
امریکیوں کے لیے سیفٹی نیٹ یقینی بنانا ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر کم ازکم اتنا ہی جوش و خروش دکھایا جانا چاہیے جتنا چینی اشیا پر ڈیوٹی عائد کیے جانے کے حوالے سے دکھایا جاتا رہا ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان اس وقت تجارت کے حوالے سے جس قدر بھی کشیدگی ہے اس کا تعلق بجٹ کے خسارے سے ہے نہ چینی درآمدات پر عائد کیے جانے والے ٹیرف سے۔ یہ معاملہ ہے امریکی ریاستوں پنسلوانیا، وسکونسن، اوہایو اور مشی گن کا۔
چینیوں کی مجموعی رائے یہ ہے کہ امریکا میں ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس دونوں ہی چین کو قربانی کا بکرا بنائے ہوئے ہیں کیونکہ اِنہیں اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کے لیے کوئی نہ کوئی یا کچھ نہ کچھ درکار ہے جسے موردِ الزام ٹھہرایا جاسکے۔
جن چار ریاستوں کا ہم نے ذکر کیا ان میں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح یقینی بنانے میں چین مخالف پیغام نے کلیدی کردار ادا کیا۔ آئندہ صدارتی انتخاب میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی میں کلیدی کردار ان چار ریاستوں میں کامیابی ہی کا ہوگا۔
بل کلنٹن، جارج واکر بش اور براک اوباما نے اس خیال کے تحت کام کیا کہ چین کو عالمی مالیاتی و معاشی نظام کی لڑی میں پرونے کی اجازت دینے سے وہاں جمہوری اقدار پروان چڑھیں گی۔ ان تینوں کو اس بات کا یقین تھا کہ مشرقی ایشیا کے امور میں امریکا کو حاصل بالادستی بھی داؤ پر نہیں لگے گی۔ جو کچھ ہوا ہے وہ اس کے برعکس ہے۔ چین میں ریاستی نظم مزید جبر کی طرف بڑھا ہے۔ عوام کو اظہارِ رائے کی بھرپور آزادی ہے نہ دیگر جمہوری اقدار کا احترام کیا جارہا ہے۔ چین کی معیشت مرحلہ وار کھلتی گئی ہے۔ باقی دنیا سے تعلقات بہتر بنانے کے معاملے میں چین نے معیشت پر تو کوئی پابندی نہیں لگائی مگر ہاں، معاشرتی امور میں ایسا نہیں ہے۔ چینی معاشرہ آج بھی بہت حد تک بند ہے۔
یو ایس چیمبر آف کامرس نے ۲۰۱۸ء میں ایک رپورٹ میں بتایا کہ دیگر بڑی طاقتوں کے برعکس چین انٹیلیکچیوئل پراپرٹی کے حوالے سے اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق خاصا مضبوط ماحول تیار کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ زمینی حقیقتوں کے مطابق ہے۔ چینی کمپنیاں تحقیق اور ندرت دونوں حوالوں سے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ چین رفتہ رفتہ ایک ایسا نظام تیار کر رہا ہے جس میں اُس کی کمپنی کی ہر ایجاد اور اختراع کو غیر معمولی قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔
چین تبدیلی کے اُسی عمل سے گزر رہا ہے جس کے حوالے سے سابق امریکی صدور نے سوچا تھا۔ علوم و فنون اور معاشی امور کا معاملہ اور ہے، ویسے سیاسی طور پر چین کے معاملے میں سختی ہی اپنانی پڑے گی۔ مغرب نے مختلف شعبوں میں جو کچھ کیا تھا اُس سے مطابقت رکھنے والی ترقی چین نے ممکن بنائی ہے۔ الیکٹرانکس، کمپیوٹر اور کلاتھنگ وغیرہ میں ہم نے جو کچھ کیا اُس کے جواب میں چین نے جو کچھ کیا وہ کسی بھی اعتبار سے حیرت انگیز نہیں۔
اس وقت چین کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یا خدشہ مڈل انکم ٹریپ کا ہے۔ چین میں متوسط طبقہ تیزی سے ابھر رہا ہے اور مضبوط بھی ہوتا جارہا ہے۔ چین کے ریاستی نظم اور عوام کے مابین ایک خاموش معاہدہ ہے … یہ کہ عوام سیاست سے دور رہیں، ریاست اُن کی زندگی کا معیار بلند کرنے میں بھرپور کردار ادا کرے گی۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ چین میں بڑھتی ہوئی اجرتوں سے کم لاگت کی اشیا بڑے پیمانے پر تیار کرنے کی اس کی صلاحیت (اعلیٰ معیار کی اشیا پیدا کرنے کی صلاحیت کو پروان چڑھانے سے قبل) متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ معاشی دانش کا تقاضا تو یہ ہے کہ اسمبلنگ کی جگہ اب ایجاد کو لینی چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو معاشی ترقی کا عمل رک جائے گا اور یوں عوامی سطح پر غیر معمولی اضطراب پیدا ہوگا۔
بیجنگ، متنازع طور پر، چاہتا ہے کہ بڑی امریکی کمپنیاں اپنی اشیا و خدمات چینی گاہکوں کو فراہم کرنے کے لیے چینی کمپنیوں کے ساتھ کام کریں۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ امریکیوں کی نظر میں یہ تو چوری کے مترادف ہے۔ امریکی ایوان صدر نے گزشتہ برس ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ معاشیات کے میدان میں چین کا انتہائی جارحانہ رویہ امریکا اور باقی دنیا کی ٹیکنالوجی اور بڑے اداروں کے لیے بہت بڑے خطرے کی شکل اختیار کر رہا ہے۔
