
پان امریکن ایئرلائنز کا ایک جمبو جیٹ لاکربی ۲۱ دسمبر ۱۹۸۸ء کو (اسکاٹ لینڈ) کی فضا میں تباہ ہو گیا تھا جس میں سوار تمام ۲۵۹ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔اپنے ایک طیارے کی تباہی کے ساتھ ہی پان ایم کا بزنس بھی تباہ ہو گیا تھا جس سے ظاہر ہوا کہ امریکن ایئر لائن انڈسٹری کتنی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے۔ ٹرانس ورلڈ ایئر لائن (TWA) بھی ایسی ہی بدقسمتی سے دوچار ہوئی جب اس کا ایک جمبو جیٹ جولائی ۱۹۹۶ء میں لانگ آئی لینڈ (نیویارک) کے اوپر تباہ ہو گیا۔
ان دونوں طیاروں کی تباہی کا الزام ’’دہشت گردوں‘‘ پر دھر دیا گیا جنہوں نے ان میں بم نصب کیے تھے اور پھر الزام لگانے والوں کی انگلیاں مسلمانوں کی طرف اٹھنے لگیں۔ مہینوں کی تفتیش کے بعد رسل و رسائل اور سیکورٹی کے امریکی ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ ٹی ڈبلیو اے کے طیارے کی تباہی ایک خالی فیول ٹینک میں ناقص وائرنگ کے باعث عمل میں آئی تھی۔ برقی تاروں کو آگ لگنے سے فیول ٹینک میں دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں طیارہ زمین پر آرہا۔ اس کے باوجود امریکی صدر بل کلنٹن نے دہشت گردی کے ایکٹ (ATDPA) کو منظور کیا جس نے امریکی ہوائی اڈوں پر سیکورٹی حکام کو وسیع اختیارات دے دیے جو ’’مشکوک‘‘ نظر آنے والے مسافروں سے پوچھ گچھ کر سکتے ہیں۔ پھر مسلمان اس مہم کا نشانہ بننے لگے۔ ہوائی اڈوں پر باریش مسلمان مردوں اور باحجاب عورتوں کو روک کر انہیں برسرعام رسوا کیا جاتا، ان کے سامان کی توہین آمیز طریقے سے تلاشی لی جاتی اور ان کی جامہ تلاشی بھی ہوتی۔ اگرچہ ٹی ڈبلیو اے کے طیارے کی تباہی کسی دہشت گرد کارروائی کا نتیجہ نہیں تھی۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے حملوں کے بعد نہ صرف امریکا میں بلکہ بیشتر دیگر مغربی ممالک میں بھی مسلمانوں کے خلاف حکومتی سطح پر مہم چلائی گئی ہے جہاں انہیں ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر نہ صرف ہراساں اور رسوا کیا جاتا ہے بلکہ کئی مثالیں ایسی ہیں کہ بوگس الزامات پر انہیں دہشت گرد ٹھہرایا گیا اور گرفتار کر کے اذیت دی گئی اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ نائن الیون نے ابوغریب، گوانتانامو اور بگرام جیسے اذیت خانوں کو جنم دیا ہے جہاں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پانچ سال اذیت دی گئی، حتیٰ کہ ان کی آبروریزی تک کی گئی۔ کئی بھوت جیلیں بھی ہیں جن کے متعلق امریکی کچھ بتانے سے انکار کرتے ہیں۔ ان خفیہ کال کوٹھڑیوں میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں مسلمان پڑے سسک رہے ہیں۔
نائن الیون اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والا ٹارچر اور آبروریزی کا ماحول جس میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے مسلمانوں کے خلاف ہولناک جرائم کا ارتکاب کیا ہے، اس سے پہلے مغرب نے قانون کی حکمرانی کی پابندی کرنے کا برائے نام ہی سہی، بھرم قائم رکھا ہوا تھا۔ لیبیا کے دو ایجنٹوں کا معاملہ جن پر ۱۹۸۸ء میں پان ایم طیارے گرانے کا الزام لگایا گیا، سبق آموز ہے۔ لیبیا پر الزام کا ردّا چڑھانے سے پہلے مغرب نے ایران، فلسطینیوں حتیٰ کہ لبنانی مزاحمتی گروپ حزب اللہ کے خلاف الزامات لگائے کیونکہ پان ایم پرواز پر سوار چار پانچ سی آئی اے ایجنٹ لبنان میں سینئر سی آئی اے حکام کے طور پر کام کر رہے تھے۔ اس وقت ایک اور تھیوری بھی پھیلائی گئی: یہ کہ ایک ناراض سی آئی اے ایجنٹ نے طیارے میں بم رکھ دیا تھا کیونکہ اس کی اپنی ایجنسی نے اس سے بُرا برتائو کیا تھا۔ ہم اس سانحے کے حقائق کبھی نہیں جان سکیں گے لیکن امریکیوں اور برطانیوں نے بالآخر حتمی طور پر لیبیا کو موردِ الزام ٹھہرایا کہ وہ پان ایم کے بم دھماکے میں ملوث ہے۔
