اللہ تعالیٰ نے جب سے اہْبِطَا مِنْہَا جَمِیْعًا (طٰہٰ:۱۲۳) کے فرمان سے جناب آدمؑ اور ان کی اہلیہ کو زمین پر جانے کا حکم دیا اور بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّّ (طٰہٰ: ۱۲۳) کی پیشگوئی سے اولادِ آدم میں اختلاف، تفرقہ، دشمنی اور قتل و غارت کی خبر دی اور قابیل نے ہابیل کے خون سے ہاتھ رنگے، تب سے انسان امن، سکون، عدل و انصاف اور مساوات کی تلاش میں سرگرداں ہے، جو آدم کو جنت میں میسر تھیں اور وہ اب تک اپنی اس زمین کو جنت نظیر بنانے کی کوششوں میں مصروف اور اپنی کوششوں کے خاطر خواہ نتیجے کا منتظر ہے۔ ایک طرف تو وہ اپنے لیے ہر قسم کی آزادی کا ’’خواہاں‘‘ ہے اور دوسری طرف امن و سکون کا بھی متمنی ہے اور اس مقصد کے لیے وہ مختلف قسم کے قوانین وضع کرتا چلا آیا ہے۔ انسان نے اپنی ہر طرح کی آزادی کے سہانے سپنے کو جامۂ تعبیر پہنانے کے لیے جہاں اور بہت سے نظریات اپنائے اور پھر ناقابل عمل ہونے کی بنا پر انہیں مسترد کر دیا، وہاں اس نے اپنے زعم میں ایک نظریہ بھی تخلیق کیا اور اسے عمل جامہ پہنانے کی سرتوڑ کوشش کی۔ اس جدید نظریے کو عالمگیریت کا نام دیا گیا۔
سب سے پہلے ہم عالمگیریت کے معنی اور مفہوم پر روشنی ڈالیں گے، اس کے بعد اس کی ماہیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں گے اور پھر یہ واضح کریں گے کہ آیا اسلام نے انسان کی مذکورہ مشکل کا حل نکالا ہے یا نہیں؟ تاہم موضوع کی وسعت اس ایک مختصر مقالے میں سمانے سے قاصر ہے۔
اگرچہ کتب اور جرائد میں عالمگیریت کے موضوع پر مختلف پہلوئوں سے بحث و گفتگو کی گئی ہے تاہم اس کا اصل معنی اور مفہوم بہت کم بیان کیا گیا ہے۔ ’’عالمگیریت‘‘ کو عربی زبان میں ’’العولمتہ‘‘ فارسی زبان میں ’’جہان سازی‘‘ یا ’’جہانی شدن‘‘ اور انگریزی میں گلوبلائزیشن “Globalization” کہا جاتا ہے اور چونکہ یہ اصطلاح انگریزی سے سفر کرتے کرتے اردو زبان تک پہنچی ہے اس لیے ایک مغربی اصطلاح ہونے کے ناطے اس کا معنی اور مفہوم انگریزی یا انگریزی سے ترجمہ شدہ کتب ہی میں ڈھونڈنا پڑے گا۔
Globalization کا لفظ دراصل “Globe” سے ماخوذ ہے جو درحقیقت کسی بھی گول چیز مثلاً گیند، گولا وغیرہ کے لیے بطور اسم جنس بولا جاتا ہے اور چونکہ دنیا کو بالکل گول سمجھا جاتا تھا اس لیے دنیا کو بھی ’’گلوب‘‘ (Globe) کہا جاتا ہے۔ اسی سے لفظ ’’گلوبل‘‘ (Global) نکلا ہے جس کا ایک معنی جہان بشمول یعنی پوری دنیا کو شامل یا پوری دنیا پر مشتمل بھی ہے۔یہاں تک تو یہ تمام باتیں سمجھنا آسان ہے مگر جب اس سے آگے “ize” کا لاحقہ لگانے سے بات مشکل سے مشکل تر ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے “ization” کا حاصل مصدر بھی مشکلات کا شکار ہو گیا ہے۔ کیونکہ یہ لاحقہ لازم اور متعدی یا فاعلی اور مفعولی دونوں حالتوں کے لیے یکساں طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اسی بنا پر ’’گلوبلائزیشن‘‘ کا معنی پوری دنیا کو شامل کرنا بھی کیا گیا ہے اور پوری دنیا کا شامل ہونا بھی۔ اسی بنا پر فارسی زبان میں اس ایک لفظ کے دو مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں، جبکہ عربی اور اردو میں گرچہ معنی ایک ہی ہے مگر اس کی وضاحت میں مذکورہ اختلاف اور تضاد پایا جاتا ہے۔ ہم سب سے پہلے انگریزی میں ہی اس کا معنی ڈھونڈتے ہیں۔
Merriam Webster’s Collegiate Dictionary کے مطابق Globalize کے معنی ہیں:
to make worldwide in scope or application “esp” To make global; یعنی عالمگیر کرنا، خاص کر فرصتوں، مواقع، درخواستوں اور قابل عمل چیزوں کو عالمی وسعت دینا۔ جبکہ اسی ڈکشنری میں ’’گلوبلائزیشن‘‘ کے متعلق یوں لکھا ہوا ہے: “The act of globalizing; the state of being globalized” یعنی ’’گلوبلائزیشن‘‘ کا معنی ہے عالمگیر ہونے والی حالت وغیرہ۔ پس یہ لفظ لازم اور متعدی دونوں طرح سے استعمال کیا جاتا ہے مگر یہ ایک ایسا عمل ہے جو خود بخود انجام ہو جانے والا نہیں، بلکہ اسے انجام دیا جاتا ہے اور ان دو صورتوں میں بڑا فرق پایا جاتا ہے جن کی وجہ سے ان کے متعلق اپنائے جانے والے نظریات میں بھی اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر صرف عالمگیر ہونا درست تسلیم کر لیا جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ دنیا میں جو بھی چیزیں، شخصیات یا حالات عالمگیر ہوتے ہیں وہ خود بخود ہو جاتے ہیں، انہیں عالمگیر کرنے والی کوئی طاقت موجود ہی نہیں ہوتی۔ انسان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور خوش قسمت ہوا تو حالات موج دریا کی طرح اسے خود ہی کسی ٹھکانے لگا دیں گے وگرنہ وہ اسی عمل میں گم ہو کر رہ جائے گا۔ لیکن اگر اس کا معنی عالمگیر کرنا درست تسلیم کر لیا جائے تو یہ بھی قبول کرنا پڑے گا کہ دنیا میں سوائے فطرت اور فطری امور کے باقی چیزیں خود بخود عالمگیر نہیں ہو سکتیں بلکہ کچھ عوامل ایسے ہوتے ہیں جو انہیں عالمگیر بناتے ہیں یا اس کو عالمگیر بنانے کے مقدمات فراہم کرتے ہیں اور اس عمل میں جو انسان اقتصادی، سیاسی، عسکری، جغرافیائی، مادی اور عملی وسائل اور ٹیکنالوجی، غرض ہر لحاظ سے جتنا طاقتور، اثر و رسوخ اور وسیع حلقے والا ہو گا وہ دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور انہیں اپنی پیروی کرانے میں اتنا ہی کامیاب ہو گا۔
کتب لغت سے ہٹ کر اگر ’’گلوبلائزیشن‘‘ کی فنی تعریف پر نگاہ کی جائے تو یہ تعریف بھی عالمگیریت کے مفہوم اور اس میں پوشیدہ عزائم کو واضح کر دیتی ہے۔ اس بارے میں میلکم واٹرز کا کہنا ہے کہ ’’گلوبلائزیشن ایک ایسا اجتماعی عملی ہے جس کے نتیجے میں معاشروں اور ثقافتوں پر حاکم جغرافیائی رکاوٹیں واضح طور پر ختم ہو جائیں گی جسے عام لوگ بھی واضح طور پر محسوس کر سکیں گے‘‘۔
راقم کے نزدیک اپنی رفاہ اور آسائش کی خاطر اپنے اقتصادی، سیاسی، ثقافتی، معاشرتی، قانونی، عسکری، جغرافیائی اور ٹیکنالوجی کے خود ساختہ افکار و نظریات، آلات و مصنوعات یا ان سے متعلقہ وسائل و اسباب کو دنیا کے دیگر اقوام و ممالک کو قبولانے، اپنی لابی بنانے اور مخالفوں کو ہر ممکن طریقے سے خاموش کرانے کا نام گلوبلائزیشن ہے۔
اس تعریف کو اگر چھوٹے پیمانے اور انفرادی سطح پر ملاحظہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ تقریباً ہر شخص کی یہ صفت اور فطرت ہوتی ہے کہ وہ جو بھی نیا نظریہ یا نئے آلات، غرض جو بھی نئی چیز پاتا یا اپناتا ہے اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اسے دوسروں کے سامنے پیش کرے اور انہیں اپنانے کے لیے قائل کرے۔ بڑے پیمانے اور عالمی سطح پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہر وہ قوم یا ملک جس کا اپنا کوئی خاص اور انحصاری نظریہ یا کوئی بھی چیز ہو وہ اس کوشش میں ہوتا ہے کہ اسے دیگر اقوام اور ممالک کے سامنے فخر سے پیش کرے اور دوسروں کو بھی اسے اپنانے کا مشورہ دے اور اگر وہ چیز ان کی فطرت اور ذہنی رجحان کے مطابق ہو تو وہ اسے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اور برخلاف ہو تو اسے رد کر دیتے ہیں۔ یہیں سے اس ملک یا ملت کی کوشش شروع ہو جاتی ہے کہ وہ اسے قبول کر لیں اور اس بارے میں اس کے پاس جتنے وسائل ہوں گے وہ انہیں بروئے کار لائے گا۔ اگر کمزور ملک ہو گا تو مسالمت آمیز رویہ اختیار کرے گا لیکن اگر طاقتور ہو گا یا اپنے آپ کو دوسروں سے طاقتور سمجھے گا تو جنگ و جدال سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔
’’گلوبلائزیشن‘‘ تاریخ کے جھروکے سے
یہاں یہ حقیقت بھی قابلِ بیان ہے کہ ’’گلوبلائزیشن‘‘ کا لفظ زیادہ پرانا نہیں ہے۔ ۱۹۵۹ء میں امریکی جریدہ Economist نے “Globalized Quota” کے الفاظ پہلی بار استعمال کیے۔
اگرچہ یہ لفظ پہلی بار ۱۹۵۹ء میں امریکا میں اقتصادی امور کے لیے استعمال کیا گیا لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ سیاسی، ثقافتی، عسکری، جغرافیائی اور دیگر امور کے لیے بھی استعمال ہونے لگا اور پھر گلوبلائزیشن کا لفظ عالمگیریت یعنی پوری دنیا پر غلبہ اور ایک عالمی حکومت تشکیل دینے کے مفہوم میں استعمال ہونے لگا اور ۱۹۶۱ء میں Webster’s Dictionary میں شامل ہو گیا۔ بیسویں صدی عیسوی کے اواخر تک اس کا استعمال زیادہ عام نہیں ہوا تھا، لیکن ۱۹۹۴ء کے بعد جب ماہرین کے ساتھ ساتھ اس کی طرف عام لوگوں کی توجہ بھی مبذول ہوئی تو یہ جملہ زبان زد خاص و عام ہو گیا۔ پھر اس موضوع پر تصنیفات کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہونے لگا۔
کیا ’’گلوبلائزیشن‘‘ کے عمل کی عمر بھی اس کے لفظ جتنی ہے، اس بارے میں ماہرین اختلافات کا شکار ہیں اور مندرجہ ذیل چھ نظریات کی صورت میں ان کے اقوال کا ذکر کیا جاتا ہے۔
۱۔ گلوبلائزیشن کا عمل اس کے لفظ کی طرح بیسویں صدی کی آخری دہائی کی مغربی پیداوار ہے۔
۲۔ گلوبلائزیشن سترہویں صدی میں تجدد (Modernity) کا نتیجہ ہے۔
۳۔ گلوبلائزیشن پندرہویں صدی عیسوی میں تحریک احیائے علوم (Renaissance) کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوئی۔
۴۔گلوبلائزیشن کا عمل رنسانس کے دور سے پہلے مگر گیارہویں صدی عیسوی کے بعد شروع ہوا۔
۵۔ گلوبلائزیشن ادیان الٰہی خاص کر مسیحیت اور اسلام کے ظہور ہی سے وقوع پذیر ہوا۔
۶۔ گلوبلائزیشن کا عمل انسانی تاریخ جتنی عمر رکھتا ہے اور اس کی تاریخ وہی انسانیت کی تاریخ ہے۔
ایک لحاظ سے گلوبلائزیشن انسانی تاریخ جتنی عمر رکھتا ہے کیونکہ ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اپنے نظریات، افکار اور محصولات وغیرہ کو پھیلائے اور اس میدان میں کامیاب ہونے والا آگے بڑھ جاتا ہے اور ناکامی کا منہ دیکھنے والے کو یا تو صفحۂ ہستی سے مٹنا پڑتا ہے یا پھر کامیاب انسان کی پیروی کرنی پڑتی ہے۔ اس منظر سے دیکھا جائے تو قابیل کے ہاتھوں ہابیل کا قتل گلوبلائزیشن کا پہلا قتل سمجھا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں اللہ نے یہ قانون نافذ کر دیا تھا کہ جس کسی نے بھی کسی کو ناحق قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور اسے اتنی ہی کڑی سزا ملے گی۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ اس عمل کے لیے وسائل جتنے جدید، پیشرفتہ، تیز اور وسیع ہوں گے یہ عمل اتنی ہی جلدی وسعت اختیار کرے گا۔ بطور مثال گمنام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا لیکن مشہور آدمی کی غلطی بھی فیشن بن سکتی ہے۔ پیدل چلنے والا اپنی مصنوعات زیادہ نہیں پھیلا سکتا مگر جتنی تیز اور وسیع سواری ہو گی مصنوعات بھی اتنی ہی تیزی اور وسعت سے پھیل سکیں گی۔ کمزور آدمی اپنے اوپر ظلم کرنے والے کو کچھ بھی نہیں کہہ سکتا لیکن طاقتور ممالک اور افراد کمزوروں پر چڑھائی کرنے سے بھی نہیں چُوکتے۔ پہلے گھوڑوں اور تلواروں سے کشور کشائی ہوتی تھی جس میں کئی برس بھی لگ جاتے تھے لیکن آج میزائل اور جنگی جہازوں کے ذریعہ کسی بھی لمحہ کہیں بھی رسائل حاصل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ گلوبلائزیشن کی سوچ تو انسان کے اندر ازل سے تھی لیکن اس سوچ کو عملی طور پر مہمیز بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ملی اور اس کی تیزی میں آئے دن اضافہ ہی ہو رہا ہے اور انسانی زندگی میں گلوبلائزیشن کے اسی کلیدی کردار کی وجہ سے میلکم واٹرز جیسے مغربی مفکرین اسے گزشتہ صدی کی آخری دہائی کا سب سے اہم موضوع قرار دیتے ہیں۔
اسی تشریح کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ گزشتہ عالمی جنگیں حتیٰ کہ اس سے پہلے یا بعد کی جنگیں بھی گلوبلائزیشن ہی کا عملی نمونہ ہیں اور چونکہ گزشتہ زمانے میں انسانی شعور اور علم کی سطح اتنی بلند نہیں تھی اس لیے دیگر ممالک کو لالچ دینا ڈرانا دھمکانا اور آخرکار جنگ کرنا جیسے کام گلوبلائزیشن کا مصداق تھے اور اب جبکہ وسائل زیادہ اور انسانی شعور کی سطح بلند ہو چکی ہے تو سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی بائیکاٹ وغیرہ نے کشور کشائی کی جگہ لے لی ہے۔ فزیکل جنگ، پروپیگنڈا اور ٹیکنالوجی کی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے اور ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور سیٹیلائٹ وغیرہ کی وجہ سے یہ سرد جنگیں بھی اب نامرئی لیکن پہلے سے بھی زیادہ تباہ کن، تیز اور خطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔ اب تو لوگ استعمار کے مقاصد کے لیے کام بھی کر جاتے ہیں اور انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس کھیل کا اصلی مہرہ بن چکے۔ اب صرف جہاں اشد ضرورت ہو وہاں ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس بناء پر گلوبلائزیشن کے لیے دو لفظوں میں یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ زمین کی ملکیت اور بڑی طاقتوں کی مطلق برتری کے حصول کی انتہائی کوششوں کا نام گلوبلائزیشن ہے جس کا نتیجہ لامحالہ یہی نکلتا ہے کہ اسی کشمکش میں آخرکار پوری دنیا پر کسی ایک طاقت کی مطلق حکمرانی قائم ہو جاتی ہے۔
موجودہ دور میں ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ دنیا کی سپر طاقت کہلانے والے ممالک اپنے زیادہ ترقی یافتہ آلات، ٹیکنالوجی، سیاست، دھونس یا پھر مختلف حربوں سے اپنے افراد، وسائل یا نظریات دنیا کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن میں امریکا اور اس کے بعد مغربی طاقتیں سرفہرست ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ماہرین ’’گلوبلائزیشن‘‘ کو ’’ویسٹرنائزیشن‘‘ (Westernization) یا ’’امریکنائزیشن‘‘ (Americanization) سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ حالانکہ دنیا والوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے یہ طاقتیں اپنی اس ’’گلوبلائزیشن‘‘ کو تجدد طلبی (Modernization) کا نام دیتی ہیں اور اسے نہ ماننے والوں اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو قدامت پرست، بنیاد پرست حتیٰ کہ دہشت گرد تک جیسے الزامات لگا کر ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہیں اور ہر ممکن طریقے سے انہیں خاموشی کی نیند سُلا دیتی ہیں۔
ایران کی مثال سب کے سامنے ہے۔ چونکہ ایران ان سب کے آگے اپنا سر نہیں جھکا رہا اسی لیے یہ طاقتیں اسے مذکورہ اور دیگر سخت القابات سے نواز کر اس کے خلاف اقتصادی پابندیوں اور مذاکرات کے ذریعہ دبائو ڈالنے جیسے حربے استعمال کر رہی ہیں۔ چنانچہ وہ یہ چاہتی ہیں کہ پوری دنیا ان کے قبضہ اور تسلط کے تحت ہو۔ جب تک لیبیا اور شمالی کوریا نے اپنے ایٹمی اثاثے تباہ نہیں کر دیئے تب تک وہ بھی دہشت گرد یا دشمن تھے لیکن اب چونکہ وہ بے دست و پا ہو چکے ہیں اس لیے وہ ان کے دوست یا پھر غیر جانبدار ممالک ہیں، حالانکہ ان کے اپنے پاس بڑے بڑے ایٹمی پلانٹ اور زیادہ سے زیادہ ایٹمی اثاثے موجود ہیں یہاں تک کہ وہ تو دوسرے ممالک پر ایٹم بم اور دوسرے کیمیائی بم بھی استعمال کر چکے ہیں جنہیں اب تک کوئی بھی دوسرا ملک استعمال کرنے کی جرأت نہیں کر سکا۔ ہیروشیما، ناگاساکی، حلبچہ اور شلمچہ، عراق اور افغانستان کے لوگ ان کے ظلم اور درندگی کی کہانیاں اپنے سینے میں چھپائے ابھی تک خاموش احتجاج کر رہے ہیں۔
’’گلوبلائزیشن‘‘ پراسس یا پراجیکٹ؟
ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ گلوبلائزیشن کے متعلق ماہرین کے مختلف نظریات ہیں۔ کچھ لوگ اسے فطری عمل (Process) جانتے ہیں جبکہ بعض ماہرین اسے خود ساختہ اور منظم پراجیکٹ (Project) مانتے ہیں جبکہ بعض ایسے بھی ہیں جو اسے مذکورہ دونوں عملوں کا مرکب جانتے ہیں۔ اس مختصر مقالے میں ان نظریات کی تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں، البتہ یہ ذکر کرتے چلیں کہ راقم کے نزدیک گلوبلائزیشن ایک طبیعی پراسس بھی ہے اور ایک منظم پراجیکٹ بھی۔ مگر اس لحاظ سے نہیں کہ یہ خود بخود وجود میں آ گیا ہو اور کسی نے اس کے بارے میں سوچا تک نہ ہو اور نہ اس لحاظ سے کہ یہ صرف چند ذہین لوگ کے ذہن کی پیداوار ہو۔ یہ ایک فطری عمل اس لحاظ سے ہے کہ تاریخ بشریت کی ابتدا ہی سے ہر شخص اور ہر ملت میں فطری طور پر اپنے نظریات کی برتری جتانے، دوسروں پر حکومت کرنے اور دنیا کی دیگر اقوام و ملل کو اپنے پرچم تلے جمع کرنے کی خواہش پائی جاتی رہی ہے۔ پس عالمگیریت کے تفکر کی بنیاد فطری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف الٰہی اور غیر الٰہی اور قدیم و جدید غرض تقریباً تمام ادیان و مذاہب اور مکاتب فکر میں پوری دنیا پر حکومت خاص کر آخر الزمان (End of History) میں ان کی عالمی حکومت کے قیام کا نظریہ موجود ہے اور اکثر اقوام اپنے آپ کو برتر جانتی ہیں۔ پس عالمگیریت کا مفہوم ایک فطری عمل ہونے کی وجہ سے ایک خود بخود انجام پانے والا عمل کہلائے گا لیکن یہیں سے عالمگیریت کا خود بخود انجام پانے والا پراسس ایک منظم اور سوچے سمجھے پراجیکٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ ہر ملک و قوم کے اپنے خاص مقاصد اور ان اہداف و مقاصد کی تکمیل کے اپنے ذرائع ہوتے ہیں جنہیں بروئے کار لا کر وہ قوم دوسروں پر سبقت اور برتری حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے اور ہر زندہ قوم کی یہ ممکنہ کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے اس کے نظریات اور آئیڈیالوجی کو قبول کریں اور اس کے جھنڈے تلے جمع ہوں اور اسی کشمکش کے نتیجے میں ایک عالمی حکومت تشکیل پا جائے گی۔ جس کسی کی بھی ایسی سوچ ہوتی ہے وہ بخوبی جانتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے، کن اسباب و عوامل سے خوب استفادہ کر کے کن کن مراحل کو کب طے کرنا چاہیے۔ اس لحاظ سے عالمگیریت کو صرف ایک پراسس جاننا بے معنی رہ جاتا ہے بلکہ یہ ایک پراجیکٹ ہے۔ جو اس میں جتنی زیادہ کوشش کرے گا اور جس کے اہداف و مقاصد اور ذرائع اور افکار فطرت سے جتنا نزدیک ہوں گے وہ اتنا ہی کامیاب ہو گا۔ اسی بناء پر دنیا میں ہمیں صرف ایک گلوبلائزیشن کا سامنا نہیں ہے بلکہ کئی مختلف قسم کی کئی گلوبلائزیشنز (Globalization) کا سامنا ہے۔ یہاں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کسی بھی گلوبلائزیشن کو کامیابی سے ہمکنار کرانے والی اصل طاقت نہ تو ٹیکنالوجی اور آلات ہیں، نہ ان کا ترقی یافتہ اور سریع ہونا، نہ بڑی طاقتوں کی اقتصادی برتری اور نہ ہی ان کی عیارانہ اور مکارانہ سیاست، اگرچہ یہ چیزیں اس کے لیے مہمیز کا کام ضرور دے سکتی ہیں تاہم اصل طاقت افکار، نظریات، کردار او رشخصیات کے انسانی فطرت کے مطابق ہونے میں ہے اور مغربی طاقتوں کی نظریاتی ماہیت (Idiological Essence) چند بنیادی نظریات کا ایک مرکب ہے جن کے چار عناصر ہیں۔ ۱۔ ہیومینزم (Humanism) ۲۔ سیکولرازم (Secularism) ۳۔ لبرل ازم (Liberalism) اور ۴۔ کیپٹل ازم (Capitalism)، اور یہ چاروں کے چاروں اور ان کے علاوہ دیگر نظریات بھی بشری ذہن کی تخلیق ہیں اور ظاہر ہے جو قاعدہ، قانون اور عقیدہ خود انسان بنائے گا اس میں کہیں نہ کہیں کوئی نقص ضرور ہو گا۔ اس لیے کہ قانون بنانے والا کم از کم اپنا مفاد ضرور سوچے گا جس کی ایک واضح مثال اقوام متحدہ کی تشکیل ہے۔ اس کی بنیاد پانچ بڑی طاقتوں نے رکھی تو جتنا بھی اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے یا متعلقہ اداروں کے قاعدے قوانین انصاف پسندانہ قرار دیئے جائیں پھر بھی پانچ بڑی طاقتوں کی ویٹو پاور (Veto Power) اس کا سب سے بڑا ظالمانہ قانون ہے، کیونکہ اس کے بل بوتے پر یہ پانچ بڑی طاقتیں کسی بھی فرد، قوم اور ملک کو اپنے قوانین کے شکنجے میں جکڑ سکتی ہیں لیکن کوئی بھی ملک حتیٰ کہ دنیا کے باقی سارے ممالک مل کر بھی ان کا مواخذہ تو کجا ان کے خلاف کوئی مذمتی قرارداد بھی آسانی سے پاس کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس کی وجہ سے یہ طاقتیں سیاسی، ثقافتی، عسکری اور اقتصادی حوالے سے کہیں بھی اور کسی وقت بھی شبخون ماریں کوئی بھی ان سے پوچھنے والا نہیں ہوتا ہے۔ چنانچہ انسانی ذہن کے اختراعی نظریات کے ظلم کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور ہوتا جائے گا۔ اس وجہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مغربی طاقتوں کے افکار و عقائد وغیرہ فطری ہونے سے بے بہرہ ہیں۔ ان میں خود ساختگی، تصنع اور فطرت دشمنی کا عنصر پایا جاتا ہے جبکہ انسانی فطرت، عدل و انصاف اور مساوات کا تقاصا کرتی ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی لبرل ڈیموکریسی کی سوچ کے زیر سایہ پنپنے والی گلوبلائزیشن یہی چاہتی ہے کہ امیر لوگ امیر سے امیر تر اور غریب لوگ غریب سے غریب تر ہو جائیں۔ یہاں تک کہ غربت کی وجہ سے لوگ اگر عزت دار ہیں تو مر جائیں ورنہ اپنی عزتوں کا سودا کر کے ان کے در کے سوالی بن جائیں۔ اسی سوچ کے تحت ہی دنیا کا اسّی فیصد سے بھی زیادہ سرمایہ بیس فی صد سے بھی کم لوگوں نے جمع کر رکھا ہے۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ دنیا کا آئندہ مطلق العنان حاکم وہی ہو گا جس کے پاس زیادہ سے زیادہ سرمایہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں کا سرمایہ اتنا ہے کہ ان کا سالانہ بلکہ شاید ماہانہ خرچہ دنیا کے بعض غریب ممالک کے سالانہ بجٹ کے برابر ہے۔
مغربی دنیا ایک عالمی حکومت کے حصول کی کوششوں میں ایک طرف سے تو مختلف اسلامی ممالک اور دیگر خطوں میں جنگ اور قتل و غارت کا بازار گرم کیے ہوئے ہے جہاں ان کے وحشیانہ جرائم کی ایک طویل فہرست ہے اور دوسری طرف اپنی کثیر القومی کمپنیوں کے ذریعے اقتصادی، اپنے مشنریوں کے ذریعہ نظریاتی اور ثقافتی استحصال بھی جاری رکھے ہوئے ہے، جبکہ تیسری طرف سے وہ اپنی سروے رپورٹوں، دستاویزی فیچر اور ثقافتی فلموں، خبروں، غرض ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ جیسے ذرائع ابلاغ کے ذریعے غلط اور جھوٹے پروپیگنڈے کر کے انسانی ذہن کو گمراہ، فطرت سے دور اور اپنے تابع کرنے کی انتہائی کوششوں میں مصروف ہے۔ اسے صرف اپنے میڈیا، اسلحہ، ٹیکنالوجی اور اقتصاد پر بھروسہ ہے جس کی وجہ سے دنیا میں روز بروز ظلم، فساد اور فحاشی تو بڑھتی جا رہی ہے مگر اس کے باوجود بھی اسے یہ یقین نہیں کہ آخر الزمان میں ایک عالمی حکومت کی سربراہی اس کے حصے میں آئے گی یا نہیں؟
یہاں تک کی بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ مغربی طاقتیں ہر ممکن طریقہ سے دنیا پر خود اپنی یا کم از کم اپنی مرضی کی ایک عالمی حکومت تشکیل دینا چاہتی ہیں جس میں انہیں دنیا کے کسی کونے میں بھی کسی بھی قسم کی سرگرمی سے کسی بھی وقت کوئی فرد یا حکومت روک نہ سکے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آہستہ آہستہ دنیا کی جغرافیائی سرحدیں معدوم ہوتی چلی جائیں گی۔ اس بارے میں آئن اسٹائن کا کہنا ہے کہ متعدد حکومتیں آخر کار بشر کی تباہی کا باعث بنیں گی اور دنیا والوں کو دو راستوں میں سے صرف ایک کا انتخاب کرنا ہو گا یا تو انرجی کے بین الاقوامی کنٹرول کے ساتھ ایک عالمی حکومت تشکیل پائے یا پھر موجودہ طریقے سے علیحدہ علیحدہ قومی حکومتیں اسی طرح باقی رہیں اور انسانی تباہی کا باعث ہوں۔
