
بعض اوقات کسی بات کو سمجھانے کے لیے کسی شعر کا سہارا لینا پڑتا ہے اور کبھی کسی تمثیل کا یا پھر کسی کہانی کا۔۔۔ آج کے اس غمزدہ انسان کو کچھ سمجھانے کے لیے ہم ایک لطیفے کا سہارا لے رہے ہیں۔
ویسے بھی لطیفوں کی کئی اقسام ہیں۔۔۔ گھریلو لطیفہ، دفتری لطیفہ، شکایتی لطیفہ، سیاسی لطیفہ، حکایتی لطیفہ وغیرہ وغیرہ۔ مگر اس میں سب سے بہتر قسم ’’حکایتی لطیفہ‘‘ کی ہے۔ وہ اس لیے کہ اس میں ہنسی کے سامان کے ساتھ ساتھ غم کا کوئی پہلو بھی ہوتا ہے بلکہ زندگی کے لیے کوئی پیغام بھی اس میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ’’عالمی مالیاتی سونامی‘‘ یا ’’عالمی مالیاتی بحران‘‘ یا (Global Financial Crisis) جیسے خشک موضوع کو تر بلکہ لذیذ تر کرنے کے لیے ہمیں کسی لطیفے کا ’’تڑکا‘‘ لگانا ہو گا۔
اس لطیفے کو پڑھ کر آپ کو رونا آئے تو آپ ’’رقیق القلب‘‘ ہوں گے۔ اگر ہنسی آئے تو آپ ’’شقی القلب‘‘ اور اگر دونوں آئیں تو ’’وسیع القلب‘‘ جو کہ معتدل ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ اور یہی اسلام کا ’’مومنِ مطلوب‘‘ ہے۔ یہ ہے اس حکایتی لطیفے کی ایک اضافی خصوصیت کہ لوگوں کو Classify کرنے کے کام بھی آتا ہے۔ دیکھتے ہیں، آپ کا تعلق کس “Class” سے ہے۔
لطیفہ:
ایک امیر شخص اپنی شاندار سی گاڑی میں بیٹھ کر کہیں جا رہا تھا۔ راستے میں اس نے ایک دلدوز منظر دیکھا کہ جس نے اس کا دل ہلا دیا۔ اس نے دیکھا کہ فٹ پاتھ پر بیٹھا ایک آدمی فٹ پاتھ پر لگی گھاس کھا رہا ہے۔ اس نے فوراً ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا کہا۔ ڈرائیور نے گاڑی روکی، دروازہ کھولا اور امیر شخص گاڑی سے اترا۔ اس نے آدمی سے پوچھا کہ ’’یہ کیا کر رہے ہو!‘‘ اس غریب آدمی نے کہا ’’دو دن سے بھوکا ہوں۔ میرے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں، مجبوراً گھاس کھا رہا ہوں‘‘۔ امیر شخص نے ایک آہ بھری اور اس سے کہا ’’تم میرے ساتھ میرے گھر چلو‘‘۔ غریب آدمی کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس نے التجائیہ لہجہ میں کہا ’’میرے ساتھ میری بیوی اور تین بچے بھی ہیں‘‘۔ امیر شخص نے کہا ’’کوئی بات نہیں ان کو بھی ساتھ لے لو‘‘۔ اس آدمی کا پورا خاندان امیر شخص کی گاڑی میں بیٹھ کر اس کے گھر روانہ ہو گیا۔ امیر شخص اس غریب آدمی اور اس کے خاندان کو لے کر اپنی وسیع و عریض کوٹھی کے لان میں آ گیا اور لان کے سبزہ زار کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا، ’’میرے لان کی گھاس ایک ایک فٹ تک بڑھ گئی ہے تم چاہو تو یہ ’اضافی‘ گھاس کھا سکتے ہو۔ تمہارا مسئلہ کسی حد تک حل ہو جائے گا‘‘۔ ۔۔ اور غریب آدمی اس امیر شخص کا منہ تکتا رہ گیا!!
