جب تک طاقتور مغلوں کی حکمرانی رہی دربار کی زبان فارسی رہی اردو کو عزت کا مقام نہیں ملا اور یہ شمالی ہندوستان میں درباری زبان نہ بن سکی لیکن جنوبی ہند اورگجرات میں اس کو پناہ ملی جہاں یہ ایلیٹ (Elite) کی زبان تھی۔ایک معنی میں اردو کی پیدائش جنوبی ہندوستان میں ہوئی اور طاقتور مغلوں کے دور میں اردو وہاں مقبول ہوئی۔ جنوب کی سلطنتیں مثلاً گولکنڈہ، بیجاپور اور احمد نگر وغیرہ نے اردو کی سرپرستی کی اور وہاں اردو دربار کی زبان کے طور پر استعمال ہونے لگی۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ عظیم مغلوں کے دور میں اردو جنوبی ہند اور گجرات میں درباری زبان ہو گئی لیکن شمالی ہندوستان میں جب تک طاقتور مغلوں کی حکومت تھی اردو فارسی کی جگہ نہ لے سکی۔
درحقیقت جب شمال میں اُردو کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور اسے کم درجے کی زبان سمجھا جا رہا تھا اور فارسی کو ایک مثالی اور اعلیٰ زبان سمجھا جاتا تھا اس وقت جنوبی ہند اور گجرات میں بڑے پیمانے پر اعلیٰ طبقے کی زبان اردو ہو گئی تھی۔ اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ۱۷۰۰ عیسوی میں اورنگ زیب کے زمانے میں جنوبی ہند کا شاعر ولی دکنی دہلی آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کا نام اور اس کی شہرت پہلے ہی دہلی پہنچ چکی ہے۔ کیونکہ اس کی شاعری اردو زبان میں تھی جسے دلی کا عام آدمی سمجھ سکتا تھا جب کہ اس دور کے دلی کے شعرا فارسی میں شاعری کرتے تھے جو عام آدمی کی سمجھ سے باہر تھی، (کچھ لوگ ولی دکنی کو بابائے اردو یا اردو کا بانی کہتے ہیں) ولی دکنی اگرچہ جنوبی ہند کے تھے لیکن ان کو عموماً بابائے اردو مانا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے ہی دلی کے شعرا پر انکشاف کیا کہ اردو میں شاعری کرنا ممکن ہے۔ یہ ایک ایسی زبان ہے جسے عام آدمی سمجھ سکتا ہے اس سے اردو کے وقار میں اضافہ ہوا۔
۱۷۰۷ء میں اورنگ زیب کی موت کے بعد جب مغل حکمرانوں کا زوال شروع ہوا تو درباروں میں دھیرے دھیرے اُردو فارسی کی جگہ لینے لگی مغل حکمرانوں کے بشمول آخری مغل حکمران کے فرمان فارسی میں ہوتے تھے اردو میں نہیں۔ جب میں چمبھا ہما چل پردیش گیا تو وہاں کا عجائب گھر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جو پہلے ہندو بادشاہ کا محل ہوا کرتا تھا وہاں مغلوں کے جتنے فرمان ہیں وہ سب فارسی میں ہیں۔ ایک بھی اُردو میں نہیں۔ اگرچہ ایسا بادل نخواستہ ہوا۔ غالب کی مثال پیش کی جا سکتی ہے انہوں نے اپنی فارسی شاعری کو زیادہ ترجیح دی اور اپنی ہی اردو شاعری کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا (یہ الگ بات ہے کہ آج ان کو جو شہرت حاصل ہے وہ ان کی اردو شاعری کی وجہ سے ہے) غالب اپنے ایک مکتوب بنام اپنے دوست منشی شیونرائن آرام میں لکھتے ہیں ’’میرے دوست! میں اُردو میں کیسے لکھ سکتا ہوں؟ کیا میرا رتبہ اتنا کم ہو گیا ہے کہ مجھ سے امید کی جائے کہ میں اردو میں لکھوں؟‘‘۔ اس طرح سے اردو میں لکھنا اپنے رتبے کو کم کرنا سمجھا جاتا تھا اور اس وقت کے سارے معزز قلم کار فارسی میں ہی لکھا کرتے تھے۔
میں ایک دوسری مثال دینا چاہوں گا ۔ میرے پوروج اور بزرگ پنڈت مانسہ رام کاٹجو ۱۷۷۵ء میں کشمیر سے آئے تو انہوں نے کروکشیتر کے پانڈہ کے رجسٹر میں مندرجہ ذیل جملہ لکھا ’’بتالش معاش آمدم‘‘ آخر میں انہیں مغربی مدھیہ پردیش کے جاورا کے نواب کے یہاں نوکری ملی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے فارسی میں لکھا اردو میں نہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں تعلیم یافتہ طبقے لکھنے کے لیے فارسی کا استعمال کرتا تھا۔ اُردو عام بول چال کی زبان ہو سکتی تھی لیکن تحریری زبان فارسی تھی۔
غالب جنہیں ترکی نسل کے ہونے پر فخر تھا اُردو میں بادلِ نخواستہ لکھتے تھے۔ فارسی ان کی پسندیدہ زبان تھی۔ ان کی شروع کی شاعری میں فارسیت بدرجہ اَتم موجود ہے اس لیے اس کا سمجھنا بہت دشوار ہے اور ان کے بہترین اشعار وہ ہیں جنہیں انہوں نے بعد میں لکھا اور کھڑی بولی کا زیادہ استعمال کیا۔