مشرقی اور مغربی طاقتوں نے مختلف بنیادوں پر عالمگیریت کے تجربے کیے۔ کہیں ثقافتی لحاظ سے، کہیں لسانی بنیادوں پر، کہیں نسلی لحاظ سے اور کہیں رنگوں کو بنیاد بنا کر مختلف تجربے کرتے رہے اور ان تمام تجربوں سے کہیں تہذیبوں کے تصادم کا نتیجہ اخذ کرتے رہے، کہیں تہذیبوں کی کثرت کا، لیکن حقیقت یہی ہے کہ دنیا میں ہم فکری سے زیادہ مناسب ماحول عالمگیریت کو نصیب نہیں ہو سکا۔ اس لیے اب وہ آئیڈیالوجی کی بنیادوں پر اپنی عالمی حکومت کا خواب دیکھ رہے ہیں اور اقتصاد سمیت ہر چیز کو اس اعتقاد اور آئیڈیالوجی کی ترویج کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا جیسا اپنے آپ کو سپر طاقت کہلانے والا ملک بھی جب کسی دوسرے ملک پر چڑھائی کرتا ہے تو وہاں اپنی فوج کے ساتھ سرمایہ داروں، دینی مبلغوں اور کتاب مقدس کو بھی ساتھ لے جاتا ہے۔ عراق اور افغانستان اس کی واضح مثالیں ہیں۔ عملی طور پر وہ جانتے ہیں کہ سب کو یکجا (Integrate) کرنے والی چیز عقیدہ اور تفکر یعنی دین اور آئیڈیالوجی ہے یعنی صرف دین ہی ایک ایسا عامل ہے جو رنگ، نسل، ہر خطہ، ہر علاقہ، ہر ثقافت غرض ہر قسم کے لوگوں کو اپنی اصلیت پر باقی رکھتے ہوئے اکٹھا کر سکتا ہے اور ان کے لیے ایک حاکم مقرر کر سکتا ہے۔ اسی بات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مذہب، فن حکومت میں مفقود عنصر کا مصنف اور انٹرنیشنل ریسرچ سینٹر کا امریکی ممبر ڈگلس جانسن لکھتا ہے کہ ’’دنیا آخرکار مذہب اور دین کے گرد جمع ہوگی۔ جب غیر دینی حکومتیں انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوں گی تو یہ خلا دینی فرامین ہی پُر کریں گے۔ اولین مفکر افلاطون اور برنارڈشا بھی دینی جذبات کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے گزشتہ دور میں عالمی حکومت کا ایک مکمل اور مختصر نمونہ اس دنیا میں طوفان نوح کے بعد پیش کیا جا چکا ہے جس میں حضرت نوحؑ اور ان کے پیروکاروں کی دنیا پر حکومت تھی۔ اس کا ذکر دیگر مقدس کتابوں کے علاوہ قرآن مجید میں اس طرح ملتا ہے۔ فَاَوْحَیْنَا اِلَیْہِ اَنِ اصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا فَاِذَا جَآء اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ فَاسْلُکْ فِیْہَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَہْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ مِنْہُمْ وَ لَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوا اِنَّہُمْ مُّغْرَقُوْنَo (مومنون:۲۷) البتہ اب ان ادیان اور آئیڈیا لوجیز میں بھی یہ دیکھنا ہو گا کہ کون سا دین انسانی فطرت کے سب سے زیادہ نزدیک ہے بلکہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ جو دین بھی فطرت کے عین مطابق ہو گا وہی آخر کار کامیابی سے ہمکنار ہو گا اور اس بات میں کسی بھی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ایک تو دین اسلام ہی انسانی فطرت کے عین مطابق ہے بلکہ فطرت انسانی کا دوسرا نام ہے کیونکہ اللہ خود قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: فَاَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo (الروم:۳۰) اور پھر خاص طور پر آخر الزمان اور اس میں ایک عالمی حکومت کے بارے میں اسلامی نظریہ ہی فطرت کے تقاضوں کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔ دین اسلام کا تکیہ فطرت اور انسان کے دین، اخلاق اور کردار پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام آخر الزمان کے واقعات کے سلسلے میں ہمیں خبردار کرتا ہے کہ دنیا کا ایک تہائی حصہ قدرتی آفات کی زَد میں آکر تباہ و برباد ہو جائے گا اور یہ قدرتی آفات ویسے نہیں آتے بلکہ ان کے بارے میں ارشادِ خداوندی ہے: انسان کے اپنے ہی فساد کی بدولت خشکی اور تَری میں فساد پھیل گیا۔ (الروم:۴۱) اور ایک اور مقام پر ارشادِ باری ہے: وَ اﷲُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَo (مائدہ: ۶۴)، نیز یہ بھی فرما دیا گیا کہ زمین میں گھوم پھر کر دیکھ لو کہ فساد پھیلانے والوں اور خدائی نشانیوں کو جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔
روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ دنیا کی دوسری ایک تہائی آبادی جنگ اور قتل و غارت میں ختم ہو جائے گی اور آج کل جو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ایجاد ہو چکے ہیں اور روزانہ دنیا کے کسی نہ کسی گوشے میں جنگ، دھماکے اور قتل و غارت کے واقعات ہو رہے ہیں ان کے پیشِ نظر احادیث و روایات کا یہ حصہ بھی ناقابلِ تردید ہے، پس ایک تہائی آبادی باقی رہ جائے گی۔
احادیث و روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ جب زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی تو اللہ اپنے رسول کے بارہویں جانشین کو ظاہر کرے گا جو فاطمی سادات کی نسل سے ہو گا جس کا اسمِ گرامی رسولِ مقبولؐ، مصطفی کے نام نامی اور لقب بھی آنحضرتؐ کے لقب سے ملتا ہو گا۔ وہ جو اس دنیا میں موجود مگر نظروں سے اوجھل ہے ظاہر ہو کر زمین کو عدل و انصاف اور رفاہ و آسائش سے اسی طرح بھر دے گا جس طرح پہلے وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی اور سرمایہ کو سب امیر و غریب میں مساوی اور منصفانہ طور پر تقسیم کرے گا جس سے کوئی بھی ضرورت مند باقی نہیں رہے گا، جس کی وجہ سے مال و دولت اور بنیادی ضروریات کے حصول کی خاطر کسی قسم کی کوئی لڑائی جھگڑا، چوری، ڈاکہ، فساد، قتل و غارت اور دہشت گردی نہیں ہوگی۔ جس کے نتیجے میں پوری دنیا پر امن و امان کا راج ہو گا۔ حق داروں کو ان کا حق ملے گا، حکومتی مناصب با صلاحیت، لائق اور حق دار لوگوں کو عطا ہوں گے جسے دیکھ کر لوگ رنگ، نسل، زبان، قوم، تہذیب حتیٰ کہ جغرافیائی سرحدوں کی پروا کیے بغیر جوق در جوق آپ (عج) اور دین اسلام پر ایمان لے آئیں گے اور اللہ کا یہ فرمان محقق ہو جائے گا کہ: ’’اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے سب ایمان لے آتے اور پرہیز گار بنتے تو ہم بھی ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘۔ (اعراف:۹۶) چنانچہ نتیجے کے طور پر اس دور میں سب جغرافیائی سرحدیں بے معنی ہو کر ختم ہو جائیں گی علم و عمل میں ترقی ہو گی، زمین اپنے تمام خزانے ظاہر کر دے گی، سبزہ اُگانے میں کسی قسم کے بخل سے کام نہیں لے گی اور سب خوشحال ہوں گے۔ ہمیں اس عالمی حکومت کے قیام پر پورا یقین ہے۔ اس لیے کہ اس کا وعدہ خود خدا نے ہمیں دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
’’خدا کا یہ حتمی ارادہ ہے کہ زمین کا حاکم ایک نیک پیشوا ہو‘‘۔ (الانبیاء:۱۰۵)
ارشادِ قدرت ہے:
’’اور ہمارا ارادہ ہے کہ جو لوگ روئے زمین میں کمزور کر دیئے گئے ہیں ان پر احسان کریں اور ان ہی لوگوں کو پیشوا بنائیںاور ان ہی کو اس زمین کا مالک بنائیں اور ان ہی کو روئے زمین پر پوری قدرت عطا کریں‘‘۔ (القصص:۵۔۶)
اور جب آخر الزمان میں حضرت مہدی (عج) کی عالمی حکومت قائم ہو جائے گی تو انسانوں کی ازلی کوشش اور ازلی انتظار رنگ لائے گا اور منجی عالم کا انتظار ختم ہو جائے گا۔ جب انسان کو کسی چیز کی مزید طلب ہی نہیں رہے گی تو خدا کے حکم سے دنیا کا اختتام اور آخرت کا آغاز ہو جائے گا۔
(بحوالہ: سہ ماہی ’’پیغامِ آشنا‘‘ اسلام آباد۔ اکتوبر تا دسمبر۲۰۰۸ء)
Leave a Reply