میں حال ہی میں کابل گیا تو افغان صدر حامد کرزئی نے مجھ سے کہا کہ امریکا اب تک ایک اہم اور بنیادی مسئلے کو حل نہیں کرسکا ہے یعنی یہ کہ ’’افغانستان میں جاری جنگ میں پاکستان کا کردار کیا ہونا چاہیے‘‘۔
خطے میں اور اس سے آگے جاکر دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستانی قیادت نے حال ہی میں واشنگٹن میں امریکی قیادت سے ملاقات کی ہے۔ اسٹریٹجک مذاکرات کے ساتھ ہی یہ خبر بھی آئی کہ کابل میں افغان حکام اور طالبان رہنماؤں کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے۔ افغانستان میں جاری جنگ ختم کرنے کے لیے طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں سے بات چیت کرنا اہم بھی ہے اور دشوار بھی۔
پاکستان نے نیٹو اور امریکی افواج کو سپلائی روٹ دیا ہے۔ اس حوالے سے اس کا کردار اہم رہا ہے۔ پاکستانی حکومت کی رضا مندی سے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں اور ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے فوجی اڈے بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان کے انٹیلی جنس حکام نے امریکی سی آئی اے کے ساتھ مل کر کام کیا ہے جس کے نتیجے میں القاعدہ کے سیکڑوں ارکان کو گرفتار کیا جاسکا ہے۔
پاکستان نے ساتھ ہی ساتھ نہ صرف یہ کہ طالبان اور حقانی گروپ کے عسکریت پسندوں کو پناہ دی ہے بلکہ ان کی حمایت بھی جاری رکھی ہے۔ اس کے نتیجے میں افغان جنگ دشوار تر ہوتی گئی ہے۔ اتحادی اور افغان فوجیوں کے علاوہ افغان شہریوں کی ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے ایک رویے سے کابل اور واشنگٹن کے تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں۔
پاکستانی فوجی قیادت کو یقین ہے کہ افغانستان میں مزید ۳۰ ہزار فوجیوں کی تعیناتی امریکا کی جانب سے اپنی نوعیت کا آخری اقدام ہے۔ اس کے بعد امریکا کسی نہ کسی طور افغانستان سے نکلنے کی سوچے گا۔ ایسے میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی بھی امن معاہدہ پاکستان کے مفادات کے منافی ہوگا۔ یہی سبب ہے کہ افغانستان میں مفاہمت اور مصالحت کے عمل کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے میں اگر امریکا نے افغانستان سے رخت سفر باندھا تو پاکستان کے حمایت یافتہ عناصر برتر حیثیت کے حامل ہوں گے۔
پاکستان سے نمٹنے کے معاملے میں اوباما انتظامیہ نے بھی وہی راستہ اپنایا ہے جو ان کے پیشرو یعنی جارج واکر بش نے اپنایا تھا۔ اول یہ کہ افغان فورسز کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کیا جائے تاکہ وہ سیکورٹی کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہو جائیں اور افغان معیشت کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کیا جائے تاکہ وہ کسی بھی ملک کی محتاج نہ رہے۔ اور دوم یہ کہ پاکستان کو معاشی اور عسکری امداد کے ذریعے عسکریت پسندوں کی بے جا حمایت سے دور کیا جائے۔ اس حوالے سے امریکا نے پاکستان کو کئی سطحوں پر ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکا نے پاکستان کو پانچ برسوں کے دوران ہر سال ڈیڑھ ارب ڈالر دینے کے معاہدے کی منظوری دی ہے۔ حال ہی میں واشنگٹن میں اسٹریٹجک مذاکرات کے دوران مزید اربوں ڈالر دینے پر بھی امریکا نے رضا مندی ظاہر کی ہے۔ مسئلہ ہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کو جس قدر امداد ملتی جاتی ہے، اس کی پالیسیوں میں اسی قدر لچک کم ہوتی جاتی ہے۔ امریکا کو چاہیے کہ اب پاکستان کے سامنے دو باتیں رکھے، مثبت محرکات اور منفی اثرات۔ امریکا کا مطالبہ ہونا چاہیے کہ پاکستان عسکریت پسندوں کی تمام پناہ گاہیں ختم کرے اور یہ کہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو اس کے خلاف کارروائی سے گریز نہیں کیا جائے گا اور اس معاملے میں اس کی رضامندی حاصل کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جائے گی۔ یہ خدشہ بے بنیاد ہے کہ زیادہ دباؤ ڈالنے کی صورت میں پاکستان ٹوٹ سکتا ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ پاکستان کے بیشتر قومی ادارے اور بالخصوص سیکورٹی سیٹ اپ اس پوزیشن میں ہے کہ ملک کو بہتر طریقے سے سنبھال لے۔
اگر امریکا نے جارحانہ رویہ اپنایا تو پاکستان کی جانب سے شدید ردعمل متوقع ہے۔ مثلاً نیٹو کی سپلائی لائن متاثر ہوگی۔ جو سامان افغانستان کے لیے بھیجا جارہا ہے وہ پاکستان ہی میں ذخیرہ کیا جانے لگے گا۔ اس کے لیے امریکا کو ابھی سے سوچ لینا چاہیے۔ شمالی راستے سے یا پھر فضائی رسد کے ذریعے پاکستان کے ردعمل کو کمزور کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کو بہت سی ترغیبات کی پیشکش بھی کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کو یقین دلایا جاسکتا ہے کہ اگر وہ تعاون کرے گا تو افغانستان کی سرزمین کو اس کے دشمن بلوچستان میں شورش کے لیے استعمال نہیں کرسکیں گے، پاک افغان تعلقات بہتر بنانے میں مدد دی جائے گی اور پاکستان اور وسطی ایشیا کے درمیان تجارتی راستوں کو محفوظ بنانے کی ضمانت بھی فراہم کی جاسکتی ہے۔
امریکا کو چاہیے کہ افغانستان سے انخلا کے بعد بھی خطے میں اپنی دلچسپی برقرار رکھے اور پاکستانی قیادت کو یقین دلائے کہ اس کی سیکورٹی فورسز ہی نہیں بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشی اداروں کو بھی مستحکم بنانے میں خاطر خواہ مدد دی جائے گی۔ امریکا کو جنوبی ایشیا میں توازن اور استحکام پیدا کرنے میں بھی اپنا کردار عمدگی سے ادا کرنا ہے۔ امریکی قیادت چاہے تو پاک بھارت تعلقات بہتر بنانے میں غیر معمولی کردار ادا کرسکتی ہے۔ پاکستانی قیادت ایسے کسی بھی اقدام کا یقینی طور پر خیر مقدم کرے گی۔
پاکستان کے رویے میں تبدیلی نہ لانے کی صورت میں امریکا کو افغانستان میں طویل تر جنگ کے لیے تیار رہنا پڑے گا اور اس کے نوجوان فوجیوں کی زندگیاں اور کروڑوں ڈالر دائو پر لگیں گے اور اسے افغانستان اور خطے سے پسپائی اختیار کرنا پڑے گی۔ دونوں ناخوشگوار راستے ہیں۔ ایسے میں اوباما انتظامیہ کا پاکستان پر دبائو یہی ہو گا کہ پاکستان امریکا یا انتہا پسندی کی حمایت میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کرے۔
زلمے خلیل زاد سابق امریکی صدر جارج واکر بش کے دور میں افغانستان، عراق اور اقوام متحدہ میں امریکی سفیر رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے مشیر اور ایک مشاورتی فرم کے سربراہ ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’نیویارک ٹائمز‘‘۔ ۱۹ اکتوبر۲۰۱۰ء)
Leave a Reply