یاد رہے اس سے دو سال پہلے اپریل ۱۹۸۶ء میں اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے لیبیا کے رہنما معمر قذافی کے ’’خیمہ محل‘‘ پر فضائی حملے کا حکم دیا تھا جس میں قذافی کی دو سالہ لے پالک بچی سمیت ۹۲ افراد شہید ہوئے تھے۔ قذافی معجزانہ طور پر بچ گئے تھے کیونکہ اس وقت وہ خیمے کے اندر نہیں تھے۔ پان ایم طیارے کی تباہی کے بعد امریکا نے لیبیا پر سخت پابندیاں بھی لگا دی تھیں اور یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ نہ صرف دو مشتبہ افراد عبدالباسط علی المجراہی اور الامین خلیفہ فہمہ پر مقدمہ چلانے کے لیے انہیں برطانیہ کے حوالے کرے بلکہ پان ایم کے سانحے کا شکار ہونے والوں کے اہل خانہ کو معاوضہ بھی ادا کرے۔آخر کار قذافی ۲ ارب ۷۰ کروڑ ڈالر ادا کرنے پر مجبور ہو گئے جبکہ انہوں نے رسمی طور پر پان ایم دھماکے کی ذمہ داری قبول نہ کی۔ انہوں نے لیبیا کے دونوں سیکورٹی ایجنٹ عبدالباسط علی المجراہی اور الامین خلیفہ فہمہ کو بھی مقدمہ چلانے کے لیے برطانیہ کے حوالے کر دیا۔ طویل مقدمہ بازی کے بعد فہمہ کو بری کر دیا گیا لیکن المجراہی کو مجرم گردان کر طویل قید ک سزا سنا دی گئی جو اسے اسکاٹ لینڈ میں گزارنی تھی۔ گزشتہ ماہ المجراہی کو ’’انسانی ہمدردی‘‘ کے نام پر جیل سے رہا کر دیا گیا کیونکہ وہ کینسر میں مبتلا ہے اور ڈاکٹر کہتے ہیں کہ وہ صرف چند ماہ زندہ رہے گا۔ برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ دونوں نے دعویٰ کیا کہ اس شخص کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کیا گیا ہے۔ بیمار اور قریب المرگ لیبی باشندے کی رہائی کے بارے میں برطانوی اور اسکاٹش حکام کے اخلاق آمیز بیانات کے ساتھ ساتھ کھلے برطانوی تجارتی مفادات کا فزوں تر زمینی مسئلہ بھی اس میں کار فرما ہے حتیٰ کہ ملکہ الزبتھ دوم اور ان کے بیٹے پرنس اینڈریو سمیت شاہی خاندان بھی اس تجارتی لین دین سے مبرا نہیں۔ یہ راز اس وقت افشا ہوا جب لیبیا کے لیڈر کرنل قذافی نے ان دونوں کے علاوہ برطانوی وزیراعظم گورڈن برائون کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے المجراہی کی رہائی میں مدد دی جس کا ۲۱ اگست کو طرابلس (ٹریپولی) میں ہیرو کے طور پر استقبال کیا گیا۔ المجراہی کو ۳۱ جنوری ۲۰۰۱ء کو اسکاٹ لینڈ کی عدلیہ کے تین ججوں کے پینل نے ۲۷ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ شروع ہی سے المجراہی کی سزایابی کے بارے میں شدید شکوک و شبہات تھے۔ گواہوں کے بیانات متضاد تھے۔ سانحے کا شکار ہونے والے ایک شخص کے اہل خانہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ غلط آدمی کو سزا سنائی گئی ہے۔ المجراہی لیبین عرب ایئرلائنز کی سیکورٹی کا سربراہ تھا۔ اس کو سزا سنائے جانے کے فوراً بعد اس کے وکلا نے سزایابی کے خلاف پہلے اسکاٹ لینڈ میں اور پھر یورپی ہیومن رائٹس کمیشن میں اپیل دائر کر دی۔ دونوں اپیلیں مسترد کر دی گئیں۔ ۲۳ ستمبر ۲۰۰۳ء کو اس نے اسکاٹ لینڈ کے مجرمانہ مقدمات کے جائزہ کمیشن (SCCRC) میں اپیل کی۔ ۲۸ جون ۲۰۰۷ء کو SCCRC نے جب یہ معلوم کیا کہ ’’ہو سکتا ہے وہ انصاف کے غلط استعمال کا نشانہ بنا ہو‘‘ تو اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے مقدمہ کو اپیل کی خصوصی عدالت (ایڈن برگ) میں لے جانے کی ہدایت کی۔
جب اس کی اپیل عدالتی مراحل میں تھی، المجراہی کی صحت کینسر کے باعث بگڑ گئی۔ برطانوی ڈاکٹروں نے اسے زندہ رہنے کے لیے کل تین ماہ دیے۔ یہی اس کی رہائی کی بنیاد بنی لیکن درحقیقت برطانیہ اور لیبیا کی حکومتوں کے مابین پس پردہ سودے بازی چل رہی تھی جبکہ پرنس اینڈریو بچولے کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ شہزادہ اینڈریو نے برطانوی کاروباری مفادات کے وکیل کے طور پر بڑی شہرت کمائی تھی۔ جبکہ مغربی حکام بشمول امریکی صدر بارک اوباما نے المجراہی کا ہیرو کی طرح استقبال کیے جانے پر ناراضی کا اظہار کیا، اگرچہ طرابلس کا منظر لیبیا کے مخصوص معیار سے کمتر تھا لاکھوں لوگوں کی بجائے صرف سینکڑوں لوگ ہی ہوائی اڈے پر اس کا استقبال کرنے آئے۔ یہ سچ ہے کہ کرنل قذافی نے خود اس کا استقبال کیا لیکن اس پر کسی کے بُرا ماننے کا کیا جواز تھا؟ علاوہ ازیں المجراہی کی سزا یابی پر بعض اسکاٹش قانونی ماہرین نے بھی شدید اعتراضات کیے اور اس کے جواز پر سوالات اٹھائے۔
۲۱ اگست کو لیبین برٹش بزنس کونسل کے چیئرمین لارڈ ٹریفگارن نے اعتراف کیا کہ المجراہی کی رہائی نے برطانیہ کی سرکردہ تیل کمپنیوں نے کے لیے لیبیا میں کئی ارب ڈالر کے تیل کے ٹھیکے حاصل کرنے کا راستہ کھول دیا ہے۔ طرابلس نے برطانوی حکام اور کاروباری کمپنیوں کے ساتھ گفت و شنید میں اس کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ المجراہی کا استقبال کرتے ہوئے کرنل قذافی کے بیٹے سیف الاسلام قذافی نے اُس سے کہا کہ اس کا نام ’’برطانیہ کے ساتھ بات چیت کے ہر موقع پر ہوتا تھا‘‘۔ لارڈ ٹریفگارن نے دیگر انکشافات بھی کیے۔ اس نے بی بی سی کو بتایا کہ پانچ سال پہلے اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر لیبیا میں ایک خیمے کے اندر کرنل قذافی سے ملے تھے اور ’’صحرا کے اندر سودے‘‘ کی شرائط طے کی تھیں جو کہ حکومت لیبیا اور مغرب کے مابین مفاہمت کا خاکہ بن گئیں، اس کے بعد ’’تیل کے ٹھیکوں پر مذاکرات اتنے تیز آگے نہیں بڑھ رہے تھے جتنی ہمیں توقع تھی‘‘۔
’’قیدی کی منتقلی کے سمجھوتہ‘‘ کی راہ ہموار کرنے کے اگلے محاذ میں برطانوی کاروباری کمپنیاں سرگرم تھیں۔ انہوں نے اس معاہدے میں اپنے مفادات کو ہر گز خفیہ نہ رکھا جس کی برطانیہ اور لیبیا نے گزشتہ اپریل میں توثیق کر دی۔ یہ معاہدہ المجراہی کے کینسر کی تشخیص سے پہلے طے پا گیا تھا۔ اس معاہدے نے المجراہی کی رہائی میں مدد دینی تھی جس کے عوض برطانیہ کو بھاری منافع کے تیل کے ٹھیکے ملنے تھے۔ برطانیوں کا دعویٰ کہ المجراہی کی رہائی انسانی ہمدردی کی بناء پر عمل میں آئی ہے، آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات ہے۔ لارڈ ٹریفگارن نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے: شاید اب جبکہ لاکربی کا معاملہ حتمی طور پر نپٹایا جا چکا ہے جہاں تک لیبیا والوں کا تعلق ہے، ہو سکتا ہے وہ زیادہ سرعت سے (تیل کے سمجھوتوں پر) آگے بڑھیں گے۔
المجراہی کا بدستور اصرار ہے کہ وہ بے گناہ ہے۔ اس نے برطانوی روزنامے ’’دی ٹائمز‘‘ کو بتایا کہ ’’وہ گواہی پیش کر کے خود کو بری قرار دلوائے گا اور یہ کہ برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ ’’جیوری ہوں گے‘‘۔ طرابلس میں المجراہی کے استقبال اور اس معاملے میں برطانوی حکومت نے اندرون ملک تنقید کے جس طوفان کا سامنا کیا اس کے بعد برطانوی وزیراعظم گورڈن برائون نے ایک خط کی نقل جاری کی جو انہوں نے لیبیا کے لیڈر کو ارسال کیا تھا جس میں لیبیا سے کہا گیا تھا کہ المجراہی کی وطن واپسی سے ’’حساسیت‘‘ اور ضبط و تحمل کے ساتھ نپٹا جائے۔ برائون حسبِ معمول دو زبانوں سے بات کر رہے تھے۔ ایک طرف ان کا دعویٰ ہے کہ فیصلہ تمام تر اسکاٹ لینڈ کو کرنا تھا اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ انہوں نے کرنل قذافی کو خط لکھ کر ان سے کہا تھا کہ المجراہی کے استقبال میں ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔ لیکن اسکاٹ لینڈ کے وزیر انصاف کینی میک آسکل جس نے ۲۰ اگست کو المجراہی کی رہائی کا اعلان کیا تھا ان کا یہ کہنا ہے کہ لندن نے اس معاملے میں بہت غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا۔ اس نے کہا کہ برطانوی حکام نے اس معاملے میں مشاورت کی درخواست بجا لانے سے احتراز کیا تھا۔ اُس نے رہائی کی منظوری کی بعض وجوہات میں برطانوی رویے کا بھی حوالہ دیا۔ اس اثناء میں برطانوی حکام نے اشارہ دیا تھا کہ وہ لیبیا کے ساتھ تجارت کو ترقی دینے کی کوششوں کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ ان میں تیل کے سودوں میں بڑی ترغیبات تھیں۔ اس وقت برطانوی برٹش پیٹرولیم کے لیبیا کے ساتھ تیل کے سودے صرف ۹۰ کروڑ ڈالر مالیت کے ہیں جبکہ کئی بلین ڈالر کے سودے ان کے ہاتھ لگنے والے ہیں۔ اس وقت لیبیا کے تیل کے ٹھیکوں کا بڑا حصہ اٹلی کے پاس ہے لیکن اب جبکہ لاکربی کی کہانی آخر کار ختم ہونے کو ہے، یہ تمام صورتحال تبدیل ہو جائے گی۔
لیبیا نے سرکاری طور پر لاکربی کی تباہی کی ذمہ داری قبول نہ کرنے کے باوجود اس حادثے کا شکار ہونے والوں کے خاندانوں کو ۲ ارب ۷۰ کروڑ ڈالر ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے اور یہ بھی لیبیا کے رہنما کی اس فراخدلانہ پیش کش کا حصہ ہے جس کے عوض ان کی عالمی تنہائی ختم کر دی جائے گی۔ فرانس، اٹلی اور دیگر مغربی دارالحکومتوں میں ان کا استقبال کیا گیا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ کرنل قذافی ۲۳ ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لیے نیویارک جا سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ان کی طویل حکمرانی کی قابل فخر کامیابی ہو گی اور اس سے عالمی سطح پر ان کی بحالی کی نمایاں عکاسی ہو گی، اگرچہ بلاشبہ اس میں برطانوی تجارتی مفادات تیل کا کام دیں گے۔ کرنل قذافی اس وقت افریقن یونین کے صدر ہیں اور یکم ستمبر کو انہوں نے لیبیا میں برسراقتدار آنے کی چالیسویں سالگرہ منائی ہے۔ یہ ایک کم آبادی والے ملک کے لیے برا حاصل نہیں جس کے لیڈر کی سیاسی زندگی اکثر شدت پسندی کے نشیب و فراز کی زد میں آتی رہی ہے۔
لیکن المجراہی کی کہانی سے جو منکشف ہوا وہ یہ ہے کہ برطانیہ اور فی الواقع ساری مغربی دنیا کو نیک و بد کی تمیز یا اخلاق کا کوئی لحاظ نہیں۔ وہ دولت کے پیچھے لگے ہیں اور دوسروں کی دولت پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے وہ اپنی مائوں کو بیچنے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔ کم از کم ایک بات انہوں نے واضح کر دی ہے کہ مغرب میں ہر کوئی برائے فروخت ہے۔ اگر ایسے سودوں سے انہیں رقم حاصل ہو تو وہ زندہ رہنے دینے کو تیار ہوتے ہیں، لیکن اگر رقم حاصل نہ کر سکیں جیسا کہ عراق اور افغانستان میں ہوا ہے تو پھر وہ جارحانہ جنگیں شروع کر دیتے ہیں اور ان کارروائیوں میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کا خون بہانے میں ذرا برابر جھجک محسوس نہیں کرتے۔
مغرب طرزِ فکر میں اصول یا اخلاق کی کوئی گنجائش نہیں۔ ان کا تمام تر کاروبارِ زندگی صرف ہوس کے گرد گھومتا ہے۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’ضیائے آفاق‘‘ لاہور۔ ستمبر۲۰۰۹ء)
Leave a Reply