این اے سی (NAC) تاجرانِ جواہرات کی دکان کی منزل‘ مدراس کے جنوبی ہندوستانی شہر کا ایک اسٹور‘ سونے اور چاندی سے بنے ہوئے نفیس گلوبند سے بھرا ہوا ہے مگر مالکان کی اصل مالداری وقعت وہ تصویر ہے جو بالائی منزل پر ایک چھوٹے سے دفتر میں آویزاں ہے۔
یہ تصویر چار ہزار ہیروں سے مرصع ایک اونچا سا تاج دکھائی دیتی ہے جو تقریباً سات کلو گرام سونے سے بنا ہے۔ NAC تاجرانِ جواہرات کے چار کاریگروں نے چھ ماہ اس تاج کی تیاری میں صرف کیے جو ۷ لاکھ ڈالرز مالیت کا ہے۔ یہ تاج اب جنوبی ہندوستان کے تیرو چنور مندر میں موجود پدماوتی دیوی کے بُت پر سجا ہوا ہے۔
اننتا پدمانابن‘ NAC تاجرانِ جواہرات کے ایک کاروباری سانجھی‘ بڑے فخر سے اس طرح کے کارناموں سے پُرتصاویر کے البم دکھاتے ہیں جو ان کی دکان کی جانب سے دیگر مندروں کے لیے بھی انجام دیے گئے۔ مثلاً گرویور میں ایک مندر کا سونے کی ملمع کاری کیا ہوا محرابی راستہ‘ بدری ناتھ میں کبیرا دیوتا کے بت کے لیے چاندی کا تاج اور دیگر کئی ایک متعدد مندروں کے لیے سونے اور چاندی سے کی گئی سجاوٹ۔
پدمانابن کہتے ہیں کہ ہندوستان بھر میں مشہور مندروں میں بتوں پر سے چاندی کی ملمع کاری کو سونے کی ملمع کاری سے اور قریباً چھوٹے مندروں میں تانبے کی ملمع کاری کو چاندی کی ملمع کاری میں منتقل کرنے کا کام جاری ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں ’’ہندوستان میں لوگوں کے پاس اب زیادہ پیسہ ہے جس کا نتیجہ ہے کہ مندروں کو سونے اور چاندی سے سجایا جارہا ہے‘‘۔
قومی مندروں کی سونے کی ملمع سازی انسانی تاریخ کی سرمایہ کاری کے خبط کی ایک جھلک ہے۔ یعنی ہندوستانیوں کی سونے سے محبت۔ یہ دیس دنیا بھر میں سونے کی کُل فراہمی کا پانچواں حصہ ہر سال خریدتا ہے اور یہ خریداری اسے اس دھات کا دنیا کا سب سے بڑا صارف بناتی ہے۔ ماہرین کو اس بات کا یقین ہے کہ پندرہ سے بیس ہزار ٹن کی سونے کی سلاخیں‘ اینٹیں اور زیورات ہندوستان کے بینکوں کے تہہ خانوں یا گھروں کی تجوریوں میں موجود ہیں اور ہندوستانی اس ڈھیر میں پاگل پن کی حد تک اضافہ کر رہے ہیں۔ ورلڈ گولڈ کونسل کے اندازے کے مطابق سونے کی خریداری ۳۳ فیصد یعنی ۸۵۰ ٹن صرف ۲۰۰۵ء میں ہوئی ہے۔ اس اضافہ نے سونے کی قیمتوں میں زبردست تیزی پیدا کی ہے۔ سونے کی قیمت گزشتہ ۲۴ سال میں سب سے زیادہ یعنی ۲۰ء۵۴۱ ڈالر فی اونس ۶ جنوری ۲۰۰۶ء کو ریکارڈ کی گئی۔ اس میں دیگر وجوہات مثلاً دہشت گردی کے حوالے سے خدشات‘ عراق امریکا جنگ اور امریکی ڈالر کی قیمت جیسے امور شامل ہیں۔
گو کہ وہ تمام سونا جو ہندوستان میں درآمد کیا جاتا ہے‘ گھریلو استعمال میں نہیں آتا۔ کچھ اس میں سے زیورات تیار کر کے برآمد بھی کیا جاتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ ہندوستان کی سونے کی اشتہا تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں سے بھی کم نہیں ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستانی ابھی بھی سونا کیوں خرید رہے ہیں؟
کئی معنوں میں سونے کے حصول کی ہوس پرانے بوسیدہ ہندوستان کی ایک یادگار ہے۔ ایک ایسا ہندوستان جو نہ ہونے کے برابر سرمایہ کاروں کے حقوق دیتا ہے بلکہ کمزور مالیاتی نظام پر مشتمل ہے جہاں لوگ بینکوں پر اور اسٹاک مارکیٹ پر اعتبار نہیں کرتے بلکہ ٹھوس اثاثوں‘ زیادہ تر سونا اور جائیداد کی شکل میں اپنی دولت کو محفوظ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تازہ ترین معاشی لہر نے ہندوستانیوں کو کئی قسم کے اطمینان بخش اور نسبتاً محفوظ مالیاتی طریقے متعارف کرائے ہیں؛ میوچل فنڈ‘ اسٹاک‘ بانڈ اور تجریدی آرٹ بھی۔ امیر کبیر ہندوستانی اپنے سرمایہ کو مختلف انداز سے محفوظ کر رہے ہیں۔
’’معاشرے کے انتہائی اونچے طبقہ میں سونے کے حصول کا رجحان دَم توڑ رہا ہے‘‘۔ یہ بات شِو رام نے کہی جو مدراس میں ورلڈ گولڈ کونسل کے وائس پریزیڈنٹ ہیں۔ سونے کی طلب کی موجودہ لہر میں اوسط اور غریب طبقہ رہ گیا ہے۔ جس کی گواہی ہندوستانی معاشرہ میں نچلی سطح پر معاشی انقلاب ہے۔
گو کہ ہندوستان کی موجودہ معاشی لہر پر امیر طبقہ کو نفع رسائی کے حوالے سے کافی تنقید ہوئی ہے‘ نئی دولت ملک بھر کے کئی حصوں میں مزدور طبقہ کے فائز ارکان تک سرایت کر رہی ہے۔ مثلاً پدما کندا بابو مدراس کی ایک چالیس سالہ خاتون‘ اپنے خاندان کی پہلی عورت‘ جس نے گھر سے باہر نکل کر کام کیا ہے۔
کندا بابو ۸۵ ڈالرز ماہانہ کماتی ہے جو ہندوستانی معیار کے مطابق ایک اچھی تنخواہ ہے۔ وہ جو بھی بچا پاتی ہے‘ وہ کہتی ہے کہ وہ سونا خریدنے میں استعمال کرتی ہے۔ یہاں تک کہ کبھی ۱۲ ڈالرز کی اقساط کی صورت میں‘ جو چھوٹی سی مرصع بالیاں خریدنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔
’’میری طرح کے لوگوں کے لیے سونا خریدنا بڑے فخر کی بات ہے‘‘۔ وہ کہتی ہے: ’’سونا پہلے ہمارے والدین کے زمانہ میں ایک برطانوی طلائی سکہ چند سو روپوں میں آجاتا تھا جو اب کبھی خواب میں خریدنے کا نہیں سوچ سکتے۔ اب چھ ہزار روپے کا وہ برطانوی طلائی سکہ ملتا ہے‘‘۔
یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ جنوبی ہندوستان میں سونے کا تصرّف بڑھ گیا ہے‘ جہاں حالیہ برسوں کی تیز ترین معاشی ترقی دیکھی گئی ہے اور دولت کی گائوں‘ دیہات اور چھوٹے شہروں میں منتقلی دیکھنے میں آئی ہے۔ کیرالہ کی جنوبی ریاست جو مدراس سے کچھ دور نہیں‘ سونے کے جواہرات کے بڑے بڑے اشتہاری بورڈز سے بھری ہوئی ہے۔ کئی مقامی شادیوں میں توقع کی جاتی ہے کہ دلہن زیورات سے لدی پھندی ہو‘ جس میں سونے کے گلوبند‘ ہار‘ چوڑیاں‘ کڑے اور بالیاں شامل ہیں۔
امبیکا مینن جو کیرالہ میں ایک سماجی ورکر ہیں‘ کہتی ہیں: سونے کا یہ خبط ایک بڑی تبدیلی کا اظہار ہے۔ نیا پیسہ پرانے فرسودہ نظام اور ذات پات کے امتیاز کو مٹا رہا ہے۔ ’’آپ کی بیٹی پر سونے کا نچھاور ہونا‘ اس کی شادی کے موقع پر اس بات کا اعلان ہے کہ میں سماج میں نکل آئی ہوں اور میں بھی اہم ہوں‘‘۔
امبیکا کہتی ہے مگر مالی بوجھ بہت بڑھ جاتا ہے۔ ’’کچھ خاندان شادیوں میں سونے کی خریداری کے نتیجہ میں قرضوں میں جکڑ جاتے ہیں‘‘۔ کندا بابو نے کہا: ’’کچھ خاندان دیوالیہ ہو جاتے ہیں‘‘۔ ماہرینِ معیشت کہتے ہیں: سونے کے اس گُھن نے تباہ کن اثرات ڈالے ہیں۔ اگر یہ پیسہ جو سونے کی خریداری میں صرف ہوا‘ بینکوں یا اسٹاک میں سرمایہ کاری کیا جاتا‘ بہ نسبت اس کے کہ ایک غیرپیداواری اثاثہ کی شکل میں تجوریوں میں بند رکھا گیا‘ تو ہندوستان کی معیشت GDP کو چار چاند لگا دیتا‘‘۔
مگر پرانی سوچ مشکل ہی سے جان چھوڑتی ہے۔ ایک غیریقینی حالات والی دنیا میں سونا محفوظ بندرگاہ کی صورت نظر آتا ہے۔ ’’کئی ایک بینک ناکام ہو گئے‘ تالے ڈل گئے اور اس سب کے نتیجے میں غریب متاثر ہوتا رہا‘‘۔ یہ بات مدراس کی ایک استانی جھانسی رانی نے بتائی۔ جنہوں نے اپنے ایک رشتہ دار کا تذکرہ کیا‘ جنہوں نے ایک پرائیویٹ بینک میں پنشن کی رقم جمع کرائی اور جلد ہی انہوں نے اسے بند ہوتے اور تمام فنڈ ڈوبتے دیکھ لیا۔
اس موجودہ کَل بُل کے باوجود وہ لوگ جو سونے کی شکل میں محفوظ سرمایہ کاری کے حامی ہیں‘ تعداد میں سکڑنا شروع ہو گئے ہیں۔ قیمتوں کی بلند پروازی کے نتیجہ میں ہندوستانیوں نے زیورات کی دکانوں کا رخ تبدیل کر لیا ہے۔ یہاں تک کہ شادیوں کے سیزن میں بھی کہ جب روایتی طور پر ڈھیروں خریداری ہوتی ہے۔
’’دو تین ہفتوں سے لوگوں کا آنا کم ہو گیا ہے‘‘۔ پدمانابن مدراس کے ایک زیورات کے تاجر نے کہا: ’’مگر آخر میں انہیں یہی قیمت قبول کرنا ہو گی۔ ان کے پاس کوئی اور چوائس نہیں ہے وہ شادیوں کے لیے سونا لازمی خریدیں گے‘‘۔
کیا ہندوستانی سونا خریدنا نہیں چھوڑیں گے‘ باوجود یہ جاننے کے کہ اسٹاک اور میوچل فنڈ کے نتیجہ میں انہیں زیادہ بہتر پیسہ واپس ملے گا؟ اپنی دکان میں سات کلو گرام کے تاج کے پورٹریٹ کے نیچے بیٹھے ہوئے‘ جو پدماوتی دیوی کے لیے تیار کیا گیا تھا‘ پدمانابن نے ایک قہقہہ بلند کرتے ہوئے کہا: ’’ہاں یہ ہو سکتا ہے مگر اس میں سو سال لگیں گے‘‘۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘ میگزین۔ شمارہ۔ ۱۶ جنوری ۲۰۰۶ء۔۔۔ ترجمہ: انتصار احمد خان)
Leave a Reply