اطلاق:
ہمیں سمجھ نہیں آ رہا کہ اس لطیفے پر ہنسیں کہ روئیں؟ ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ سکتے ہیں اور روتے روتے ہچکی بندھ سکتی ہے، دونوں صورتوں میں پیٹ پر زور پڑے گا۔ چنانچہ پیٹ پر زور ڈالنے کی بجائے ذہن پر زور ڈالنا چاہیے تاکہ کچھ فائدہ بھی ہو۔ اس لطیفے کی حکایت یہ کہتی ہے جب کسی امیر شخص کو کسی غریب شخص کی مدد کا درد اٹھتا ہے تو اس میں خود اس کا کوئی مفاد پوشیدہ ہوتا ہے۔ (ہم تمام امیروں کی بات نہیں کر رہے) بات کو واضح کرنے اور ایک اصول وضع کرنے کے لیے ہم یوں کہہ سکتے ہیں ’’استحصالی طبقہ اگر کبھی کسی مظلوم کی مدد کرتا ہے تو حقیقتاً وہ اپنی ہی مدد کر رہا ہوتا ہے‘‘۔
یہی کام امریکا اور اس کے حواریوں نے غریب ممالک کو اپنا غلام بنانے کے لیے قرضے دے کر کیا۔ ان لوگوں نے اپنی دولت کی Surplus Amount کے لیے نہ صرف محفوظ تجوری تلاش کر لی بلکہ عمر بھر کا سود بھی اپنے نام کر لیا۔ فائدہ کا فائدہ، احسان کا احسان، یعنی آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔
عالمی سونامی:
اس وقت دنیا جس مالیاتی بحران سے گزر رہی ہے اسے ’’سونامی‘‘ سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ ایک سونامی انڈونیشیا کے جزیروں سے نکلا تھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے آس پاس کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا لیکن موجودہ سونامی کئی وجوہات کی بناء پر زیادہ خطرناک ہے۔
۱۔ اول یہ کہ یہ ’’پیسہ‘‘ کا بحران ہے۔
جس طرح پانی کم ہو تو انسان پانی کو نگل کر اپنی پیاس بجھا سکتا ہے اور اگر زیادہ ہو تو اس میں ڈوب سکتا ہے۔ اسی طرح پیسہ جیب میں ہو تو آدمی کا غلام ہوتا ہے اور دماغ میں ہو تو آدمی خود اس کا غلام۔
۲۔ دوئم یہ کہ اس کا مرکز بلکہ مصدر ’’امریکا‘‘ ہے۔
امریکا سے نکلنے والی ہر چیز یا تو فیشن بن جاتی ہے یا پھر لوگ خوف کے مارے اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
۳۔ سوئم یہ کہ پوری دنیا شروع ہی سے اس کی لپیٹ میں آچکی ہے۔ یعنی یہ طوفان نہیں بلکہ زلزلے کی ایک قسم لگتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے غریب ممالک میں مالیاتی بحران ہمیشہ سے رہا ہے لیکن پہلی مرتبہ اس بحران نے امیر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ چنانچہ لفظ ’عالمی‘ پہلی مرتبہ بطورِ سابقہ لگایا گیا ہے۔ ویسے بھی ’دنیا‘ غالباً بلکہ حقیقتاً ’امیر ممالک‘ کو ہی سمجھا جاتا ہے Third World یا تیسری دنیا تو ہمارا دل رکھنے کے لیے کہا جاتا ہے۔
دوسرا پہلو اس بحران کا یہ کہ کتا آدمی کو کاٹ لے تو خبر نہیں بنتی، ہاں اگر آدمی کتے کو کاٹ لے تو خبر فوراً بن جاتی ہے۔ اس لیے امیر ممالک دولت کے بحران کا شکار ہو جائیں تو ہمارے خیال میں خبر یقینا بننی چاہیے بلکہ لگنی چاہیے اور اس کا چرچا بھی ہونا چاہیے کیونکہ ویسے بھی ہم غریب ممالک پر الزام ہے کہ:
ہم آہ بھی بھرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
تو ہم کہہ رہے تھے کہ دنیا اس وقت شدید مالیاتی بحران سے گزر رہی ہے۔ دنیا بھر کے بازار شدید مندی کا شکار ہیں۔ عالمی اسٹاک مارکیٹیں کریش ہو چکی ہیں یا ہونے والی ہیں۔ ان کی حکومتیں ان کو قرضوں کے انجکشن لگا لگا کر بچانے کی سر توڑ کوششیں کر رہی ہیں۔ اس بحران کا مرکز امریکا تھا جو گھومتے گھومتے یورپ جا پہنچا پھر اس کے بعد اپنے مسلمان ‘‘مقلدین‘‘ ممالک کی صفوں میں جا گھسا اور اب خلیجی عرب ریاستیں بھی اس بھنور بلکہ مدو جزر کا شکار ہو چکی ہیں۔
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے
(یہ واحد شعر ہے جس کا دوسرا مصرعہ ہمیں آج تک نہیں ملا اور نہ ہی کسی نے اس کا مطالبہ کیا۔ غالباً یہ ادھورا شعر پورا ’’سیر‘‘ بلکہ ’’سواسیر‘‘ ہے)۔
