
ابھی ابھی مال روڈ لاہور پر اس کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ غلام اعظم کہوں یا مجاہد اعظم یا شہید اعظم۔ وہ چلا گیا‘ مگر سوچنے کے لیے بہت کچھ چھوڑ گیا۔
مجھے وہ دن یاد ہیں، جب یہاں پاکستان میں ایک شخص کی حمایت میں بہت زور دار تحریک چل رہی تھی۔ سید مودودیؒ کے جانشین کے انتخاب کا مرحلہ در پیش تھا۔ جماعت اسلامی پہلی بار اس مرحلے سے گزر رہی تھی۔ اس وقت جماعت اسلامی سیاسی طور پر بھی تیسری قوت کی علامت تھی۔ ہر شخص سمجھتا تھا‘ نظام بدلنا ہے تو انہیں آزمایا جا سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے یہ قوم تیسری قوت کے حق میں پر جوش تو ہوتی ہے‘ مگر پھر ذرا گھبرا جاتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں جماعت اسلامی کا مطلب کچھ اور ہی تھا۔ وہ ملک میں پاکستانی ذہن کی سب سے بڑی علامت تھی۔ میں نے دایاں بازو کہا ہے نہ مذہبی رجحان کہا ہے۔ اسے فکری طور پر ایک الگ مقام حاصل تھا۔
ایسے میں سید مودودیؒ کے جانشین کا انتخاب ایک قومی مسئلہ تھا۔ جماعت کے مٹھی بھر افراد کے ہاتھوں میں ملک کے مستقبل کا فیصلہ لکھ دیا گیا ہے۔ یہاں مغربی پاکستان میں نوجوانوں کی اکثریت ایک ایسے شخص کی پر جوش حامی تھی جو مشرقی پاکستان کا امیر تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا یہ شخص منتخب ہوگیا تو جماعت کا سفر زیادہ تیزی سے جاری رہے گا۔ دوسرے امیدواروں سے اختلاف نہ تھا‘ مگر غلام اعظم دلوں کی دھڑکن تھے۔ نوجوانوں کی سرگرمیاں اتنی بڑھیں کہ یوں لگا کہ جماعت کے سید صاحب کے بعد پہلے انتخابات کہیں جماعت کے دستوری تقاضوں کو تلپٹ نہ کر دیں، جس میں کسی امیدوار کے حق میں مہم چلانے کی اجازت نہیں۔ چنانچہ بیان جاری ہوا کہ باہر کے لوگ جماعتی انتخابات میں دخل اندازی نہ کریں۔
اس وقت عرض کیا‘ جماعت کی قیمت دوسری تھی۔ وہ ایک تیسرا آپشن گنی جاتی تھی۔ انتخابات کے نتائج کچھ بھی آئے‘ مگر جماعت ایک مؤثر قوت تھی۔ مشرقی پاکستان میں تو جماعت ووٹوں کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آئی تھی۔ حالات بگڑے تو پروفیسر غلام اعظم نے مغربی پاکستان میں دورے کیے۔ یہاں کے مقتدر طبقوں سے رابطے کیے۔ اس وقت سمجھ نہیں آئی کہ میں انہیں مشرقی پاکستان کے آخری پاکستانی کے طور پر متعارف کراؤں یا بنگلا دیش کے ایک محسن کے طور پر۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اس سرزمین پر پاکستان کی آخری لڑائی بڑی جرأت سے لڑی۔ ان سے پوچھا گیا‘ وہ کیا پسند کریں گے۔ ان فسادات میں علیحدگی پسندوں کا ساتھ دینا‘ غیر جانبدار رہنا‘یا پاکستان کے حق میں جنگ لڑنا۔ ان کی قیادت میں مشرقی پاکستان کی جماعت اسلامی نے بڑے غور و خوض کے بعد مرکز کو مطلع کیا کہ وہ پاکستان کی بقا کی جنگ لڑنا چاہتے ہیں۔ یہ فیصلہ ان پر نہ ان کی جماعت نے مسلط کیا نہ ان کے قائد نے۔ انہوں نے تو اس فیصلے پر صرف ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ یہ مغربی پاکستان کے آلہ کار نہ تھے‘ بنگالی کی قسمت کو سنوارنا چاہتے تھے۔
انہوں نے ڈٹ کر باغیوں کا مقابلہ کیا
باغی جنہوں نے اپنے ملک سے بغاوت کر دی تھی۔
دشمن کی فوج کی مدد سے دہشت گرد ملک دشمن بنا ڈالے تھے۔ جگہ جگہ کارروائیاں کرتے اور اپنے ہم وطنوں کو تاراج کرتے۔
