دنیا بھر میں متعدد ممالک اور خطے کئی عشروں سے خوراک کی قلت کا شکار ہیں۔ افریقا اور لاطینی امریکا میں اس حوالے سے صورت حال زیادہ خراب رہی ہے۔ کئی افریقی ممالک قحط کی زد میں بھی آئے ہیں۔ خوراک کی قلت دور کرنے کے حوالے سے ان کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوتی آئی ہیں۔ زرعی شعبے کو مستحکم کرنا ان کے بس کی بات نہیں رہی۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا بھی ان کے لیے کچھ کرنے سے قاصر رہی ہے۔ خانہ جنگیوں اور جنگوں نے افریقی ممالک کو مکمل تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اب خوراک اور توانائی کا بحران اس قدر سنگین شکل اختیار کرچکا ہے کہ افریقا، لاطینی امریکا اور مشرق بعید کے چند ممالک اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں خوراک کی قلت ایک دو ماہ کے حالات کی پیداوار نہیں۔ ایک عشرے کے دوران اپنائی جانے والی غلط پالیسیوں نے حالات خراب کیے ہیں۔ اس معاملے میں نئے سرے سے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کو بہتر ڈھنگ سے خوراک کی فراہمی یقینی بنانا ممکن ہوسکے۔ افریقا اور چند دوسرے خطوں میں زرعی شعبہ پس ماندہ ہے۔ اس میں انقلابی تبدیلیاں لائے بغیر بات نہیں بنے گی۔ اگر زرعی اصلاحات پر توجہ نہ دی گئی تو پھر خرابیاں پیدا ہوں گی۔ چھوٹے کسانوں کو بیج اور کھاد کی بروقت فراہمی یقینی بنانا ہوگی۔ ایسے اقدامات سے گریز کرنا ہوگا جن سے غذائی اجناس کی تجارت میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہو اور منافع خوری کی راہ ہموار ہوتی ہو۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ غذائی اجناس کی تجارت پر توجہ نہ دی گئی تو کئی ممالک میں ترقی کی راہ مسدود ہوگی اور سیاسی استحکام اور سماجی بہبود کے کاز کو نقصان پہنچے گا۔ کروڑوں افراد کے روزگار کو براہ راست خطرہ لاحق ہوگا۔ بان کی مون نے کہا ہے کہ وہ خوراک کے بحران کو ختم کرنے کے سلسلے میں پوری رفتار سے کام کر رہے ہیں۔ ان کی ’’پوری رفتار‘‘ اب تک دوروں تک محدود رہی ہے۔ انہوں نے ایک ہفتے کے دوران ایشیا اور یورپ کے متعدد ممالک کا دورہ کرنے کے بعد کہا ہے کہ جو کچھ بھی کرنا ہے، ہنگامی اور جنگی بنیاد پر کرنا ہے۔ وہ اس خیال کے حامل ہیں کہ دنیا کو خوراک کے بحران کا اندازہ تاخیر سے ہوا ہے۔ کئی ممالک میں صورت حال اس قدر خراب ہے کہ فوری امداد نہ ملنے کی صورت میں ان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔
پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، مصر، ویت نام، موزمبیق، لائبیریا، صومالیہ، ایتھوپیا، پیرو، میکسیکو، سینیگال، فلپائن، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا میں ہنگامے شروع ہوچکے ہیں۔ لوگ خوراک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ اور کیوں نہ کریں کہ ان کے لیے اب دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا بھی دشوار ہوچلا ہے۔ جن لوگوں پر بہتر زندگی کے دروازے پہلے ہی بند ہیں انہیں اب پیٹ بھر کھانے کے لیے بھی جنگ لڑنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے افراد کی تعداد ۲ ارب ۶۰ کروڑ سے زائد ہے جو یومیہ صرف ۲ ڈالر پر جی رہے ہیں۔ کل تک ان کے لیے بہتر زندگی محض خواب تھی، اب پیٹ بھر کھانا بھی جنگ لڑنے سے کم نہیں! یہ مقدر لاکھ دو لاکھ افراد کا نہیں، ڈھائی ارب انسانوں کا ہے! وہ یہ سوچنے میں یقینی طور پر حق بجانب ہوں گے کہ زندگی کیا ایسی ہی ہوتی ہے؟ اور کیا اسے زندگی قرار دیا جاسکتا ہے؟
غذائی اجناس کی قلت کے بنیادی اسباب
دنیا بھر میں غذائی اجناس کی تجارت کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کرۂ ارض کی نصف آبادی چاول پر گزارا کرتی ہے۔ ایشیا میں چاول کا استعمال نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ اس کی آزادانہ تجارت کی اب تک کوئی گنجائش پیدا نہیں ہوئی۔ چاول کی ۵ سے ۷ فیصد پیداوار کی سرحد پار تجارت ہوتی ہے۔ ایک سے ڈیڑھ سال کے دوران دنیا بھر میں چاول کی قیمت دگنی ہوگئی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ جہاں چاول کی کھپت زیادہ ہے وہاں اسے پہنچنے نہیں دیا جارہا۔ اگر چاول کی تجارت پر عائد پابندیاں اٹھالی جائیں تو صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔ بہت سے کسانوں کو چاول کی کاشت کے لیے تحریک نہیں مل رہی۔ ان کے منافع میں اضافہ نہیں ہو رہا جس کے باعث وہ دوسری فصلوں کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔
بازار کا رجحان (مارکیٹ ٹرینڈز) اس سلسلے میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ جرمن جریدے ڈیر اسپیگل نے لکھا ہے کہ ’’عالمی منڈی میں سٹے بازوں نے پہلے تیل کا بحران پیدا کیا اور اب خوراک کے بحران کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ مستقبل کے سودوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ یہ سٹے باز ہی خوراک کے عالمگیر بحران کے ذمہ دار ہیں۔
خوراک کا بحران نمودار ہوتے ہی کئی ممالک نے ۳ ماہ قبل ہی ایسے اقدامات کیے جن سے غذائی اجناس کی تجارت محدود ہوگئی۔ جن ممالک کو خوراک کی زیادہ ضرورت تھی وہ اچانک اس سے محروم ہوتے چلے گئے اور صورت حال دیکھتے ہی دیکھتے سنگین تر ہوگئی۔ کئی ممالک حفظ ماتقدم کے طور پر غذائی اجناس برآمد کرنے سے یکسر گریز کر رہے ہیں۔
خوراک کے بحران کو سنگین تر بنانے میں ایک اہم کردار اس حقیقت نے بھی ادا کیا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا غذائی اجناس سے ایندھن تیار کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں مکئی اور دیگر اقسام کے اناج سے ایتھانول تیار کرنے کا رجحان عام ہوتا جارہا ہے۔ ایتھانول کو پیٹرول اور ڈیزل میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس کی غایت یہ ہے کہ ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج پر قابو پایا جائے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ غذائی اجناس سے تیار کیے جانے والے ایندھن کی مدد سے ماحول کو بہتر بنانے میں مدد ضرور ملی ہے تاہم مطلوبہ ہدف سے ابھی ہم بہت دور ہیں۔
جب دنیا بھر میں تیل اور گیس کے ذخائر موجود ہیں تو ترقی یافتہ دنیا ان سے مستفید ہونے کے بجائے ایسے طریقے کیوں اختیار کر رہی ہے جن سے صرف خرابیاں پیدا ہورہی ہیں؟ تیل اور گیس کے ذخائر ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں مرتکز ہیں؟ کیا ان پر انحصار کم کرکے ان کی معیشت کو تباہ کرنے کی سازش پر عمل ہو رہا ہے؟ دنیا بھر میں تیل کے ذخائر موجود ہیں اور خود ترقی یافتہ ممالک بھی اس دولت سے محروم نہیں تو پھر کیا سبب ہے کہ تیل اور گیس کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے کے بجائے غذائی اجناس کو گاڑیاں چلانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے؟
جیمز ایچ وارنر نے نیو یارک ٹائمز میں ’’ایتھانول بلنڈر‘‘ کے زیر عنوان لکھا کہ ’’امریکی کانگریس نے گیسولین (پیٹرول) میں ایتھانول ملانے کی اجازت دے کر زرِتلافی کی بھی منظوری دی۔ اس اقدام کا مقصد گاڑیوں سے کاربن کے اخراج میں کمی لاکر ماحول کو محفوظ بنانے کے اقدامات کو بارآور کرنا ہے۔ مگر اس اقدام سے دنیا بھر میں خوراک کی زبردست قلت پیدا ہوئی ہے۔ مکئی، سویابین اور دیگر اہم غذائی اجناس کی غیر معمولی طلب پیدا ہوئی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک زیادہ سے زیادہ اناج ذخیرہ کرکے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ کسی بھی ہنگامی حالت کی صورت میں دوسروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ مکئی، سویابین اور دیگر غذائی اجناس سے ایتھانول تیار کرنے کی روش پر گامزن ہوکر کئی ممالک نے اپنے لیے ہی نہیں، دوسروں کے لیے بھی مشکلات پیدا کی ہیں۔
مشکل یہ ہے کہ کئی ممالک نے غذائی اجناس کی پیداوار بڑھانے کی کوشش کی تو انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا! افریقا میں گندم کی فصل کو لگنے والے کیڑے اب جنوبی ایران تک پہنچ گئے ہیں۔ اگر پاکستان اور بھارت میں گندم کی فصلوں کو نقصان پہنچنا شروع ہوا تو اس خطے میں خوراک کا زبردست بحران پیدا ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے کیمیاوی اجزا سے مدد لینا بھی زمین کے لیے خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ کسانوں کو اندازہ ہے کہ کیمیائی کھاد کا زیادہ استعمال زمین اور ماحول کو کس قدر متاثر کر رہا ہے۔‘‘