کچھ بعید نہیں کہ یہ مالیاتی معاشی بحران ’’دجالی فتنہ‘‘ کا روپ اختیار کر لے اور حق و باطل کی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو اور ظہورِ امام مہدیؑ کی علامات میں سے ایک علامت بن جائے۔ ’’روٹی دے کر ایمان خریدا جائے گا‘‘ والی پیشنگوئی بہت قریب ہے۔ کم از کم روٹی کی قیمت یہی بتا رہی ہے، ویسے پاکستان میں ’’بچے بیچ کر روٹی خریدنے‘‘ کی ابتداء ہوہی چکی ہے۔ دیکھیے ایمان بیچ کر روٹی خریدنے کی ابتدا کی Breaking News کب آتی ہے۔
ورلڈ بینک نے مزے سے قرضے دے تو دیے غریب ممالک کو مگر چھوڑ دیا ان کو قرضوں کے سمندر میں ڈوبنے کے لیے۔ ایسے میں جب کوئی غریب ڈوبتے ڈوبتے ہاتھ بڑھاتا تو ورلڈ بینک پھر کچھ قرضوں کی رسی تھما دیتا وہ بھی بھاری ’’سود‘‘ پر! لیکن جب ڈوبنے والے ہاتھ زیادہ ہوں اور پکڑنے والا ایک تو پھر طاقت کا توازن بگڑ جاتا ہے اور ایسا ہی ہوا۔ سہارا دینے والے بھی لڑ کھڑا گئے اور ڈوبنے لگے اس مالیاتی بحران میں۔ (یہاں اوپر والا مصرعہ دوبارہ پڑھ لیجیے)
پاکستانی سونامی:
آیئے چند Heart Breaking News سنتے ہیں!
٭ لاہور میں ایک شخص نے جس کی تنخواہ ۵۰۰۰ روپے تھی، ۳۰۰۰ ہزار بجلی کا بل دیکھ کر ہارٹ اٹیک کی تاب نہ لاکر جان دے دی۔
٭ حیدرآباد میں والدین غربت سے تنگ آ کر بچوں کو بیچنے چل نکلے۔
٭ پنجاب میں سات بچوں کے باپ نے غربت سے تنگ آ کر خود کو آگ لگا لی۔
اب یہ خبریں پاکستان کے TV چینلز پر عام ہو چکی ہیں۔ (ایسی خبریں سُن کر ہماری آنکھیں بھیگ ضرور جانی چاہییں۔ اگر آپ کی آنکھیں اب بھی نم نہیں ہوئیں تو سمجھ لیجیے کہ آپ کی آنکھوں کا پانی خشک ہو چکا ہے یا پھر آپ خون کے آنسو رونے کے عادی ہو چکے ہیں)
ورلڈ بینک نے پاکستان کو غریب ممالک کی طرح قرضے دیے جس کو ہماری حکومتیں چٹنی سمجھ کر چٹ کر گئیں اور اب دوبارہ IMF اور ورلڈ بینک کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ یعنی Plan-C ۔!
جب حکومتیں قرضے واپس کرنے سے عاری ہوتی ہیں تو دھمکی دی جاتی ہے اور دھمکی کے نتیجے میں Privatization جیسے مکروہ عمل کو واجب عینی سمجھ کر ادا کیا جاتا ہے۔ نفع بخش ادارے اور اپنے Assets اونے پونے دام بیچے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق حبیب بینک پلازہ کی صرف عمارت ۷۲۰ ارب روپے کی تھی جو فقط ۲۰۰ ارب روپے میں ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں بیچ دیا گیا۔ اس کے بعد PTCL، KESC، MCB اور اب Steel Mill، OGDC اور PSO کی باری ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پورا ملک ہی Privatize کیوں نہیں کر دیتے بلکہ ٹھیکہ (Contract) پر کیوں نہیں دے دیتے۔ صرف گوادر پورٹ دینے سے کیا ہو گا۔ اس سے پہلے کہ آپ ہم پر ’’گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘‘ کے محاورے کا اطلاق کریں، آیئے ہم آپ کو ’’اعداد و شمار کے جال‘‘ میں الجھاتے ہیں جو کہ ہم نے اپنے ملک کے بیورو کریٹس اور حکومتی نمائندوں سے سیکھا ہے۔
علم الاعداد:
آیئے کچھ Facts & Figures کا مطالعہ کرتے ہیں:
۱۔ ورلڈ بینک کے President نے اب یہ مشورہ دیا ہے کہ ہمیں G-7 کی بجائے G-14 کے نام سے ۱۴ ممالک کا وسیع تر اتحاد تشکیل دینا چاہیے جو دنیا کو اس بحران سے بچا سکے۔ اس میں چند خلیجی عرب ممالک کا تذکرہ بھی ہے، مثلاً سعودی عرب۔ (ویسے مسٹر President یہ بتایئے کہ یہ ممالک کب آپ کے ساتھ نہیں تھے۔
۲۔ دوسری خبر یہ ہے کہ امریکا نے پچھلے تین سالوں میں جتنا اسلحہ بیچا ہے وہ تین گنا زیادہ ہے اس اسلحہ کی فروخت سے جو تین سال پہلے بیچا گیا تھا (CNN)۔ اس کو کہتے ہیں:
بغل میں چھری، منہ میں رام رام
آم کے آم گٹھلیوں کے دام!
