گستاخی معاف! کیا نئے پاکستان میں غلام اعظم کی یاد منائی جاسکتی ہے؟ کیا ہم پرانی یادوں کے قیدی تو نہیں سمجھے جائیں گے؟ کوئی یہ تو نہیں پکار اٹھے گا:
نئے وقتوں کے ہم پالے ہوئے ہیں
پرانے عہد کے بھی دکھ سہیں کیا
غلام اعظم کے چہرے کو دیکھیے! یوں لگتا ہے کوئی خود سے روبرو ہو گیا ہو۔ جیسے چہرے کو آئینہ نہیں آئینے کو چہرہ مل گیا ہو۔ کیا اتنا ہی؟ نہیں، اس سے بہت زیادہ۔ غلام اعظم کی موت زندگی کا پیغام ہے اور ہماری زندگی موت کا اعلان ہے۔ پروفیسر غلام اعظم کے باب میں پاکستان کا قومی رویہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے قومی مزاج اور ریاستی کردار کا حقیقی محاسبہ کر سکتے ہیں۔ جب پاکستان کے وفادار بنگلا دیش میں یکے بعد دیگرے زنداں میں ڈالے اور سولی پر وارے جارہے تھے تو پاکستان بے حسی کی چادر اوڑھے اونگھ رہا تھا۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں جب کسی قوم کو تقسیم کی لکیر نے دو ٹکڑے کیا تو کسی ایک کے وفادار دوسری ریاست میں کیسے محفوظ کیے گئے۔ دور کیوں جائیں برطانیہ نے جب برصغیر کو چھوڑا تو پاکستان اور بھارت، دونوں ہی ممالک میں یہ کبھی ممکن نہیں ہوسکا کہ برطانیہ کے حامیوں کو کوئی سزا سنائی جاسکتی۔ پروفیسر غلام اعظم کا معاملہ ایک ایسا مقدمہ تھا، جسے لے کر پاکستان نہ صرف دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ سکتا تھا، بلکہ اپنے قومی مزاج کی آبیاری بھی کر سکتا تھا۔ یہ بطورِ ریاست خود پر اعتماد بحال کرنے کا ایک سنہری موقع تھا، مگر پاکستان نے ثابت کیا کہ یہ خارجہ امور سمیت اکثر معاملات میں ایک ایسی مجبور ریاست ہے، جو اپنی مجبوریوں کے اسباب کو ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ ذرا پروفیسر غلام اعظم کے مسئلے پر ایک نظر تو ڈالیے۔
عوامی لیگ کی حکومت نے ایک ’’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘‘ قائم کیا اور اس کے تحت پروفیسر غلام اعظم پر ۶۲؍الزامات عائد کیے گئے۔ پھر انہیں ۱۱؍جنوری ۲۰۱۲ء کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس ٹریبونل پر اعتراضات اٹھائے۔ اس ٹریبونل میں کوئی چیز بھی ’’عالمی‘‘ معیار پر پوری نہیں اترتی تھی۔ خود بنگلا دیش کا دستور بھی اس قانون کے خلاف تھا۔ جنگی جرائم کے مقدمات کا عالمی معیار چار بنیادی مطالبات کرتا ہے۔ اولاً: کوئی بھی شخص کسی ایسے جرم میں سزا نہیں پاسکتا جس کی نشاندہی قانون کے مطابق تب ہی نہ کر دی گئی ہو، جب یہ جرم سرزد ہوا تھا۔ ثانیاً: ایسے مقدمات میں ججوں کی تقرری میں فریقین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔ ثالثاً: باہمی رضامندی سے مقرر جج کا عالمی معیار پر پورا اترنا بھی ضروری ہے۔ رابعاً: مقدمہ شفاف دلائل پر ہی چلایا جاسکتا ہے۔ پروفیسر غلام اعظم کا مقدمہ اِن میں سے کسی ایک معیار پر بھی پورا نہیں اترتا تھا۔
عوامی لیگ نے تمام جنگی مقدمات صرف ان لوگوں پر قائم کر رکھے ہیں، جن پر بنگلا دیش بننے سے پہلے پاکستان کا ساتھ دینے کا الزام تھا۔ یہ بنیادی مسئلہ بنگلا دیش کی حد تک ۱۹۷۳ء میں خود شیخ مجیب کی زندگی میں ہی طے ہوگیا تھا۔ شیخ مجیب کی حکومت نے تب پاک فوج کے ۱۹۵؍افسر اور عہدیداروں کو جنگی ملزمان قرار دیا تھا، جن پر مقدمات چلانے کے لیے بنگلا دیشی پارلیمان سے ۱۹؍جولائی ۱۹۷۳ء کو ایک قانون ’’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘‘ منظور کرایا گیا۔ اس کے بعد بنگلا دیش، بھارت اور پاکستان کے سہ فریقی مذاکرات ۹؍اپریل ۱۹۷۴ء کو دہلی میں ہوئے، جن کے نتیجے میں پاک فوج کے تمام ملزمان کو معاف کر دیا گیا۔ تب تک کسی بھی شہری کو جنگی مجرم قرار نہیں دیا گیا تھا۔ البتہ پاک فوج نے اپنی مدد کے لیے جو عسکری گروہ قائم کیے، جن میں البدر، الشمس اور رضاکار شامل تھے، انہیں پاک فوج کے ’’شریکِ کار‘‘ (Collaborator) کے طور پر لیا گیا۔ اس فہرست میں انہیں بھی شامل کر لیا گیا جو سادہ طور پر بنگلا دیش بننے کے حامی نہیں تھے۔ پھر اِن تمام پر مقدمہ چلانے کے لیے ۲۴ جنوری ۱۹۷۲ء کو ایک “Collaborator’s Order” جاری کردیا گیا۔
اِسی حکم نامے کے تحت تب کم و بیش ایک لاکھ لوگ گرفتار کیے گئے تھے، مگر ان میں سے بھی ۴۷۱,۳۷؍افراد پر الزامات عائد کیے گئے، جن میں سے ۶۲۳,۳۴؍افراد کے خلاف کوئی ثبوت نہ ہونے کے باعث ان پر سرے سے کوئی مقدمہ ہی قائم نہ کیا جاسکا۔ اس طرح صرف ۸۴۸,۲؍افراد پر ہی مقدمات قائم کیے جاسکے، مگر نئی مملکت کے قیام کے جوش اور پاکستان دشمنی کی فضا میں تب بھی عدالتوں میں صرف ۷۵۲ کے خلاف ’’جرائم‘‘ ثابت ہونے پر سزائیں ہوئیں، باقی ۰۹۶,۲؍افراد باعزت طور پر بری کیے گئے، مگر یہ سارا معاملہ ایسے مباحث میں الجھا ہوا تھا کہ تب بھی اسے کوئی صاف شفاف تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھا، چنانچہ نومبر ۱۹۷۳ء میں اِن سزا یافتگان کو بھی عام معافی کے اعلان کے ساتھ رہا کر دیا گیا۔ اس طرح ۱۹۷۳ء میں علیحدگی سے متعلق جملہ قانونی مسائل کو دفنا دیا گیا۔ جماعتِ اسلامی کا معاملہ تو اور بھی عجیب تھا۔ ۲۰۰۱ء سے پہلے کسی بھی سطح پر عوامی لیگ نے اس کے وابستگان کو ’’جنگی مجرم‘‘ قرار نہیں دیا تھا، مگر ۲۰۰۹ء میں عوامی لیگ نے برسرِ اقتدار آکر جماعتِ اسلامی کے خلاف اس قانون کو متحرک کیا جو اس نے ۱۹۷۳ء میں پاک فوج کے افسران کے خلاف جنگی مقدمات چلانے کے لیے بنایا تھا۔ پھر اس کے تحت نہ صرف یہ کہ ملا عبدالقادر کو پھانسی دی گئی، بلکہ کئی دیگر رہنماؤں کو سزائیں بھی سنا دی گئیں۔ یہاں تک کہ غلام اعظم کو ۱۵؍جولائی ۲۰۱۳ء کو نوے برس کی عمر میں نوے برس کی ہی سزائے قید سنا دی گئی۔ وہ اِسی قید میں اپنے خالقِ حقیقی کے پاس سرخرو پہنچے، مگر تاریخ کی عدالت میں ایک مقدمہ پاکستان کے خلاف بھی قائم ہو گیا ہے۔ یہ تحریر وفا کے اس لہکتے استعارے کے لیے نہیں، بلکہ اپنے حال پہ گریہ کے لیے ہے۔
دراصل ہر قوم کا ایک تاریخی فخر اور تاریخی قلق ہوتا ہے۔ سقوطِ ڈھاکا ہمارا تاریخی قلق ہے، مگر اس کو محسوس ہی نہیں کیا جاتا۔ حکومت ہی نہیں، عوام بھی اس معاملے میں بے حسی اور لاتعلقی کے شکار ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بارے میں ہماری سماجی اور قومی نفسیات کی کوئی تہذیب ہی نہیں ہو سکی۔ چنانچہ اس حوالے سے نہ تو ہمارے قومی جذبات ہیں اور نہ ہی مشترکہ خیالات۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک اس کے اسباب ہیں۔ دراصل پاکستان کے اندر خود پاکستان کے حوالے سے کوئی تاریخی شعور گہرا نہیں کیا جاسکا اور یہ تاریخی شعور اس لیے گہرا نہیں ہو سکا کہ ہمارے اندر کوئی تصورِ وطن پیدا نہیں ہو پایا۔ معلوم نہیں یہ بات احاطۂ ادراک میں آ بھی سکے گی یا نہیں کہ تصورِ وطن کو رکھے اور راسخ کیے بغیر بسا اوقات حُب الوطنی نقصان دہ بن جاتی ہے۔ تصورِ وطن کے بغیر حب الوطنی آواز نہیں شور ہوتی ہے۔ اسی باعث ہمارے ریاستی اور سماجی، دونوں ہی دائروں میں کوئی ہلچل نہیں۔ یہاں تک کہ کسی بھی مسئلے پر کوئی بھی مظاہرہ یا احتجاج رسمی سے زیادہ کچھ بھی نہیں لگتا۔
مسئلے کی اِن ہی تہہ داریوں سے ہمارے اندر انفرادی اور اجتماعی طور پر ایک مزاجی بے حسی اور لاتعلقی پیدا ہو گئی ہے، جس کے باعث ہمار اکسی بھی مسئلے پر کوئی بھی بڑا موقف نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ متفقہ نہیں ہے۔ بنگلا دیش بھی ایسے ہی مسئلوں میں سے ایک ہے۔ مثلاً ہم ایک بیدار قوم ہوتے تو اپنے اس موقف کو کبھی بھی ترک نہ کرتے کہ بنگلا دیش کا بننا ایک غلط واقعہ تھا۔ اس کے وجود سے انکار کیے بغیر یہ غداری کا نتیجہ ہی سمجھا جاتا۔ اس موقف کو دہرائے بغیر اور ایک واقعاتی حقیقت کے طور پر بنگلا دیش کو ماننے کے تمام تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے پاکستان کا ہر قومی موقف اس کے مطابق تشکیل پاتا، مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ یہاں ہر پڑھا لکھا آدمی بنگلا دیش کی علیحدگی کا ذمہ دار خود کو سمجھتا ہے اور اپنے جعلی احساسِ گناہ کا ایسا اسیر ہے کہ اپنے اصل گناہوں کی طرف متوجہ ہی نہیں ہو پاتا۔
اب ذرا یہی دیکھیے! کیا بنگلا دیش میں سزائیں اور پھانسیوں کا جاری مسئلہ اور غلام اعظم کی موت کوئی جماعتِ اسلامی کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کی دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے اس پر کوئی موقف رکھنا اس لیے مشکل ہو گیا ہے کہ ان کا تعلق جماعتِ اسلامی سے تھا۔ ایسا ہر معاملہ ہماری سیاسی ثقافت میں لاوارث بن کر رہ جاتا ہے۔ بھٹو کی موت کا ماتم تو خود پی پی نے بھی نہیں منایا تھا۔ قومی شعور جب ہاتھوں، گروہوں، فرقوں اور جماعتوں میں بٹ جاتا ہے تو پھر اس قوم کے مشترکات ختم ہونے لگتے ہیں۔ پاکستان میں کوئی بھی مضبوط اور گہرے تاریخی شعور کی حکومت ہوتی تو وہ اِن واقعات کو ہرگز نظرانداز نہ کرتی۔ ذرا یاد کیجیے! بڈابیر میں امریکی اڈے کے قیام پر آنجہانی سوویت یونین نے صرف ایک بیان دیا تھا کہ ہم نے پشاور کے گرد ایک سرخ نشان لگا دیا ہے۔ کیا پھر وہ اڈہ باقی رہا تھا؟ یہی نہیں اس کے بعد پاکستان کی تمام داخلی، خارجی اور دفاعی پالیسیوں پر اس کا کتنا گہرا اثر پڑا تھا۔ قومی غیرت ایسے ہی کلام کرتی ہے اور ایسا ہی جادوئی اثر دکھاتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہماری ایٹمی قوت بھی دوسروں سے زیادہ خود ہمیں خوف زدہ رکھنے کے لیے ہے۔ غلامی آخر اور ہوتی کیا ہے؟ غلام اعظم کی موت سے یہ بات بارِ دگر ثابت ہوتی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور۔ ۲۸؍اکتوبر ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply