انٹرنیٹ کے عالمی کنٹرول پر تنازع

انٹرنیٹ کے کنٹرول کے معاملے کو لے کر امریکا کا دنیا کے کئی دیگر ملکوں کے ساتھ تنازعہ چل رہا ہے۔ چین‘ برازیل اور ایران جیسے ممالک اس بات کے حق میں نہیں ہیں کہ دنیا کا سپر پاور عالمی کمپیوٹر نیٹ ورک کے نظام کا واحد نگراں ہو اور دُنیا بھر کے کمپیوٹر ٹریفک کو کنٹرول کرے۔ ان ممالک کی تجویز ہے کہ یہ کردار ایک بین الاقوامی ادارہ کو دیا جانا چاہئے جو خاص اس مقصد سے قائم کیا گیا ہو۔ امریکا کا اس تجویز پر اعتراض یہ ہے کہ اس طرح کا کوئی ادارہ کمپیوٹر کی دنیا میں روز بروز نت نئی پیش رفت کی رفتار کو سست کردینے کا موجب بنے گا۔ کمپیوٹر کی دنیا کے کاروباریوں کو کسی بھی نئے سروسز مثلا ًInternet Telephony کو متعارف کرانے کے لے اس مجوزہ عالمی ادارے کی بیورو کریسی سے اجازت لینی پڑے گی۔ امریکا کے اسسٹنٹ کامرس سیکریٹری Michael Gallaghar جو Domain- name system کی نگرانی پر مامور ہیں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ادارے کو نگرانی سپرد کرنے کا مطلب گویا ایک بس کو سو سے زائد ڈرائیوروں کے حوالے کرنا ہے۔ ابھی جبکہ ایک ہی ڈرائیور بس کو چلا رہا ہے اور اچھی طرح چلا رہا ہے۔ زیادہ تر بزنس اور ٹیکنیکل برادریاں جو انٹرنیٹ سسٹم چلا رہی ہیں Gallaghar کے خیال سے متفق ہیں لیکن متفقین کو کنارہ کردیا جائے گا اور امریکا تیونس میں آئندہ ہفتے انفارمیشن سوسائٹی پر منعقد ہونے والی کانفرنس میں دوسرے ملکوں سے اپنے بہت کم حمایتی حاصل کرسکے گا۔’’مواد کے لحاظ سے موجودہ اسٹرکچر میں کوئی خامی نہیں ہے۔ لیکن اصولاً اس میں قباحت ہے کہ ایک ایسا نظام جو عالمی اثرات کا حامل ہو وہ صرف ایک ملک کے کنٹرول میں ہو۔ امریکا کی یکطرفہ سوچ کے خلاف ایک تیکھا موقف پایا جاتا ہے‘‘۔ یہ الفاظ معاشی امور کے ڈَچ وزیر Laurens Jan Brickhorst کے ہیں جو انہوں نے ایک انٹرویو میں کہے۔ اگر یہ مسئلہ حل نہ کیا گیا تو تنازعہ پھر یہاں تک جائے گا کہ Domain- name System میں اختلاف ہوگا جس کے نتیجے میں یہ ضروری نہیں ہوگا کہ انٹرنیٹ Users ایک مخصوص ویب سائٹ ایڈریس ٹائپ کرکے اپنی مقصود سائٹ تک پہنچ سکیں۔ مثلاً ضروری نہیں ہوگا کہ www.reuters.com ٹائپ کرنے کے بعد رائٹر کی ویب سائٹ پر پہنچا جاسکے۔ اس لئے کہ اس نام کی کسی دوسرے کی ویب سائٹ بھی ہوسکتی ہے ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح کی تجویز ناممکن العمل ہے کیونکہ مجوزہ انتظام اس متفقہ علیہ نظام کو جس پر انٹرنیٹ کی پوری عمارت کھڑی ہے کو تہ و بالا کرکے رکھ دے گا۔ لیکن بعض گروہ کی یہ بھی رائے ہے کہ اقوام متحدہ کے زیر تحت یہ نظام بہتر طو رپر چل سکے گا۔ امریکی وفد کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یہ تنازعہ بنیادی مسئلے سے توجہ کو منحرف کررہا ہے اور بنیادی موضوع یہ ہے کہ کس طرح ترقی پذیر دنیا میں مزید ترقی یافتہ نظام مواصلات کو متعارف کرایا جائے۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ سرچ انجنز بتدریج Domain-name system کو بے محل بنارہے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر Jonathan Zittrain کا کہنا ہے کہ یہ ایک فضول بحث ہے اس لیے کہ اگر آپ IBM کو ibm.com پر نہیں پاتے ہیں تو آپ کیا کریں گے؟ آپ گوگل پر جائیں گے وہاں IBM موجود ہوگا ۔ تنازعہ ایک سادہ سی فہرست کے اطراف میں گردش کررہا ہے جو دنیا کے لاکھوں Domain Servers میں محفوظ ہے۔ اس فہرست کو “root zone file” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ انٹرنیٹ کے ’’اعلیٰ سطحی‘‘ ۲۵۹ Domains یعنی Domain name کا وہ حصہ جو آخری ڈاٹ کے بعد آتا ہے مثلاً “.com”‘ “.org” یا “.uk” کے لیے ماسٹر ٹیلی فون بُک کا کام کرتا ہے یہ فہرست اسی وقت تبدیل ہوتی ہے جب کیلی فورنیا کا non-profit ادارہ جسے Internet Corporation for Assigned Names & Numbers (ICANN) کہا جاتا ہے نئے اعلیٰ سطحی Domains کو منظور کرے یا پہلے سے موجود کو نیا Location دے۔ ICANN بھی کوئی تبدیلی امریکی وزارت کامرس کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتا ۔ بعض ممالک کو یہ تشویش ہے کہ امریکا اس نظام کو موثر طریقے سے کسی ملک کو انٹرنیٹ پر بے نقاب کرنے کے لئے استعمال کرسکتا ہے اس طرح کہ اس کے Country Code کا رخ بدل دے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا دشوار ہے اس لیے کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ پوری دنیا میں لاکھوں کمپیوٹر ایڈمنسٹریٹرز اس مقصد کے لئے باہمی مفاہمت و تعاون کریں۔

(بشکریہ: ’’ڈیلی گلف نیوز‘‘۔ دبئی۔ ۱۲نومبر۲۰۰۵)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*