(یہ شعر نہیں بلکہ دو محاورے ہیں جو ایک ساتھ مل کر شعر کا تاثر دے رہے ہیں، لیکن دو متضاد چیزوں کو ملانے سے گریز کریں کیونکہ کسی خطرناک چیز کے بن جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ مثلاً حق+ باطل= فتنہ)
۳۔ امریکا کا تجارتی خسارہ ۴۵۵ بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
۴۔ صدر بش نے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے بلوچستان، ایران، افغانستان میں شیعہ سنی فسادات کروانے کے لیے ۵۰۰ ملین ڈالر کی خطیر رقم مختص کی تھی۔
اب آپ خود ہی بتایئے دولت کے اس مصرف پر دنیا مالیاتی بحران کا شکار ہو گی یا نہیں۔
ایک طرف پاکستان میں مقامی طالبان کے نام پر پاکستانی علاقوں میں نہتے اور معصوم عوام پر بمباری تو دوسری طرف سعودی عرب میں موجود طالبان کے نمائندوں سے Deal بلکہ اب تو امریکا کی پٹھو کرزئی حکومت ملا عمر کو انتخابات لڑنے کی دعوت دے رہی ہے۔
امریکا کی اس دوغلی بلکہ ہشت رنگی سیاست پر بش کو منافقت کا نوبل پرائز ضرور ملنا چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ تمام منافقین (بشمول عبداللہ بن اُبی) بش کے حق میں دستبردار ہو جائیں گے۔
BBC نے پچھلے دنوں ہفتہ کے دن ۲۵ اکتوبر کو Faces of Polygamy یعنی ’’کثیر الازدواجی‘‘ پر ایک پروگرام پیش کیا۔ یعنی اسلام میں ایک سے زیادہ شادی کرنے کو ہدفِ تنقید بنایا گیا بلکہ اس کا مذاق اڑایا گیا۔ ہم اس مضمون کے ذریعے BBC کو مشورہ دیں گے کہ وہ بش کی کثیر رُخی سیاسی منافقت پر بھی کوئی دستاویزی فلم تیار کریں۔ ’’مواد با تصویر‘‘ ہم مہیا کریں گے، نام ہونا چاہیے “Faces of Bush’s Poly-Games”
امریکیوں کو مشورہ:
امریکی دانشوروں نے اپنے عوام کو تین مشورے دیے ہیں۔
۱۔ روحانیت سے قریب ہو جایئے۔
مادہ پرستی میں سر سے پیر تک ڈوبی قوم کو سب سے پہلا مشوروہ یہی ملنا چاہیے۔ قرآن تو بہت پہلے کہہ چکا:
’’بے شک دلوں کو اطمینان اللہ کے ذکر سے ہوتا ہے‘‘۔
۲۔ رشتہ داروں سے قریب ہو جایئے!
