
دو عشروں کے دوران جرمنی کا عالمی کردار یکسر تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔ ۱۹۹۰ء مشرقی اور مغربی جرمنی کے ملاپ کے بعد سے اب جرمنی معاشی طور پر مستحکم تو رہا ہے مگر جو کچھ اس ملاپ سے پہلے تھا وہ اب نہیں۔ جرمنی بہت سے شعبوں میں غیر معمولی ترقی سے ہمکنار رہا ہے۔ بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ جرمنی کی راہ میں کوئی رکاوٹ یا دیوار ہے ہی نہیں۔ دیگر ریاستوں کی طرح اُس کے حصے میں بھی کچھ بحران اور چیلنج ضرور آئے ہیں۔ اس وقت جرمنی جو کچھ بھی کر رہا ہے اُسے سراہا بھی جارہا ہے اور تنقید بھی کی جارہی ہے۔ کچھ لوگ جرمنی کو بیشتر معاملات میں سراہتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو اُس کے بیشتر کاموں میں کیڑے نکالنے پر تُلے رہتے ہیں۔ اب پناہ گزینوں کے بحران ہی کو لیجیے۔ جرمنی نے اس بحران کو جس طور لیا ہے اُس پر تعریف اور تنقیص دونوں ہی طرف کے لوگ فعال ہیں۔
جرمنی کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے تو خارجہ پالیسی کی وضاحت کرنے کی ضرورت بھی اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ جرمنی نے چند عشروں کے دوران جو کچھ کیا ہے اُس کا جائزہ لینے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں اپنی پوزیشن مستحکم رکھتے ہوئے دوسروں کو مطمئن رکھنا کس طور ممکن ہے۔ میں ۱۹۹۸ء سے مختلف کابیناؤں کا حصہ رہا ہوں۔ اور پارلیمانی لیڈر بھی رہا ہوں۔ اس دوران جرمنی نے عالمی سطح پر کوئی نیا کردار تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے گرد دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہوئی ہے۔ امریکا نے پہلے افغانستان اور پھر عراق پر جنگ مسلط کی۔ اور یورو بحران بھی پیدا ہوا۔ یورو بحران کے دوران جرمنی مستحکم رہا۔ جرمنی نے دیگر بحرانوں کا بھی دانش مندی اور پامردی سے مقابلہ کیا ہے۔ اس وقت جرمنی یورپ کی مضبوط ترین معیشت ہے۔ جرمنی نے ایران، لیبیا، مالی، شام، عراق اور کولمبیا کو امداد دی ہے۔ نصف صدی سے بھی زائد مدت سے جو کچھ ہو رہا ہے اب اُس کی تشریح کرنے کا وقت آگیا ہے۔ جرمنی کو حالات کے مطابق کوئی ایسا کردار قبول کرنا ہوگا، جو ایک طرف اس کی طاقت میں اضافہ کرے اور دوسری طرف اس پر باقی دنیا کے اعتبار کو مزید توانا کرے۔ جرمنی کو اپنا نیا کردار زیادہ ہوش مندی اور توازن کے ساتھ اپنانا اور ادا کرنا ہوگا۔ دنیا کو امن کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے اور جرمنی نے اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ وہ چاہتا ہے کہ تنازعات بات چیت سے حل کیے جائیں اور طاقت کے بے جا استعمال سے گریز کیا جائے۔
یورپ کا مردِ آہن
آج امریکا اور یورپ عالمی قیادت کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ عراق کے بحران نے امریکا کی پوزیشن کمزور کردی ہے۔ باقی دنیا کا اس پر اعتبار بھی گھٹا ہے۔ عراق میں جو کچھ ہوا اس نے ثابت کردیا کہ امریکا ساری دنیا کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ عالمی قیادت سے متعلق امریکا کی صلاحیت اور سکت میں کمی واقع ہونے سے اُس کی ساکھ مزید مجروح ہوئی ہے۔ اِس سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ اب یک قطبی دنیا کی گنجائش نہیں۔