تین مئی کو اقوام متحدہ نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا بھر میں بایو فیوئل کے شعبے میں سرمایہ کاری پر پابندی عائد کردی جائے اور جو سرمایہ کاری اس وقت تک کی جاچکی ہے اسے منجمد کردیا جائے۔ اقوام متحدہ کے مرکزی مشیر اولیور ڈی شٹر کا کہنا ہے کہ غذائی اجناس سے ایتھانول بنانے پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کہیں بھی خوراک کی قلت پیدا نہ ہو۔ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بایو فیوئل سے ۱۰ کروڑ افراد کی زندگی خطرے میں ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق مرکزی مشیر جین زیگلر نے تو بایو فیوئل کی تیاری اور استعمال کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا تھا۔ ان کا استدلال تھا کہ امریکا اور یورپ کو اس معاملے میں اپنا کردار بدلنا ہوگا۔ انہوں نے بھی سرمایہ کاری منجمد کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
ٹیلی گراف جرنل میں لیزا کینن نے لکھا ہے ’’یہ طے کرنے کا وقت آگیا ہے کہ انسان زیادہ اہم ہے یا گاڑیاں! کئی ترقی ممالک میں ہر فرد کے پاس کار ہے۔ کئی گھرانوں میں گاڑیوں کی تعداد افراد کی تعداد سے تجاوز کرجاتی ہے۔ امریکا میں کم و بیش ۳۵ کروڑ گاڑیاں ہیں۔ دیگر ممالک میں بھی ذاتی گاڑیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔‘‘
’’ایندھن اور اناج کا تعلق نیا ہے۔ اب تک دنیا پیٹرولیم مصنوعات پر انحصار کرتی آئی ہے اور معاملات درست ہی رہے ہیں۔ غذائی اجناس سے ایندھن تیار کرنا خاصا پیچیدہ عمل ہے اور رسد کو یقینی بنانے میں بھی دشواری پیش آتی ہے۔ یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ بایو فیوئل میں قوت کم ہوتی ہے۔ حکومتیں کسی بھی مسئلے کا آسان حل تلاش کیا کرتی ہیں تاکہ عوام کو فوری طور پر خاموش کیا جاسکے۔‘‘
’’برازیل میں ۱۹۸۰ء کی دہائی میںجب شکر کی قیمت گری تو گنے سے ایتھانول بنانے کا عمل شروع ہوا کیونکہ اس میں کسانوں کو زیادہ رقم ملتی تھی۔ اس دہائی کے آخر تک برازیل میں تیار ہونے والی ۸۰ فیصد کاروں کے انجن کی ڈیزائننگ ایسی ہوتی تھی کہ وہ بایو فیوئل پر بھی چل سکتی تھیں۔ بایو فیوئل پر انحصار کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ صرف ۳ سال کے عرصے میں مکئی کی قیمت دگنی سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔ کینیڈا اور یورپ کی حکومتوں کو اس سلسلے میں انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے۔ بایو فیوئل کی حوصلہ شکنی کیے بغیر خوراک کے بحران پر قابو پانے میں مدد نہیں ملے گی۔‘‘
چند ممالک نے دو عشروں کے دوران غیر معمولی ترقی کی ہے جس کی بدولت وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ اشیا صرف کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ چین اور بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ان دونوں ممالک میں متوسط طبقہ کسی حد تک تیزی سے ابھرا ہے۔ زیادہ آمدنی نے انہیں اس قابل کیا ہے کہ زیادہ خرچ کرسکیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب یہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ غذائی اجناس درآمد کرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔ لوگ زیادہ کھا رہے ہیں کیونکہ وہ اس کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ غریب ممالک کو جب اپنی غذائی اجناس کی اچھی قیمت مل رہی ہو تو وہ کیوں صورت حال سے فائدہ نہ اٹھائیں؟ کئی پس ماندہ ممالک اپنی غذائی اجناس کا بڑا حصہ برآمد کرکے مال بٹورنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کی اپنی آبادی قحط سے دوچار ہے۔ آزاد تجارت میں یہ سب تو ہوتا ہی ہے۔ اس سلسلے میں اقدامات اگر حکومتی سطح پر ہوں تب بھی صورت حال کو بدلنے میں خاصا وقت لگتا ہے۔
جن ممالک میں سیاحت اہم صنعت ہے وہ بھی زیادہ سے زیادہ غذائی اجناس درآمد کرکے اپنی اس صنعت کو مستحکم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غیر ملکی سیاحوں کو منہ مانگی قیمت پر بہت کچھ فراہم کردیا جاتا ہے۔ ملائیشیا، انڈونیشیا، بھارت، اور جاپان کے علاوہ یورپ کے کئی ممالک میں بھی سیاحت اہم صنعت ہے۔ دنیا بھر سے وہاں پہنچنے والے سیاحوں کو مینو میں سبھی کچھ فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ کوشش کئی ممالک کو مشکلات سے دوچار کر رہی ہے۔ اس معاملے میں اقوام متحدہ کے تحت چند اقدامات ناگزیر ہیں۔۔۔ جاری ہے!
{}{}{}
Leave a Reply