جس معاشرے میں فیملی سسٹم ٹوٹ چکا بلکہ ریزہ ریزہ ہو چکا ہو وہاں ایک دوسرے کے قریب ہونا ازحد ضروری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ بیٹا باپ کو پہچانے، باپ بیٹے کی کفالت کے ساتھ ساتھ اس کی تربیت بھی کرے اور عورت ماں اور بیوی کے روپ میں نظر آئے، نہ کہ آفس میں شوپیس کے طور پر۔
۳۔ ورزش کیجیے:
اس کے ساتھ ساتھ کھانے کے اسراف کی طرف بھی توجہ دیجیے۔ موٹاپے کے لیے ورزش انتہائی ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کم خوری اور بھی زیادہ ضروری ہے۔ اس کے لیے ’’روزہ‘‘ رکھیے یہ Dieting سے زیادہ بہتر ہے۔
مسلمانوں کو مشورہ:
عالمی مالیاتی بحران کی مقامی علامتِ مرض یعنی مہنگائی سے بچنے کے لیے مومنین کے لیے اوپر کے تین مشوروں کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل طریقے بھی فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔
۱۔ قناعت اختیار کریں حضرت علیؓ نے فرمایا: ’’آزاد جس کی لالچ کرے، اس کا غلام ہو جاتا ہے اور غلام جس چیز سے قناعت کرے اس میں آزاد ہوتا ہے‘‘۔ (تجلیات حکمت)
فرزندان رسول ؐ میں سے کسی کا قول ہے: ’’قناعت نصف معیشت ہے‘‘۔
۲۔ میانہ روی اختیار کریں:
حضرت علیؓ ہی کا قول ہے ’’امیری اور غریبی کے دوران جس نے میانہ روی اختیار کی وہ زمانے کے حادثات کے لیے (پہلے ہی سے) آمادہ ہو جاتا ہے‘‘۔ (تجلیات حکمت)
قرآن کہتا ہے! ’’کھائو، پیو اور اسراف نہ کرو‘‘۔
’’کم کھانا قناعت پسندی اور پُرخوری اسراف ہے‘‘ (حضرت علیؓ)
۳۔ سادگی اختیار کریں:
نمود و نمائش و ریا کاری سے پرہیز کریں۔
خواتین اگر شرعی حجاب مکمل شرائط کے ساتھ کر لیں تو ان کا ۷۰ فیصد خرچ کم ہو سکتا ہے۔ اسی طرح مرد حضرات سگریٹ، پان، چائے اور بازار کے کھانے کم کر دیں بلکہ ختم کر دیں تو بھی یہ رزلٹ نکل سکتا ہے۔ بچے اگر Junk Food سے توبہ کر لیں تو سمجھ لیجیے آپ نے مہنگائی کے خلاف جنگ جیت لی۔
۴۔ رات کا تھوڑا حصہ ذکر و افکار اور دعائوں و تشکر کے لیے چھوڑیں۔
’’دن میں رزق تلاش کرو اور ات میں اُسے (تلاش کرو) جس نے رزق دیا ہے‘‘۔ (حضرت علیؓ)
نوشتۂ دیوار:
آخری خبریں آنے تک اس بحران کے منجدھار میں ورلڈ بینک کے صدر نے دو باتوں کا اعتراف کر لیا ہے۔
۱۔ ’’ہم نے جو بویا تھا وہی کاٹ رہے ہیں۔
یقینا آپ نے ’’سُود‘‘ کا جو بیج بویا تھا اب وہ تناور درخت بن گیا ہے اور اب اس کا پھل ’’زقُوم‘‘ پوری دنیا مہنگائی کے تڑکے کے ساتھ بھرپور کڑواہٹ لیے کھا رہی ہے۔
جناب صدر! اسلامی معیشت کا بغور مطالعہ کیجیے اور سُود سے پاک بینکاری نظام نافذ کیجیے۔ اسلامی معیشت پر دیگر معرکتہ الآرا کتابوں کے ساتھ ساتھ آیت اللہ باقر الصدر کی کتاب ’’اقتصادنا‘‘ کا بھی مطالعہ کیجیے بلکہ اس کو عملاً اپنی معیشت پر نافذ کیجیے پھر دیکھیے آپ کی کوششیں کس طرح بار آور ثابت ہوتی ہیں۔
۲۔ ہمیں G-7 کی بجائے مسلم ممالک اور غیراستحصالی قوتوں پر مشتمل ایک وسیع تر اتحاد تشکیل دینا چاہیے۔
کیونکہ ممکن ہے کہ ’’روٹی اور ایمان‘‘ کی جنگ شروع ہو جائے جو حق و باطل کی جنگ کا روپ دھار لے اور انقلابِ مہدیؑ کا سونامی ان تمام لوگوں کو بہا کر لے جائے جو اس کی رکاوٹ بننے کی کوشش کریں۔
بقول علامہ اقبالؒ:
سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس
خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیار
پیرانِ کلیسا ہوں کہ شیخانِ حرم ہوں
نے جدتِ گفتار، نے جدتِ کردار۔۔!
ہیں اہلِ سیاست کے وہی کہنہ خم و پیچ
شاعر اسی افلاسِ تخیل میں گرفتار
دنیا کو ہے اس مہدیؑ برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالمِ افکار
(بشکریہ: ماہنامہ ’’طاہرہ‘‘ کراچی۔ نومبر۲۰۰۸ء)
Leave a Reply