۲۰۰۹ء میں امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد براک اوباما نے پالیسیاں تبدیل کرنا شروع کیں۔ ایسا کرنا محض ضروری نہیں بلکہ ناگزیر تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ براک اوباما نے جو پالیسیاں اپنائیں ان کے نتیجے میں عراق سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں طاقت کا زبردست خلا پیدا ہوا ہے۔ مگر خیر، صدر اوباما نے وہی کچھ کیا جو ناگزیر سا دکھائی دیا۔ مشرق وسطیٰ میں طاقت کا جو خلا پیدا ہوا ہے اُسے ایران اور روس مل کر پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ اوباما نے جو کچھ بھی کیا وہ بدلتے ہوئے حالات کے تناطر میں درست اور بروقت تھا۔ امریکی طاقت کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اُن کے فیصلے درست تھے۔ نئے چیلنجوں کے لیے نئی سوچ اپنانا پڑتی ہے۔ صدر اوباما نے بدلتے ہوئے حالات کا بہتر انداز سے سامنا کرنے کے لیے نئی سوچ اپنائی۔ اِسی صورت امریکا کے لیے ڈھنگ سے کچھ کرنے کی تھوڑی بہت گنجائش پیدا ہوئی ہے۔
اس دوران یورپی یونین میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں جرمنی نے یورپی یونین کی توسیع کی راہ ہموار کی۔ مشرقی یورپ سے تعلق رکھنے والے ممالک کو بھی یورپی یونین کا حصہ بنایا گیا۔ اس کے باوجود یورپی یونین کو وسیع تر سیاسی کردار ادا کرنے کے قابل بنانا کوئی ایسا کام نہ تھا جو راتوں رات ہو جاتا۔ یورپی یونین کی توسیع کے حوالے سے معاملات تنازع کی نذر ہوتے رہے ہیں۔ بہت سے ارکان نہیں چاہتے کہ یورپی یونین کو توسیع دی جائے۔ ان کا خیال ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں یورپی یونین کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا اور یورپ نے مل کر جو عالمی نظام تیار اور متعارف کرایا تھا وہ اب شدید دباؤ میں ہے۔ اس نظام کے مکمل ناکام ہوجانے کا خطرہ پہلے سے کہیں توانا ہے۔ بہت سے ممالک میں عسکری مداخلت کا نتیجہ صرف اور صرف خرابیوں کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ بعض ممالک شدید عدم توازن کا شکار ہوئے اور چند ایک تو مکمل تباہی سے دوچار ہوئے۔ کسی بھی ریاست کے ناکام ہوجانے کی صورت میں جو پیچیدگیاں پیدا ہوا کرتی ہیں وہ پیدا ہوئیں۔ جنوبی امریکا اور مشرق وسطیٰ میں غیر معمولی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ ریاستی اور غیر ریاستی عناصر نے معاملات کو اتنا الجھا دیا کہ طاقت کے غیر معمولی استعمال کے بغیر کوئی بھی خرابی دور کرنا ممکن نہ رہا۔ قانون کی بالا دستی کا تصور پہلے مجروح ہوا اور پھر مٹ کر رہ گیا۔ اس دوران چین اور بھارت کی قوت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور یہ دونوں بھی عالمی سطح پر اپنے لیے کوئی ایسا کردار تلاش کر رہے ہیں جس کی مدد سے یہ اپنی پوزیشن مزید مستحکم کریں اور عالمی برادری کی نظر میں زیادہ وقعت کے حامل ٹھہریں۔ ایسے میں بین الاقوامی تعلقات کی نئی توضیح و تشریح ناگزیر ہوچکی ہے۔ امریکا اور یورپ کے درمیان متعدد امور پر شدید اختلافِ رائے نے بھی معاملات کو مزید الجھایا ہے۔
