ قانونی ڈھانچا مذہب اور مذہبی گروہوں کے لیے مضبوط حمایت کا حامل ہے۔ اس کے برعکس عوامی جمہوریہ جرمنی میں سوشلسٹ حکومت نے دانستہ طور پر مذہب دشمن راہ اختیار کی۔ سوشلسٹ ریاست کی دیگر کوششوں کے برخلاف ان کی الحادی مہم نمایاں طور پر کامیاب رہی۔ چنانچہ جب سوشلسٹ نظام کا انہدام ہونے پر دونوں جرمن ریاستیں یکجا ہوئیں تو عوامی جمہوریہ جرمنی کی بمشکل ۳۰ فیصد کے قریب آبادی کسی عیسائی فرقے سے وابستہ تھی۔ ان دونوں تبدیلیوں کو بیک وقت دیکھا جائے تو اب صورتحال یہ ہے کہ ملک کی ۳۱ فیصد آبادی کیتھولک اور ۳۰ فیصد کے قریب پروٹسٹنٹ ہے۔ اس طرح ایک تہائی آبادی کسی بھی مذہبی فرقے سے تعلق نہیں رکھتی۔
اس تناظر میں پہلا نمایاں رجحان لوگوں کی گرجا گھروں سے دوری نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک دوسرا رجحان مذہبی تکثیریت کا بھی ہے۔ ایک جانب تو عیسائی مذہب کی سماجی وقعت میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے لیکن دوسری جانب غیر عیسائی مذاہب بالخصوص اسلام کی اہمیت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اگرچہ قابل اعتماد اعداد و شمار میسر نہیں، تاہم ایک اندازے کے مطابق جرمنی میں چار فیصد مسلمان ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر تارکین وطن یا ان کی اولادیں ہیں۔ نئے مذہبی گروپوں کے وجود میں آنے کی وجہ سے قانونی نظام میں کچھ مسائل بھی جنم لے رہے ہیں، جن کا ہم تذکرہ کریں گے۔ قانون کو ایسے مذہبی عوامل سے واسطہ پیش آرہا ہے، جو ۱۹۴۹ء میں Grundgesetz کی تشکیل کے وقت غیر متعلق اور غیر معروف تھے۔ تبدیل شدہ سماجی تناظر اور موجودہ مسائل سے نمٹنے کے لیے پرانے آئینی نظام کو بھی سوالات کا سامنا ہے۔ آئینی ضوابط کے دور ازکار ہونے کا تاثر اس وقت مزید نمایاں ہو جاتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ بعض متعلقہ آئینی ضوابط Grundgesetz سے بھی پہلے کے ہیں۔ Grundgesetz کے خالقوں نے ریاست اور مذہب سے متعلق بعض شقوں کو ۱۹۱۹ء کے دستور ویمر (Weimar Constitution) سے کسی ردوبدل کے بغیر اپنا لیاتھا۔
نظریاتی و فکری منظر نامہ
ریاست اور مذہب کے تعلقات کے حوالے سے فیصلہ کن آئینی ڈھانچا پر نظر ڈالنے سے قبل ہمیں ان تعلقات کی تاریخ اور متعلقہ قانونی امور کا مختصر جائزہ لینا ہے۔ اس سے ہمیں قانونی ڈھانچے اور بجائے خود پورے منظرنامے کے نظری و فکری پس منظر کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ تاریخی تناظر میں ریاست اور مذہب کے موجودہ تعلق کو مختلف فرقوں کے درمیان ایک صدی پر محیط تنازعات کی پیداوار کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ مذہبی گروہوں کے درمیان کشمکش کو ختم کرنے کی پہلی بڑی کوشش ۱۵۵۵ء میں آگس برگ (Augsburg) کا امن سمجھوتا تھا۔ اس معاہدے نے کیتھولک کلیسا (Catholicism) اور لوتھری کلیسا (Lutheranism) کے لیے پُرامن بقائے باہمی کی پہلی قانونی بنیاد فراہم کی تھی۔ ’’جس کی حکومت، اس کا دین‘‘ کا اصول وضع کرکے مختلف ریاستوں کے امراء کو اپنے دائرہ اختیار میں مذہبی معاملات طے کرنے کی ضمانت دی گئی، یعنی خود اپنے اور اپنے زیر دست افراد کے لیے فرقے کے تعین کی آزادی کا حق۔ تاہم مذہبی خانہ جنگی کو روکنے کے لیے حکمران اپنے شہریوں کو ریاست چھوڑ جانے کا حق دیتے تھے۔ ہم اس حق کو انفرادی مذہبی آزادی تسلیم کیے جانے کی جانب پہلا قدم تصور کرسکتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ بعد کی صدیوں اور بالخصوص تیس سالہ جنگ میں ہونے والے مظالم سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذہبی بنیاد پر ہونے والی خانہ جنگی کا وبال ختم نہ ہوا تھا، مذکورہ بالا حق کا تحفظ ایک خاص رجحان کی نشاندہی ضرور کرتا ہے۔ اس پورے منظرنامہ میں بنیادی نکتہ میدانِ سیاست میں مذہب کے داخلے پر پابندی لگا کر امن کا حصول ہے۔ ریاست نے مذہبی میدان سے پاؤں باہر نکالنے کا عمل شروع کیا اور اس کے ساتھ ساتھ مذہب کو بھی سیاست سے باہر آنا پڑا۔سیاست اور مذہب میں تفریق کے اس عمل نے مذہب پر اہم اثرات مرتب کیے۔ مذہب رفتہ رفتہ نجی عمل بنتا چلا گیا اور عوامی امور میں اس کا دخل کم ازکم ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ یہ اس امر کا متقاضی ہوا کہ مذہب فرد کا نجی معاملہ ہو، جبکہ عوامی تقریبات میں عقیدے کا رسمی اظہار غیر سیاسی پہلوؤں تک محدود ہوتا چلا گیا‘‘۔
آئینی منظرنامہ
ریاست اور مذہب کے درمیان موجودہ تعلقات دراصل جرمن قانون Grundgesetz کے تشکیل کردہ ہیں۔ ان قانونی اقدار کی افادیت دوطرفہ ہے۔ ایک طرف تو یہ فرد کے لیے مذہب کے کردار اور فرد کے ریاست سے تعلق کا تعین کرتا ہے۔ اس انفرادی حیثیت کو مذہب کے خلاف کسی بھی قسم کے امتیازی برتاؤ کی ممانعت کرکے مساوی سلوک کے حق سے مزید مستحکم کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب آئینی ضوابط ریاست اور متنوع مذہبی گروہوں کے تعلق متعین کرتے ہیں۔
آئین کا بنیادی ضابطہ فرد کی مذہبی آزادی کا حق ہے، جس کو Grundgesetz کی دفعہ ۴ کے پہلے اور دوسرے پیراگراف میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ دفعہ ریاست کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی مذہبی سرگرمیوں کا احترام کرے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اس کے مفہوم میں جہاں مذہب کو اپنانے کی آزادی شامل ہے، وہیں عبادات کی آزادی بھی اس کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ کسی مذہب پر عمل پیرا فرد کو انفرادی زندگی اپنے عقائد کے مطابق گزارنے کا حق بھی حاصل ہے۔ ’’یہ مذہبی آزادی منفی طور پر بھی حاصل ہے، یعنی کوئی بھی مذہب اختیار نہ کرنے کی آزادی۔ ایک انسانی حق کے طور پر یہ آزادی صرف جرمن شہریوں کے لیے ہی محدود نہیں، بلکہ جرمن ریاست میں مقیم تمام افراد کے لیے اور نہ صرف افراد بلکہ مذہبی گروہوں کے لیے بھی ہے۔ مذہبی عقیدے کی طرح یہی تحفظ فلسفیانہ عقائد پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ کیونکہ دونوں طرح کے عقیدوں کو مساوی سمجھا جاتا ہے۔
اس بنیادی حق کی اہمیت اُس قانونی شق سے مزید اجاگر ہوتی ہے جو مذہبی آزادی میں مداخلت اور اس پر قدغن کے امکان سے متعلق ہے۔ جہاں دیگر بنیادی حقوق، جیسے دفعہ ۸ کے تحت اجتماع کی آزادی، محدود یا کسی قانونی تقاضے سے مشروط ہے، دفعہ ۴ کا متن اس نوعیت کے کسی بھی امکان سے خالی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مذہبی سرگرمیاں کسی بھی ریاستی قدغن یا پابندی سے ماوراء ہیں، لیکن اگر ریاست مذہبی سرگرمیوں کومحدود کرنے کا فیصلہ کرے تو اسے مخصوص مقاصد کے تحت ہی ایسا کرنا ہوگا، ایسے مقاصد جو مذہبی آزادی کی طرح ہی دیگر اہم آئینی حقوق کے تحفظ سے متعلق ہوں، جیسے دیگر شہریوں کے بنیادی حقوق۔
کوئی خاص مذہبی یا فلسفیانہ عقیدہ اپنانے (یا نہ اپنانے) کی اس آزادی کو مزید استحکام قانون کی نظر میں برابری کے حق سے ملتا ہے۔ Grundgesetz کی دفعہ ۳ کے پیراگراف ۳ کے مطابق کسی بھی فرد کو اس کے مذہبی عقائد کی بنیاد پر نفع یا نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ دفعہ ۳۳ کے پیراگراف ۳ میں اس عمومی کلیہ کی وضاحت یوں کی گئی ہے کہ مذہبی وابستگی کی بنیاد پر کسی بھی فرد کو شہری یا سیاسی حقوق حاصل ہوں گے، نہ ہی عوامی عہدہ اور نہ کسی سرکاری عہدے پر فائز کیا جاسکے گا۔
مذہبی امور سے متعلق جرمن آئینی قانون کے دوسرے ستون کی جانب بڑھنے سے قبل ہمیں پہلے ایک خاص پہلو کی وضاحت کرنا ہوگی۔ ریاست اور مذہبی گروہوں میں تعلقات کے حوالے سے Grundgesetz ایک خاص گر استعمال کرتا ہے۔ اس قانون کی دفعہ ۱۴۰ سابق جمہوریہ ویمر (Weimar) کے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی متعلقہ دفعات کو شامل کر لیتا ہے۔ جرمن آئینی عدالت کے مطابق اس طرح یہ امور پوری طرح موثر رہتے ہوئے آئین کا لازمی حصہ بن جاتے ہیں۔
دفعہ ۴ کے انفرادی مزاج کے برعکس یہ ضوابط مذہب اور مذہبی گروہوں سے متعلق دستور کو ایک ادارتی شکل دیتے ہیں۔ یہ ریاست اور مذہبی گروہوں میں امتیاز کے ساتھ ساتھ تعاون کا حساس توازن قائم کرتے ہیں۔ بنیادی ضابطہ یہ ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔ جس سے مذہب اور ریاست کی علیحدگی کا تعین ہو جاتا ہے۔ ان دونوں شعبوں کے باہم عدم انحصار کی تصدیق کرتے ہوئے ویمر (Weimar) کی دفعہ ۱۳۷ کے تیسرے پیراگراف میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ تمام مذہبی گروہ ان پر لاگو قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے امور آزادانہ طورپرچلائیں گے اور اس کا اطلاق سب پر ہوگا۔ خاص طور پر یہ کہ مذہبی ادارے ریاست یا سماجی حلقے کی شرکت کے بغیر اپنے اداروں کے عہدیدار خود مقرر کریں گے۔ تاہم چرچ اور ریاست کی اس علیحدگی کا مطلب فرانسیسی طرز کی مکمل لادینیت بھی نہیں ہے۔ بعد کے قوانین سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علیحدگی ریاست اور مذہبی گروہوں کے درمیان بعض شعبوں میں تصادم کو ختم نہیں کرتی۔ تعاون کی صرف ان صورتوں کی ممانعت ہے جو مذہبی گروہوں کو ریاست تنظیم کا حصہ بنانے کا باعث بنیں۔
ریاست اور مذہبی خودمختاری
ریاست اور چرچ کے درمیان ممکنہ تعاون کے ان شعبوں کا تفصیلی جائزہ لینے سے قبل ہمیں مذہبی امور سے متعلق جرمن قانون کے بنیادی نظریے پر غور کرنا ہوگا۔ انفرادی مذہبی آزادی اور ریاست اور چرچ کی علیحدگی کے دونوں پہلوؤں کو ساتھ ملایا جائے تو جرمنی میں ریاست اور مذہب کے تعلقات کا بنیادی اصول تشکیل پاتا ہے۔ اس اصول کو ریاست کی غیر جانبداری کے نظریے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اصولی طور پر ریاست کسی خاص مذہب یا فرقے کی نہ تو حمایت کرسکتی ہے اور نہ امتیازی سلوک۔ تمام مذہبی گروہوں سے عدم وابستگی ریاست کو عام طور پر مذہبی امور سے دور ہی رکھتی ہے۔ اگرچہ اس اصول کو لاحاصل لاتعلقی قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا، لیکن اس کے دفاع میں یہ بات زیادہ موثر تھی کہ مذہبی امور کو قانون کے دائرے میں رکھنے کے لیے ایسا طرز عمل ضروری ہے۔
ریاست کی یہ غیر جانبداری مذہب کے قانونی پہلو کے لیے قابل ذکر اثرات کی حامل ہے۔ ریاست اس بات کا تعین نہیں کرسکتی کہ کس چیز کو مذہب یا مذہبی رویہ قرار دیا جائے۔ ایسی کوئی فہرست موجود نہیں ہے جو تسلیم کردہ مذہبی طبقات کا تعین کرتی ہو۔ بلکہ اس کے برعکس مذہبی آزادی کے تحت کسی بھی مکمل نئے مذہب کی تشکیل کی اجازت موجود ہے۔ تاہم اگر ریاست یہ وضاحت نہیں کرسکتی کہ مذہب کیا ہے، تو کون کرسکتا ہے؟ اس حوالے سے جرمنی کے دستور کا جواب یہ ہے: اس کے ذمہ دار خود مذہبی گروہ ہیں۔ مذہب کا قانونی تصور مذہبی گروہوں کے خود تشریح کردہ تصور پرمبنی ہے۔ تاہم مذہبی آزادی کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کچھ احتیاطی تدابیر تو بہرحال لازم ہیں۔ کسی طرزِ عمل کو مذہب سے وابستہ قرار دے کر اس کے لیے قانونی تحفظ حاصل کرنے کا فیصلہ صرف مذہبی گروہوں پر نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے کچھ ریاستی عمل دخل بھی درکار ہے۔ تاہم ریاستی کردار اسی صورت میں نظر آتا ہے جب کوئی گروہ مذہبی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے، جیسے اسے معاشی فوائد سمیٹنے کے لیے استعمال کرنا۔ یہ معاملہ ایک مسلسل بحث کا موضوع ہے۔
