حالیہ عالمی اقتصادی بحران پر قلم اٹھانے والے اکثر حضرات تو کجا مسلم تجزیہ نگار تک اِسے ایک ’وقتی‘ مرحلہ تصور کرتے ہیں۔ یہ سطحیت پسندی کی بین دلیل ہے۔ اس مرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کے لیے دو سے تین ٹریلین ڈالر اقتصادِ عالم میں انجیکٹ کیے جاچکے ہیں مگر مریض، مرض اور اطباء سب ہَلْ مِنْ مَزید؟ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ یہ مرض کی علامتوں کو بذاتِ خود مرض سمجھ لیا گیا ہے۔ اس لیے بلینوں پر بلین جھونکے جارہے ہیں مگر نتیجہ عافیتِ مریض کی شکل میں ظاہر نہیں ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ بحران ان کے مالی اور اقتصادی خزانوں کو دیمک سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ چاٹ جائے گا۔ اس کو ہم عذابِ الٰہی کے علاوہ کچھ اور نہیں کہہ سکتے ہیں۔
اس سسکتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کی شکست و ریخت کے اسباب کو سمجھنے کے لیے ہمیں خشت اول سے غور و فکر، تجزیے اور تحلیل کا آغاز کرنا ہوگا۔ ’علم اقتصاد وہ علم ہے‘ جس میں خواہشاتِ انسانی کو زیادہ سے زیادہ تسکین پہنچانے کے ذرائع و وسائل پر بحث کی جاتی ہے۔ یہ دراصل ڈارون کے نظریے کی اقتصادی زبان میں تعبیر ہے کہ انسان کی ’حیوانی خواہشات‘ کی زیادہ سے زیادہ تسکین کی جانی چاہیے۔ کیونکہ حیوان ہونے کی وجہ سے وہ کسی اخلاقی ضابطے اور حرام و حلال کا پابند نہیں ہے اور نہ اسے دوبارہ زندہ ہو کر حساب کتاب دینا ہے۔ اُسے یا تو جنت میں پرلطف زندگی بسر کرنا ہے، یا آگ کا ایندھن بننا ہے۔ اس لیے اسے چاہیے کہ وہ اپنی ساری فکری صلاحیتوں اور اوقات کو زیادہ سے زیادہ چرنے، چگنے اور حرام و حلال کی فکر کیے بغیر ادھر ادھر سانڈوں کی طرح منہ مارنے پر صَرف کرے۔
ان حیوانی خواہشات کی زیادہ سے زیادہ یا کم سے کم عرصے میں تسکین کی خاطر انہوں نے سود سے قرض لے کر اپنی پسندیدہ اور مرغوب چیزوں کو خریدنے کو جہاں بالکل جائز بلکہ ناگزیر قرار دیا وہیں اصل صنعت و تجارت کو قرض پر سود لے کر نئی چیزیں پیدا کر کے بازاروں میں لانے اور لوگوں کو ان سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرنے پر ابھارا اور کہاکہ ہم تم کو سود پر قرض دیں گے تاکہ تم ان سے صنعتوں کو قائم رکھو، اپنی مصنوعات کی ننگی تصویروں کے ذریعے ترویج کر سکو، خوب فروخت کر سکو، بہت نفع کما سکو اور لطف اٹھا سکو۔
یوں وہ مصنوعات پیدا کرنے والوں اور ان کو استعمال کرنے والوں (صارفین) دونوں کو سود کے نام پر سود کے ذریعے میدان میں لے آئے اور عالمی پیمانے پر وہ ہمہ ہمی اور دھوم دھام اور چلت پھرت پیدا کی کہ عوام اور خواص دونوں کی آنکھیں چوندھیا گئیں اور سب کے سب آمدنی میں مسلسل اضافے اور بڑھتی خواہشوں کو پورا کرنے کے جنون کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں لگ گئے۔