مشرق وسطیٰ کی صورت حال دن بہ دن الجھتی ہی جارہی ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان وسیع تر علاقائی کردار کے لیے کشمکش بڑھ رہی ہے۔ داعش اور اس کے ہم خیال گروپوں نے صورت حال کا غیر معمولی حد تک فائدہ اٹھاتے ہوئے خطے کے معاملات کو مزید الجھا دیا ہے۔ سرحدوں کو نظر انداز کرکے کئی ریاستوں کو الٹنے پلٹنے کے مرحلے سے گزار دیا گیا ہے۔
اس مدت کے دوران جرمنی مجموعی طور پر مستحکم اور خوش حال رہا ہے۔ یہ بھی کوئی معمولی کامیابی نہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مطمئن ہوکر ایک طرف بیٹھا جائے۔ جرمنی کو مزید محنت کرنی ہے، مزید استحکام حاصل کرنا ہے۔ بعض لوگوں نے اپنی قنوطیت بروئے کار لاتے ہوئے کہا کہ جرمنی یورپ کا مردِ بیمار ہے۔ یہ رائے اس لیے دی گئی کہ جرمنی میں بے روزگاری کی شرح ۱۲ فیصد سے زائد ہوگئی تھی۔ سماجی تحفظ کا نظام بھی کمزور پڑچکا تھا۔ دوسری طرف جرمنی نے عراق جنگ کے معاملے میں امریکا سے اختلاف کرکے اپنے لیے تھوڑی بہت الجھنوں کو تو خود ہی دعوت دے دی تھی۔ مارچ ۲۰۰۳ء میں اس وقت کے جرمن چانسلر گیرہارڈ شروڈر نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امن اور استحکام کے لیے اصلاحات ناگزیر ہیں۔ جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹس اس جنگ کے مخالف تھی مگر وہ وسیع تر تبدیلیوں کے حق میں دکھائی نہ دیتے تھے۔ گیرہارڈ شروڈر نے لیبر مارکیٹ میں تبدیلیوں کی راہ ہموار کیں اور سماجی تحفظ کے حوالے سے اصلاحات کو راہ دی۔ اور پھر اس کا نتیجہ بھی انہوں نے بھگتا یعنی ۲۰۰۵ء میں الیکشن ہار گئے۔
شروڈر کی متعارف کرائی ہوئی اصلاحات سے جرمن معیشت مستحکم ہوئی اور سیاسی نظام کی توقیر بھی سلامت رہی۔ ان اصلاحات سے پیدا ہونے والی طاقت کی بدولت ہی جرمنی نے ۲۰۰۸ء کے معاشی بحران کا سامنا کیا۔ مینوفیکچرنگ کے شعبے پر غیر معمولی توجہ دی گئی۔ اس کے نتیجے میں نئی اور ابھرتی ہوئی مارکیٹس میں جرمن مال کے لیے جگہ بنتی گئی۔ جرمنی نے چین میں وسیع ہوتی ہوئی مارکیٹ کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ برآمدات بڑھتی گئیں اور شرح نمو میں اضافہ ہوتا گیا۔ مگر خیر اس معاملے میں مبالغہ آرائی کی گنجائش نہیں۔ ۲۰۰۴ء کے مقابلے میں ۲۰۱۴ء کی برآمدات کم تھیں۔ اور مغربی جرمنی کی برآمدات زیادہ تھیں جبکہ مشرقی و مغربی جرمنی کے ملاپ کے بعد سے ان میں کمی آتی گئی۔ جرمنی کی بڑی کامیابی البتہ یہ رہی ہے کہ وہ مقابلے کی دوڑ میں شریک رہا ہے۔
یورپ کی پُرامن طاقت
بہت سے سیاسی تجزیہ کار جنگ سے گریز کو جرمنی کی ناکامی یا کمزوری سے تعبیر کرتے ہیں۔ جرمنی نے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا، مگر عراق جنگ کے حوالے سے جرمن رائے عامہ کی طرف سے شدید مخالفت ابھر کر سامنے آئی۔ جرمنی نے کوسووو میں ملٹری آپریشن کا ساتھ دیا مگر جرمن پالیسی سازوں کی مجموعی سوچ یہ رہی ہے کہ طاقت کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے تنازعات کو بات چیت کے ذریعے سے حل کیا جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ جرمن پالیسی سازوں نے یورپ کے وسیع تر مفاد کو یا امریکا سے جڑے ہوئے مفادات کو یکسر نظر انداز کردیا ہے۔ جرمنی اچھی طرح جانتا ہے کہ امریکا سے شراکت داری کی صورت میں اس کے لیے کچھ نہ کچھ بہتر کرنے کی گنجائش پیدا ہوگی۔ جرمن قیادت کو یہ احساس رہا ہے کہ جرمنی کی سلامتی باقی یورپ سے تعاون اور امریکا سے دوستی میں پوشیدہ ہے۔
