
جو قائدین اِس وقت سربراہِ مملکت یا سربراہِ حکومت ہیں وہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس یا انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں شاذ ہی نمودار ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی قانون اِس اصول کی بنیاد پر کام کرتا ہے کہ کوئی بھی شخصیت جب تک مملکت یا حکومت کی سربراہ ہو تب تک اُسے قانون کے دائرے میں نہیں لایا جاسکتا۔ ہاں، جب منصب کی مدت ختم ہوتی ہے تب معاملات تبدیل ہو جاتے ہیں۔
ایک زمانے تک پوری دنیا میں سخت گیر اور جابرانہ انداز کی فوجی حکومت کے سامنے اپوزیشن کی انتہائی توانا علامت کی حیثیت رکھنے والی میانمار (برما) کی رہنما آنگ سانگ سُوچی کو امن کے لیے کوششیں کرنے پر دنیا بھر سے انعامات ملے ہیں۔ ان میں امن کا نوبیل انعام بھی شامل ہے۔ اب ان انعامات اور اعزازات پر سوال اٹھایا جارہا ہے۔ آنگ سانگ سُوچی نے برما کے روہنگیا نسل کے مسلمانوں پر حکومت کے انتہائی جابرانہ مظالم کے خلاف خاموشی اختیار کرکے اپنی ساکھ ہی داؤ پر لگادی۔ میانمار کی حکومت نے روہنگیائی مسلمانوں کو اس قدر پریشان کیا کہ وہ بہت بڑی تعداد میں بنگلادیش اور دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ جب ان کے مظالم دیکھ کر بھی آنگ سانگ سُوچی کی زبان سے کچھ نہ نکلا تو دنیا بھر میں یہ آواز بلند ہونے لگی کہ اُنہیں دیے جانے والے اعزازات و انعامات واپس لیے جائیں۔
اب آنگ سانگ سُوچی نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔ اُنہوں نے اپنے ملک کی سرکاری مشینری کی جانب سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے کیس میں پیش ہوکر دنیا بھر کے امن پسندوں کو اپنے بارے میں رائے یکسر تبدیل کرلینے پر مجبور کردیا ہے۔
میانمار کی وزارتِ داخلہ کا دعویٰ ہے کہ روہنگیائی مسلمانوں کے حوالے سے جو کچھ بھی دنیا کے سامنے آیا ہے اُس کا بڑا سبب یہ ہے کہ یہ معاملہ بہت پیچیدہ ہے اور دوسری طرف میانمار کی اکثریت کے بیانیے کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔
کسی بھی ریاست کے خلاف انسانیت سوز مظالم کے الزامات کے تحت قانونی کارروائی خطرات سے عاری نہیں ہوتی۔ ہر ملک اپنے معاشی اور سفارتی مفادات کا مکمل تحفظ چاہتا ہے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کہتے ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات کو قانونی کارروائی کی سان پر چڑھانا کسی بھی طور خطرات سے خالی نہیں ہوا کرتا۔ کوئی بھی ریاست یہ پسند نہیں کرتی کہ اُس کی حدود میں رونما ہونے والے واقعات کو کسی عالمی عدالت میں اچھالا اور گھسیٹا جائے۔ روہنگیائی مسلمانوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہنری کسنجر کے الفاظ میں کہیے تو ’’کسی بھی حکومت سے اس کے اقدامات کے بارے میں زیادہ سوالات کیجیے تو معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ اچھی آمریت بھی رفتہ رفتہ غیر معمولی مظالم کی طرف چل دیتی ہے‘‘۔
ہنری کسنجر ایک اہم نکتہ فراموش کرگئے۔ رومن قانون میں بھی اس بات کی صراحت کی گئی تھی کہ چند ایک جرائم ایسے ہیں جن کا تعلق انسانی ضمیر سے ہے، اس لیے اُنہیں کسی بھی حال میں برداشت نہیں کیا جاسکتا یعنی کارروائی لازم ہے۔ قزاقی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ۱۷۰۱ء میں کیپٹن ولیم کِڈ کے کیس میں جیوری نے کہا تھا کہ قزاقوں کو انسانوں کے دشمن کہا جاتا ہے، اس لیے ان کے خلاف بین الاقوامی قانون کے تحت، کارروائی لازم ہے۔
میانمار کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والا کیس اندر سے نہیں بلکہ باہر سے یعنی مسلم اکثریت والی ریاست اور ۵۷ رکنی اسلامی کانفرنس کی تنظیم (او آئی سی) کی رکن گیمبیا کی طرف سے آیا ہے۔ اس نے ۴۶ صفحات پر مشتمل درخواست میں الزام عائد کیا ہے کہ میانمار کے صوبے ریکھائن میں روہنگیائی نسل کے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا، خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور بڑے پیمانے پر آبادیاں تاراج کردی گئیں۔ کیس میں یہ بھی درج کیا گیا ہے کہ روہنگیائی مسلمانوں کا ایک گروپ کی حیثیت سے نام و نشان مٹانے کے لیے انتہائی بہیمانہ انداز اختیار کیا گیا۔ بے حرمتی اور اِسی نوعیت کے دیگر جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ قتل عام اور لوگوں کو مکانوں میں بند کرکے آگ لگانے کے واقعات کے بھی شواہد ملے ہیں۔
روہنگیا بحران اقوام متحدہ کو حل کرنا ہے!
