
جس وقت صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ آئی، جس میں انہوں نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی حاکمیت تسلیم کرنے کی بات کی تھی، ہم لوگ اسرائیلی وزیراعظم کے گھر پر تھے، یہ ایک بڑا سرپرائز تھا۔ ہم یروشلم کے مقدس مقامات کے دورے پر امریکی وزیر ِخارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ تھے اور دن کے آخر میں کام ختم کرنے سے پہلے ان کے اور نیتن یاہو کے بیان کے منتظر تھے۔
ان دونوں نے پریس کانفرنس میں آنے میں خاصی دیر لگا دی، جس پر ہم سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ آیا صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ نے انہیں بھی بری طرح چونکا دیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ مسٹر نیتن یاہو کے لیے ایک خوشخبری تھی اور ہم سے بات کرتے ہوئے ان کا پہلا جملہ تھا ’میں بہت خوش ہوں‘۔
نیتن یاہو اس فیصلے سے نہیں بلکہ اس کی ٹائمِنگ سے حیران ہوئے ہوں گے کیونکہ گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں پر اسرائیل کے حق کو تسلیم کرنے کا معاملہ ٹرمپ انتظامیہ میں کافی عرصے سے زیر غور تھا اور حالیہ مہینوں میں اسرائیلی اہلکار اس کی منظوری کی پر زور کوششیں کر رہے تھے۔
بہت بڑی تبدیلی
دہائیوں سے امریکا اور دنیا کے بیشتر ممالک گولان پر اسرائیل کے قبضے کو مسترد کرتے آرہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج اصول کے مطابق کوئی ملک کسی علاقے پر قبضہ کر کے اسے اپنے پاس نہیں رکھ سکتا بلکہ اس کا مستقبل مذاکرات سے طے ہوگا۔ صدر ٹرمپ نے یہ صورتحال بدل دی ہے۔
اس فیصلے سے کس طرح کے سوال پیدا ہوتے ہیں؟
سب سے پہلے اور اہم ہے عالمی قوانین کا سوال۔
گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا حق تسلیم کر کے دراصل ٹرمپ علاقے پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کر رہے ہیں، اس کے بعد دوسرے ممالک کو ایسا کرنے سے روکنے کا ان کے پاس کیا جواز ہوگا مثلاً کرائمیا پر روس کا قبضہ۔
دوسرا یہ کہ انہوں نے کہا ہے کہ وہ یہ فیصلہ سیکورٹی وجوہات کی وجہ سے کر رہے ہیں یہاں ان کا مطلب ایران ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ایران اسرائیل کو ہدف بنانے کے لیے شام کا استعمال کر رہا ہے اور گولان کی پہاڑیاں فرنٹ لائن پر ہیں۔
وائٹ ہاؤس اور کانگریس کے کچھ ارکان کی یہی دلیل ہے اور اسرائیل بھی یہی دلیل دیتا آیا ہے۔ لیکن گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کیے جانے سے حقیقت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اسرائیل پہلے سے ہی وہاں فوجی قبضہ جمائے ہوئے ہے۔
یہاں اور واشنگٹن میں مبصرین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ نے یہ اعلان انتخابات میں نیتن یاہو کی حمایت میں اضافہ کرنے کے مقصد سے کیا ہے۔
شام میں جاری جنگ اس سے کیسے متاثر ہو سکتی ہے؟
اسرائیل شام میں ایرانی اہداف کو نشانہ بناتا رہتا ہے۔
ایک طرف شام خانہ جنگی کے سبب کمزور پڑ چکا ہے اور ایران امریکی پابندیوں سے متاثر ہوا ہے، جس کے بعد اسرائیل کو امریکا میں اپنے دوستوں کی حمایت سے اپنی دھونس جمانے کا موقع مل رہا ہے۔
دوسری جانب گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے قبضے پر کھلے عام کوئی تنازع بھی نہیں ہے۔ اس معاملے کو اچھالا جائے تواسرائیل کے ساتھ ایران اور اس کے علاقائی اتحادی حزب اللہ کے درمیان کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔
روس بھی اس ساری صورتحال سے خوش نہیں ہوگا۔
غربِ اردن پر کیا اثر پڑے گا؟
مقبوضہ غربِ اردن گولان کی پہاڑیوں سے مختلف ہے۔ اس پر اسرائیل نے ۱۹۶۷ء میں قبضہ کیا تھا لیکن یہاں فلسطینیوں کی بڑی آبادی ہے جو حقِ خود ارادیت کا مطالبہ کر رہی ہے۔
بیس سال سے اس حوالے سے مذاکرات جاری ہیں اور ان مذاکرات کے حامیوں کو تشویش ہے کہ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی حق کے تسلیم سے غربِ اردن کے اسرائیل سے الحاق کا مطالبہ زور پکڑ سکتا ہے۔
یہ تشویش بے بنیاد نہیں ہے کیونکہ وزیراعظم نیتن یاہو کے دائیں بازو کے اتحاد کے اراکان اس الحاق پر زور دے رہے ہیں۔ خود نیتن یاہو کی سیاسی جماعت میں ۲۹ میں سے ۲۸؍ارکان اس الحاق کی حمایت کرتے ہوئے دوبارہ انتخابات لڑ رہے ہیں۔
نیتن یاہو ان ۲۸؍ارکان میں شامل نہیں لیکن انہیں اپوزیشن کی جانب سے بدعنوانی کے الزامات اور سخت مقابلے کا سامنا ہے اور انہوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ طاقت میں رہنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔
اس سے ٹرمپ کے قیامِ امن کے عمل پر کیا اثرات پڑیں گے؟
گولان کے بارے میں صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان کی انتظامیہ امریکی پالیسی اسرائیل کے حق میں بدل رہی ہے۔ صدر ٹرمپ پہلے ہی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر چکے ہیں اور انہوں نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ادارے کی فنڈنگ کم کر دی ہے۔ انتظامیہ نے فلسطینی مقتدرہ کو ہر طرح کی امداد روک دی ہے اور ان پر دہشت گردوں کی مالی مدد اور امن کی کوششوں کو تباہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ اگر فلسطینی اتھارٹی پیش کی جانے والی تجاویز کو مسترد کرتی رہی تو ممکن ہے اس سے اسرائیل کے موقف کو مزید تقویت ملے گی۔
تاہم اس منصوبے کے لیے عرب ممالک کی تائید ضروری ہوگی، جو کافی عرصے سے اسرائیل کے زیرِ تسلط علاقوں کی واپسی کے خواشمند ہیں۔
بہت سے ممالک نے مسئلہ فلسطین کے بجائے ایران سے مبینہ خطرے کے پیشِ نظر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن معاہدے کی حمایت ظاہر کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ کے گولان کے بارے میں بیان کے باعث وہ عوامی سطح پر مشکل صورتحال کا شکار ہوجائیں گے۔
(مضمون نگار برکلے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سینئر فیلو ہیں، اور انسپائیرنگ پاکستان نامی ایک ترقی پسند پالیسی یونٹ کے سربراہ ہیں۔)
(بحوالہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘۔ ۲۳ مار چ ۲۰۱۹ء)
Leave a Reply