عراق میں چھیڑی جانے والی جنگ کے حوالے سے جرمن رائے عامہ ذرا بھی تذبذب کا شکار نہیں ہوئی۔ بیشتر جرمن یہ سمجھتے تھے کہ عراق میں جنگ چھیڑنے سے غیر معمولی حد تک بگاڑ پیدا ہوگا اور خطے کے تنازعات میں اضافہ ہوگا۔ جرمنی میں آج بھی عراق جنگ کی مخالفت کو اخلاقی سطح پر فتح تصور کیا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے عراق کے خلاف جنگ چھیڑنے کے معاملے میں امریکا کی حمایت کی تھی، وہ بھی اب یہ بات برملا کہتے ہیں کہ ان کی سوچ غلط تھی۔
جرمنی کی پالیسی رہی ہے کہ تنازعات میں الجھنے سے گریز کیا جائے۔ اس سوچ سے اتحادی ناراض بھی ہوئے ہیں مگر جرمن قیادت نے اس معاملے میں کسی کی ناراضی کی بظاہر پروا نہیں کی۔ جرمنی نے لبنان میں جنگ بندی کا معاہدہ کرانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ بہت سے لوگوں نے اس کی بھی مخالفت کی۔ مثلاً جنگ بندی معاہدے پر موثر انداز سے عمل کرانے کے لیے فوج کا گشت لازم تھا مگر مسئلہ یہ تھا کہ یہودیوں کے قتل عام کا داغ بہت سے معاملات میں اب بھی رکاوٹ بنتا ہے، اُسے شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر عمل کرانے کے لیے سرحدی علاقوں میں گشت لازم تھا مگر اسرائیل کسی بھی حالت میں جرمن فوج کے گشت کے لیے راضی نہ ہوتا۔
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ کرانے سے قبل میں نے تین سابق وزرائے خارجہ سے ملاقات کی تاکہ ان کے ۳۱ سال کے مجموعی تجربے سے کچھ سیکھوں۔ ان میں معمر ترین ہانس ڈائٹرخ گینشر تھے جنہوں نے اس معاہدے کی مخالفت کی۔ آج جنگ بندی کے اس معاہدے پر عمل کرانے کے حوالے سے جرمن دستوں کو امن فوج کی حیثیت حاصل ہے۔ جنگی جہازوں میں تعینات ان دستوں کا کام یہ ہے کہ بحیرۂ روم سے اسلحہ حزب اللہ تک نہ پہنچنے دیں۔
اپنی طاقت منوانے کے معاملے میں جرمنی کی پالیسی یک رخی یا کسی ایک سمت کی پابند نہیں رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جرمنی کی سوچ یہ ہے کہ بات چیت سے تمام مسائل حل نہیں ہوتے۔ مگر خیر، طاقت کے استعمال سے بھی تمام مسائل حل نہیں ہوتے۔ دو عشروں کے دوران جو تنازعات ابھر کر سامنے آئے ہیں ان کے حوالے سے جرمن قیادت کے اقدامات پر کی جانے والی تنقید سے پالیسی سازوں کو اپنی خامیوں یا کوتاہیوں پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔
جرمن قیادت اس خیال کی حامل رہی ہے کہ ترقی کے مواقع سب کو ملنے چاہییں۔ کسی بھی ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ خود کو برتر اور کسی کو کمتر سمجھے۔ مسائل اُسی وقت جنم لیتے ہیں جب دوسروں کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ جرمنی قانون کی حکمرانی اور بالا دستی پر مکمل یقین رکھتا ہے۔ جرمن پالیسی ساز، دانشور اور سیاست دان سبھی قانون کو طاقتور پر فوقیت دیتے ہیں۔ جرمنی چاہتا ہے کہ جب بھی قومی سطح سے بلند ہوکر وسیع البنیاد، بین الاقوامی نوعیت کے فیصلے کیے جائیں تب جواز کی درستی کو سب سے زیادہ اہمیت دی جائے۔
