
معاشی نظریہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کسی بھی چیز کو خرچ یا صَرف کر کے کچھ تیار یا پیدا کرنے کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ فوائد سامنے آنے چاہئیں۔ اس نظریے کی رُو سے خسارہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جن شعبوں میں خاطر خواہ منافع حاصل کرنے کی توقع نہ ہو، اُن پر زیادہ سرمایہ کاری نہیں کی جاتی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔ جن شعبوں سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل ہو رہا ہو، اُن پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور یہی سبب ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سب کچھ نفع و نقصان کے تصور کے گرد گھومتا ہے۔ کسی کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کی تگ و دو معاشرے کے لیے کتنے وسیع منفی اثرات پیدا کرے گی۔
یہ نظریہ البتہ امریکا کے معاملے میں زیادہ کارگر دکھائی نہیں دیتا، جہاں تمام لاگتوں کو سماجی حیثیت دے دی گئی ہے اور سرمایہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہوکر رہ گیا ہے۔ فیڈرل ریزرو نے اُن بڑے مالیاتی اداروں کو زیادہ نوازا ہے، جو اتنے بڑے ہیں کہ ان کے ناکام ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔ تمام معاشی اور مالیاتی امور کی نگرانی چند مالیاتی اداروں کو تھما دی گئی ہے۔ سبسڈی پانے والے یہ ادارے فرانس، برطانیہ اور سابق سوویت ریاستوں کے اُن بینکوں سے مختلف نہیں جنہوں نے بہت سے ناکام مالیاتی اور صنعتی اداروں کو ’’سماجیانے‘‘ کا عمل مکمل کر لیا ہے، یعنی ان ناکام اداروں کی نااہلی اور لالچ کی قیمت عوام سے وصول کی جارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فرانس اور برطانیہ کے مالیاتی ادارے کبھی اِتنے نااہل نہ تھے، ان کی خراب کارکردگی سے قومی معیشت کے لیے کبھی کوئی بڑا خطرہ پیدا نہیں ہوا۔ دنیا کی بات تو خیر جانے ہی دیجیے۔ امریکا میں جو کچھ ہوا ہے، وہ اس کے برعکس ہے۔ ان ممالک کو چند نااہل، کرپٹ اور ناکام ادارے بچانے کے لیے کبھی سالانہ ہزار ارب ڈالر کے مساوی کرنسی نوٹ چھاپنے پر مجبور نہیں ہونا پڑا۔
آزاد منڈی کی معیشت ہی میں ایسا ہوتا ہے کہ کرپٹ امریکی سپریم کورٹ کی مدد سے چند مالیاتی ادارے حکومت ہی کو خرید لیتے ہیں۔ حکومت حقیقی معنوں میں عوام کی نہیں بلکہ ان کرپٹ اداروں کی نمائندہ ہے۔ حکومت کی آمدنی پیدا کرنے کی صلاحیت اور ٹیکسیشن نظام چند مالیاتی اداروں کے لیے مختص ہوکر رہ گئی ہے۔ صرف اِن اداروں کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس معاملے میں پورے ملک کے مفاد کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔ اسی بنیاد پر تو کہا جاتا ہے کہ آزاد منڈی اپنے لیے راستے کا انتخاب خود کرتی ہے اور اپنے معاملات خود کنٹرول کرتی ہے۔
کئی سال قبل رالف گومری نے مجھے خبردار کیا تھا کہ امریکا میں افرادی قوت کو جو نقصان Offshoring سے پہنچ رہا ہے، اس سے کہیں زیادہ نقصان معیشت کو روبوٹک بنانے سے پیدا ہوگا۔ ٹیکنالوجیکل پیٹنٹس چند ہاتھوں میں ہیں۔ اس کے نتیجے میں ٹیکنالوجی بھی چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ چند انتہائی بااثر ادارے روبوٹس کو زیادہ سے زیادہ انسانی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ انسانوں کے لیے ملازمت کے مواقع گھٹتے جائیں گے اور بالآخر ان کے لیے امکانات انتہائی مایوس کن ہو جائیں گے۔
