بنارس اور یو پی کے دوسرے مشرقی شہروں میں کھڑی بولی کا استعمال ہوتا ہے لیکن ان شہروں کے قرب و جوار اور مغربی بہار میں بھوجپوری بولی جاتی ہے۔ شمالی بہار کے دیہی علاقوں میں میتھلی بولی جاتی ہے (جس زبان میں عظیم شاعر ودیاپتی نے لکھا) لیکن وہاں کے شہروں میں کھڑی بولی میں گفتگو کی جاتی ہے۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش کے شہروں میں کھڑی بولی کا استعمال ہوتا ہے لیکن وہاں کے دیہی علاقوں میں علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جنہیں باہر کا آدمی نہیں سمجھ سکتا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شمالی ہندوستان کے بیشتر دیہی علاقوں میں مختلف علاقائی زبانوں (Dialects)کا استعمال ہوتا ہے، لیکن شہری آبادی کی مشترک زبان کھڑی بولی ہے۔ یہ کیسے ہوا؟ ایسا اس طرح سے ہوا کہ مغلوں کے آنے سے پہلے پیداواری قوت میں اضافے کی وجہ سے ہندوستان میں ایک بہت بڑے مشترک بازار کا وجود عمل میں آ چکا تھا۔ بہار یا مدھیہ پردیش کا تاجر آسانی سے اپنا مال اترپردیش، راجستھان یا پنجاب کے کسی شہر میں بیچ سکتا تھا۔ کیونکہ ایک مشترکہ زبان کھڑی بولی موجود تھی جسے بیچنے اور خریدنے والے دونوں اپنی علاقائی زبان کے علاوہ جانتے تھے۔ اس طرح سے کھڑی بولی ہندوستان کے مختلف شہروں کی ایک مشترک زبان ہے۔ یہاں تک کہ جن علاقوں میں ہندی نہیں بولی جاتی ان علاقوں میں بھی کھڑی بولی، دوسری زبان کے طور پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس طرح اگر کوئی کولکتہ، بنگلور، گجرات، لاہور یا کراچی جائے یا جنوبی ہند میں جائے تو وہاں کے شہروں میں رہنے والوں کے ساتھ کھڑی بولی میں گفتگو کر سکتا ہے لیکن دیہاتوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کھڑی بولی کی ہیئت کو سمجھنے کے بعد اب ہم اُردو کو سمجھنے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اُردو کی بنیاد کھڑی بولی ہے لیکن ڈھانچہ فارسی کا ہے۔ اس کی وضاحت ضروری ہے۔ کئی صدیوں تک فارسی ہندوستان کی درباری زبان تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ فردوسی، حافظ، سعدی، رومی اور عمر خیام وغیرہ شاعروں اور ادیبوں نے اس زبان کو ایک مہذب اور آداب و القاب کی زبان کے طور پر بہت ترقی عطا کی تھی اور اس طرح یہ زبان مشرقی دنیا کے بیشتر حصوں میں پھیل گئی۔ مغل ترک تھے فارسی نہیں اور اگرچہ ان کی مادری زبان ترکی تھی لیکن درباری زبان کے طور پرانہوں نے فارسی کو اس لیے اپنایا کیونکہ فارسی زبان ترکی زبان سے کہیں آگے تھی۔ (اکبر کے وزیر مالیات راجہ ٹوڈرمل نے زمین اور مال گزاری کے سارے ریکارڈ فارسی میں لکھوائے تھے) اس طرح اگرچہ بابر نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ’’تزکِ بابری‘‘ ترکی زبان میں لکھی تھی لیکن اس کے پوتے اکبر نے اس کا ترجمہ فارسی میں کرایا اور اس کا نام ’’بابر نامہ‘‘ رکھا۔ اکبر نے اپنی سوانح حیات ’’اکبر نامہ‘‘ کو فارسی زبان میں ابوالفضل سے لکھوایا اسی طرح اس کے بیٹے جہانگیر کی خود نوشت سوانح عمری ’’جہانگیر نامہ‘‘ اور شاہ جہاں کی سوانح حیات ’’شاہجہاں نامہ‘‘ بھی فارسی میں لکھی گئیں۔
کسی باہری زبان کا کسی دوسرے ملک کی درباری زبان یا اعلیٰ طبقے کی زبان ہو جانا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ مثلاً روس اور جرمنی کے اعلیٰ طبقے (اور زیادہ تر یورپین) کی زبان نپولین کے حملے اور بعد تک بھی فرانسیسی زبان تھی اور یہ بات ٹالسٹائے کی “War and Peace” سے ثابت ہے۔ اور آج بھی ہندوستان کے اعلیٰ طبقے (Elite) کی زبان انگریزی ہے۔ فارسی کئی صدیوں تک ہندوستان کی درباری زبان رہی، اس لیے اس کا اثر شہروں کی مشترک زبان پر پڑا جو کہ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کھڑی بولی تھی۔ پھر اُردو کیسے وجود میں آئی؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے اور میں اس کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ اگرچہ اکبر سے اورنگ زیب تک کے مغل بادشاہ ہندوستان کے بیشتر حصوں میں مضبوط حکمراں تھے لیکن ان کے بعد کے مغل بادشاہوں کی حیثیت ان کے آباء و اجداد کی پرچھائی ہو کر رہ گئی تھی۔ اسی لیے یہ مشہور ہوا کہ ’’سلطنت شاہ عالم از دلی تا پالم‘‘۔
بعد کے یہ مغل بادشاہ صرف نام کے بادشاہ تھے۔ ان کی حالت خستہ تھی۔ وہ اپنی سلطنت انگریزوں اور مراٹھا وغیرہ کو ہار چکے تھے اور ان کے کچھ سپہ سالار آزاد حکمراں بن گئے تھے۔ (مثلاً اودھ کے نواب اور حیدرآباد کے نظام) ان کے دور میں فارسی دھیرے دھیرے دربار میں استعمال ہونا بند ہو گئی اور اس کی جگہ اردو لینے لگی۔
ایسا کیوں ہوا کہ فارسی عظیم مغل حکمرانوں کے دور میں درباری زبان تھی اور بعد کے مغل بادشاہوں کے دور میں درباری زبان اُردو ہو گئی؟ ایسا اس لیے ہوا کہ بعد کے مغل حکمران صحیح معنوں میں حکمراں نہیں تھے بلکہ قریب قریب عام آدمی کے زمرہ میں آ گئے تھے اور ان ساری پریشانیوں سے نبرد آزما تھے جن سے عام آدمی نبرد آزما تھا۔ اس لیے ان کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ ایسی زبان کو اپنائیں جو عام آدمی کے قریب ہو۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھڑی بولی شہروں میں جو عام آدمی کی زبان تھی وہ درباری زبان کیوں نہیں بن سکی؟ ایسا اس لیے ہوا کہ اگرچہ بعد کے مغل حکمراں کمزور اور غریب ہو گئے تھے، لیکن انہوں نے اور ان کے لیفٹیننٹ، نواب اور وزیر وغیرہ نے اپنی شان و شوکت، تہذیب اور خودداری کو برقرار رکھا۔ وہ اب بھی ’’شہزادۂ تیموریہ‘‘ کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ یعنی ان کو اس بات پر ناز تھا کہ وہ عظیم فاتح تیموری کی نسل سے ہیں (تیمور بابر کے دادا کے پر دادا تھے) اس طرح سے ان کی حیثیت اگرچہ بہت گر گئی تھی پھر بھی انہیں عام آدمی کی طرح رہنا اور کہلوانا منظور نہیں تھا اور اپنی شناخت بنائے رکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے فارسی کو ترک کر کے کھڑی بولی کو اپنا لیا لیکن یہ کھڑی بولی عام آدمی والی کھڑی بولی نہیں تھی۔ بلکہ ایک خاص قسم کی کھڑی بولی تھی جس میں فارسی زبان کا رنگ، لب و لہجہ، اعلیٰ ذوق، القاب و آداب اور اعلیٰ خوش سلیقگی موجود تھی۔ دوسرے لفظوں میں وہ ایسی کھڑی بولی کا استعمال کرتے تھے جس میں اعلیٰ ذوق، حد درجہ شائستگی اور تہذیب موجود تھی اور جس میں فارسی کے کچھ الفاظ کا بھی استعمال ہوتا تھا۔ اس طرح اُردو ان اعلیٰ اشراف (Aristocrat) کی زبان تھی جو اگرچہ غریب ہو چکے تھے لیکن اپنی شان، اپنا وقار اور عزت نفس کو محفوظ کرنے میں کامیاب تھے۔
اُردو کے سب سے بڑے شاعر مرزا غالب کی وہ کہانی بہت مشہور ہے کہ اگرچہ ان کو مالی دشواریوں کا زبردست سامنا تھا لیکن انہوں نے ایک نوکری سے انکار کر دیا تھا کیونکہ جب وہ نوکری جوائن کرنے پہنچے تو وہاں ان کو لینے کوئی نہیں آیا تھا۔ اردو والوں کی شان، عزت نفس اور خودداری کا اندازہ جوش کے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے:
حشر میں بھی خسروانہ شان سے جائیں گے ہم
اور اگر پرسش نہ ہو گی تو پلٹ آئیں گے ہم
اور پھر مرزا غالب کا وہ شعر:
بندگی میں بھی وہ آزاد و خود بیں ہیں کہ ہم
اُلٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
اس طرح اُردو اعلیٰ اور ادنیٰ دونوں کی زبان ہے۔ یہ اعلیٰ طبقۂ اشراف کی بھی زبان ہے اور عام آدمی کی بھی۔ عام آدمی کی زبان اس لیے کہ آخری مغل اگرچہ پوری طرح نہیں پھر بھی عام آدمی کی طرح ہو گئے تھے۔ کیونکہ حکومت ان کے ہاتھوں سے جا چکی تھی اس کے ساتھ یہ کہنا بھی درست ہے کہ اردو عام آدمی کی زبان نہیں تھی کیونکہ اگرچہ آخری مغل حکمراں کمزور اور بے وقعت ہو کر رہ گئے تھے پھر بھی انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کی عزت اور شان میں کوئی فرق نہ آئے اور پہلے والا وقار اور شان و شوکت باقی رہے۔ اس طرح اُردو کی دوہری فطرت ہے۔ یہ عام آدمی کی بھی زبان ہے اور اعلیٰ طبقے کی بھی۔ (عام آدمی کی زبان کھڑی بولی ہوئی) یہ بات بظاہر متضاد لگتی ہے لیکن ہے صحیح اور درحقیقت یہی اُردو کی خوبصورتی ہے۔ یہ عام آدمی کی زبان ہے کیونکہ یہ عام آدمی کے مسائل، حالات، رنج و غم اور امیدوں کی غمازی کرتی ہے اور اس کے ساتھ شرافت، اعلیٰ ظرفی، شائستگی ، ادب اور شان کی زبان بھی ہے۔
اوپر یہ بات کہی گئی ہے کہ بنیادی طور پر اردو دو زبانوں کے میل سے بنی ہے۔ ہندوستانی یا آسان ہندی اور فارسی۔ ہندوستانی عام آدمی کی زبان اور فارسی اعلیٰ طبقے کی زبان، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اردو ایک خاص قسم کی ہندوستانی زبان ہے نہ کہ ایک خاص قسم کی فارسی زبان (کیونکہ اس کے سارے فعل ہندوستانی زبان کے ہیں) اس تجزیہ کو جاری رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ اردو میں جو احساسات اور خیالات پیش کیے گئے ہیں ان کا تعلق عام آدمی کی زندگی سے ہے لیکن ان احساسات اور خیالات کو جس انداز میں پیش کیا گیا ہے وہ اعلیٰ درجے کا شائستہ اور Aristocratic انداز ہے۔ دوسرے لفظوں میں اُردو ادب اور شاعری میں عام آدمی کی امیدوں، آرزوئوں، تکالیف، رنج و الم اور احساسات کا ذکر ہے۔ لیکن یہ ذکر یا پیش کرنے کا انداز (اندازِ بیان) عام آدمی کا انداز نہیں بلکہ اعلیٰ معاشرتی طبقے کا انداز ہے۔ مثال کے طورپر اردو کے سب سے بڑے شاعر غالب کو عام شاعرانہ انداز پسند نہیں تھا۔ اپنے آپ کو اعلیٰ طبقاتی (Aristocrat) تصور کرتے تھے اور ان کی یہ شدید خواہش تھی کہ وہ عام آدمی یا شاعر سے مختلف ہوں اسی لیے ان کی شاعری جدت پسند اور غیر روایتی ہے۔غالب کا یہ پختہ خیال تھا کہ شاعری کی زبان وہ نہیں ہونی چاہیے جسے عام طور سے لوگ بولتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار براہ راست نہیں بلکہ مبہم اور اشارے اور کنایوں میں کرتے ہیں۔
یہی بات اُردو کے دوسرے شاعروں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ وہ بھی اپنے احساسات اور خیالات کا اظہار سیدھی زبان میں نہیں بلکہ مبہم استعاروں، گھما پھرا کر اور اشاروں اور کنایوں میں کرتے ہیں تاکہ وہ زبان شائستہ اور ایلیٹ (Elite) کی زبان لگے جو عام زبان سے مختلف ہو۔ لیکن اس انداز کی وجہ سے کبھی کبھی تخلیق کو سمجھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ (اسی لیے نقاد اور سوانح نگار حالی و غالب کی ایک تہائی شاعری کو اردو شاعری نہیں مانتے) اور کبھی کبھی کئی معنی کا گمان ہونے لگتا ہے۔۔۔۔۔ جاری ہے!
(مضمون نگار سپریم کورٹ آف انڈیا کے جج ہیں)
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۲۸ نومبر ۲۰۰۸)
Leave a Reply