مذہب کی تشریح کا یہ عمل دراصل ابھی پروان چڑھ رہا ہے۔ درحقیقت جرمنی کی وفاقی عدالت کے کچھ فیصلوں میں مذہب کی تشریح کی زیادہ ٹھوس کوششیں کی گئی ہیں۔ عدالت نے ثقافتی موزونیت کی شق متعارف کروانے کی کوشش کی جس میں مذہب کو ایسے مظاہرے سے تعبیر کیا گیا ہے جنہیں تہذیب یافتہ افراد نے دیگر ثقافتی اقدار کی طرح مشترکہ اخلاقی اقدار کی بنیاد پر تشکیل دیا ہے۔ چونکہ اس قسم کی تشریحات ریاست کی غیر جانبداری سے متعلق آئینی پابندی سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ چنانچہ بعد کے فیصلوں میں ان کو تَرک کردیا گیا۔ اس کے نتیجہ میں مذہب یا مذہبی گروہ کے تعین کے حوالے سے غیر واضح تشریحات ہیں۔ مذہب کے بارے میں عمومی تشریح یہ ہے کہ یہ انسانیت سے متعلق کچھ سچائیوں اور ان کی تفصیل پر یقین کا نام ہے۔
ریاست کی غیر جانبداری کے اس تصور کو سامنے رکھا جائے تو مذہب کے ساتھ اس کے تعاون کی اہم ترین صورت حیرت انگیز محسوس ہوگی، سماجی مذہبی تنظیموں کو ماضی میں حاصل مراعات کے مطابق بدستور کارپوریشنوں کی حیثیت حاصل ہے۔ دیگر سماجی مذہبی تنظیموں کو بھی درخواست دینے پر اسی قسم کی مراعات حاصل ہوں گی مگر شرط یہ ہے کہ ان کا دستور اور ارکان کی تعداد ان کے مستقل قائم رہنے کی ضمانت دیں۔
شاید یہ خاص حیثیت اس عمومی تصور سے متصادم ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔ بظاہر اس قانونی اختیار کے تفویض کیے جانے کے بعد مذہبی گروہ بھی ریاستی انتظام میں شریک ہوسکتے ہیں اور ریاست کا ناگزیر حصہ بن سکتے ہیں۔ تاہم یہ دراصل دستور ویمر (Weimar) کی تیاری کے دوران مباحثوں میں ہونے والے سمجھوتے کا نتیجہ ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ روایتی گرجا گھروں کو نجی تنظیمات کا درجہ دیا جائے۔ اس وقت گرجا گھروں کے غیر معمولی سماجی کردار اور ذمہ داریوں کے مقابلے میں اس حیثیت کو ناکافی اور ہتک آمیز تصور کیا گیا تھا۔ قانون کے مطابق کارپوریشنوں کی حیثیت کے باوجود متعلقہ مذہبی گروہ ریاست سے بدستور الگ رہیں گے۔ وہ ریاست کا حصہ نہیں بنیں گے۔ تاہم جرمن عدالت کے مطابق اس حیثیت سے کلیسا کی آزادی متاثر نہیں بلکہ مستحکم ہوتی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ حیثیت ریاست سے وفاداری کا بدل ہے۔
مذہبی گروہ اپنے ارکان کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ ریاستی انتخابات میں حصہ نہ لیں۔ جرمنی کی وفاقی انتظامی عدالت نے اس ہدایت کو ریاست سے وفاداری کے ایک انداز کے طور پر دیکھا۔ تاہم اعلیٰ جرمن عدالت نے اس حوالے سے یہ وضاحت کی کہ اگر کوئی مذہبی گروہ ریاست کے لادین ہونے پر اعتراض کرے تو یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں، جب تک کہ وہ مذہبی گروہ کسی مذہبی حکومت کے قیام کے لیے موجودہ قانونی نظام کا تختہ الٹنے کی کوشش نہ کرے، یا دوسرے الفاظ میں جب تک وہ شہریوں کے بنیادی حقوق اور مذہبی رواداری کے اصول کا احترام کرتا رہے۔
اس کے علاوہ بھی ریاست اور مختلف مذہبی گروہوں میں تعاون کا سلسلہ کئی صورتوں میں جاری رہتا ہے۔ ان میں سرکاری اسکولوں میں مذہبی تعلیم، فوجی اداروں میں مذہبی عقائد اور مذہبی اور روحانی رہنمائی کے شعبوں کا قیام شامل ہیں۔ ریاست اور مذہبی گروہوں میں تعاون کی ان ممکنہ اقسام سے جرمنی میں ریاست اور مذہب کے تعلقات کے لیے آئینی انتظام کی خصوصیت سامنے آتی ہے۔ آئین ریاست اور مذہبی گروہوں کا مخالف نہیں اور نہ ہی یہ ان دونوں میں زیادہ دوری کا حامی ہے۔ اس کے برعکس یہ ریاستی حکام کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ مختلف مذہبی گروہوں کی معاونت کرے۔ جرمن عدالت کے مطابق ریاست کی غیر جانبداری کو ایک کھلے اور جامع طرز عمل کے طور پر سمجھنا چاہیے، جو مساوی انداز میں تمام مذاہب کے پیروکاروں کی مذہبی آزادی کا حامی ہے۔
مذہب اور ریاستی خودمختاری
جیسا کہ ہم نے مشاہدہ کیا ریاست کی غیر جانبداری تعاون کی بعض اقسام تک محدود ہے، جن کی بدولت مذہبی معاشرے ریاستی ڈھانچے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ دوسری جانب مذہبی گروہوں کو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ ریاست کے امور میں مداخلت نہیں کریں گے۔ مذہب کی خودمختاری اس وقت ختم ہو جاتی ہے، جہاں متنوع سماجی امور داؤ پر لگے ہوں۔ مثال کے طور پر اس صورت میں یہ ناقابل قبول ہوسکتی ہے جب کوئی مذہبی طبقہ ایسے مذہبی قانونی نظام کے قیام کی کوشش کرے جس سے ریاست کی خودمختاری متاثر ہوتی ہو۔ قانون کے مطابق مذہبی گروہ اس قانون کے تابع ہوں گے جس کا اطلاق سب پر ہوتا ہو۔ یہ ایک ایسے اندرونی عدالتی نظام کے قیام کو خارج از امکان قرار نہیں دیتی جو مذہبی برادری کے اندر مخصوص امور کے بارے میں فیصلے کرے۔ لیکن جہاں تک خارجی پہلوؤں کا تعلق ہے ریاستی عدالتوں ہی میں ان کی سماعت ہوگی۔
قانونی منظر نامہ
تفصیلی آئینی منظرنامے کے بعد ریاست اور مذہب کے درمیان تعلقات کے حوالے سے قوانین کی وضاحت کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ تاہم جرمنی کی وفاقی اراضی سے متعلق قانون اہم ہے جس کا اندازہ ایک ایسے تنازع کے بعد ہوا جو دیگر ممالک میں بھی مانوس ہے، یعنی ایک معلمہ کے سر ڈھانپنے کا مقدمہ۔ ایک جرمن عدالت نے فیصلہ دیا کہ جب کوئی معلمہ تدریس کے دوران اپنے سر سے کپڑا اُتارنے کو تیار نہ ہو تو حکومت اسے ملازمت دیے رکھنے کی عموماً پابند نہیں۔ تاہم مذہبی آزادی پر کسی بھی قسم کی قدغن کا کوئی خاص مقصد ہوتا ہے جو کہ بذاتِ خود آئینی حق ہے۔ مزید یہ کہ یہ پابندیاں صرف قانون کے ذریعے یا اس کے مطابق ہی عائد کی جاسکتی ہیں۔
چونکہ متعلقہ جرمن علاقہ میں اس حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں تھی، اس لیے اعلیٰ عدالت نے معلمہ کو ملازمت نہ دینے کے عمل کو غیر منصفانہ اور متعلقہ خاتون کی مذہبی آزادی کے منافی قرار دیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں جرمن حکومت نے ایسے متعدد قانون بنائے، جن میں اساتذہ پر کمرۂ جماعت میں کسی بھی قسم کی مذہبی علامت کو پہننے سے منع کیا گیا تھا۔ اعلیٰ عدالتوں نے ان قوانین کو تسلیم کرلیا کیونکہ یہ تمام مذاہب کے لیے یکساں تھے اور اس طرح ان میں ریاست کی غیر جانبداری کا اصول کارفرما تھا۔ جرمنی کے قوانین کے علاوہ یورپی یونین کے قوانین بھی اہم ہیں۔ مقامی اور یورپی قوانین مل کر معاشرے کا بنیادی نظام قائم کرتے ہیں۔
مذہبی امور سے متعلق قانونی ڈھانچے کاحال بھی یہی ہے۔ اگرچہ متعلقہ معاہدات ان امور پر یونین کو کوئی بالادست حیثیت نہیں دیتے لیکن یورپی یونین کے قوانین ریاست اور مذہب کے تعلق اور مذہبی گروہوں کی قانونی حیثیت سے متعلق اہمیت ضرور رکھتے ہیں۔ بعض دفعات نسل، زبان یا مذہب کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے امتیاز پر خاص طور پر پابندی سے متعلق ہیں۔ مزید برآں یورپی یونین مذہبی آزادی کا احترام اور تحفظ کرتی ہے۔ یورپی یونین کے معاہدے کی دفعہ ۶ کا دوسرا پیراگراف یونین کو پابند کرتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کے مطابق بنیادی حقوق اور رکن ملکوں کی مشترکہ قانونی روایات کا تحفظ کرے۔ اس طرح انفرادی مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ قومی آئینی بنیادی حقوق بھی یورپی یونین کے قانون کا حصہ ہیں۔
سماجی مظاہر کے طور پر مذہب کا قانونی ضابطہ
مذہب کی آزادی کی آئینی ضمانت کے بعض سماجی عوامل سے متعلق قانون سازی پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس آزادی کی رُو سے ریاست سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ استثنائی شقوں کا اضافہ کرکے مذہبی امور میں سہولت فراہم کرے۔ مقننہ اور انتظامیہ کو درپیش صورتحال کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ ایک جانب تو جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے اور دوسری جانب حیوانوں کے تحفظ پر کام ہو رہا ہے۔ حیوانوں کے تحفظ کے جرمن قانون کی دفعہ ۴ کے مطابق کسی بھی جانور کو بے ہوش کیے بغیر ہلاک نہیں کیا جاسکتا۔ اسی قانون کا اطلاق جانوروں کے ذبح کرنے پر بھی ہوتا ہے۔ مگر بعض مذہبی ضوابط کے مطابق جانوروں کو بے ہوش کیے بغیر ہی ذبح کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے مذہبی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے قانون میں استثنیٰ ہے۔ اگر ان تقاضوں کو متعلقہ مذہبی کمیونٹی جامع انداز میں بیان کر دے تو حیوانوں کے تحفظ کے تصور کو ہی ختم کرنا ہوگا۔
مذہب کے لیے ریاست کی مالی معاونت
جرمنی میں مذہبی گروہوں کے لیے آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ٹیکس محاصل ہیں۔ ایسی مذہبی سماجی تنظیمیں ٹیکس عائد کرسکتی ہیں جو پبلک لاء کے تحت کارپوریشن کے طور پر کام کررہی ہوں۔ مزید یہ کہ متعلقہ مذہبی گروہ ان ٹیکسوں کو جمع کرنے کے لیے ریاست اور اس کے ٹیکس جمع کرنے کے نظام کو استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کے برخلاف وہ مذہبی طبقات جو نجی تنظیموں کی قانونی صورت میں ہیں وہ اپنے ارکان کے عطیات اور مالی تعاون پر ہی بھروسہ کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں حکومت کی طرف سے مذہبی طبقات کو کئی طرح کی مالی رعایتیں حاصل ہوتی ہیں۔ مالی رعایت دینے والے یہ ادارے انیسویں صدی میں لادینیت کے عمل کے دوران گرجا گھروں کو مالی معاونت دینے کے لیے قائم کیے گئے تھے اور وفاقی حکومت کی قانون سازی ہی سے تحلیل ہوسکتے ہیں۔
شہری قوانین پر مذہبی اثرات
عمومی طور پر لادین قانون کسی مذہبی قانون کے تحت کیے گئے افعال کے قانونی اثرات کو تسلیم نہیں کرتا۔ مذہبی عوامل کے شہری قوانین پر اثرات کا ایک دلچسپ پہلو شادی کی تقریب کا ایک جانب ریاست کے انتظام میں اور دوسری جانب چرچ میں کرنے سے متعلق دیوانی قانون میں حالیہ تبدیلی ہے۔ سال ۲۰۰۸ء میں قانون ساز ادارے نے اس قانون میں تبدیلی کی اور اب شہریوں کو ماضی کی طرح چرچ میں شادی کرنے کی سہولت حاصل ہوگئی ہے۔ اگرچہ اس ترمیم سے چرچ کی شادیوں کے قانونی اثرات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
یہی معاملہ محنت سے متعلق قوانین کے حوالے سے بھی دکھائی دیتا ہے۔ ریاستی عدالتیں تسلیم کرتی ہیں کہ چرچ کی ملکیت میں چلنے والے اداروں میں کام کرنے والے افراد سے خود اسی طبقہ کے بنیادی عقائد کی پاسداری کی توقع کی جاسکتی ہے۔ مزید مخصوص قانونی اثرات پبلک لاء کے تحت کارپوریشنوں کی حیثیت سے منسلک ہیں۔ ٹیکس عائد کرنے کے علاوہ اپنی حیثیت کی بدولت وہ دیگر امور بھی انجام دے سکتے ہیں۔
نوجوانوں کی مذہبی تعلیم
وفاقی نظام ہونے کی بدولت جرمنی میں اسکولوں کی تعلیم بنیادی طور پر وفاقی سطح کا معاملہ ہے۔ تاہم Grundgesetz کی دفعہ ۷ کے تیسرے پیراگراف میں مذہبی تعلیم کے معاملے کی پوری طرح وضاحت کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ مذہبی تعلیم کو اسکول کے ایک مضمون کی حیثیت حاصل ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مذہبی تعلیم مستقل نصاب کا حصہ ہوگی۔ یہ صرف ایک اختیاری امکان نہیں ہے۔ اگرچہ ریاست اپنے نگرانی کے حق کو قائم رکھنا چاہتی ہے مگر تعلیمی پروگرام کا تعین مختلف سماجی طبقات کرتے ہیں۔ مذہبی طبقہ کی تعلیمات کے مطابق مذہبی ہدایت دی جاتی ہے۔ اس طرح مذہبی تعلیم نہ صرف مختلف مذاہب کے عقائد کی غیر جانبدارانہ وضاحت سے تشکیل پاتی ہے، یہ اپنے اپنے عقائد کی تعلیم خود دیتی ہے۔ ایک جانب تو مذہبی تعلیم کی مخصوص صورت کی وجہ سے اور دوسری جانب ضمانت شدہ مذہبی آزادی (خاص طور پراپنے منفی پہلو کے ساتھ) کی بنا پر کسی بھی طالب علم کو اس قسم کی مذہبی تعلیم کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ مذہبی کلاسوں میں شریک نہ ہونے والوں کے لیے اخلاقی کورسز کی صورت میں متبادل تعلیمی پروگرام موجود ہے۔ حالیہ زمانے میں مذہبی تعلیم سے متعلق تنازعات کے دو بڑے شعبے سامنے آئے۔
ایک کا تعلق اخلاقی کورسز کے موضوع سے ہے۔ وفاقی حکومت کے قانون سازوں نے ایسے قانون تیار کیے ہیں جن کی بدولت اخلاقی کورسز میں تمام طلبہ کی شرکت لازمی ہے۔ جس کی وجہ سے مذہبی تعلیم اختیاری مضمون بن کر رہ گئی ہے۔ Grundgesetz کی بظاہر خلاف ورزی سے بچنے کے لیے انہوں نے اسی قانون کی ایک دوسری دفعہ کا سہارا لیا ہے، جس کی تشریح یہ ہے کہ قانون کا متعلقہ حصہ مغربی برلن سے متعلق تھا۔ دونوں ملکوں کے دوبارہ ایک ہونے کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ سابق عوامی جمہوریہ جرمنی کے خطے پر اس شق کا اطلاق کیا جائے یا نہیں۔ ایسے میں یہ دعویٰ سامنے آیا کہ اس شق سے انحراف ممکن ہے۔
دوسرا موضوع نئے مذہبی گروپوں کے وجود میں آنے کے بعد پیداہونے والے مخصوص مسائل سے متعلق ہے۔ ایک خاص مسئلہ یہ ہے کہ آیا اسلام کی تعلیم دی جاسکتی ہے۔ جب کہ اس کے موضوعات اسلامی تعلیمات ہی کے مطابق تیار کیے جاسکیں گے۔ تاہم اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے شاید ہی کچھ امور ایسے ہوں جو تمام مسلمانوں کے لیے یکساں طور پر مربوط ہوں۔ ایسے میں ریاست کو مختلف فرقوں سے مختلف تعلیمات کے حوالے سے خاصی مشکل پیش آتی ہے، کیونکہ ان میں بہت تنازعات ہیں۔ اس طرح سوال یہ ہے کہ آیا Grundgesetz کی دفعہ ۷ کے تیسرے پیراگراف کی رُو سے کیا یہ ممکن ہے کہ مذہبی تعلیم دینے کے بجائے ریاست ایک ایسا تعلیمی پروگرام پیش کرے جس میں زیادہ معروضی اور سائنسی انداز میں اسلام کی تعلیم دی جائے۔ نجی اسکولوں کے حوالے سے یہ سوال زیادہ نمایاں طور پر سامنے آیا ہے۔ جرمن قانون میں نجی اسکولوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے تعلیمی مقاصد، سہولتوں یا اپنے تدریسی عملے کی پیشہ وارانہ تربیت کے حوالے سے سرکاری اسکولوں سے کسی طور کمتر نہ ہوں۔ سرکاری حکام ایسے نجی اسکولوں کے قیام کی منظوری نہیں دیتے، جہاں طلبہ میں ان کے والدین کی مالی حیثیت کے اعتبار سے تفریق کی جائے۔ اس حوالے سے یہ سوال بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ آیا طلبہ میں ان کے فرقے کے اعتبار سے تفریق حکومت کی منظوری نہ ملنے کی ایک اور وجہ بن جائے۔
عوامی مقامات پرمذہبی علامات
حالیہ برسوں کے مشہور مقدمات میں اسکول کے کمرہ ہائے جماعت میں صلیب کے نشان کا سوال بھی تھا۔ بویریا (Bavaria) میں ہر کلاس روم کی دیوار پرصلیب کا نشان لگانا لازمی تھا۔ چنانچہ اعلیٰ جرمن عدالت نے فیصلہ کیا کہ یہ عمل دستور سے متصادم ہے۔ ججوں کے مطابق طلبہ کو صلیب کے سائے میں تعلیم دینا ناقابل قبول ہے۔ کیونکہ صلیب نہ صرف ثقافتی بلکہ حقیقی مذہبی اور حتیٰ کہ ایک مشنری علامت ہے۔ اسی طرح کے ایک فیصلے میں کمرۂ عدالت میں چھوٹی صلیب کے نشان لگانے کو بھی آئین سے متصادم قرار دے کر روک دیا گیا۔ دونوں مقدمات میں عدالت عالیہ نے صلیب لٹکانے کو ریاست کی جانب سے ایک خاص مذہب کی علامت کا مظاہرہ کرنے کا عمل قرار دیا۔ اسی لیے اسے غیر جانبداری کے اصول کی خلاف ورزی بھی قرار دیا گیا۔
اظہار رائے کی آزادی اور مذہب کے خلاف جرائم
جرمنی کے فوجداری قوانین ۶۳ میں مذہب اور نظریے سے متعلق جرائم پر پورا ایک باب ہے۔ اس قانون کی ایک انتہائی اہم شق ۱۶۶ STGB ہے، جس میں مذہب اور مذہبی و نظریاتی وابستگی کو نشانہ بنانے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بعد کی شق ۱۶۷ میں مذہب پر عمل کرنے، خاص طور پر مذہبی عبادات میں خلل ڈالنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ تاہم ان شقوں کا بنیادی مقصد فرد کے مذہبی عقائد یا مذہبی طبقات کا تحفظ نہیں ہے۔ اس قانون کامقصد تمام شہریوں کی پُرامن بقائے باہمی یا امن عامہ کو یقینی بنانا ہے۔ اس خصوصی مقصد کی وجہ سے حال ہی میں عدالتوں نے مذہب کو بدنام کرنے کے بیانات کا تعین کرنے میں پس و پیش سے کام لیا۔ ہالینڈ میں حضور اکرمﷺ کے توہین آمیز سوانحی خاکوں کی اشاعت کے بعد جب اس معاملے پر مسلمانوں کے احتجاج نے شدت اختیار کی تو بعض جرمن سیاست دانوں نے تجویز کیا کہ مذہبی احترام کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کرنا چاہئیں۔ تاہم یہ کوششیں اب تک کامیاب نہیں ہوسکیں۔
حاصل کلام
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ساٹھ سال سے زائد عرصہ بعد بھی جرمن دستور عصر حاضر کے چیلنجوں سے نمٹ سکتا ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت زیادہ وضاحت کے ساتھ سامنے آیا جب یہ بات موضوع بحث بننے لگی کہ آیا ریاست اور مذہب کے تعلقات کے حوالے سے روایتی جرمن قانون کو ایک نئے تصور سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ ہماری گزشتہ وضاحتوں کی روشنی میں یہ امر واضح ہو جانا چاہیے کہ ریاست کا کوئی چرچ نہیں ہوتا، اس لیے اس سے متعلق کوئی قانون بھی نہیں ہوسکتا۔ اس امر کو ’’چرچ کے آئینی قانون‘‘ کے زیادہ وسیع مفہوم میں سمجھا جاسکتاہے۔ اگرچہ اس کے بعد بھی چرچ کا حوالہ بدستور رہے گا، جسے مختلف مذاہب اور عقائد پر مبنی ہمارے موجودہ معاشرے میں ناکافی سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر اسے ’’مذہب کے آئینی قانون‘‘ سے تعبیر کیا جائے تو یہ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اسے روایتی اداروں کے بجائے انفرادی مذہبی آزادی کو زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ حالیہ سماجی تبدیلیوں کے پس منظرمیں یہ تصور زیادہ بہترمعلوم ہوتا ہے، تاہم ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔
مذہب اور ریاست کے تعلقات پرجرمنی میں حالیہ مباحث کے دوران اندازہ ہواکہ مذہب کو نجی معاملہ قرار دینے اور مذہبی امور میں ریاست کی غیر جانبداری کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے اوریہ امور مذہب کی آئینی حیثیت کے مرکزی عناصر بن گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ریاست کے اندر مذہب کے عوامی کردار کی اہمیت کو کم سمجھا اور بیان کیا گیا ہے۔ یہ نقطہ نظر اس تعمیری کردار سے چشم پوشی کے مترادف ہے جسے جرمن طرزِ معاشرت نے گزشتہ عرصے میں جنم دیا ہے۔ اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہے کہ اس طرزِ معاشرت کے مستقبل کے امکانات کے بارے میں بھی غلط فہمیاں ہیں۔ حتیٰ کہ مختلف مذاہب پرمبنی جدید معاشرے میں مذہب کا محض انفرادی تصور ناکافی ہے۔ یہ بات اس عملی تصور کے خلاف ہوگی جو مذہب نہ صرف افراد کے لیے رکھتا ہے، بلکہ پورے معاشرے اور اس کے ثقافتی عوام کے لیے بھی۔ مزید برآں مذہبی عقائد کی انفرادی اقسام پر زور عیسائی روایت میں تو ہوسکتی ہے، لیکن اس میں دیگر مذاہب کے تصور کو نظرانداز کردیاگیا، جن میں اجتماعی پہلو پرزیادہ توجہ دی گئی ہے۔ اس کے برخلاف جرمن طرزِ معاشرت دوہری خصوصیت کا حامل ہے۔ یعنی وہ انفرادی بنیادی حقوق کی بھی ضمانت دیتا ہے اور مذہبی گروہوں سے تعاون کے عمل کے ذریعے انفرادیت کے ساتھ ساتھ سماجی عوامل میں مذہبی تقاضوں کو بھی پورا کرتا ہے۔
(بشکریہ: علمی و تحقیقی مجلہ’’مغرب اور اسلام‘‘ اسلام آباد۔ شمارہ ۴۴)
Leave a Reply