
موجودہ بحران کا اصل سبب امریکی فیڈرل ریزرو بورڈ کے ذریعہ سستا ہاؤسنگ لون دیا جانا ہے۔ ۲۰۰۲ء میں ڈاٹ کام غبارے کے پھوٹنے کے بعد امریکا میں کساد بازاری کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ اس سے بچنے کے لیے فیڈرل ریزرو بینک نے ہاؤسنگ لون پر سود کی شرح کم کر دی اور بینکوں نے انہیں کھل کر تقسیم کرنے کی ترغیب دی۔ لیکن اس کساد بازاری کا اصل سبب دور نہیں ہوا۔ امریکی مزدور عالمی مقابلہ آرائی میں ہندوستان اور چین سے مات کھا رہے تھے۔ سستے ہاؤسنگ لون سے اس بنیادی مسئلے کی پردہ پوشی کر دی گئی جیسے کچرے کے ڈھیر پر پلاسٹک ڈال دی جائے۔ فیڈرل ریزرو بینک کے اس کام میں چین کا بھی رول رہا۔ چین نے بڑے پیمانے پر امریکی سرکار کے ذریعہ جاری بانڈ خریدے اور ہاؤسنگ لون دینے کے لیے امریکی بینکنگ نظام کو رقم مہیا کرائی۔ امریکی شہریوں کے ذریعہ جو ہاؤسنگ لون لیے گئے ان کے پیچھے چین کا ہی پیسہ تھا۔ یہ صورتحال چین کی مجبوری تھی۔ گزشتہ ۲۰ برسوں میں چین نے اپنی معیشت کو برآمدات پر مبنی بنا دیا ہے۔ مغربی کمپنیوں نے چین کے سستے قدرتی وسائل اور سستی مزدوری کا فائدہ اٹھانے کے لیے چین میں سرمایہ کاری کی۔ انہوں نے چین میں مال کی سستی پیداوار کر کے اسے امریکا میں درآمد کیا۔
کہا جا سکتا ہے کہ چین نے امریکا کو دلدل میں گھسیٹا ہے۔ پہلے امریکا کو قرض مہیا کرا کے ہاؤسنگ لون دلائے پھر اسی رقم سے اپنا سستا مال بیچا۔ جس طرح کارفائنانس کمپنیاں اپنے مال کو بیچنے کے لیے صارفین کو قرض مہیا کراتی ہیں اسی طرح چین نے اپنے مال کو بیچنے کے لیے امریکا کو قرض مہیا کرائے۔ اس عمل میں چین کے پاس ۱۸۰۰ ارب ڈالر کا بڑا غیر ملکی کرنسی کا سرمایہ جمع ہو گیا۔ ہندوستان نے ایسا کم ہی کیا، ہمارا غیرملکی کرنسی کا ذخیرہ گزشتہ پانچ برسوں میں بڑھ کر کل ۳۰۰ ارب ڈالر پر پہنچا ہے۔ ہندوستان جس مال کو ایکسپورٹ کر رہا ہے اس کی خریداری ہندوستان کے پیسے سے نہیں بلکہ امریکا کے اپنے پیسے سے ہو رہی ہے۔ اس فرق کا گمبھیر نتیجہ برآمد ہو گا۔ امریکا کے بحران کا شکار ہونے سے چین پر دوہری مار پڑے گی۔ چین کی برآمدات زیادہ متاثر ہو گی۔ ہندوستانی دکاندار خریدار کی اپنی رقم سے مال بیچتا ہے۔ خریدار کی آمدنی کم ہونے سے دکاندار کی فروخت کم ہوگی ہی لیکن چینی دکاندار خریدار کو قرض دے کر مال بیچ رہا تھا۔ اس سے دوہری مار پڑے گی خریدار کی اپنی رقم اور قرض سے ملنے والی رقم دونوں میں کمی آئے گی۔ اس لیے چین کی برآمدات پر زیادہ گہرا اثر پڑے گا۔
چین کو ایک اور شکل میں خسارہ اٹھانا پڑے گا۔ چین نے کافی مقدار میں امریکی سرکار کے ذریعہ جاری بانڈ خرید رکھے ہیں۔ امریکی ڈالر کے ٹوٹنے سے ان کی قیمت گھٹ جائے گی، تقریباً اسی طرح جیسے پچھلے دنوں شیئروں کی قیمت گر گئی ہے۔ چین کا برآمد پرانحصار بھی کچھ زیادہ ہے۔ جدید تکنیکوں کو جلد از جلد حاصل کرنے کے مقصد سے چین نے امریکی بازار کے لیے جوتے، کھلونے اور کپڑے کی بڑے پیمانے پر پیداوار کی۔ نتیجتاً چین کی معیشت میں برآمدات کا حصہ ہندوستان سے تقریباً دوگنا ہے۔ اس کے مطابق برآمدات کے فیل ہونے کا اثر چین پر دوگنا پڑے گا۔ چین اور ہندوستان کے برآمدات زیادہ (Diversified) ہیں ہم باسمتی چاول برآمد کرتے ہیں جو کہ کھپت پوری کرتا ہے لیکن ساتھ ساتھ سافٹ ویئر اور ریسرچ بھی ایکسپورٹ کرتے ہیں جو کہ امریکی کمپنیوں کے ذریعہ کی جا رہی ہے پیداوار میں مددگار ہے۔ کساد بازاری کا اثر چینی کھلونوں کی برآمدات پرزیادہ پڑے گا۔ جب گھر میں سب بے روزگار ہوں تو کھلونے کم ہی خریدے جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہندوستان سافٹ ویئر وغیرہ برآمدات پر کم اثر پڑے گا۔ بلکہ کچھ تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ کساد بازاری بڑھنے کے ساتھ ساتھ آؤٹ سورسنگ بڑھے گی۔ امریکی کمپنیوں کے لیے لاگت کو کم کرنا ضروری ہو جائے گا۔ ہندوستان سے سستی خدمات کو آؤٹ سورس کر کے اس مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ تین اسباب سے چین پر عالمی کساد بازاری کا اثر ہندوستان کے مقابلے میں زیادہ گہرا پڑے گا۔ ایک تو چین کی برآمدات زیادہ متاثر ہوں گی کیونکہ ان کی خریداری چین کے ذریعہ مہیا کرائی جا رہی رقم سے ہی ہو رہی تھی۔ دوسرے چین کو اس کے بڑے غیر ملکی کرنسی کے ذخیرے پر اتنا ہی بڑا خسارہ ہو گا۔ تیسرا سبب ہندوستان کی برآمدات میں معیار ہے اور پیداواری بھی ہے۔ اس لیے ان پر خراب اثرات کم ہوں گے۔
کساد بازاری سے نمٹنے کے لیے چین کی سرکار جن پالیسیوں کو اپنا رہی ہے وہ بھی ناکام ہوں گی۔ چین کی سرکار نے ایکسپورٹروں کو دی جانے والی چھوٹ میں اضافہ کیا ہے۔ یہ پالیسی ناکام ہو گی۔ جب امریکی شہری بے روزگار ہو رہا ہو تو اسے ۱۰ ڈالر کی جگہ ۹ ڈالر میں بھی بار بی ڈَول ملے تو وہ نہیں خریدے گا۔ دوسری چین کی سرکار نے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری میں اضافہ کیا ہے۔ ہائی وے اور ہوائی اڈے بنائے جائیں گے یہ بھی تکلیف دہ ثابت ہو گا۔ چین میں مینوفیکچرنگ پلانٹ بند ہو رہے ہیں بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں ہائی وے پر کار چلانے کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟۔
چین سرکار کی دیگر مجوزہ پالیسیاں زیادہ مؤثر ہو سکتی ہیں۔ ایک تجویز ہے کہ انکم ٹیکس کی بیسک چھوٹ میں اضافہ کیا جائے۔ یہ قدم صحیح سمت میں ہو گا انکم ٹیکس میں چھوٹ دینے سے چین کے شہری کی قوت خرید بڑھے گی اور جو باربی ڈَول امریکی شہری کے لیے بنائی جا رہی تھی اسے چین کا شہری خریدے گا۔ دوسری تجویز ہے کہ کسانوں کو زمین کے پٹے کی بِکری میں چھوٹ دی جائے۔ ایسا کرنے سے ان کے کھیت جو فی الحال بنجر پڑے ہوئے ہیں ان پر کھیتی شروع ہو سکتی ہے۔ اس سے چین کے شہری کی قوت خرید بڑھے گی یہی کامیاب فارمولا ہے۔ جب باہر آندھی چل رہی ہو تو اسکیموکی طرح اپنے ایگلو میں بیٹھ کر کپڑے کی ترپائی کرنی چاہیے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہ کامیاب پالیسیاں تجویز کی سطح پر ہیں جبکہ برآمدات میں چھوٹ اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی ناکام پالیسیوں کو نافذ کیا جا چکا ہے۔ لہٰذا چین پر عالمی بحران کی مار زیادہ ہی پڑے گی۔
اس کہانی میں ہندوستان کے لیے بھی خبر ہے۔ برآمدات کا لالچ چھوڑ کر گھریلو مانگ میں اضافہ کی کوششیں کرنی چاہییں۔ انکم ٹیکس کی چھوٹ بڑھانی چاہیے۔ روزگار گارنٹی پر خرچ بڑھانا چاہیے۔ ایسا کرنے سے برآمدات کی مانگ میں کمی کا ازالہ گھریلو مانگ میں اضافہ سے ہو جائے گا۔ ہمیں پراپرٹی اور شیئر مارکیٹ میں آرہی فوری گراوٹ سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اس گراوٹ کا اصل سبب ملک کے شیئر بازار سے غیر ملکی سرمائے کا جانا ہے۔ لیکن اس کی بھی حد ہے۔ جلد ہی اس کا کوٹا پورا ہو جائے گا۔ تب ملک کی معمول کی رفتار دوبارہ نظر آئے گی۔ دھیان دینا چاہیے کہ ملک کی اقتصادی شرح ترقی ۷ سے ۸ فیصد کی شرح پر برقرار رہے۔ اس سے معمولی گراوٹ ہی آئی ہے۔ مہنگائی بھی ۱۰ سے ۱۱ فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنیادی طور پر ہماری معیشت مستحکم ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ برآمدات میں ہونے والی کمی کو گھریلو مانگ میں اضافہ کر کے بیلنس کر دیا جائے۔ایسا کرنے سے ہم مستحکم رہیں گے۔
(بحوالہ: ’’نقوش ڈاٹ کام‘‘)
Leave a Reply