ہمالیہ کی پراسرار خاموش جھیلیں کروڑوں انسانوں کے لیے خطرہ بن گئیں۔ دنیا بھر کے سائنسدانوں نے یہ تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) ایک حقیقت ہے اور انسان خود اس کا ذمہ دار ہے۔ سائنسدانوں نے خطرے کی گھنٹی بجانے سے قبل کروڑوں کی تعداد میں درجہ حرارت کے اعداد وشمار کا مطالعہ کیا انہیں یہ ثابت ہوگیا کہ سمندر گرم ہوتے جارہے ہیں۔ کرہ ارض میں برف کے ذخائر پانی بن رہے ہیں جس سے آب سائیکل تبدیل ہورہے ہیں۔ پانی کے سائیکل میں اس تبدیلی کے اثرات پہلے تو بہری روؤں پر پڑیں گے اور اس وجہ سے عالمی سطح پر موسموں میں تبدیلی رونما ہوگی۔
تازہ ترین تحقیق میں عالمی حدت میں اضافے کا ذمہ دار گرین ہاؤس گیسوں کو ٹھہرایا گیا ہے جبکہ اب تک سائنسدانوں کا خیال تھا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ شمسی طوفان‘ آتش فشاؤں کا پھٹنا اور پیٹرو کاربن ایندھن کا استعمال ہے۔ ایک اور تحقیق میں کہا گیا ہے کہ گرم خطوں میں دلدلی علاقوں کی تباہی کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ جنوب مشرقی ایشیا میں جنگلات کو صاف کردینے کے لیے دلدلی علاقوں میں آگ لگائی جارہی ہے۔ خشک سالی میں دلدلی علاقوں میں لگی آگ پر قابو پانا بھی انتہائی دشوار ہوتا ہے۔
آتشزدگی کے اس عمل سے فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑی مقدار شامل ہورہی ہے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی ۲۱ فیصد دلدلی زمین پر کاربن کی بہت زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔ اندیشہ یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ دنیا جس طرح دلدلی علاقوں کی اہمیت کو نظرانداز کررہی ہے تو ۲۰۴۰ء تک یہ علاقے مکمل طور پر تباہ ہوجائیں گے۔ ۱۹۵۷ء میں دلدلی علاقوں کے جلنے سے فضاء میں ۶۷ء۲ ارب ٹن گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہوا جو ایک سال تک جلنے والے ایندھن کے ۴۰ فیصد کے برابر ہے۔ خطِ استواء پر جنوب مشرقی ایشیا میں معروف جزیرے بورنیو‘ سماٹرا اور پاپوا سمیت کئی اور جزیرے دلدلی ہیں اور وہاں دلدل زیادہ تر نشیبی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ ۱۰ فٹ تک گہری ہوسکتی ہے اور اس میں ۶۰ فیصد کاربن عناصر پائے جاتے ہیں۔
ان علاقوں کی تباہی کے محرکات میں عمارتی لکڑی کا حصول‘ پام کے جنگلات کی شجرکاری‘ چاولوں کی کاشتکاری‘ چھوٹے پیمانے پر کھیتی باڑی اور رہائش کے لیے خطوں کا استعمال اور جنگلات کے حوالے سے خراب منصوبہ بندی شامل ہیں۔ صرف انڈونیشیا کے ایک جزیرے بورنیو میں ۱۰ لاکھ ایکڑ کے دلدلی علاقے کو چاولوں کی کاشت کے لیے جنگلات سے صاف کیا گیا۔ صدر سہارتو کے دور میں بننے والے اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے جنگل تو صاف کر دیے گئے بعد ازاں پتا چلا کہ یہ مٹی تو چاول کی کاشت کے قابل ہی نہیں‘ اس قسم کے بغیر تحقیق کئے منصوبہ بندی کے ہر دو صورتوں میں کرہ ارض پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور ایسے رجحانات پر قابو نہ پایا گیا تو عالمی حدت میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔
گذشتہ ۵۶ برسوں میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح ۳۷۸ حصہ فی ۱۰ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے‘ جو ۱۷۵۰ء کی سطح کے مقابلے میں ۱۰۰ حصے زیادہ ہے۔ گیس اور عالمی حدت میں اضافے کی تباہ کاریوں کے پیش نظر اگرچہ حال ہی میں دنیا کی آب و ہوا میں مضر تبدیلی کو روکنے کے لیے کیوٹو معاہدے کی توثیق کی گئی ہے لیکن اہل دانش کا خیال یہ ہے کہ اس کے مقاصد اور اہداف کا حصول بہت مشکل ہے۔ ایسے حالات میں جبکہ دنیا کی سپر پاور امریکا کیوٹو معاہدے کی مخالف ہو۔ امریکی صدر بش کیوٹو اجلاس میں شریک تو ہوئے لیکن انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں امریکا کی ایک بڑی آبادی بیروزگار ہوجائے گی اور اس کا اربوں ڈالر کا نقصان ہوگا تاہم انہوں نے اہل یورپ کو یہ پیغام بھی دیا کہ وہ ماحولیات اور موسم کی تبدیلی پر خاصے متفکر ہیں۔
عالمی رائے عامہ کو تسلیم نہ کرنے کی امریکا کی یہ اپنی روش ہوسکتی ہے قدرت کی نہیں۔ یہ قدرت انسان کے اچھے اور برے سب کاموں کا حساب کتاب لگا کر اسے مکافات عمل سے دوچار کردیتی ہے۔ پھر یہی صدر بش ہیں جنہوں نے سمندری طوفان کی وجہ سے ہونے والے کھربوں ڈالر کے نقصانات کو اپنی نظروں سے خود دیکھ لیا اور یہ بھی دیکھ لیا کہ اس کی سپر طاقت ‘ سپریم طاقت کے آگے کس طرح بے بس ہے اور وہ ہفتوں پہلے شدید طوفان سے متعلق ہونے والی پیش گوئیوں کے باوجود ان کے آگے بندھ نہیں باندھ سکے۔
امریکا اپنے ماضی بعید پر نظر ڈالے تو اسے یہ علم ہونا چاہیے کہ آج گوئٹے مالا کے بارش کا موجب بننے والے جنگلات جس علاقے میں ہیں یہاں نویں صدی عیسوی میں تقریباً ایک کروڑ نفوس پر مشتمل عظیم تہذیب ’’مایا‘‘ اپنے عروج پر تھی۔ اس کا طرزِ معاشرت‘ عمارتیں‘ عالیشان عبادت گاہیں‘ اونچے اونچے میناروں والی طرز تعمیر رکھنے والے وسیع و عریض شہر اور جس کے دیہی علاقوں میں ہر مربع میل پر ۵۰۰ ‘ شہری علاقے کے فی مربع میل پر دو ہزار سے زائد نفوس آباد تھے اس تہذیب کا کلاسک پیریڈ ۶ صدیوں پر محیط ہے۔ ہنستی بستی تہذیب اچانک تباہ و برباد ہوگئی اور آج اس کے صرف کھنڈرات موجود ہیں۔
اس تہذیب کی تباہی کی سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں لیکن ماہرین آثار قدیمہ کی تحقیق کے مطابق یہ عظیم تہذیب موسمی تغیر و تبدل کی بھینٹ چڑھی جس کی وجہ اس علاقے کی حدت میں اضافہ تھا۔ ناسا کے مارشل سپیس فلائیٹ سینٹر کے واحد آثار قدیمہ ’’نام لیور‘‘ کی تحقیق کے مطابق’’جو اس علاقہ میں جھیلوں کی زیریں لہروں سے حاصل کردہ مٹی کے نمونوں میں موجود زرد دانوں پر کی گئی‘‘ تہذیب کی بربادی سے کچھ ہی عرصہ پہلے یہاں کے درختوں سے زرد دانے ناپید ہوگئے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس علاقے میں جنگلوں کا مکمل طور پر صفایا ہوگیا تھا۔ درختوں کے بغیر زمین کی زرخیزی جاتی رہی۔ جنگلات ریگستان بن گئے اور گراؤنڈ کور میں تبدیلیوں کی وجہ سے علاقے کا درجہ حرارت تقریباً ۶ ڈگری تک بڑھ گیا۔ جس سے زمین خشک ہوگئی اور وہ فصل تک پیدا کرنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھی۔ درجہ حرارت کے بڑھنے سے بارشوں کا سلسلہ متاثر ہوا خشک سالی میں پانی کمیاب ہوگیا اور زیرزمین پانی کی سطح ۵ سو فٹ سے بھی ز یادہ نیچے چلی گئی یوں کنوؤں سے پانی نکلنا ناممکن ہوگیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پیاس سے لوگ مرتے گئے۔ مایا کی آبپاشی کا انحصار بارش کے پانی کے ذخیروں پر تھا اور جب بارش کا سلسلہ متاثر ہوا تو آبی ذخائر بھی ختم ہوگئے اور بارش کے نہ ہونے کے اتنے بھیانک نتائج کے پوری تہذیب ختم ہوگئی۔ آج کے ماہرین نے اس دور کے ڈھانچوں پر جو تحقیق کی ہے اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مرنے والوں نے فاقہ کشی کا شکار ہوکر دم توڑ آج بھی بارشوں کا موجب بننے والے جنگلات کو بے رحمانہ طریقے سے کاٹا جارہا ہے۔ گزشتہ ۴۰ سالوں کے دوران حقیقی جنگلات کا نصف حصہ بری طرح تباہ کردیا گیا ہے۔ کسان جلانے اور کاشتکاری کے لیے زمین کو حاصل کرنے کے لیے نہ صرف درختوں کا اجتماعی قتلِ عام کررہے ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر آگ لگاکر ان کا صفایا کررہے ہیں۔ ان کے خیال میں جبکہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں راکھ زمین کو زرخیز بناتی ہے۔ ویسے بھی ذرخیزی ہمیشہ کے لیے نہیں محدود مدت تک ہی ہوتی ہے۔ تین سے پانچ سال کے اندر زمین تھک جاتی ہے اور اس کی زرخیزی بھی ماند پڑ جاتی ہے۔ کسان اپنی تھیوری پر عمل کرتے ہوئے مزید درخت کاٹ کر راکھ کو بطور کھاد استعمال میں لاتے ہیں یہ طریقہ لامتناہی ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ جنگل ناپید ہوجائیں گے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق درختوں کے بارے میں موجود روش جاری رہی تو ۲۰۲۰ء تک دنیا میں ۲ سے ۱۶ فیصد تک رین فاریسٹ باقی رہ جائیں گے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آج کے انسان نے جنگلا ت کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل نہ کی اور اہل مایا جیسی روش جاری رکھی اور وہی غلطیاں دہراتے رہے تو انسان کو اپنی ہی غلطیوں کے ہولناک نتائج سے نہیں بچایا جاسکتا۔
صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے عالمی ماحول کے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف نے خبردار کیا ہے کہ عالمی حدت میں اضافہ کی وجہ سے ہمالیہ کی برف تیزی سے پگھلنا شروع ہوگئی ہے جس سے برصغیر ہندو پاک اور چین میں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑگئیں ہیں۔ کیونکہ ہمالیہ کے گلیشیئر اوسطاً ۳۳ فٹ سالانہ کے حساب سے کم سے کم ہورہے ہیں۔ گلیشیئر کی تیزی سے پگھلنے کی وجہ سے ہمالیہ سے نکلنے والے دریاؤں میں طغیانی آئے گی لیکن کچھ عرصے بعد دریاؤں میں پانی کم ہو جائے گا جس سے ہندوستان ‘ پاکستان‘ نیپال اور چین میں کروڑوں زندگیوں کو خطرات لاحق ہوں گے۔ دریاؤں میں طغیانی کی تباہ کاریوں کی جھلک اس علاقے کے باسیوں نے گذشتہ موسم برسات سے قبل اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لی ہے۔ ہمالیہ خط عرض پر بحرہ منجمد شمالی کے بعد برف کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ یہاں سے دنیا کے کئی بڑے دریا نکلتے ہیں جن میں سب سے نمایاں گنگا‘ انڈس‘ برہمپترہ‘ سلوین‘ میکاونگ‘ ینکتیز‘ یلو دریا ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق اگر برف اس رفتار سے پگھلتی رہی تو چند عشروں میں دریاؤں میں پانی کی مقدار کم ہوجائے گی جس سے علاقے کی زراعت تباہ ہوجائے گی جس کا ان دریاؤں کے پانی پر انحصار ہے اور یہ کہ ماحول کی بدلتی ہوئی صورتحال دنیا کی معیشت اور سلامتی پر بھی اثر انداز ہوگی اور اگر یہ صورتحال اسی طرح جاری رہی تو اگلے بیس سالوں میں ماحول میں حدت ۶ء۳ ڈگری فارن ہائٹ سے زیادہ ہوجائے گی۔
ماحولیات کے ماہرین نے بھی خبردار کیا ہے کہ ہمالیہ کے پگھلتے ہوئے گلیشیئر علاقے کے لاکھوں لوگوں کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی قریب میں اس مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی گلیشیئر کی بھرتی ہوئی پراسرار جھیلوں سے علاقے میں تباہ کن سیلاب کا خطرہ منڈلارہا ہے۔ آنے والے وقتوں میں ان گلیشیروں کے ناپید ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کے ساتھ ان لوگوں کی ز ندگی بھی خطرے کا شکار ہے جو اپنی بقاء کے لیے ان گلیشیروں سے نکلنے والے دریاؤں پر انحصار کرتے ہیں۔ نیپالی ہمالیہ کے علاقے میں ۳۳۰۰ گلیشیئر موجود ہیں اور ان میں سے ۲۳۰۰ گلیشیروں کی اپنی جھلیں ہیں ان جھیلوں کے نزدیک آباد گاؤں کے لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے اقدامات بھی نہیں کئے گئے ہیں۔ اگر ان جھیلوں کا پانی کناروں سے اوپر آجائے تو ایک بہت بڑا سیلاب نیپال‘ بھوٹان‘ بنگلہ دیش ‘ ہندوستان کی آبادی اور وسائل کو ملیامیٹ کرسکتاہے۔ گذشتہ ۷۰ برس کے دوران نیپال کے اردگرد ایسی تباہی کئی بار ہوچکی ہے۔
۱۹۷۰ء سے ۱۹۸۹ء کے دوران جاپانی تحقیق دانوں نے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ کھمبو کے گلیشیر تیس سے ساٹھ میٹر تک کھسک چکے ہیں۔ نیپال کا کہنا ہے کہ اسے تازہ ترین اعداد وشمار کی ضرورت ہے ورنہ اسے آفات کی آمد کا اندازہ نہیں ہوپائے گا۔ بات صرف ہمالیہ کے گلیشیر تک ہی محدود نہیں انٹارکٹیکا بھی پگھل رہا ہے جس کے بارے میں برطانوی سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے انٹارکٹیکا میں قطبین پر موجود برف اندازے سے زیادہ تیزی سے پگھل رہی ہے۔ برطانوی انٹارکٹیکا سروے سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں کو یقین ہے کہ دنیا بھر کے سمندروں کی سطح میں برف کے پگھلاؤ کی وجہ سے ہونے والے اضافے کی رفتار لگائے جانے والے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ گزشتہ پچاس برس کے دوران انٹارکٹیکا کے جزیرہ نما میں سمندری برف کا تیرہ ہزار مربع کلو میٹر حصہ پانی بن چکا ہے۔ انٹارکٹیکا کے جزیرہ نما میں سمندری برف کے پگھلنے سے سمندری گلیشیروں کو روکنے والی دیوار ختم ہوتی جارہی ہے اور اس کے نتیجے میں گلیشیر پہلے سے چار گنا زیادہ رفتار سے سمندروں میں تیر رہے ہیں۔
(بحوالہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاٹ کام)
Leave a Reply