اگر کوئی ملک عالمی یا علاقائی حالات بہتر بنانے کے لیے تعاون کر رہا ہو، دو قدم آگے بڑھ رہا ہو، تو جرمن قوم چاہتی ہے کہ ان کی قیادت تین قدم آگے بڑھے۔ اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ جرمنی ماضی میں کیے گئے کسی غلط کام کی تلافی کر رہا ہے۔ جرمن پالیسی ساز پوری بیدار مغزی کے ساتھ معاملات پر خوب غور کرتے ہیں۔ جرمنی کے سابق تجربے کو اس معاملے میں بنیادی ستون کے طور پر اختیار اور استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر دوسری طرف جرمنی کی سوچ یہ بھی ہے کہ جہاں ضروری ہو، وہاں طاقت استعمال کی جائے مگر صرف ضرورت کے مطابق اور تمام معاملات کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد۔
عالمی کردار کی قبولیت
جرمنی معاشی استحکام برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ طاقت کے استعمال میں بھی اس نے غیر معمولی احتیاط سے کام لیا ہے۔ اس سوچ کا اس کی پالیسیوں پر گہرا اثر مرتب ہوا ہے۔ امریکا سے شراکت داری اور یورپی یونین میں شامل رہنا اس کی پالیسیوں کے دو بنیادی ستون ہیں۔ ڈھائی تین عشروں میں ایسے کئی مواقع آئے ہیں جب امریکا اور یورپ کے قدم ڈگمگائے مگر جرمنی ثابت قدم رہا ہے۔
جرمنی کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ وہ علاقائی استحکام اور عالمی امن کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے غافل یا کنارہ کش نہیں رہ سکتا۔ جرمنی یورپ کے قلب میں واقع ہے اس لیے الگ تھلگ رہنا ممکن ہے نہ ہر وقت کسی نہ کسی قضیے میں الجھا ہوا رہنا۔ ہر وقت جنگ و جدل میں مشغول رہنا کوئی پرکشش یا معقول پالیسی آپشن نہیں۔ تنازعات کے حل اور امن کے فروغ کے لیے جرمنی بات چیت پر زور دیتا آیا ہے۔
جرمنی کو اچھی طرح اندازہ اور احساس ہے کہ اُسے مشرق وسطیٰ میں کوئی نہ کوئی کردار ضرور ادا کرنا ہے اور یہ کردار ایسا ہونا چاہیے جس سے خطے میں مثبت تبدیلیوں کی راہ ہموار ہو۔ عرب اسرائیل تنازع عشروں سے چل رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے جرمنی مشرق وسطیٰ کے معاملات سے الگ تھلگ رہا مگر اب ایسا کرنا ممکن نہیں کیونکہ تنازعات کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے اور ان کی شدت و نوعیت بھی تبدیل ہوچکی ہے۔ ایسے میں جرمنی کو بھی وسیع تر کردار ادا کرنا ہے۔ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے باز رکھنے کے سلسلے میں کیے جانے والے مذاکرات میں جرمنی بھی شریک رہا اور اس نے اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔ ایران نے جن ۶ بڑی طاقتوں سے جوہری معاہدہ کیا ہے، ان میں جرمنی بھی شامل ہے۔ اس وقت شام شدید بحران اور تباہی سے دوچار ہے۔ جرمنی چاہتا ہے کہ شام کے بحران کا بھی معقول حل تلاش کیا جائے۔ اور یہ حل بات چیت ہی سے ممکن ہے۔
مشرق وسطیٰ میں نئے سیکیورٹی اسٹرکچر کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ ایران سے جوہری معاہدے کے بعد نیا سیکیورٹی اسٹرکچر لانا لازم ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے یورپ کی تاریخ سے بھرپور استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ۱۹۷۵ء میں فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی میں منعقدہ علاقائی سربراہ کانفرنس کے نتیجے میں ’’تنظیم برائے سلامتی و تعاون‘‘ کی بنیاد پڑی۔ مشرق وسطیٰ میں بھی ایسی ہی کسی تنظیم کے قیام کی گنجائش پیدا ہوسکتی ہے یا کی جاسکتی ہے۔