۱۷۰۷ء میں اورنگ زیب کے انتقال کے بعد مغل حکومت کا خاتمہ اُردو کے لیے نیک فال ثابت ہوا کیونکہ اس کے بعد ہی یہ ممکن تھا کہ عدالت میں فارسی کی جگہ اردو لے۔ اردو کے اچھے دن آخری مغل بادشاہوں کے دور میں شروع ہوئے جو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دور میں اپنے عروج کو پہنچے (جیسے غالب، ذوق، جوش وغیرہ)۔
۱۹۴۷ء تک اردو دربار اور عدالت کی زبان رہی اور ہندوستان کے بیشتر حلقوں میں تعلیم یافتہ لوگوں کی زبان رہی۔ اس کے ساتھ ہی اپنی دوہری خصوصیت کی بنیاد پر کھڑی بولی کے طور پر شہری علاقوں میں عام لوگوں کی زبان رہی۔ چونکہ اردو ہندوستان کے شہری علاقوں میں عام لوگوں کی زبان رہی اس لیے اس نے دوسری زبانوں کے الفاظ بھی مستعار لیے اور دوسری زبانوں کے الفاظ لینے سے کبھی انکار یا مزاحمت نہیں کی۔ چونکہ اردو عام لوگوں کی زبان تھی اس لیے ہر عام آدمی اس سے محبت کرتا تھا اور آج بھی کرتا ہے۔
اس کو تین طرح سے ثابت کیا جا سکتا ہے: (۱) آج بھی ہندی فلموں کے گانے اردو میں ہیں کیونکہ چاہے کوئی کتنا دبانا چھپانا چاہے دل کی آواز اپنی ہی زبان میں ابھرے گی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نوجوان تھا تو میرے ہم عصر گایا کرتے تھے: ’’اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو‘‘۔ یا ’’دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن‘‘ اور اس وقت ہمیں یہ کبھی خیال نہیں آیا کہ یہ فلمی گانے عظیم شاعر غالب کی شاعری کے اشعار ہیں (۲) آج بھی ریلوے پلیٹ فارم کی کتاب کی دکانوں پر جو کتابیں بکتی ہیں ان میں غالب، میر، فیض، جوش، فراق، حالی، داغ اور ذوق وغیرہ کی شاعری کی کتابیں ہیں۔ اگرچہ آج کل وہ دیونا گری رسم الخط ہیں۔ ہندی شاعروں کی کتابیں نہیں بکتیں۔ ہمیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ہندی۔ نہ کہ اردو۔عوام کی زبان ہے توپھر ایسا کیوں ہے کہ ہندی کے شاعر مہا دیوی ورما یا سمترانندن پنت کی کتابیں ریلوے بک اسٹال جہاں عام آدمی کتابیں خریدتے ہیں نہیں بیچی جاتیں اور ہندی بولنے والے اردو شاعری کی کتابیں خریدتے ہیں؟ (۳) ہندی کے قلم کار جن کا اردو پس منظر ہے جیسے پریم چند، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی سحر، پروفیسر گوپی چند نارنگ اور مالک رام کی مانگ ہندی دنیا میں بھی ہے۔
اُردو کو ہندوستان کے لوگ پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگوں کے درمیان پھول پھل کر بڑی ہوئی ہے۔ اردو ادب، احتجاج کا ادب ہے، یہ احتجاج انسانی تکلیف، درد اور ناانصافی کے خلاف ہے۔ ملاحظہ فرمایئے فیض احمد فیض کے یہ اشعار:
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چُرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
اوپر کے اشعار پاکستان میں مارشل لاء کے دوران تانا شاہی، ڈکٹیٹر شپ اور ظلم کے خلاف لکھے گئے بے مثال اشعار ہیں۔
اردو حب الوطنی کی بھی زبان ہے۔ رام پرساد بسمل کے اشعار ہر خاص و عام کی زبان زد ہیں:
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
علامہ اقبال کا شعر بھی یہاں موزوں ہو گا:
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے
اُردو شاعری نے فرسودہ سماجی رسم و رواج اور کھوکھلی روایت کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ جیسا کہ غالب لکھتے ہیں:
نہیں تسبیح اور زنار کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
یہاں سعادت حسن منٹو کی مختصر کہانیوں کا حوالہ بھی دیا جا سکتا ہے، خاص طور سے جن حالات اور تکالیف اور اذیت کا ذکر انہوں نے ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ اور ’’ٹیٹوال کا کُتا‘‘ میں کیا ہے۔
دورِ جدید کے ہندوستان میں چونکہ اُردو عوامی زبان ہے اس لیے اس کا مزاج خالصتاً سیکولر ہے۔ صرف اقبال کے آخری دور کی شاعری کو چھوڑ کر جب وہ نیشنلزم سے اسلامی شاعری کی طرف متوجہ ہوئے (بحوالہ اردو ادب) کی تاریخ از محمد صادق دوسری ایڈیشن ، صفحات (۴۶۱۔ ۴۶۵) کچھ بڑے شاعروں نے تو مذہب کے خلاف تک لکھ ڈالا:
میر کے دین و مذہب کو پوچھتے کیا ہو اس نے تو
قشقا کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
اسی طرح سے غالب لکھتے ہیں:
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
ایک جگہ اور غالب لکھتے ہیں: ’’مسجد کے زیرِسایہ خرابات چاہیے‘‘۔
اردو ادب پر صوفیوں کا بھی اثر پڑا۔ مسلمانوں میں صوفی آزاد خیال کے تھے، کٹر نہیں تھے۔ چاہے ان کا مذہب یا ذات کچھ بھی ہو انہوں نے سارے انسانوں کو عالمی محبت کا پیغام دیا۔ اُردو کے جدید شاعروں کے درمیان ساحر لدھیانوی کھلے انداز میں الحادی لگتے ہیں:
عقائد وہم میں مذہب خیال ہے ساقی
ازل سے ذہن انساں بستۂ اوہام ہے ساقی
حقیقت آشنائی اصل میں گم کردہ راہی ہے
عروس آگہی پروردۂ ابہام ہے ساقی
پھر کہتے ہیں:
بے زار ہے کنشت و کلیسا سے یہ جہاں
سوداگرانِ دین کی سوداگری کی خیر
صحن جہاں میں رقص کناں ہیں تباہیاں
آقائے ہست و بود کی صنعت گری کی خیر
انسان اُلٹ رہا ہے رُخ زیست سے نقاب
مذہب کے اہتمام فسوں پروری کی خیر
الحاد کر رہا ہے مرتب جہانِ نو
دیر و حرم کے حیلۂ غارت گری کی خیر
میں یہاں کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ دنیا میں کسی بھی زبان کی شاعری انسان کے دلی جذبات اور غموں کا اظہار اس انداز میں پیش کرنے سے قاصر ہے، جس انداز میں اردو شاعری نے کیا ہے مندرجہ ذیل اشعار میں انسانی تکالیف کا حل دیکھیے۔
رنج کا خوگر ہو انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں
اُردو کے کچھ شاعر جیسے میر تقی میر اور نظیر نے ہولی، دیوالی، راکھی اور ہندوئوں کے دوسرے تہوار اور رسوم و رواج پر خوبصورت شاعری کی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اردو کسی ایک مذہب کی زبان نہیں ہے۔ ہندوئوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جس نے اردو شاعری اور اردو ادب میں اپنا نام سرفہرست درج کرایا ہے۔ جیسے فراق، چکبست، رتن لال سرشار وغیرہ۔ ولی دکنی کی شاعری میں گنگا جمنا، کرشنا، سرسوتی، سیتا، لکشمی وغیرہ جیسے الفاظ کثرت سے استعمال کیے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ اقبال نے بھی رام کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:
ہے رام کے وجود پہ ہندوستان کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
اردو شاعری کی کثرت میں وحدت کا مرقع ہے۔ بہت سے لوگ اور قومیں ہجرت کر کے ہندوستان آئیں اور یہاں کے بود و باش اور مٹی سے ہم آہنگ ہو گئیں جس کی عکاسی فراق نے یوں کی ہے:
سرزمین ہند پہ اقوام عالم کے فراق
قافلے آتے گئے ہندوستان بنتا گیا
۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند سے اردو کو سب سے بڑا نقصان پہنچا۔ اس وقت سے کہا جانے لگا کہ اُردو غیر ملکی زبان ہے اور یہ کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ یہاں تک کہ اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے اور اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ ہم آہنگی ثابت کرنے کے لیے خود مسلمانوں نے اردو پڑھنا چھوڑ دیا۔ ۱۹۴۷ء کے بعد فارسی کے وہ الفاظ جو عام استعمال میں تھے انہیں ہٹا کر ان کی جگہ سنسکرت کے الفاظ ڈال دیئے گئے جو عام لوگوں کی فہم سے باہر ہیں۔ مثلاً جب میں الہٰ آباد ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ کی سماعت کر رہا تھا تو ایک درخواست میرے سامنے پیش کی گئی جس پر ایک لفظ لکھا تھا جسے میں نہ سمجھ سکا۔ میں نے فاضل وکیل سے دریافت کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب درخواست ضمانت ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کو Bail یا ضمانت کے الفاظ استعمال کرنے چاہیے تھے جسے ہر کوئی سمجھتا ہے نہ کہ یہ لفظ جسے کوئی نہیں سمجھتا۔ کھڑی بولی والا بھی نہیں سمجھ سکتا۔
((مضمون نگار سپریم کورٹ آف انڈیا کے جج ہیں
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۲۸ نومبر ۲۰۰۸)
Leave a Reply