چند ممالک محض بین الاقوامی امداد پر زندہ ہیں۔ افریقا کے کئی ممالک میں امداد کا تعلق انسانی زندگی سے اس قدر ہے کہ بروقت امداد نہ ملنے پر کروڑوں افراد کی زندگی خطرے میں ہے۔ خوراک کا بحران جب سنگین ہونا شروع ہوا تو امدادی ادارے اپنی حکمت عملی بدلنے پر مجبور ہوئے۔ اس کے نتیجے میں بحران مزید شدت اختیار کرگیا۔ جن ممالک میں غریب عوام کی بقا کا دارومدار سماجی تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کی کارکردگی اور پالیسی پر ہے ان کی حالت مزید خراب ہوگئی ہے۔ اس کے نتیجے میں خوراک کے بحران کا دائرہ بھی وسعت اختیار کر رہا ہے۔
حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں نے پالیسی کے حوالے سے ایک بنیادی غلطی کی ہے۔ دنیا بھر میں آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ خوراک کی طلب بھی بڑھ رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی طلب کے مطابق خوراک کی پیداوار بڑھانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ زرعی شعبے میں کی جانے والی سرمایہ کاری خاصی محدود ہے۔ دوسری طرف زرعی پیداوار بڑھانے کے سلسلے میں جو انقلابی اقدامات درکار تھے ان پر کبھی توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ آج بھی بیشتر پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں زرعی شعبہ فرسودہ طریقوں کے تحت کام کر رہا ہے۔ پاکستان ہی کی مثال لے لیجیے۔ اگر زرعی شعبے کو منظم کیا جائے تو مختلف فصلوں کی پیداوار میں ۵۰ سے ۷۰ فیصد تک اضافہ ممکن ہے۔ سبزیوں کی فصل بھی بہتر کی جاسکتی ہے۔ زرعی شعبے کو نظر انداز کرنا بھی خوراک کے عالمی بحران کو شدید تر بنانے کا سبب بنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ ۲۰۳۰ء تک دنیا بھر میں خوراک کی طلب ۵۰ فیصد بڑھ چکی ہوگی۔ مگر دنیا بھر کی حکومتیں اب تک اس سلسلے میں ضروری اقدامات کرتی دکھائی نہیں دیتیں۔
خوراک کا سٹہ بازار
نیو یارک کے سب سے بڑے ہیج فنڈ کا مینیجر ڈوائٹ اینڈرسن دنیا بھر میں زرعی پیداوار پر نظر رکھتا ہے۔ پیرو سے ویت نام تک وہ اپنے نمائندوں کو دوڑاتا رہتا ہے جو زرعی شعبے سے متعلق افراد سے مل کر کروڑوں ٹن غلّے کی خریداری کے سودے کرتے ہیں۔ لندن اور نیو یارک کی اجناس/غلہ مارکیٹ اس اصول کی بنیاد پر کام کرتی ہیں کہ کسی بھی سرمایہ کار کو مایوس نہ کیا جائے۔ حالات تبدیل کرکے زیادہ سے زیادہ منافع کی راہ ہموار کی جاتی ہے تاکہ سرمایہ کاری کا بہائو جاری رہے۔ ڈوائٹ اینڈرسن کو کموڈٹی کنگ کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں غلّے کی خرید و فروخت میں اسے غیر معمولی مہارت حاصل ہے۔ دو ماہ قبل تک وہ میڈیا کے نمائندوں کو بخوشی طلب کرکے ان سے جی بھر کے باتیں کیا کرتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اس نے میڈیا میں آنا چھوڑ دیا ہے۔ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ خوراک کے بحران کے لیے اسے بھی ذمہ دار عناصر میں شمار کیا جارہا ہے۔ ڈوائٹ اینڈرسن کے نمائندے کو کچھ نہ کہنے کے پیسے ملتے ہیں۔
امریکا میں کموڈٹی فیوچرز ٹریڈنگ کمیشن نے صورت حال کا ایک خاص حد تک نوٹس لیا ہے۔ کمیشن نے عوام کی شکایات سنی ہیں تاکہ خوراک کے بحران کے بنیادی اسباب معلوم کیے جاسکیں۔ کسانوں اور زمینداروں نے کمیشن کو بتایا کہ مارکیٹ شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اس صورت حال سے سب کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
جارج سوروس کے سابق پارٹنر جم راجرز نے اب اپنا ہیج فنڈ قائم کرلیا ہے۔ دنیا بھر کے زرعی شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جاچکی ہے۔ زرعی پیداوار کی شپمنٹ ہوگی تو کئی ممالک میں خوراک کی قلت برقرار رکھی جاسکے گی۔ مختلف پس ماندہ ممالک کے زرعی شعبے میں براہ راست مداخلت کرکے حالات کو خراب کیا جارہا ہے۔
بحرانوں کا پس منظر
معاشی اور سماجی بحران پوری دنیا پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ کئی معیشتیں خرابی سے دوچار ہیں۔ ٹیکنالوجی کی ترقی اور خاص طور پر ٹیلی کمیونی کیشن میں پیش رفت کے بعد سے بہت کچھ بدل گیا ہے۔ کاروباری اداروں کی نوعیت بھی بدل گئی ہے اور کاروباری دنیا سے تعلق رکھنے والوں کا حال کچھ ایسا ہے کہ وہ رات دن تبدیل ہونے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ افریقا، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکا کے کئی ممالک میں بحران سر اٹھاچکے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کئی ممالک کو نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا ملا۔ آزادی ملنے پر کئی ممالک نے بے مثال ترقی کی۔ جاپان جیسا ملک جنگ میں مکمل طور پر تباہ ہونے کے باوجود اس قدر ترقی کرگیا کہ دنیا آج اس کی مثال دیتی ہے۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی کے بعد آزاد ہونے والے ممالک کے بارے میں تصور یہ تھا کہ وہ بے مثال ترقی کریں گے مگر ایسا نہ ہوسکا۔ ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کے بیشتر ممالک میں سیاسی عدم استحکام رہا۔ معاشرتی اور معاشی سطح پر بھی بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی رہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ لاکھ کوشش کرنے پر بھی ان ممالک اور خطوں کی تقدیر نہ بدلی اور اب حالت یہ ہے کہ کئی خطے شدید بحران سے دوچار ہیں۔ ایک بحران کی کوکھ سے دوسرا اور دوسرے کی کوکھ سے تیسرا بحران جنم لے رہا ہے اور یوں بحرانوں کی ایک دلدل ہے جس میں کئی ممالک گلے تک دھنسے اور پھنسے ہوئے ہیں۔
سرد جنگ کے خاتمے پر بھی دنیا نے سکون کا سانس لیا تھا اور امید ظاہر کی گئی تھی کہ اب کئی ممالک اور خطوں کو ابھرنے اور ترقی کرنے کا موقع ملے گا۔ ترقی یافتہ ممالک نے مل کر ایسا میکینزم تیار کیا جس کی موجودگی میں کسی بھی ترقی پذیر ملک کے لیے بھرپور ترقی کی گنجائش باقی نہ رہی۔ بھارت اور چین کی مثال دی جاتی ہے کہ انہوں نے غیر معمولی ترقی کی ہے مگر سچ یہ ہے کہ مجموعی طور پر پورے ملک نے ترقی نہیں کی بلکہ چند ایک طبقات کو ابھرنے اور پھلنے پھولنے کا موقع ملا ہے۔ عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ نے کسی بھی ترقی پذیر اور پس ماندہ ملک کے لیے بھرپور ترقی کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ نیا عالمی نظام اس طور رو بہ عمل لایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں غربت بڑھ رہی ہے۔ قدرتی ماحول تباہی کی سمت بڑھ رہا ہے۔ نئے عالمی نظام کی مدد سے ترقی یافتہ ممالک دراصل دوسروں کو بھوکا ننگا رکھ کر عیاشی کر رہے ہیں۔ پس ماندہ ممالک اور زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے خطوں کو آپس میں لڑاکر تباہ کیا جارہا ہے تاکہ وہ کچھ بھی قابل قدر کرنے کے بارے میں سوچنے کے قابل بھی نہ ہوسکیں۔ پس ماندہ ممالک کو خانہ جنگی میں بھی الجھا دیا گیا ہے۔ سابق سوویت یونین کی بیشتر ریاستوں کا معیار زندگی اب تک بلند نہیں کیا جاسکا ہے۔ مشرقِ بعید میں بھی خرابیاں ہی خرابیاں ہیں۔ چند ممالک نے تھوڑی بہت ترقی کی ہے۔ مگر ان میں بھی مجموعی طور پر پسماندگی پائی جاتی ہے۔
۱۹۳۰ء کی دہائی میں جس ڈپریشن نے امریکا اور کئی دوسرے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے کر بڑے پیمانے پر مشکلات پیدا کی تھیں اس سے کہیں زیادہ خطرناک بحران ہمارے سروں پر منڈلاتے منڈلاتے اب ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ۱۹۳۰ء کی دہائی کا ڈپریشن اثرات کے اعتبار سے خاصا محدود تھا۔ اب معاملہ خاصا پیچیدہ ہے۔ کسی ایک ملک کا بحران کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ کئی معاشرے زبردست شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ بعض کیسز میں تو پورے پورے ممالک ہی دائو پر لگ چکے ہیں۔ منصوبے کے تحت غربت پھیلائی جارہی ہے۔ جدید تاریخ کا سب سے خطرناک بحران ہمارے درمیان موجود ہے اور ہمیں اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔
خوراک کی قلت اور غربت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ حالیہ معاشی اور سیاسی بحران نے غریب ممالک کو شدید مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ مختلف ضروری اشیا کی قیمتیں تیزی سے سب کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔ کئی ممالک میں لوگ یومیہ ایک سے ۲ ڈالر پر گزارا کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش بھی ایک ایسا ہی ملک ہے۔ ٹیکسٹائل کی صنعت سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد کو ماہانہ ۲۵ سے ۳۰ ڈالر تنخواہ ملتی ہے۔ مصر، بولیویا، موزمبیق، صومالیہ، پیرو، ازبکستان، انڈونیشیا، فلپائن، تھائی لینڈ، برما، ویت نام، کمبوڈیا، یمن، ایتھوپیا اور بنگلہ دیش میں لوگ غذائی اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ کئی ممالک میں ہنگامے ہوئے ہیں۔ جہاں راشن سسٹم ہے وہاں حالات زیادہ خراب ہوتے جارہے ہیں۔ خوراک کے بحران سے متعلق ہنگاموں میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں اور بہت سے لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
خوراک کا بحران اتنی تیزی سے سنگین ہوا ہے کہ محض ایک سال میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں ۶۰ سے ۹۰ فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ جو لوگ پہلے ہی دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے میں مشکلات محسوس کرتے تھے وہ اب واقعی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ حالات بہتر بنانے کے لیے کیا کیا جائے۔ خوراک اور زراعت سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے او کا کہنا ہے کہ مارچ ۲۰۰۷ء سے اب تک چاول اور دیگر اناج کی قیمتوں میں ۹۰ فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ کئی ممالک میں صرف ۳ ماہ کے دوران چاول کی قیمت میں ۵۰ فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ ہیٹی میں مارچ کے آخری ہفتے میں چاول کی قیمت دگنی ہوگئی۔ اس کے بعد ہنگامہ آرائی فطری تھی۔ گندم کی قیمت میں ۳ سال کے دوران ۱۵۰ ؍سے ۱۷۰ ؍فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ تھائی لینڈ میں چاول کی مشہور ترین قسم کی قیمت ۵ سال قبل ۲۰۰ ڈالر فی ہزار کلو گرام تھی۔ ایک سال قبل یہ قیمت ۳۲۳ ڈالر فی ہزار کلو گرام تھی۔ اب یہی چاول ایک ہزار ڈالر فی ہزار کلو گرام کے نرخ پر فروخت ہورہا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ خوراک کی قلت کا مسئلہ ڈھائی ارب سے زائد افراد کا ہے۔ افریقا کے کئی ممالک خوراک کی زبردست قلت سے دوچار ہیں۔ ان کے لیے زندگی کا تسلسل برقرار رکھنا واقعی جنگ لڑنے کے مترادف ہے۔ سازش کے تحت معاشروں کو خوراک سے محروم کیا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں آبادی میں اضافہ ضرور ہو رہا ہے مگر اس کے ساتھ چند دوسرے عوامل بھی ہیں جو خوراک کے بحران کو سنگین تر بنانے کے ذمہ دار ہیں۔
جس طرح تیل کی تجارت لندن اور نیو یارک میں مرتکز ہے، اسی طرح دنیا بھر کی خوراک کی پیداوار کے سودے نیویارک اور شکاگو میں ہوتے ہیں۔ شکاگو کا مرکنٹائل ایکسچینج کموڈٹیز کے حوالے سے سب سے بڑا ادارہ ہے۔ ان دونوں ایکسچینجز میں ہونے والے سودے دنیا بھر میں خوراک کی طلب و رسد پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اجناس بازار/غلّہ بازار میں ہونے والے سودے حقیقی خرید و فروخت کو ظاہر نہیں کرتے۔ سب کچھ قیاس آرائی اور بازار کے رجحان کے مطابق ہوتا ہے۔ چند ادارے مل کر بعض اشیا کی قیمت میں اضافے کی راہ ہموار کرتے ہیں اور پھر اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ اس صورت حال کو صرف تماشائی کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔ چند بڑے کارپوریٹ ادارے مارکیٹ پر کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔ ان کے فیصلے کئی ممالک کی قسمت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے فیصلے کئی ممالک بلکہ خطوں پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ خوراک کی قلت سے دوچار افراد کی تعداد میں دن رات اضافہ ہو رہا ہے۔
غریبوں کو ختم کرنے کی سازش
