پاکستان میں عام انتخابات جدید اور قدیم اقدار کا مرکب ہوتے ہیں۔ پارٹی، نظریات اور منشور کے ساتھ ساتھ برادری، ذات، نسل اور مذہب کا بھی غلغلہ بلند رہتا ہے۔ نومبر میں گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھی یہی کچھ دکھائی دیا۔ پولنگ کے لیے نظریات یا منشور کی بجائے ذات برادری اور مذہب کو اہمیت دی جاتی رہی۔
چند حلقوں میں فرقہ وارانہ جذبات اس قدر بھڑکے کہ دوسرے تمام عوامل پیچھے رہ گئے۔ گلگت ہی کی مثال لیجیے۔ دو حلقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا حال یہ تھا کہ اس چیز کو نظر انداز کرنا کسی بھی امیدوار کے لیے ممکن نہ تھا۔ فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم ہی کا نتیجہ تھا کہ آزاد امیدوار آغا رضی الدین جیت گئے۔ وہ چونکہ شیعہ ہیں اس لیے انہیں شیعوں کی اکثریت کے ووٹ ملے۔ وہ ۱۱۵۴ ؍ووٹوں کی برتری سے جیتے جو گلگت بلتستان میں واضح فرق سمجھا جاتا ہے۔
گلگت میں جماعت اسلامی کے ناظم نظام الدین کا کہنا ہے کہ بہت سے سنی ووٹرز نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا جبکہ آغا رضی الدین شیعہ ووٹرز کو گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشن تک لانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ سب کچھ ۹۰ مساجد اور تنظیموں کے اتحاد انجمن امامیہ کی کاوشوں سے ممکن ہوسکا جس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ شیعوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسے ووٹ دینا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے محمد موسیٰ اور متحدہ قومی موومنٹ کے الطاف حسین میر نے انجمن امامیہ کے اجلاسوں میں شرکت کی تھی اور انہیں اندازہ تھا کہ انجمن کس امیدوار کو سپورٹ کر رہی تھی اور یہ کہ دوسری کسی بھی جماعت کی فتح کے امکانات محدود تھے۔ پولنگ ختم ہونے سے قبل ایم کیو ایم کے امیدوار نے کہا تھا ’’اگر میں جیت جاؤں تو معجزہ کہلائے گا۔‘‘
آغا رضی الدین کی کامیابی آسان نہ تھی۔ ان کے حریف مسلم لیگ (ن) کے جعفر اللہ خان کو تنظیم اہل سنت والجماعت کی حمایت حاصل تھی۔ یہ تنظیم جس کی حمایت کرتی ہے اس کی فتح یقینی ہو جاتی ہے۔ گلگت شہر میں ۶۰ مساجد ہیں جو دیو بندی مسلک سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہر مسجد سے تنظیم اہل سنت والجماعت میں دو نمائندے موجود ہیں۔ ۲۳ اکتوبر کو تنظیم اہل سنت والجماعت کے تحت تمام غیر شیعہ امیدواروں کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ جعفر اللہ خان کو سپورٹ کیا جائے گا۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ق) کے عبد الواحد کے سوا تمام سنی امیدوار دستبردار ہوگئے۔ تنظیم اہل سنت والجماعت کی قوت کا ادراک ہونے کے باعث ہی جعفر اللہ خان اور ان کے حامیوں نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ۱۳ سے ۱۵ نومبر تک جعفر اللہ خان کے حامی مرکزی عدالت کے سامنے جمع ہوکر آغا رضی الدین کے حامیوں پر دھاندلی کے الزامات عائد کرتے رہے۔ تنظیم اہل سنت الجماعت اور مسلم لیگ (ن) کی سپورٹ پاکر انہوں نے ۱۴؍نومبر کو گلگت میں جلسہ منعقد کیا اور ۱۵؍نومبر کو گلگت میں ہڑتال کی کال دی۔ اس دوران رات کو شہر بھر میں فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ ایک مقامی باشندے نے ہیرالڈ کو بتایا کہ شہر میں صورت حال بہت کشیدہ ہے اور فرقہ وارانہ فساد پھوٹ سکتا ہے۔
گلگت I میں تمام شیعہ ووٹرز نے انجمن امامیہ کے مقامی سربراہ دیدار علی کو ووٹ دیے۔ اس علاقے میں سنیوں کی اکثریت ہے اور عام طور پر ووٹ کاسٹ کرتے وقت فرقہ وارانہ وابستگی کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ علاقے کے تمام شیعہ ووٹرز نے صرف دیدار علی کو ووٹ دیے۔
گلگت III میں صورت حال مختلف دکھائی دی۔ اس علاقے میں ۳۵ فیصد آبادی اسماعیلیوں کی ہے۔ ماضی میں وہ پیپلز پارٹی کے حامی رہے ہیں تاہم اس مرتبہ انہوں نے ایم کیو ایم کے اسماعیلی امیدوار ہادی حسین کی حمایت کی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار آفتاب حیدر نے ۲۰۰۴ء میں ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر اسے سپورٹ کیا گیا تو وہ ۲۰۰۹ء میں اسماعیلیوں کے امیدوار کو سپورٹ کرے گا۔ ہادی حسین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے حامیوں نے پیپلز پارٹی پر تاخیری حربے اختیار کرکے کم ووٹ کاسٹ کرانے اور بے قاعدگیوں کے الزامات عائد کیے۔ حلقے کے ۹ پولنگ اسٹیشنز میں دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا گیا تاہم ۱۸؍نومبر کو ۴ پولنگ اسٹیشنز میں دوبارہ پولنگ کرائی گئی۔ ایم کیو ایم نے پولنگ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے احتجاج کیا کہ اس کے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے۔ اس صورت حال نے گلگت میں اسماعیلیوں اور شیعوں کے درمیان غیر معمولی کشیدگی پیدا کردی ہے۔
گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات سے مستقبل میں اس علاقے کو کیا ملے گا یہ کہنا تو مشکل ہے تاہم اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کا گراف ضرور بلند ہوا ہے اور انتخابی نتائج کے حوالے سے اختلافات اور تنازعات نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’ہیرالڈ‘‘ کراچی ۔ دسمبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply