
کوئی پسند کرے یا نہ کرے، ہم ایک عجیب دور میں جی رہے ہیں۔ اس دور میں سبھی کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ طاقت کے مراکز کی تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ کئی خطے غیر معمولی معاشی پیشرفت سے ہمکنار ہو رہے ہیں اور دوسرے بہت خطے خرابی کی نذر ہو چلے ہیں۔ بہت سے خطوں اور ممالک کو معاشی اعتبار سے ایڈجسٹمنٹ کے مرحلے سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ جب جنوب کے ممالک میں معاشی اعتبار سے ایڈجسٹمنٹ کی لہر اٹھتی ہے اور شمالی کا رخ کرتی ہے تب کیا ہوتا ہے، یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں غیر معمولی پیش رفت کے نتیجے میں نئے معاشی امکانات پیدا ہو رہے ہیں اور کئی ممالک کے لیے انتہائی پرکشش مواقع پیدا ہوئے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ نئے معاشی فوائد منصفانہ طور پر تقسیم نہیں ہو پارہے ہیں۔
عالمگیریت سے بہت سے معاملات میں فوائد بھی پہنچے ہیں۔ کل تک جن معیشتوں کو بند تصور کیا جاتا تھا آج ان میں کروڑوں افراد غیر معمولی معاشی ثمرات اور امکانات سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ وہ بہتر زندگی بسر کرنے کی پوزیشن میں آچکے ہیں۔
ترقی یافتہ دنیا میں چھوٹے مگر انتہائی طاقتور گروپ (ادارے اور تنظیمیں) نئی مہارتوں کے حامل افراد کی خدمات حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پیش رفت یقینی بنائی جاسکے۔ ان کی کوشش ہے کہ اجارہ داری قائم کرکے پوری پوری معیشتوں کو کنٹرول کیا جائے۔ اپنی اس کوشش میں وہ اب تک اچھے خاصے کامیاب رہے ہیں۔ عالمی سطح پر محنت کی تقسیم عمل میں آرہی ہے۔ ہنر مند ملکوں ملکوں گھوم کر اپنے لیے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ ایسے میں ان اداروں کا بھی متحرّک ہونا اور رہنا فطری ہے جو ہنر مندوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔
تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ایسے بھی ہیں جو یا تو مواقع حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں یا پھر ہاتھ آنے والے مواقع سے بھرپور استفادہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ایسے لوگ اور گروپ ترقی یافتہ دنیا میں بھی ہیں۔ ان میں سے بہت سوں میں اتنی لچک ہی نہیں پائی جاتی کہ بدلتے ہوئے ماحول میں بہتر انداز سے ایڈجسٹ کرسکیں۔ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کا ایک بنیادی المیہ یہ ہے کہ ان کی راہ میں کوئی اور نہیں، اُن کا اپنا سسٹم ہی دیوار بن رہا ہے۔ یا تو انہیں مطلوبہ معیار کی نئی تعلیم اور تربیت نہیں مل پارہی یا پھر سسٹم ان کے لیے مواقع پیدا کرنے میں دلچسپی ہی نہیں لے رہا۔
ہر دور میں جو کچھ ہوا ہے، تبدیلی کے ہاتھوں اس دور میں بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ جہاں کہیں بھی تبدیلی رونما ہو رہی ہے، سیاسی ردعمل سامنے آرہا ہے۔ جو لوگ ترقی اور جدت کی دور میں پیچھے رہ گئے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اُنہیں بھرپور ترقی کا موقع ملے مگر یہ موقع انہیں ڈھنگ سے مل نہیں پارہا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ وہ احتجاج کی راہ پر گامزن ہوگئے ہیں۔ ترقی کی دوڑ میں آگے یا برابر رہنے کے لیے جو کچھ انہیں کرنا چاہیے وہ تو کر نہیں رہے اور چاہتے یہ ہیں کہ احتجاج کی بنیاد پر ان کی بات سنی جائے، شکایات دور کی جائیں، حقوق دیے جائیں۔
اس وقت مغربی دنیا میں بھی سیاسی سطح پر احتجاج کی لہر پائی جاتی ہے۔ بہت سے گروپ اور افراد نئے زمانے کا ساتھ دینے میں ناکام رہے ہیں۔ اس میں کچھ ان کا بھی قصور ہے اور کچھ سسٹم کا۔ سسٹم میں بدلتے وقت کے مطابق موزوں ترین تبدیلیاں نہ لائیں جائیں تو وہ آپ کی راہ میں دیوار کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ دنیا بھر میں نئے دور کے توسط سے جو مواقع پیدا ہوتے ہیں اُن سے آپ اسی وقت مستفید ہوسکتے ہیں جب آپ کا سسٹم ایسا کرنے کی بھرپور گنجائش پیدا کر رہا ہو۔
مغربی معیشتی ڈھانچے کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ اس نے پہلے تو ادھار کی بنیاد پر معیشت کو غیر معمولی حد تک پھولنے کا موقع دیا اور جب معاملات پر قابو پانا ممکن نہ رہا تو اس غبارے کو اس طرح پھاڑا گیا کہ سب کے لیے مسائل اٹھ کھڑے ہوئے۔ ادھار کے غبارے کو اچانک پھاڑ دینے سے ترقی یافتہ دنیا میں ۸۰ سال کی مدت کی بدترین کساد بازاری پیدا ہوئی۔ اس کساد بازاری نے آگے بڑھنے کی راہیں مزید مسدود کردیں۔ مشکلات سے دوچار افراد اور گروپ مزید پریشانیوں کا شکار ہوگئے۔ صورت حال ایسی بگڑی کہ امریکا میں سرکاری قرضے خام قومی پیداوار کا ۴۱ فیصد، برطانیہ میں ۴۶ فیصد اور یورو زون میں ۲۶فیصد ہوگئے۔
۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۵ء کے دوران رونما ہونے والی کساد بازاری نے ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں کے لیے اس بات کی کم ہی گنجائش چھوڑی کہ عالمگیریت کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کے آنسو پونچھ سکیں۔
بدلتی ہوئی عالمی معیشت نے ترقی یافتہ ممالک میں مشکلات سے دوچار افراد اور اداروں کے لیے مزید مشکلات پیدا کیں اور جب ان کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ تاثر تیزی سے ابھرا کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے لیے کچھ نہیں کر رہی بلکہ ان کے خلاف جارہی ہے۔ اس تاثر نے غیر معمولی سیاسی تبدیلیوں یعنی بے یقینی کی صورت حال اور کسی حد تک عدم استحکام کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ ووٹروں نے چند حالیہ انتخابات میں جس نوع کا ردعمل ظاہر کیا ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ شدید بے یقینی کی حالت میں جی رہے ہیں اور انہیں امید ہی نہیں کہ اب ان کے حالات زیادہ تیزی سے بہتر ہوسکیں گے۔ انتہائی دائیں یا بائیں بازو کے ووٹرز تیزی سے ان سیاسی جماعتوں کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں جو سیاست اور معیشت میں اکثریت پسندی کی بات کر رہی ہیں۔
اکثریت کی بنیاد پر بات کرنے والے (پاپولسٹ) سیاسی عناصر اس صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر مرکزی دھارے کی سوچ کو دبانے اور مختلف گروپس کے خیالات کو آپس میں متصادم رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ پاپولسٹ سیاسی عناصر چاہتے ہیں کہ لوگوں میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جو تاثر پایا جاتا ہے وہ مزید مستحکم ہو اور اس کے نتیجے میں خود ان کی سیاسی کامیابیوں کی راہ مزید ہموار ہو۔
انتہائی دائیں اور بائیں بازو کے انقلاب پسندوں کے درمیان بہت سے نکات پر اختلافات پائے جاتے ہیں، مگر عالمگیریت کے منفی اثرات کے حوالے سے وہ ایک نکتے پر متفق دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ عالمگیریت کی دوڑ میں دونوں ہی پیچھے رہ گئے ہیں اس لیے عالمگیریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے میں کوئی قباحت نہیں۔ عالمگیریت کے خلاف جانے کے معاملے میں دونوں ایک پیج پر ہیں۔ ایک بات تو طے ہے، یہ کہ مغربی یا ترقی دنیا میں انتہائی دائیں یا بائیں بازو کے بیشتر افراد نہیں چاہتے کہ معاشرے اورمعیشتیں آزاد رہیں، مغرب کی ترقی یافتہ دنیا میں پیدا ہونے والے معیشتی مواقع سے ترقی پذیر دنیا زیادہ مستفید ہو۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ معاشروں اور معیشتوں کو کھلا رکھنے سے بہت سے ترقی یافتہ معاشرے تیزی سے پنپ گئے ہیں کیونکہ انہوں نے معاشی امکانات سے بھرپور استفادہ کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ چین، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقا کی مثال سب کے سامنے ہے۔
مغرب اور بالخصوص یورپ میں انتہائی دائیں یا بائیں بازو کے لوگوں میں اکثریت پسندی کا ابھرتا ہوا رجحان اس بات کی گواہی دے رہا ہے وہ کھلے معاشروں اور معیشتوں کے حامی نہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر امکانات سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا جاتا رہا تو ترقی پذیر دنیا بھی ترقی یافتہ ہوکر موجودہ ترقی یافتہ دنیا کے لیے انتہائی مشکلات پیدا کرے گی۔ یورپ خاص طور پر یہ چاہتا ہے کہ معیشت کو کنٹرول کیا جائے، سخت تر معیارات مقرر کیے جائیں اور ان معیارات کو برقرار رکھنے پر پوری قوت صرف کردی جائے۔ یورپ میں زندگی کا معیار اس قدر بلند ہے کہ وہاں بہت سے لوگ ایک ایسی زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے جو اس معیار سے ذرا بھی گری ہوئی ہو۔ باقی دنیا سے بہتر زندگی بسر کرنے میں جو تفاخر ہے وہ اس سے دور نہیں ہونا چاہتے۔
یورپ کا بنیادی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ بعض ادارے مشکل میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ میں عوام بھی پریشانی سے دوچار ہیں۔ انہیں عالمگیریت سے بنیادی خطرہ یہ لاحق ہے کہ کہیں معیارِ زندگی متاثر نہ ہو۔ کوئی ایسا جادوئی فارمولا نہیں جو معاملات کو راتوں رات درست کردے۔ یورپ بھر میں اصلاحات کی بات تو ہو رہی ہے مگر سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اصلاحات یقینی بنانے کے لیے موزوں ماحول پیدا کرنا پڑتا ہے۔
یورپ میں اس وقت سیاسی بے چینی پائی جاتی ہے۔ معاشی سطح پر ابھرنے والی مشکلات نے لوگوں کے سیاسی رجحانات کو بھی متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔ اس کے نتیجے میں خرابیاں رفتہ رفتہ بڑھ رہی ہیں۔ سیاست دان اس کا فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔ اگر توازن سے کام نہ لیا گیا تو مشکلات بڑھتی جائیں گی اور پورا یورپ ایک بار پھر سیاسی عدم توازن کے آغوش میں جا گِرے گا۔ چند ایک اصلاحات سود مند ضرور ثابت ہوسکتی ہیں مگر ان سے کسی جادوئی تبدیلی کی توقع وابستہ نہیں کی جاسکتی۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Globalization and the west coping with politics of anger”. (The golobalist”. August 31, 2016)
Leave a Reply