پھر سامراجیوں کی مدد سے دشمن کی فوج سرحد پار سے انہیں ’’آزادی‘‘ دلانے آ پہنچی۔ ڈوب کے مرجائے آدمی کو اگر غیرت ہو۔ ایسی جنگ کو جنگ آزادی کہتے ہوئے وقت اور حالات نے معاملات کا رخ بدل دیا۔ ایک وقت آیا جب بنگلا دیش کی نام نہادی آزادی کے ہیرو کی لاش ڈھاکا میں کھلے آسمان تلے پڑی تھی اور اسے ڈھانپنے والا کوئی نہ تھا۔بنگالیوں نے چند برس کے اندر اس ’’بغاوت‘‘ کے خلاف بغاوت کر دی۔
بنگال اس دوران بڑے اتار چڑھاؤ سے گزرا۔ غلام اعظم واپس اپنی دھرتی پر اترے۔ اور اپنے پروانوں کی قیادت سنبھالی۔ یہ ایک پیچیدہ کہانی ہے۔ تاہم یہ ایک طے شدہ بات تھی کہ اس خطے میں جو کچھ ہوا‘ اس پر مقدمات نہیں چلیں گے۔ مقدمات چلتے تو کس کے خلاف۔ جنہوں نے اپنے ملک کے خلاف بغاوت کی تھی یا جو غیر ملکی جارحیت کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ملک کے باغی تھے۔ طے کرنا مشکل ہو جاتا۔ عالمی قانون بے بس ہو جاتا۔ جب بہادر شاہ ظفر پر بغاوت کی فرد جرم عائد ہوئی تو آخری مغل شہنشاہ نے صرف اتنا پوچھا‘ ہم نے کس کے خلاف بغاوت کی ہے۔ اپنے ہی خلاف۔ بہرحال بنگال کی سرزمین بھی بڑی عجیب ہے۔ یہاں سراج الدولہ غدارہو جاتا ہے۔ میر جعفر آنکھوں کا تارا۔
مگر اس نوجوان بوڑھے نے اپنا مشن جاری رکھا۔ وہ ڈٹا رہا۔ ان کی جماعت حکومت کا حصہ بھی رہی۔ گویا سب مسئلہ طے کر لیا گیا۔ ہم نے بھی اپنے ملک کے باغیوں کو آزاد ملک کے طور پر تسلیم کر لیا۔ غلام اعظم کی شہریت بھی ڈھاکا ہائیکورٹ نے بحال کر دی۔
اچانک ایک نئی ہوا چلی۔ ایک ٹیکنو کریٹ کی حکومت بنا دی گئی۔ سامنے عدلیہ‘ پیچھے فوج۔ وہی گھسا پٹا فارمولا‘ اب بہ انداز دیگر ‘نتیجے کے طور پر ملک میں ایک نئی فسطائیت کو قدم جمانے کا موقع مل گیا۔ سبحان اللہ‘ اگر بنگلا دیش کے آخری انتخابات جمہوری ہیں‘ تو پھر جمہوریت کو سات سلام۔ حیرانی ہوتی ہے جب ہم بنگلا دیش‘ افغانستان‘ عراق وغیرہ کے انتخابات پر مغرب کی مہر تصدیق ثبت ہوتی دیکھتے ہیں اور ہمارے انتخابات پر کیڑے نکالے جاتے ہیں۔ کیڑے تو ہماری جمہوریت میں پڑ گئے ہیں‘ مگر اس جمہوریت کے مقابلے میں تو ہمارے جمہوریت دو دھوں نہاتی دکھائی دیتی ہے۔
ایک نام نہاد عالمی جرائم ٹربیونل نے ملا عبدالقادر‘ مطیع الرحمن نظامی اور پروفیسر غلام اعظم کو سزائیں سنائیں۔ ایک کی سزائے موت پر عمل ہو چکا ہے۔ دوسرے پر ابھی رکا ہوا ہے۔ یہ پروفیسر صاحب کے جانشین مطیع الرحمن نظامی ہے۔ متحدہ پاکستان میں اسلامی جمعیت طلبہ کے آخری ناظم اعلیٰ‘ پروفیسر صاحب کو ۹۰ برس سزائے قید سنائی کہ مستحق تو یہ اس سے زیادہ کے ہیں‘ مگر عمر کا لحاظ کرتے ہوئے اس نوے سالہ بوڑھے کو نوے سال ہی کی سزا سناتے ہیں۔
بنگال میں جو ظلم ہوئے‘ حسینہ واجد کے یہ مظالم کسی سے کم نہیں۔ اس کے باپ کو پاکستانیوں نے نہیں، ان کی اپنی فوج نے مارا تھا۔ اس وقت بنگلا دیش‘ عالمی بینک کے صدقے غربت سے لڑ رہا ہے‘ بھارت اور مغرب کی حمایت سے وہاں ایک ایسی حکومت قائم ہے جسے اس کی پروا نہیں کہ اس سے تو آزادانہ انتخاب نہیں ہو سکے۔
بنگلا دیش پر پہلے کتنا ظلم ہوا ہے‘ یہ تو اب تاریخ بتا رہی ہے۔ مگر جو ظلم اب ہو رہا ہے یا نام نہاد آزادی کے بعد ہو رہا ہے، اس کی سزا یقینا کڑی ہوگی۔ اب تو کتابوں کی کتابیں آگئی ہیں جو اسی جھوٹ کو بے نقاب کرتی ہیں۔ جس قوم کی تربیت جھوٹ پر ہو رہی ہے‘ اس پر وہ دن ضرور آتا ہے جب جھوٹ کا ڈھانچا دم توڑ جاتا ہے۔
مجھے اس کا انتظار ہے۔ اس بات کا یقین بھی کہ جھوٹ کی قلعی کھلتے اور جھوٹ کی سزا پاتے ہم اپنی زندگیوں میں دیکھیں گے۔ ان شاء اللہ! ضرور دیکھیں گے!!
(بشکریہ: روزنامہ ’’نئی بات‘‘ کراچی۔ ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply