گیلانی اختیارات پاکر بھی زرداری کے تابع رہیں گے!

پاکستان میں آئینی اصلاحات پر مغربی میڈیا نے بھی نظر رکھی ہوئی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں مغربی اخبارات میں تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی اور برطانوی اخبارات نے پاکستان کی سیاسی صورت حال کو توجہ کا مرکز بنایا ہوا ہے۔ ذیل میں ہم ایک امریکی اخبار کا تجزیہ پیش کر رہے ہیں۔


صدر آصف علی زرداری اٹھارہویں ترمیم کی صورت میں اپنے بیشتر اختیارات سے محروم ہوجائیں گے۔ ان کی حیثیت علامتی سربراہ مملکت کی سی رہ جائے گی۔ صدر زرداری نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اختیارات دیئے جانے کی راہ خود ہموار کی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے مختلف جہتوں سے پڑنے والے دبائو کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ اب وہ ان اختیارات سے دست بردار ہونے کو تیار ہیں جو پرویز مشرف نے اپنی پوزیشن کو مستحکم تر کرنے کے لیے صدر کے منصب میں جمع کرلیے تھے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدر زرداری کی پوزیشن کیا ہوگی اور کیا وہ سیاسی بساط پر کوئی بڑی چال چلنے کی پوزیشن میں رہیں گے؟ کیا یوسف رضا گیلانی اس قدر مضبوط ہو جائیں گے کہ پوری سیاسی بازی ان کی مرضی کے مطابق کھیلی جائے؟

امریکی حکومت کے لیے آج بھی پاکستانی سیاست دانوں سے زیادہ پاکستانی فوج اہم ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں لگتا کہ امریکی حکومت یوسف رضا گیلانی سے تعلقات کو بہتر بناسکے گا۔ پاک امریکا تعلقات میں پاکستانی فوج کے لیے اہم کردار ادا کرنے کی گنجائش باقی رہے گی۔ امریکا بیشتر امور میں فوج ہی سے معاملات طے کرنے کا خواہش مند ہوگا۔ پاکستان کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صدر مضبوط ہو یا وزیر اعظم، اس سے امریکا کو کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔

آئینی اصلاحات سے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی دلی خواہش بھی پوری ہوگئی ہے۔ وہ صدر زرداری کے سخت ترین حریف ہیں اور ان کے اختیارات میں معتدبہ کمی کے خواہاں رہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے آصف زرداری کو جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔

اختیارات سے محرومی قبول کرنا صدر زرداری کے لیے بے حد مشکل کام تھا کیونکہ اس صورت میں ان کی سیاسی بقاء کے امکانات محدود ہونے تھے۔ اپنی صدارت کے ۱۸ ماہ کے دوران آصف زرداری اور فوج کے تعلقات خوشگوار نہیں رہے کیونکہ فوج کو اس بات کا شکوہ ہے کہ صدر زرداری نے امریکا سے معاملات میں ضرورت سے زیادہ فرماں برداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ فوج کو بھی شکوہ ہے کہ صدر زرداری نے امریکا کو خوش کرنے کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے پر کترنے کی کوشش کی ہے۔

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے پروفیسر اور معروف سیاسی تجزیہ کار رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ صدر زرداری نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ ان کی مرضی پر موقوف نہیں تھا۔ آئینی اصلاحات سیاسی قوتوں کے دبائو کا نتیجہ ہے۔ اس وقت سیاسی صورت حال ایسی ہے کہ صدر زرداری کے لیے بقاء کی گنجائش ہے۔

کیا صدر کی حیثیت سے کمتر بلکہ برائے نام اختیارات کے ساتھ آصف زرداری کی سیاسی بقاء ممکن ہوگی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے وہ اپنی بات خوب منوا سکیں گے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اختیارات پانے کے بعد بھی پارٹی میں تو آصف علی زرداری کے تابع ہی رہیں گے۔ آئینی اصلاحات کے نتیجے میں وزیر اعظم کو وفاقی وزراء اور سفیروں کے تقرر کا اختیار مل جائے گا تاہم اس معاملے میں وہ آصف زرداری کی مرضی اور مشورے کے پابند ہی رہیں گے کیونکہ پارٹی چیف وہی ہیں۔ جب تک زرداری چاہیں گے، گیلانی وزیر اعظم رہیں گے۔

آئینی اصلاحات کے نتیجے میں صدر کا پارلیمنٹ کی تحلیل کا اختیار ختم ہوجائے گا تاہم وہ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر رہیں گے۔ یہ بھی علامتی نوعیت کا عہدہ ہوگا۔ ایٹمی اثاثوں کی نگراں نیشنل کمانڈ اتھارٹی کی سربراہی سے وہ گزشتہ سال دست بردار ہوچکے ہیں۔

آئینی اصلاحات کا ایک حوصلہ افزا نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ کچھ وقت ہی کے لیے سہی، حکمراں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے تعلقات بہتر ہوں گے اور کسی حد تک سیاسی استحکام پیدا ہوگا۔ ہاں، الیکشن جوں جوں نزدیک آتے جائیں گے، تعلقات کی نوعیت تبدیل ہوتی جائے گی۔

(بشکریہ: ’’لاس اینجلس ٹائمز‘‘۔ ۳ اپریل ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*