رالف گومری کے الفاظ مجھے اس لیے یاد آئے کہ ۱۵؍فروری ۲۰۱۴ء کو ایک رپورٹ سامنے آئی کہ بہت سی ایسی گشتی مشینیں تیار کی گئی ہیں، جو دیمک کی طرح خود کو ریگولیٹ کرتے ہوئے کام کرتی ہیں اور انہیں کام کے حوالے سے کسی بھی انسان سے کوئی ہدایت لینی نہیں پڑتی۔ کسی کو اندازہ نہیں کہ اس عمل سے نقصان کتنا ہوگا۔ متعلقہ تحقیقی ادارے دعویٰ کرتے ہیں کہ گشتی مشینوں سے زیادہ سے زیادہ کام کم سے کم ہدایات کے تحت کیے جاسکیں گے، مگر ساتھ ہی ماہرین نے اس امر کے اعتراف میں بھی بخل کا مظاہرہ نہیں کیا کہ یہ مشینیں کسی بھی کام کو عمدگی سے کر تو لیتی ہیں مگر دوسروں کو سکھانے اور ایڈجسٹمنٹ کی صلاحیت سے بہت حد تک عاری ہیں اور متعلقہ نقصان پر قابو پانے کی صلاحیت سے بھی متصف نہیں۔ یہ مشینیں بعض انتہائی مشکل مقامات پر اور بالخصوص خلا میں انسان کی بے حد خدمت کریں گی، مگر ان کے وجود سے انسانی ماحول کو کس حد تک سماجی اور معاشی نقصان پہنچے گا، اس کا کسی کو اندازہ نہیں؟ یا یہ کہ صرفِ نظر کو پالیسی بنا لیا گیا ہے؟
آج کی دنیا یہ ثابت کر رہی ہے کہ ساری دنیا کے معاشی اور مالیاتی معاملات چند انتہائی طاقتور اور اس سے بڑھ کر لالچی اداروں کے ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئے ہیں۔ پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ لالچی ادارے کسی بھی ٹیکنالوجی کو کبھی انسانوں کے لیے زیادہ سودمند ثابت نہیں ہونے دیں گے۔ جب بہت سے کام، بلکہ بیشتر کام روبوٹ کریں گے تو انسانوں کی ضرورت کم سے کم ہوتی جائے گی۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب انسانوں پر مشینیں ہی حکومت کریں گی۔ درحقیقت سرمایہ دار یہی چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بیشتر کام مشینیں کیا کریں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ آبادی کم سے کم ہو۔ یعنی سرمایہ دارانہ نظام کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ زمین پر انسانوں کا بوجھ کم سے کم رکھا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مشینیں ان کے احکامات کی تابع ہوں اور زندگی پرسکون گزرے۔ اگر یہ منظرنامہ سائنس فکشن سے تعلق نہیں رکھتا تو پھر ہمیں آگے بڑھ کر اسے حقیقت میں تبدیل ہونے سے روکنا چاہیے۔
ہارورڈ یونیورسٹی اور دوسرے بہت سے اداروں کے ٹیکنالوجسٹس اپنی کامیابی پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ اس میں حیرت کی بات کیا ہے۔ غیرمعمولی کامیابی پر غیرمعمولی مسرت ہوا ہی کرتی ہے۔ مین ہیٹن پروجیکٹ سے وابستہ ماہرین بھی ایٹم بم بنا کر اپنی کامیابی پر پھولے نہیں سمائے تھے، مگر جب انہوں نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے جانے سے ہونے والی تباہی دیکھی تھی، کیا تب بھی اِتنے ہی خوش ہوئے ہوں گے؟ ہارورڈ یونیورسٹی کے ٹیکنالوجسٹس جو کچھ کر رہے ہیں، وہ انسانیت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہ ماہرین انسانیت کے دشمن ثابت ہوں گے۔
جو لوگ معیشت میں ٹیکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی وکالت کرتے ہیں، وہ دراصل معاشرے میں کسی بھی حقیقی تبدیلی اور عمومی فلاح کے مخالف ہیں اور چند انتہائی لالچی اداروں کے مفادات کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ معیشت کے تقریباً تمام ہی شعبے ٹیکنالوجی کے تابع ہو جائیں۔ اس صورت میں سرمایہ داروں کے مفادات کا زیادہ سے زیادہ تحفظ ممکن ہو سکے گا۔
معیشت کو زیادہ سے زیادہ مشینی بنانے والوں نے ایک بنیادی حقیقت کو نظرانداز کردیا تھا۔ جب صارف ہی نہیں ہوں گے تو صارف معاشرہ کیسے چل سکے گا؟ امریکا کی بہت سی ملازمتیں بیرونِ ملک منتقل کرنے والوں کو اب اس بات کا بخوبی اندازہ ہو رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ معیشت کے ہر شعبے کو مشینوں کے حوالے کرنے کے نتیجے میں بیروزگاری پیدا ہوگی اور بیروزگاری ہوگی تو زیادہ سے زیادہ صَرف کے رجحان کو پروان چڑھانا یا برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوگا۔ جب لوگوں کی جیب میں کچھ ہوگا ہی نہیں تو خرچ کیسے کریں گے؟ اس حقیقت کو اب معاشی امور کے ماہرین نے شدت سے محسوس کرنا شروع کردیا ہے۔ معیشت سے انسانی پہلو نکال دیا جائے تو خرابی بڑھے گی، گھٹے گی نہیں۔ سیاست دان کہتے ہیں کہ لوگوں کو حکومت کی طرف سے امداد نہیں ملنی چاہیے۔ وہ بیروزگاری الاؤنس کے بھی خلاف ہیں مگر اس نوعیت کے اقدامات سے یعنی لوگوں کو حکومت کی طرف سے امداد سے محروم رکھے جانے کی صورت میں مارکیٹ کمزور پڑے گی۔ صَرف کا رجحان گھٹے گا تو درآمدات کی کَھپَت نہیں ہوسکے گی۔ لازم ہے کہ لوگوں کے پاس کچھ نہ کچھ ہو، تاکہ وہ بہتر انداز سے زیادہ سے زیادہ خریداری کر کے اپنا معیارِ زندگی برقرار رکھ سکیں۔
زیادہ سے زیادہ منافع کے لالچ میں بڑے کاروباری اور مالیاتی ادارے لاگت گھٹانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کوشش میں وہ خرابیوں کو جنم دے رہے ہیں۔ لاگت گھٹانے کی کوششیں معیشت میں شدید عدم توازن پیدا کر رہی ہیں۔ ایڈم اسمتھ کے بیان کردہ اصولوں کو غلط ثابت کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات ایسی صورت حال کو جنم دے رہے ہیں جو آگے چل کر غیرمعمولی مشکلات پیدا کریں گے۔ ایسی مشکلات جن پر قابو پانا تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ ہر معاشی سرگرمی کا بنیادی مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے مگر صرف مفادات کی چوکھٹ پر پورے معاشرے کو قربان نہیں کیا جاسکتا۔ عالمگیر سرمایہ دارانہ نظام نے انسانیت کا درد مزید کم کر دیا ہے۔ سرمایہ دار چاہتے ہیں کہ ان کا منافع راتوں رات کئی گنا ہو جائے۔ اس کے لیے مارکیٹ پر اثرانداز ہوکر اپنی مرضی کے حالات پیدا کرنے پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔ یہ عمل آسانیاں تو کیا پیدا کرے گا، مشکلات البتہ دوچند کر دیتا ہے۔ سرمایہ داروں کو اس بات سے اب بظاہر کچھ غرض نہیں کہ ان کی سرگرمیوں سے ملک اور معاشرے کا کیا ہوگا۔ ایک زمانہ تھا جب ہنری فورڈ جیسے سرمایہ دار کسی بھی معاملے میں آگے بڑھنے سے قبل معاشرے کے مفادات کو بھی ذہن نشین رکھا کرتے تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ منافع یقینی بنانے کی کوشش بہت کچھ، بلکہ سب کچھ داؤ پر لگا دے گی۔ وہ معاشرے کو داؤ پر لگانے سے گریز کیا کرتے تھے۔
عالمگیر سرمایہ دارانہ نظام نے صرف لالچ کو جنم دیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ لالچ کو ایک طرف ہٹا کر انسانیت کی بات کی جائے۔ انسانوں کا مفاد زمین پر پائی جانے والی کسی بھی دوسری چیز سے مقدم رکھنا ناگزیر ہے۔ انسان ہوں گے تو یہ دنیا قائم رہے گی۔ مشینی معیشت کو جنم دے کر انسانوں کی دنیا میں اس کی کامیابی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ عالمگیر سرمایہ دارانہ نظام کے سیاہ و سفید کے مالکان کو اس نکتے پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ لالچ کا عنصر سب کچھ تباہ کر رہا ہے۔ پانی سر سے گزرے، اِس سے قبل ہی چند اہم فیصلے ہونے چاہئیں جو انسانیت کے مفاد میں ہوں۔
(“Global Capitalism has written off the human race”.. “informationclearinghouse.info”. Feb. 18, 2014)
Leave a Reply