چیلنج سے نمٹنے کی تیاری
یوکرین کا بحران جرمنی کے قائدانہ کردار کی آزمائش سے کم نہ تھا۔ وکٹر یانوکووچ کے اقتدار کے خاتمے اور ۲۰۱۴ء میں روس سے کرائمیا کے الحاق سے جرمنی اور فرانس کے لیے کھری آزمائش کی گھڑی آئی۔ دونوں کے لیے لازم ہوگیا کہ یوکرین کے بحران کو پرامن طور پر حل کرنے کی راہ ہموار کریں۔ امریکا دیگر تنازعات میں الجھا ہوا تھا اس لیے اس کے لیے ممکن ہی نہ تھا کہ یوکرین کے بحران پر زیادہ توجہ دیتا۔ فرانس کے ساتھ مل کر جرمنی نے یورپ کی سلامتی سے متعلق روس کے خدشات دور کرنے میں خاطر خواہ معاونت کی ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یوکرین کو ریاست کی حیثیت سے بقا سے ہمکنار رکھنے میں معاونت فراہم کرتے رہنا بھی ہے۔
یوکرین کے بحران میں جرمنی کو کسی ملک نے انگیج نہیں کیا۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ جرمنی نے اپنے طور پر کوئی فیصلہ کیا اور اس آگ میں کود پڑا۔ روس اور یوکرین سے جرمنی کے دیرینہ تجارتی تعلقات ہیں۔ ایسے میں ان دونوں کی طرف اس کا جھکنا اور علاقائی سلامتی یقینی بنانے میں کوئی اہم کردار ادا کرنا اس کے لیے تقریباً لازم تھا۔ یوکرین کے لیے جرمنی نے نرم گوشہ ظاہر کیا اور اس کی معاونت بھی کی، مگر روس نے اس کا زیادہ برا نہیں مانا اور جرمنی کو اس قضیے میں آگے بڑھنے کی راہ دی۔ جرمنی کی وساطت سے ’مِنسک ایگریمنٹ‘ ممکن ہوسکا۔ یہ سمجھوتہ اگرچہ جامع نہیں اور معاملات مزید بہتر بنانے کی گنجائش موجود ہے مگر پھر بھی یہ ماننا ہی پڑے گا کہ اگر مِنسک ایگریمنٹ نہ ہوا ہوتا تو یوکرین کا بحران ڈانبس کے علاقے سے بھی آگے نکل چکا ہوتا۔ جرمنی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ یوکرین کا بحران علاقائی بحران میں تبدیل ہوکر نئی سرد جنگ کا بہانہ یا ذریعہ نہ بنے۔
یوکرین کے بحران کو ختم کرانے میں جرمنی نے مجموعی طور پر خاصا توانا اور متوازن کردار ادا کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اُس نے بحیرۂ روم کے کنارے واقع یورپی ممالک میں معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے سخت تر بجٹ اقدامات کی راہ ہموار کی۔ یونان اور اسپین میں معیشت کا بحران بہت حد تک اخراجات اور آمدنی میں عدم توازن کا نتیجہ تھا۔ بجٹ میں سخت تر اقدامات کے ذریعے اخراجات پر قابو پانا لازم تھا۔ جرمنی نے اس حوالے سے اپنا کردار خاصی محنت اور احتیاط سے ادا کیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جرمنی نے عالمی مالیاتی فنڈ سے بھی بھرپور تعاون کیا مگر کیا کیجیے کہ جب معاملات درست نہ ہوئے یعنی بے روزگاری کم ہوئی نہ آمدنی بڑھی تب اِن ممالک کی اشرافیہ کو ذمہ دار قرار دینے کے بجائے ناقدین اور تجزیہ کاروں نے جرمنی ہی کو موردِ الزام ٹھہرانا شروع کردیا۔
اس وقت یورپ کو پناہ گزینوں کے بحران کا سامنا ہے۔ جرمنی نے شام اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے دس لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کو اپنے ہاں خوش آمدید کہا ہے مگر یہ بات چیک جمہوریہ، ہنگری اور سلوواکیہ کو پسند نہیں آئی۔ ان ممالک نے خدشہ ظاہر کیا کہ جرمنی پہنچنے کے لیے شام اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین اُن کے ہاں سے گزریں گے۔ یہ خدشہ اب تک تو یکسر بے بنیاد ثابت ہوا ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ یورپ اپنا مرکزی بحران کب تک حل کرسکے گا۔ جرمنی ایک طاقتور ملک ہے اور یورپ میں اُسے محل وقوع اور طاقت دونوں اعتبار سے مرکزی حیثیت حاصل ہے مگر تمام معاملات وہ تن تنہا درست نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے دیگر مضبوط ممالک کو بھی آگے آنا ہوگا۔ چند گروپ رائے عامہ کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ ایسی صورت میں بگاڑ تیزی سے پھیلے گا۔ پناہ گزینوں کا معاملہ ہو یا کوئی اور قضیہ، جرمن قیادت کوئی بھی ایسا فیصلہ نہیں کرسکتی، جو کسی دباؤ اور عجلت پسندی کا نتیجہ ہو۔ ہر فیصلہ غور و فکر کے بعد پوری سنجیدگی کے ساتھ کیا جائے گا۔
ٹھوس اور متوازن خارجہ پالیسی بنانے اور برقرار رکھنے کے لیے سخت ترین آپشنز میں سے ایسے آپشن کا انتخاب کرنا ہوتا ہے جو بہت حد تک اپنے حق میں جاتا ہو اور زیادہ بگاڑ کی راہ مسدود کرتا ہو۔ جرمنی نے پناہ گزینوں کے معاملے میں ترکی اور یورپی یونین میں بات چیت کرائی ہے۔ جو لوگ غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرکے یونان پہنچیں گے، انہیں ترکی کے حوالے کردیا جائے گا اور اس کے بدلے میں شام سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو قبول کیا جائے گا۔ ترکی اور یورپی یونین کے درمیان یہ معاہدہ کس حد تک کام کرتا رہے گا یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ اس معاہدے میں چند ایک خامیاں اور کمزوریاں تو ہوسکتی ہیں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یورپ کو اپنے ہاں بہت سے معاملات درست رکھنے کے لیے ترکی سے ہاتھ ملانا ہی پڑے گا۔
پولینڈ کے سابق وزیر خارجہ رادیک سکورسکی اور چند دوسرے یورپی سیاست دان کہتے ہیں کہ جرمنی ناگزیر قوم ہے۔ جرمنی ایسا کوئی لقب چاہتا ہے نہ درجہ۔ حالات نے اُسے خطے میں مرکزی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں پہنچا دیا ہے۔ کسی بھی اور یورپی ملک سے زیادہ جرمنی کے لیے یورپی یونین سے جڑے رہنا بقا کا معاملہ ہے۔ جرمنی اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ فرانس، پولینڈ اور دیگر ممالک کے ساتھ امن اور سکون سے چل رہا ہے۔ جرمنی چاہتا ہے کہ وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو اور سب اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔ ذمہ داریوں میں دوسروں کو شریک کرنا جرمنی کی اولین ترجیحات میں سے ہے۔ جب تک یورپی یونین عالمی سطح پر کوئی قابل ذکر کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہو جاتی، جرمنی خطے میں قائدانہ کردار ادا کرتا رہے گا۔ علاقائی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جرمنی کا محتاط رہنا ہی پورے براعظم کے مفاد میں ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Germany’s New Global Role”.(“Foreign Affairs”. July/August 2016)
Leave a Reply