لیکن اس سودی کاروبار میں ملوث افراد اور اداروں کے پاس مالی وسائل کی کمی تھی تو انہوں نے صارفین کو یہ لالچ دیا کہ تم لائو اپنی رقوم اور رکھائو ہمارے پاس ایک خاص مدت کے لیے اور اس کے مقابلے میں لو مختلف شرح سود اور یاد رکھو رقم جتنی بڑی ہوگی اور لمبی مدت کے لیے جمع کرائی جائے گی، شرح سود کی مقدار اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ تم اپنی دولت ہمارے حوالے کر کے مزے سے کمروں میں سوتے رہو، ہم ان کو مختلف قسم کے کاروبار میں لگا کر تمہیں سود کی رقم اصل کے علاوہ ہر سال بلکہ ہر ماہ دیتے رہیں گے۔ آپ کو اس سے زیادہ اور کیا چاہیے۔ یہ بات تو اہل زر اور مالداروں سے کہی گئی۔ صارفین کی طرف منہ کر کے انہوں نے کہا کہ تمہارے ہاتھوں میں کریڈٹ کارڈ کے نام پر اور ان کے ذریعے ’’نقد رقم‘‘ قرض پر دیتے ہیں۔ آئو، کارڈ حاصل کرو اور بازار میں کود پڑو اور اپنی قرض کی حد (Credit Limit) تک خوب خریداری کرو۔ اگر ایک کارڈ سے تمہاری خواہشات پوری نہ ہوتی ہوں تو کئی بینکوں سے کریڈٹ کارڈ حاصل کر کے مجموعی قیمت قرض (Total Credit Value) میں اضافہ کرو اور خوب موج اڑائو۔ کاریں خریدو، مکانات خریدو اور عیش و عشرت کی اشیاء دھڑا دھڑ خریدتے ہی جائو۔ اگر قرض ادا کرنے کی قدرت نہ ہو تو صرف سود ہی ادا کرتے رہو اور اگر سود ادا کرنے کی استطاعت نہ ہو تو صرف سود کو ادا کرنے کے لیے مزید قرض لو اور سود کے قرض اور اصلی قرض دونوں کے مجموعے پر سود در سود (Compound Interest) ادا کرتے رہو۔ یاد رکھو، یہ چکر اس وقت تک جاری رکھو جب تک تم کو موت کے بے رحم پنجے اپنی گرفت میں نہ لے لیں اور تمہارے کفن دفن کے لیے بھی کریڈٹ کارڈ ہی سے انتظام کیوں نہ کرنا پڑے۔ اس طرح قرض کی لعنت کو سود کی لعنت در لعنت کے ساتھ اپنی قبر میں لے جائو۔
حکومتوں اور معاشروں کی طرف پلٹ کر انہوں نے کہا کہ IMF اور ورلڈ بینک اور علاقائی بینکوں، عالمی بینکوں اور سرمایہ دار ملکوں کی حکومتیں تمہیں ہر قسم کے اور ہر نام پر قرض دیتی ہی جائیں گی۔ اگر تم میں قرض ادا کرنے کی طاقت نہ ہو تو پھر سود ہی ادا کرو جس کے لیے ہم ایک نیا قرض تمہیں دیں گے۔ اپنے ملکوں اور معاشروں کی قسمتوں کو ہمارے پاس رہن رکھ دو اور اس رہن کو چھڑانے کی قطعاً کوئی فکر نہ کرو، ہم سب کچھ دیکھ لیں گے اور سنبھال لیں گے۔
ان خواہشوں کی تسکین کی دوڑ کا انجام یہ ہوا کہ ہر آدمی اور ہر حکومت کو قرض لینے کی چاٹ پڑ گئی۔ یوں بھی مغربی حکومتیں اپنے بجٹ کے اخراجات کو اس وقت تک قرض کے ذریعے پورا کرتی رہتی ہیں۔ وزارت خزانہ کے ذریعے جب تک کہ ٹیکسوں کی آمدنی خزانوں میں داخل نہ ہو جائے، یہ عادت صدیوں سے ان حکومتوں اور معاشروں کی زندگیوں کا جز بنی رہی ہے۔ اس لیے ہر قوم اور ہر معاشرہ قومی قرض کے ناقابل برداشت بوجھ تلے سسک رہا تھا۔ اس پر انہوں نے اکتفا نہیں کیا، بلکہ دنیا پر اپنا قبضہ مضبوط کرنے کے لیے جنگوں کا ایک سلسلہ شروع کیا، جس کے لیے انہوں نے ان قومی قرضوں کے دروازے چوپٹ کھول دیے جو پہلے ہی سے آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ یہ ان اخراجات سے نمٹنے کے لیے ضروری تھا جو آج کل کی مہلک ہتھیاروں والی جنگیں طلب کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے مالی اور اقتصادی نظاموںکو گھن کی طرح کھا جانے والے وہ فلاحی پروگرام ہیں جو وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے بڑے بڑے ہاتھیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں جو صرف چارہ کھانا ہی جانتے ہیں۔ ان پروگراموں میں بے روزگاروں کی مالی امداد کا پروگرام بھی ہے جس میں معتدبہ تعداد ایسے مستفیدین کی ہے جنہوں نے اس کو ایک ’’دائمی پنشن‘‘ میں بدل دیا ہے۔ یہی اب ان کی اکیلی ماہانہ آمدنی رہ گئی ہے۔ بعض خاندانوں کے دو تین افراد بے روزگاری کی پنشن کے ذریعے خاندانی اخراجات کو پورا کر رہے ہیں۔
فلاحی پروگراموں میں سے ایک علاج کا پروگرام ہے جس کے ذریعے دواخانوں، ڈاکٹروں اور دواساز کمپنیوں نے کچھ ایسی ملی بھگت تیار کر لی ہے، جو لوٹ کھسوٹ کے ذریعے اپنے خزانے بے تحاشا بھر رہے ہیں۔ ان میں ایک پروگرام بڑھاپے کی پنشنوں اور ضعیفوں کی دیکھ بھال کا پروگرام ہے۔ یہ سفید ہاتھی اربوں ڈالروں سے کم غذا پر راضی نہیں ہوتا ہے۔ آپ اسی پر دیگر نام نہاد فلاحی پروگراموں کو قیاس کر سکتے ہیں۔ ان مجموعی عوامل کا مجموعی نتیجہ یہ نکلا کہ ’’استحقاق قرض کا تعین‘‘ کرنے والی مشہور امریکی ایجنسی Standard & Poor (S&P) نے ۲۱ مئی ۲۰۰۵ء کو اس خدشے کا اظہار کیا کہ برطانیہ کے ’قومی استحقاق قرض‘ کے درجے کو گھٹایا جاسکتا ہے۔ یعنی تین AAA کے بجائے دو AA تک اسے اتارا جاسکتا ہے۔ یہی کچھ حال امریکا کے ’قومی استحقاق قرض‘ کا بھی ہے۔ اس کے بارے میں S&P نے اپنے ’قلق‘ کا اظہار کیا ہے، لیکن ایک اور امریکن استحقاق قرض کا تعین کرنے والی ایجنسی مودی (Moody) نے کہا کہ ’’فی الحال امریکا کے تین AAA میں کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر، اس کی دائمی ضمانت نہیں دی جاسکتی‘‘۔ یہ رائے S&P کی رائے کے مقابلے زیادہ نرم ہے مگر اس میں بھی وہ اندیشہ موجود ہے جس کو S&P نے زیادہ قوت سے ظاہر کیا ہے۔
معاملہ کچھ بھی ہو میں اپنے محدود علم اور تجربے کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بہت جلد یہ اندیشے تلخ اور حلق سے نیچے نہ اترنے والے حقائق بن جائیں گے، جب نئے بجٹ برطانیہ اور امریکا میں پیش کیے جائیں اور اس سال کے قرضہ جات اپنے نوکیلے سینگوں سے بجٹ پیش کرنے والوں کو وحشی سانڈوں کی طرح میدانِ کارزار سے باہر پھینک کر برطانیہ اور امریکا کے مفلس ہو جانے یا افلاس کے دھانے پر پہنچ جانے کا اعلان کرنے پر مجبور کریں گے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جب تک اقتصاد اور علم اقتصاد کی تعریف نہیں بدلے گی اور اس پر مبنی نیا اقتصادی اور مالی نظام وجود پذیر نہیں ہوگا، اس وقت تک اس کے مہلک نتائج سے آنکھیں بند نہیں کی جاسکتی ہیں۔ اس کے بعد مسئلہ صرف وقت کا رہ جاتا ہے جس کے آنے میں سال دو سال کا فرق واقع ہو سکتا ہے مگر اس کی آمد میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگیٔ نو‘‘ نئی دہلی، بھارت۔ جولائی ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply