
ایران، اسرائیل اور سعودی عرب عام طور پر بین الاقوامی تنازعات پر مخالف سمتوں پر ہوتے ہیں۔
کئی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ کی ان سپر پاورز نے ایک دوسرے سے شکوک اور کڑواہٹ کا رویہ رکھا ہے اور ان کے درمیان تعلقات کبھی تو ’دشوار‘ اور کبھی ’بالکل ختم‘ ہی ہو جاتے ہیں۔
خطے کے دو بڑے شیعہ اور سنی مسلم ممالک ایران اور سعودی عرب، شام، یمن اور یہاں تک کہ فلسطین میں بھی اپنے اتحادیوں کے ذریعے پراکسی وار لڑ رہے ہیں اور دونوں ہی اسرائیل پر جس کے ساتھ ان میں سے کسی بھی ملک کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں تنقید کرتے ہیں۔
جبکہ اسرائیل اور سعودی عرب دونوں ہی ایران کے جوہری پروگرام کواپنے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں اور دونوں ہی ایران کے سب سے بڑے حریف امریکا کے مضبوط اتحادی ہیں۔
دوسری جانب چین ان تینوں ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے میں کامیاب رہا ہے، اور اس پر ان ممالک کے درمیان تناؤ سے کوئی اثر بھی نہیں پڑا ہے۔
ایسا کیسے ممکن ہوا؟
شروع شروع میں چین نے مشرق وسطیٰ کی قوتوں تک پہنچنے کے لیے وسیع حکمت عملی اپنائی جو ان ممالک کے درمیان حالیہ سرکاری دوروں سے واضح ہیں۔ جون میں ایرانی صدر حسن روحانی نے چین کا دورہ کیا۔
ایران کے لیے اہم رابطہ
چین اور ایران کے درمیان تعلقات ۱۹۷۹ء کے اسلامی انقلاب کی وجہ سے مضبوط ہوئے، جب ایران بین الاقوامی برادری میں تنہا ہو گیا تھا تو اس کے بعد ۱۹۸۰ء۔۱۹۸۸ء میں ایران عراق جنگ کے دوران چین ایران کو اسلحہ فراہم کرنے والا اہم ملک تھا۔ جب ۲۰۰۰ء کی دہائی میں امریکا اور یورپی یونین نے ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کی غرض سے اس پر پابندیوں میں اضافہ کیا تو اس وقت چین نے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات برقرار رکھے اور دیگر ممالک کی جانب سے انکار کے باوجود اسے ان اشیا تک رسائی میں مدد فراہم کی۔
۲۰۱۰ء میں بھی جب چین نے ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کی تائید کی تب بھی دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات ٹھیک رہے۔ ان تعلقات سے بیجنگ کو بھی فائدہ ہوا: ایرانی تیل درآمد کرنے کے ساتھ ساتھ چین نے اپنی مصنوعات اپنے شراکت دار کو بغیر کسی مقابلے کے برآمد کیں۔
امریکا کی جانب سے اب جب کہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری پروگرام سے نکلنے کا اعلان کر دیا گیا ہے اس صورتحال میں ایران اور چین کے درمیان تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
اسرائیل میں سرمایہ کاری اور ہائی ٹیک معاہدے
اسرائیل کے امریکا کے ساتھ قریبی سیاسی تعلقات کے باوجود اس نے چین کے ساتھ بھی انتہائی تیزی سے اقتصادی تعلقات قائم کیے ہیں۔
’’سینو اسرائیل گلوبل نیٹ ورک اینڈ اکیڈیمک لیڈر شپ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دورہ چین کے دوران دونوں ممالک کے درمیان ۲۵ ارب ڈالر کا معاہدہ طے پایا۔ اس وقت نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اسرائیل میں ہونے والی ہائی ٹیک سرمایہ کاری کا ایک تہائی حصہ چین کا ہے۔
’’ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘‘ نامی اخبار کی رپورٹ کے مطابق صرف ۲۰۱۶ء میں ہونے والی براہ راست سرمایہ کاری ۱۶ ؍ارب ڈالر تھی۔ ایشین سپر پاور چین سے بڑی تعداد میں سیاح اسرائیل جا رہے ہیں۔ گذشتہ سال ۲۰۱۷ء میں ایک لاکھ سے زائد چینی سیاح اسرائیل گئے جو کہ ۲۰۱۵ء کے مقابلے میں دو گنا زیادہ تعداد ہے۔
واشنگٹن میں تھنک ٹینک ’’کونسل آف فارن ریلیشنز‘‘ کے اعلیٰ محقق ایلیئٹ ایڈمز کا کہنا ہے کہ چین اور اسرائیل عملیت پسند رہے ہیں۔ ایڈمز نے اپنے تازہ تجزیے میں لکھا: ’دونوں ممالک شراکت داریوں کو اپنے خطوں سے باہر پھیلا رہے ہیں اور نئی منڈیوں تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ چین خاص طور پر اسرائیل کے ہائی ٹیک شعبے کی جانب کھنچا ہے، جبکہ اسرائیل چینی سرمایہ کاری کو قبول کر رہا ہے‘۔
انھوں نے مزید لکھا: ’اسرائیل چین کے ساتھ ان تعلقات کو دیگر ممالک کی جانب سے بائیکاٹ سے ہونے والے نقصان کو بھی پورا کرنے کے ایک راستے کے طور پر دیکھتا ہے‘۔
سعودی عرب میں صرف تیل ہی نہیں!
مارچ ۲۰۱۷ء میں سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا استقبال چینی صدر شی جن پنگ نے کیا۔ یہ ملاقات دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کرنے والے ملک کے سربراہ اور ۲۰۱۷ء میں دنیا کے سب سے بڑے تیل درآمد کرنے والے ملک کے صدر کے درمیان تھی۔
ایجنڈے میں خام تیل تو سرفہرست تھا ہی، لیکن چین اور سعودی عرب نے قابل تجدید توانائی اور خلائی شعبوں میں بھی تجارتی اور اقتصادی معاہدوں کا اعلان کیا۔
عالمی امور کے تجزیہ کار ڈیوڈ اوالالو کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب کو اس بات کا یقین ہے کہ تیل کی قیمتیں عنقریب دوبارہ ۱۰۰ ڈالر تک نہیں پہنچیں گی، لہٰذا اپنے اقتصادی اثاثوں کو تبدیل کرنے کا یہی موقع تھا‘۔
’اسی طرح چین میں سعودی تیل کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی موجودگی بڑھانے کے لیے سعودی عرب میں انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے‘۔ تاہم چین اور سعودی عرب سیاسی طور پر ہمیشہ متفق نہیں ہوتے ہیں۔ بیجنگ نے یمنی حکومت کو حوثیوں کے خلاف جنگ میں مدد کی پیشکش کی ہے۔ تاہم چین نے شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران ایک ایسا رویہ اختیار کیا ہے جو شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے حق میں ہے، جبکہ بشارالاسد سعودی عرب کے دشمن ہیں۔
کامیابی کی حدیں
لیکن چین ان تینوں ممالک کے ساتھ تعلقات میں رکاوٹوں سے کیسے بچ گیا؟
امریکی فرم ’’اسٹراٹفر‘‘ کی تجزیہ کار ایمیلی ہاتھرون نے بی بی سی کو بتایا: ’ایران، اسرائیل اور سعودی عرب ایک ساتھ چلنے کو تو تیار نہیں ہوتے لیکن تینوں ہی چین جیسی معاشی سپر پاور کے ساتھ تعلق برقرار رکھنے پر خوش ہیں‘۔ انھوں نے مزید کہا: ’چین ہمیشہ سے ہی مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ مذہبی یا سیاسی نظریات میں پڑے بغیر مستحکم تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔ اس نے اس منقسم خطے میں کسی ایک فریق کی حمایت نہیں کی۔ شراکت دار چین کے ساتھ تجارت کرنے پر خوش ہیں اور سرمایہ کاری قبول کرتے ہیں کیونکہ بیجنگ امریکا جیسے دیگر ممالک کی طرح نظریات لاگو نہیں کرتا‘۔
اس کے علاوہ چین امریکا کی طرح دیگر ممالک کے لیے اپنی حمایت کو انسانی حقوق کی پالیسیوں کے ساتھ نہیں جوڑتا۔
ہاتھرون کے خیال میں بیجنگ کی حکمت عملی تاحال بہت کامیاب رہی ہے، لیکن وہ متنبہ کرتی ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی مداخلت ان تین ممالک میں براہ راست نہ سہی، ایک خاص وقت کے بعد مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
انھوں نے آخر میں اپنی بات کو ختم کرتے کہا: ’واشنگٹن معاشی خطرات کے پیش نظر اسرائیل اور سعودی عرب میں چین کی سرگرمیوں پر نظر رکھے گا اور ایران پر اس کی پابندیوں پر بیجنگ کے موقف کو کھلے عام توہین کے طور پر دیکھے گا۔
(بحوالہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘۔ یکم اگست ۲۰۱۸ء)
Leave a Reply