میانمار میں ریاستی مشینری کے تحت ڈھائے جانے والے مظالم سے تنگ آکر ۷ لاکھ ۲۰ ہزار سے زائد روہنگیائی نسل کے مسلمانوں نے بنگلادیش میں پناہ لی۔ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے انڈیپینڈنٹ انٹرنیشنل فیکٹ فائنڈنگ مشن تشکیل دیا، جس نے تحقیقات کے بعد بتایا کہ روہنگیائی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم میں سرکاری مشینری کا ہاتھ ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا۔ اگست ۲۰۱۸ء میں جاری کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ میانمار کے صوبوں Kahin اور Shan میں روہنگیائی مسلمانوں پر مظالم ڈھانے میں انتہا پسند گروہوں کا کلیدی کردار تھا۔ مشن نے اپنی رپورٹ میں اس بات کا اعتراف ضرور کیا کہ روہنگیائی نسل کے مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا، ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ اُن پر شدید جسمانی اور ذہنی اثرات مرتب ہوں، اُنہیں طبعی یا جسمانی طور پر ختم کرنے کی کوششوں کے ساتھ اس بات کی بھی کوشش کی گئی کہ اُن میں پیدائش کی شرح گھٹ جائے۔
یہ تمام باتیں اس امر کی غماز ہیں کہ روہنگیائی مسلمانوں کا کیس انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس لے جائے جانے کے قابل ہے۔ کسی بھی معاملے کو انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے جانے کے لیے متعلقہ ٹربیونلز اور دیگر اداروں کی طرف سے تحقیقات بھی لوازم میں شامل ہیں۔
آنگ سانگ سُوچی نے روہنگیائی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے اپنے ملک کے دفاع کرنے کا فیصلہ دو حیثیتوں میں کیا ہے۔ وہ وکیل بھی ہیں اور وزیر خارجہ بھی۔ اُن کے لیے فضا ہموار کرنے میں ملک کی میڈیا مشینری نے بھرپور کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ میانمار کی حکومت اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کیس میں آنگ سانگ سُوچی کے پیش ہونے سے بہت سے سوالات اٹھ کھڑے ہوں گے۔ مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے آنگ سانگ سُوچی کے فیصلے کو درست قرار دینے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ میانمار کے انتہا پسند گروہوں نے بھی آنگ سانگ سُوچی کے فیصلے کو سراہا ہے۔ یونائٹیڈ وا اسٹیٹ آرمی کے بیرونی ونگ کے سربراہ نی رانگ نے مسرّت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ آنگ سانگ سُوچی نے ملک کے دفاع کی ذمہ داری سنبھالی ہے۔ پا او نیشنل لبریشن آرگنائزیشن (پی این ایل او) کے چیئرمین کرنل کُھن اوکر نے بھی فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں حکومت کے ساتھ ہونا چاہیے، جو یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ جو کچھ روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ ہوا ہے اُسے قتل عام یا نسلی تطہیر قرار نہیں دیا جاسکتا۔
یہ موقف میانمار کی حدود میں کام کرنے والے تمام مسلح گروہوں کے لیے قابل قبول نہیں۔ دی میانمار نیشنل ڈیموکریٹک الائنس آرمی، ڈی ٹانگ نیشنل لبریشن آرمی اور ارکان آرمی کا کہنا ہے کہ قتل عام کے الزامات تاریخی نوعیت کے ہیں۔ کئی عشروں کے دوران ملک اس مرحلے سے گزرا ہے۔ اراکان آرمی کے ترجمان نے کہا کہ جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو آنگ سانگ سُوچی کی آڑ نہیں لینی چاہیے۔
گیمبیا کے کیس سے یہ بات زیادہ واضح ہوکر سامنے آگئی ہے کہ اگر کوئی ملک عالمی اداروں اور اُن کے تحت کام کرنے والے گروپس کا باضابطہ رکن نہ ہو تب بھی انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس اور دیگر متعلقہ اداروں میں بعض سنگین جرائم کا مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنیسٹی انٹر نیشنل بھی کہہ چکی ہے کہ ایک دو سنگین یا غیر سنگین کیسز انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس میں بھی چلائے جاسکتے ہیں۔
آنگ سانگ سُوچی نے انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس میں اپنے ملک کے دفاع کی ذمہ داری قبول کرکے بڑی عجیب صورتِ حال پیدا کردی ہے۔ اس سے خاصی تاریک تصویر تیار ہوئی ہے۔ امن سے متعلق کوششوں پر دنیا بھر سے اعزازات اور انعامات حاصل کرنے والی آنگ سانگ سُوچی نے میانمار کی انتہائی سخت گیر حکومت کا ساتھ دے کر ملک میں طویل مدت سے اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو درست قرار دینے اور جابرانہ نظام کو درست ٹھہرانے میں کلیدی کردار ادا کرنے کی ٹھانی ہے۔
ڈاکٹر بنوئے کیمپارک کیمبرج کے Selwyn College میں کامن ویلتھ اسکالر تھے۔ وہ آئی ایم آئی ٹی یونیورسٹی، میلبرن میں لیکچر دیتے ہیں۔ وہ گلوبل ریسرچ اور ایشیا پیسفک ریسرچ کے لیے باقاعدگی سے مضامین لکھتے رہتے ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Going to the ICJ: Myanmar, Genocide and Aung San Suu Kyi’s Gamble”. (“globalresearch.ca”. December 04, 2019)
Leave a Reply