امریکی ایوان صنعت و تجارت نے گزشتہ برس ایسے پچاس ممالک کی رینکنگ جاری کی تھی جو غیر ملکی کمپنیوں کی انٹیلیکچیوئل پراپرٹی کا بہتر انداز سے تحفظ یقینی بناتے ہیں۔ اس فہرست میں چین نے ترکی، برازیل، جنوبی افریقا اور فلپائن سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ چین اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ اُس کی غیر معمولی ترقی نے امریکا میں لاکھوں ملازمتوں کو ڈبودیا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ وہ کہتا ہے کہ اُس کی تیار کردہ انتہائی سستی اشیا سے کروڑوں امریکی مستفید بھی تو ہوئے ہیں۔
امریکی معیشت کے لیے پیدا ہونے والی الجھنوں کو دور کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ چین کے ہاتھوں ملازمتوں کے چھن جانے پر امریکیوں کو صحت کے حوالے سے غیر معمولی اخراجات کا سامنا نہیں ہونا چاہیے اور بچوں کو نئے اور بہتر شعبوں میں کچھ کر دکھانے کے لیے تیار کرنے کی غرض سے کالج بھیجنے کی صورت میں اضافی قرضوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ امریکی معاشرے کو چین کے ہاتھوں جس بحران کا سامنا ہے اُس کے حوالے سے عام امریکی کے مفاد کا خیال رکھنا لازم ہے۔ امریکیوں کے لیے معاشی اور معاشرتی دونوں سطحوں پر سیفٹی نیٹ کا تیار کیا جانا اب ناگزیر ہوچکا ہے۔
چین کو بھی اُنہی مسائل کا سامنا ہے جن سے امریکا نبرد آزما رہا ہے۔ صحت کے حوالے سے بڑھتی ہوئی لاگت، مہنگی اعلیٰ تعلیم، سماجی تحفظ کے حوالے سے دگرگوں صورتِ حال اور بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی جس کے نتیجے میں رہائش اور روزگار کے حوالے سے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ چین کے جن علاقوں کو معاشی اعتبار سے زیادہ مستحکم نہیں کیا جاسکا، وہاں بسنے والے بہتر امکانات کی تلاش میں ترقی یافتہ علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ محفوظ اور روشن مستقبل یقینی بنانے کے حوالے سے شہروں کا رخ کرنے والے چینیوں کو روزگار اور رہائش کی بہتر سہولتیں فراہم کرنا بہت بڑا مسئلہ ہے۔
۱۹۶۰ء کی دہائی میں اُس وقت کے امریکی صدر لِنڈن بی جانسن نے غربت کے خلاف جنگ شروع کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر امریکی بچے کو، اس کے والدین کی آمدنی خواہ کچھ ہو، یہ حق حاصل ہے کہ اُسے اچھا جسم اور اچھا ذہن ملے۔ ان کا نعرہ تھا کہ روئے ارض کی امیر ترین قوم کو غربت کے خلاف جنگ ہر حال میں جیتنی ہے، اس جنگ کو ہارا نہیں جاسکتا۔
غربت کے خلاف سب سے بڑی جنگ چین نے جیتی ہے۔ چینی حکومت نے ۸۰ کروڑ سے زائد افراد کو شدید غربت کے چنگل سے نکالنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۵ء کے دوران چین نے دنیا بھر میں ختم کی جانے والی غربت میں ۷۵ فیصد تک حصہ ڈالا۔ چینی حکومت کا کہنا ہے کہ ۲۰۲۰ء تک غربت کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے گا یعنی ہر چینی باشندہ معقول انداز سے زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکے گا۔ یہ ہدف اگرچہ بہت مشکل ہے مگر پھر بھی اس بات کی داد تو دینا ہی پڑے گی کہ چینی حکومت نے یہ ہدف مقرر کیا ہے۔
امریکا میں اب تک چین کو محض تختۂ مشق کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ امریکی سیاست دان جب کچھ نہیں کر پاتے تو چین کا رونا رونے لگتے ہیں۔ اسے ہدفِ تنقید بنانے لگتے ہیں۔ چین کو غیر معمولی مسائل کا سامنا ہے۔ ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ بھرپور کوششیں بھی کر رہا ہے۔ چین نے تجارت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کس ملک نے نہیں کیا؟
چین تبدیل ہو رہا ہے۔ تبدیلی کے اس عمل کی کوکھ سے کیا برآمد ہوگا یہ پورے یقین سے تو نہیں کہا جاسکتا مگر ہاں، اتنا ضرور پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ امریکا کا اصل مسئلہ چین نہیں، بلکہ وہ تو حل کا حصہ ہوسکتا ہے۔ مگر یہ بات آپ کو امریکا میں کسی بھی انتخابی مہم میں سنائی نہیں دے گی۔
“US-China trade: It’s politics, stupid!” (“theglobalist.com”. May 10, 2019)
Leave a Reply