ترقی یافتہ دنیا کیا چاہتی ہے؟ دنیا بھر میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے ڈانڈے بالآخر ترقی یافتہ دنیا سے جاکر ملتے ہیں۔ امریکا اور یورپ نے دنیا کو کنٹرول کر رکھا ہے۔ جاپان ٹیکنالوجی کے میدان میں اگرچہ آگے ہے مگر وہ بعض معاملات میں الجھنے سے گریز کرتا آیا ہے اور اس کا جھکائو امریکا اور یورپ کی طرف رہا ہے۔ چین اور بھارت جیسے ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ضرور ہیں تاہم وہ مغربی دنیا سے متصادم ہونے کے موڈ میں نہیں۔ ایسے میں دنیا کا حال مزید چند عشروں تک خراب ہی رہے گا۔
ترقی یافتہ دنیا پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو ابھرنے کا کوئی بھی معقول موقع نہیں دینا چاہتی۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے ۱۹۷۴ء میں جو کچھ کہا تھا وہ امریکی پالیسی کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی تھا۔ انہوں نے ’’نیشنل سیکورٹی اسٹڈی میمورینڈم ٹو ہنڈریڈ‘‘ کے نام سے ایک میمورینڈم میں لکھا تھا ’’عالمی سطح پر آبادی میں اضافہ امریکا کی سالمیت اور بیرون ملک اس کے مفادات کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے کا ایک اہم طریقہ قحط بھی ہے!‘‘
تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ غریب ممالک کی آبادی واضح منصوبہ بندی یا سازش کے تحت کم کی جارہی ہے؟ لگتا تو یہی ہے۔ پس ماندہ ممالک کو زمین کا بوجھ سمجھنے کا رجحان عام ہوتا جارہا ہے۔ عالمی اداروں کے اجلاسوں میں بہت کچھ کہا جاتا ہے، امداد کے وعدے کیے جاتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ بھی ایسا نہیں کیا جاتا جس سے ان ممالک کی تقدیر بدلتی ہو۔ افریقا کو جان بوجھ کر خانہ جنگیوں اور جنگوں میں الجھا دیا گیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی پالیسی رہی ہے کہ سمندر کے کنارے آباد افریقی ممالک بھی ترقی سے ہمکنار نہ ہوسکیں۔ ایک طرف قابل کاشت زمینوں کو آباد کرنے سے گریز کیا جاتا ہے اور دوسری طرف سمندری وسائل کو استعمال کرنے کی پالیسی بھی نہیں رہی۔ اس دو دھاری تلوار نے افریقا کو مسائل کا گڑھ بنادیا ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ خطہ اب تک ترقی کے مفہوم سے محروم ہے۔
فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے
دنیا بھر کی حکومتوں کو اب مل بیٹھ کر طے کرنا ہوگا کہ آنے والے عشروں میں خوراک کی طلب و رسد میں قابل قبول توازن کس طور پیدا کیا جائے۔ زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے قابل ہونا سب کا حق ہے۔ کل تک یہ تصور تھا کہ آسائشات اور تعیشات پر سب کا حق نہیں۔ یہ درست بھی تھا۔ مگر دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کے حق کو غیر اعلانیہ طور پر تسلیم کیا جاچکا تھا۔ اب لگتا ہے کہ عالمی معیشت پر اثر انداز ہونے والی قوتیں اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے کو تیار ہیں اور غریبوں کو جینے کے حق سے بھی محروم کرنے کے درپے ہیں۔ پس ماندہ ممالک کو کئی عشروں کے دوران قرضوں کے جال میں اس طور جکڑ لیا گیا ہے کہ سانسوں کے تسلسل کو برقرار ان کی زندگی کا بنیادی مقصد ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ انسانی مسئلہ ہے جسے پوری دنیا کو مل کر حل کرنا ہے۔ غذائیت کی کمی ایک بڑی پیچیدگی ہے جس سے پس ماندہ ممالک پہلے ہی دوچار ہیں۔ اب غذا ہی سے محروم کرنے کی سازش ہورہی ہے۔ مشرق بعید، جنوب مشرقی ایشیا اور افریقا کے کئی ممالک میں لوگوں کا آمدنی کا ۶۰ سے ۷۰ فیصد تک صرف خوراک کی فراہمی پر خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ تو اندھیر ہے۔ اس روش پر چلنا ترک نہ کیا گیا تو کوئی بھی قوم زندہ نہ رہ سکے گی۔ خوراک کا بحران ختم کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اناج پر انحصار کم کرکے بھی مسئلے کو بڑی حد تک حل کیا جاسکتا ہے۔ ڈیری فارمنگ، ماہی پروری اور دوسرے بہت سے طریقوں سے لوگوں کو معیاری اور سستی خوراک فراہم کی جاسکتی ہے۔ خوراک کی عالمی منڈی پر قابض عناصر کے خلاف کارروائی کیے بغیر کوئی پیش رفت ممکن نہیں۔ تیل کا بحران پیدا کرنے کے بعد اب خوراک کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
{}{}{}
Leave a Reply